علامہ عبد اللہ یوسف علی کی تفسیرِ قرآن کا ایک مطالعہ

محمد اسلم رانا

انگریزی میں ترجمہ و تفسیر قرآن مجید پر بہت تھوڑا کام ہوا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر علامہ عبد اللہ یوسف علی کے ترجمہ اور مختصر حواشی کا بڑا چرچا ہے۔ یورپی اور امریکی ممالک میں یہی تفسیر مقبول ہے۔ قریباً سبھی اشاعتی اور تبلیغی ادارے بشمولیت مسلم ورلڈ لیگ اسی کو چھاپتے اور شائع کرتے ہیں۔ اندریں حالات اس ترجمہ اور تفسیری حواشی کا مختصر سا مطالعہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔

قصہ ہاروت اور ماروت کا

بابل کے لوگ سحر اور جادوگری کے فن میں شدید دلچسپی لیتے تھے۔ جب ان علوم کا زور حد سے بڑھ گیا اور عوام کے اذہان میں ادیانِ حق، انبیاء کرام اور اولیاء صالحین کی حیثیت خلط ملط اور خراب ہو کر کاہنوں، ساحروں، عاملوں اور شعبدہ بازوں کی سطح پر گر گئی تو اللہ تعالیٰ نے حق و باطل کے ان دو علمبردار گروہوں کے درمیان نمایاں فصل و امتیاز کرانے اور اصلاحِ احوال کے لیے ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کو انسانی صورت و قالب میں بھیجا جو اپنی اصل حقیقت کے لحاظ سے فرشتے تھے، لیکن جب ایک غرض خاص کے ساتھ انسانوں کے درمیان رہنے بسنے کے لیے بھیجے گئے تو ظاہر ہے کہ ان کی شکل و شبہات، رنگ و روپ اور جسم و قالب انسانوں ہی کا ہو گا۔ یہ انسان نما ملائکہ کسی پر بھی حقیقتِ سحر کو نہ کھولتے، کسی کو بھی کلماتِ سحر پر مطلع نہ کرتے جب تک اسے متنبہ نہ کر دیتے۔

ہوتا یہ تھا کہ فسق پیشہ اور بدکردار لوگ ہاروت اور ماروت کو گھیرتے اور ان سے اصرار کر کے دریافت کرتے کہ آپ ہمیں سحر سے تو روک رہے ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ سحر کہتے کسے ہیں؟ وہ ہیں کون سے اعمال جن پر سحر کا اطلاق ہوتا ہے؟ فرشتے انہیں تنبیہ و یاددہانی کے بعد کہ اس فن سے کام لینا کفر ہے، جب انہیں آگاہ و خبردار کرنے کے لیے ان اعمال و اقوال کی نقل و حکایت ان کے سامنے کرتے تو یہ فسق پیشہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھاتے کہ خود اس فن ہی کے سیکھ جانے کا کام لینے لگتے۔ بالکل ایسی ہی بات جیسے آج کوئی کسی فقیہ عالم سے دریافت کرے کہ رشوت اور سود کا اطلاق کن کن آمدنیوں پر ہوتا ہے اور پھر ان سے بچنے کے بجائے الٹا انہیں طریقوں پر عمل شروع کر دے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر ماجدی)

اس ضمن میں ایک اخباری مضمون یاد پڑا، جاپانی پولیس نے عوام کو چوروں کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کرنے کے لیے ایک کتاب لکھ کر رکھ دی۔ ایک چور وہ کتاب پڑھ کر اس پر نوٹ لکھ گیا ’’شکریہ! مجھے چوری کرنے کا ایک طریقہ یہ کتاب پڑھ کر معلوم ہوا‘‘۔ ان فرشتوں کی ڈیوٹی لوگوں کو جادوگری سے بچنے کے لیے اس کی حقیقت و ماہیت سے آگاہ کرنا تھا، وہ جادو سکھانے کی غرض سے نہیں بھیجے گئے تھے، ان کا جادو سیکھ جانا لوگوں کی اپنی بدکرداری تھی۔ علامہ صاحب لکھتے ہیں:

