ہمارا جسم پانی سے لبریز ہے جس میں کیمیائے حیات کے سبب آلودگی ہوتی رہتی ہے۔ غذا کی تلچھٹ اور خون میں تقریباً چودہ سے زائد نمکیات یا اجزا ہر وقت شامل رہتے ہیں۔ اس تلچھٹ اور نمکیات کی زیادتی کو خون سے جدا کر کے براستہ پیشاب خارج کرنا گردوں کا کام ہے، اس لیے انہیں جسم کی چھلنی بھی کہا جاتا ہے۔ گردے دو چھوٹے چھوٹے اعضاء ہیں جو کمر سے نیچے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں جانب قدرت نے آویزاں کیے ہیں۔ حجم اور قامت میں انڈے سے بڑے تقریباً ساڑھے چار انچ لوبیا کی مانند۔ قدرت کی کاریگری ملاحظہ فرمائیں کہ ان میں بیس لاکھ نلکیاں ہیں جنہیں ایک سیدھ میں کیا جائے تو اَسّی میل کا فاصلہ بنتا ہے ’’فتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘۔
مشروبات میں جس قسم کی غلاظت ہو گی یا پانی میں جتنے زائد نمکیات جو ہمارے جسم کو ضرورت نہ ہوں، وہ گردے الگ کر دیں گے۔ اس کے علاوہ خون سے زہریلی ادویات، جراثیمی زہر، جانوروں کے کاٹنے سے پیدا ہونے والے زہر، اور فالتو نمکیات کو کسی صورت جسم میں نہیں چھوڑتے۔ یہ پاسبانوں کی طرح سدا چوکس اپنے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں۔
جوان صحت مند آدمی چوبیس گھنٹہ میں ایک سے ڈیڑھ لیٹر تک پیشاب کرتا ہے جس میں پانی اور خون کی غلاظت اور نمکیات ہوتے ہیں۔ اگر گردے اور مثانہ صحت مند ہوں تو پندرہ اونس پیشاب انسان روک سکتا ہے، مگر کمزوری کی صورت میں بمشکل پانچ اونس ہی رکے گا، اور بڑھاپے میں مثانہ تقریباً کمزور ہو جاتا ہے اس لیے بار بار پیشاب آتا ہے۔ جوانی میں اگر پیشاب بار بار آئے تو مثانہ میں نقص واقع ہو گا جیسے مثانہ کی خراش یا دیگر امراضِ مثانہ۔ اگر پیشاب کو کافی دیر روکے رکھیں تو ورمِ مثانہ کے علاوہ پتھری بھی بن سکتی ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ سواری کی حالت میں سواری روک کر بہرصورت پیشاب کر لیں۔
بظاہر کوئی تکلیف نہیں مگر بار بار پیشاب آئے یا بلا ارادہ پیشاب نکل جائے تو پھر ہاضمہ لازمی خراب ہو گا یا حرام مغز پر چوٹ لگنا، ٹھنڈی اور تیز اشیاء کا استعمال، نیچے کے دھڑ کا فالج۔ اسی طرح اگر تین سال سے زائد عمر کا بچہ بستر پر پیشاب کرتا ہے تو اس کے ہاضمہ کی طرف توجہ دیں۔ اس کے پیٹ میں کیڑے بھی یقیناً ہوں گے، اس کے حوض گردہ کی یا مثانہ میں سوزش بھی ہو سکتی ہے۔ جسم کے دوسرے اعضاء کی نسبت اپنے جثہ اور قد و قامت کے لحاظ سے انہیں جتنا کام کرنا چاہیئے یہ اس سے دس گنا زیادہ کام کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے تو اتنا کام کریں مگر ایک ہم ہیں کہ سارا سارا دن بیٹھے جانوروں اور چوپاؤں کی طرح الابلا کھائے جاتے ہیں اور جسم کو حرکت دینے میں عار سمجھتے ہیں، جس کا سبب پتھری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔
یاد رکھیں کہ گردوں میں پتھری اور ریت کا مرض کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے، تاہم جوانی اور بڑھاپے میں یہ زیادہ زور آزمائی کرتا ہے۔ پتھری کے مریض تقریباً سو فیصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو سست اور سہل الوجود کاہل بیٹھے بیٹھے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔ مرغن میٹھی اور لحمی غذائیں کھاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ
وہ بھولے ہوئے ہیں عادت خدا کی
کہ حرکت میں ہوتی ہے برکت خدا کی
چنانچہ انہی لوگوں کی اولاد میں بھی یہ مرض سرایت کر جاتا ہے اور موروثی سلسلہ چل نکلتا ہے۔
علامات