’’ہاروت اور ماروت کو مجازًا فرشتے کہا گیا ہے، اس کے معنی ہیں علم، سائنس (یا حکمت) اور طاقت والے اچھے لوگ۔ جدید زبانوں میں اچھی اور خوبصورت عورت کو ’’فرشتہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قدیم روایات میں فرشتوں کو مؤنث بتایا جاتا تھا اور جو صفات میں نے بیان کی ہیں ان سے منسوب کی جاتی تھیں۔ جس سے مطلب اچھائی، علم، حکمت اور طاقت تھا۔ ان کا دور وہ زمانہ فرض کیا جا سکتا ہے۔ یہودیوں کی کتاب مدراش میں دو فرشتوں کی کہانی ہے جو حق تعالیٰ کی اجازت سے دنیا میں آئے لیکن ہوس کا شکار ہو گئے۔ بطور سزا بابل میں پاؤں باندھ کر لٹکا دیے گئے۔ ابتدائی عیسائیوں میں بھی گنہگار فرشتوں کا سزا پانا مانا جاتا تھا۔ ممکن ہے یہاں ایسی روایات کی طرف اشارہ ہو۔‘‘

اس موقع پر انہوں نے (حاشیہ نمبر ۱۰۴) بائبل سے جو دو حوالے دیے ہیں، حسبِ ذیل ہیں:

(۱) ’’کیونکہ جب خدا نے گناہ کرنے والے فرشتوں کو نہ چھوڑا بلکہ جہنم میں بھیج کر تاریک غاروں میں ڈال دیا تاکہ عدالت کے دن تک حراست میں رہیں۔‘‘ (پطرس ۲: ۴)

(۲) ’’اور جن فرشتوں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا بلکہ اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا ان کو اس نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روز عظیم کی عدالت تک رکھا ہے۔‘‘ (یہوداہ کا عام خط ۱: ۶)

ہاروت اور ماروت کے قرآنی قصہ کے بارے میں علامہ صاحب کے مذکورہ خیالات خاصے گمراہ کن ہیں۔ ان کا مدراش اور بائبل کے مذکورہ حوالوں کی طرف انتساب علامہ صاحب کے علمی افلاس اور فکری تہی دامنی کی غماز ہے۔ نافرمانی قرآنی فرشتوں کا شیوہ نہیں ہے۔ ان بیچاروں کو تو جو حکم ملے فقط اسی پر عمل کرتے ہیں (تحریم ۶)۔ فرشتوں کو عورتیں کہنا مشرکینِ عرب کا شیوہ تھا (زخرف ۱۹)۔

بائبل کی مشکوک پوزیشن

جس زمانہ میں علامہ صاحب نے تفسیر قرآن مجید لکھی، برصغیر میں انگریزی اقتدار عروج پر تھا۔ انگریزوں کے مذہب اور افکار و نظریات کی برتری کا دور دورہ تھا۔ بائبل سے متعلق اس کے اپنے پیروکاروں کے اعتقادات ڈانواڈول تھے۔ علمِ تنقید اور سائنسی علوم نے بائبل کے بیانات کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں۔ بائبل پر سے لوگوں کا اعتقاد اٹھ چکا تھا۔ حتٰی کہ حضرت ابراہیمؑ، موسٰیؑ اور عیسٰیؑ محض فرضی اور تخیلاتی ہستیاں شمار کیے جانے لگے تھے۔ پادری منیلی لکھتے ہیں:

’’بعض مصنفین کا خیال تھا کہ بزرگانِ اسرائیل اور ان کے آباؤ اجداد کی کہانی من گھڑت افسانہ ہے اور ابراہیم محض خیالی ہستی ہے۔‘‘ (ہماری کتب مقدسہ ۔ مصنفہ پادری جی ٹی منیلی ایم اے۔ ترجمہ پروفیسر جے ایس امام الدین، مسز کے ایل ناصر ۔ مطبوعہ ۱۹۸۱ء ص ۱۱۷)