گردوں میں عموماً دو قسم کی پتھریاں پیدا ہوتی ہیں۔ آج کل کی اصطلاح میں پہلی قسم کو یورک ایسڈ، دوسری کو اوگزے لیٹ آف لائم۔ یورک ایسڈ سے مراد ہے جو لوگ گوشت زیادہ کھاتے ہیں، ورزش یا کام کاج قطعی نہیں کرتے، جس سے پانی کی طلب ان کو تقریباً نہیں رہتی، یہ پتھری بھوری سرخی مائل سطح ہموار لیے ہو گی، تو سمجھ لیں کہ اس مریض نے گوشت اور لحمی اجزاء سے بھرپور خوراک کھائی مگر اکثر زندگی سستی میں گزاری۔ فاسفیٹ یا اوگزے لیٹ سے بننے والی پتھری ان مریضوں میں ہو گی جن کا ہاضمہ خراب اور جگر کمزور ہوتا ہے۔ یہ لوگ گوشت کی بجائے چکنائی اور میٹھی اشیاء کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔
آپ کو زندگی میں یہ مشاہدہ بھی ہوا ہو گا کہ یہ تمام بدپرہیزی بھی ہو رہی ہے مگر صحت پھر بھی ٹھیک اور گردہ و مثانہ کی کوئی بیماری بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں کولہو کے بیل کی طرح جتے رہتے ہیں۔ اگر ان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آجائے تو گھبراتے نہیں اور ان کا کھایا پیا سب پسینے کے راستے خارج ہو جاتا ہے۔
گردے میں پتھری کی علامت یہ ہو گی کہ پسلیوں کے نیچے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں جانب ہلکا ہلکا درد ہو گا۔ دوڑنے یا ہچکولوں سے درد میں اضافہ ہو گا۔ یہ درد کبھی کنج ران اور کبھی خصیوں میں بھی ہو گا۔ پتھری جب حرکت کرے گی تو درد سے مریض تڑپ اٹھے گا اور پیشاب کے ساتھ خون کے ذرات بھی آئیں گے۔
یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ خون مثانہ کی پتھری سے بھی آئے گا، اس لیے اس فرق کو بھی عرض کر دیتا ہوں۔ اگر خون پیشاب میں شامل ہو کر آئے تو یہ گردوں یا حالبین کی نالیوں سے ہو کر آئے گا۔ اگر پیشاب کر چکنے کے بعد خون آئے تو مثانہ کی وجہ سے۔ اگر خون پیشاب کرنے سے پہلے آئے تو محیرائے بول یعنی اس نالی سے جو مثانہ سے پیشاب لاتی ہے۔ اگر پیشاب میں پیپ آئے تو پتھری کی رگڑ سے گردوں میں ورم پیدا ہو چکا ہے۔ مریض کو پتھری کی خراش سے قے آتی ہے۔ اگر مریض کو پیشاب کی نالی میں پیڑو کے نچلے حصہ میں یا پیشاب کی نالی کے آخری سرے میں درد ہو تو اب پتھری مثانہ میں ہو گی جو کہ پیشاب کر چکنے کے بعد ٹیس بھی ہو گی۔ پیشاب بار بار آئے گا اور فراغت کے بعد بھی حاجت بدستور رہے گی۔ اگر پتھری مثانہ کے منہ پر آجائے، پیشاب رک جائے گا۔
علاج و پرہیز
اگر پتھری بہت بڑی ہے تو پھر مجبورًا آپریشن ہی کروانا پڑے گا، حالانکہ آپریشن کے بعد بھی پتھری لازمی پیدا ہو گی کہ یہ اس کا فطری علاج نہیں ہے۔ اس لیے روس کی حکومت نے اس سال مارچ میں بھارت سے معاہدہ کر کے ایک مکمل آیورویدک ادارہ کی بنیاد ڈالی جہاں وہی ہزاروں سال پرانا طریقہ پھر سے رائج ہو گا۔ انجکشن کے بارے میں ۱۹۸۴ء میں کیلیفورنیا کے بائیوٹیکنالوجی کے ماہرین نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو دوا منہ کے ذریعے کھلائی جائے وہی اصل اور فطری علاج ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ آپ صبح شام خوب سیر کریں کہ خوب پسینہ خارج ہو اور کام کاج میں اپنے جسم کو تھکا دیں تاکہ کھایا پیا اچھی طرح ہضم ہو جائے۔ سخت محنت اور ریاضت آپ کو کندن بنا دے گی۔ یہ دوا پتھری کو ریزہ ریزہ کر کے انشاء اللہ خارج کر دے گی۔ حجر ایہود اور سنگ سرماہی کو باریک سرمہ کی طرح پیس کر صبح اور رات کو ایک ایک ماشہ گرم پانی سے کھائیں۔ پھر صبح شام جوارش زرعونی سادہ چھ چھ ماشہ شربت بزوری ۴ تولے کے ہمراہ کھائیں۔ سوتے وقت کلتھی کی دال کا شوربہ بھی لازمی پیئں۔ کبھی کبھی جوارش جالینوس بھی چھ چھ ماشہ کھانے کے بعد مدت العمر کھاتے رہیں۔
غذا میں چھوٹے گوشت کا اور کالے چنوں کا شوربہ، چپاتی، مونگ ارہر کی دال، روغن بادام، پستہ، انجیر، تربوز، انگور، انناس اور ترش میوے کے بغیر بالکل پرہیز رکھیں۔ پانی جتنا پیا جا سکے پیئں۔ میدہ کی تمام اشیاء سے قطعی پرہیز، ٹھنڈی بوتلیں وغیرہ بھی مکمل طور سے پینا بند کر دیں۔