ڈاکٹر گور رقم طراز ہیں:

’’ہمارا ایمان بائبل میں اس درجہ بڑھ گیا کہ ہم ماننے لگے کہ اس کا ہر ایک بیان صحیح ہے۔ ان ایام میں اس ایمان کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ سائنس نے ناممکن کر دیا ہے کہ ہم مانیں کہ دنیا کی یا ہماری نسل کی بائبل کے بیان کے مطابق پیدائش ہوئی۔ صرف یہی نہیں کہ اسرائیلیوں کی مذہبی رسوم اور باتیں دوسری قوموں میں بھی پائی جانی معلوم ہو گئی ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ پرانے عہد نامہ (عیسائی بائبل کے پہلے حصہ۔اسلم) کی تاریخی باتیں اب محض کہانیاں ثابت ہو گئی ہیں۔ بلکہ نکتہ چینی نے یہاں تک حملہ کر دیا ہے اور وہ یہاں تک نئے عہد نامہ (عیسائی بائبل کے دوسرے حصے۔اسلم) کی تحلیل کر رہی ہے کہ ہمارے نجات دینے والے (مسیح۔اسلم) کی شخصیت پر بھی شک کیا جا رہا ہے۔ یہ صاف ہے کہ پیدائش، باغ عدن، آدم کے گناہ کرنے اور طوفان (نوح۔ اسلم) کے بیان میں ہمیں سائنس کی صحت نہیں مل سکتی۔ یہ ویسی ہی کہانیاں ہیں جیسے کہ پرانے زمانے کے لوگ دنیا کی پیدائش کے بارے میں بنا لیا کرتے تھے اور اسرائیلی لوگوں نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح ایسی کہانیاں بنائیں۔‘‘ (مسائل کلیسا ۔ مصنفہ ڈاکٹر گور ۔ ترجمہ مسٹر جے ڈی عنبر تحصیلدار ۔ مطبوعہ ۱۹۲۷ء ۔ صفحات ۹۵، ۱۰۶)

یہودی مفسر جے ایچ ہرٹز نے لکھا:

’’ایک نسل پہلے تک بائبل کے نقاد کتاب پیدائش میں بزرگوں (ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ۔ اسلم) کی کہانیوں کو جھوٹ و جعل سازی کا پلندہ قرار دیتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ انہیں روایات کہتے، پر مستند تاریخ کا درجہ دینے کو قطعاً تیار نہ تھے۔ ان بیانات کی معقول وضاحت کرنے سے بڑی بڑ اور کفر کوئی نہیں تھا۔ ایک نقاد نے ابراہیمؑ کو ’’لاشعور کی تخلیق‘‘ کہا، دوسرے نے بے جان پتھر پکارا، تیسرے نے ستاروں والے آسمان، اور چوتھے نے مقدس مقام قرار دیا۔‘‘ (یہودی تفسیر بائبل مطبوعہ ۔۔۔)

مسلم متاثرین

برصغیر (پاک و بھارت) میں مسلمانوں سے اقتدار چھن چکا تھا، انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کی سب سے بڑی کوشش تحریک آزادیٔ ہند ۱۸۵۷ء ناکام ہو چکی تھی، مسلمان محکوم اور شکستہ دل تھے، ملّی محاذ پر کام کرنے والے اصحاب بھی فکری سطح پر انگریزوں سے متاثر و مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور قرآنِ حکیم کو بھی اپنے آقاؤں کی بائبل کا سا خیال کرنے لگے۔ اس ضمن میں جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی نے خوب لکھا:

’’انیسویں صدی کے آغاز میں مغربی فلسفے کی سرسری معلومات کی بنیاد پر عالمِ اسلام کے بعض جدت پسند حضرات اسلامی عقائد میں سے ان تمام چیزوں کا انکار کر بیٹھے تھے جنہیں مغرب کے لوگ توہم پرستی کا طعنہ دیا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے قرآن مجید میں ایسی ایسی تحریفات کی ہیں جنہیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے، اور اس غرض کے لیے قرآن کریم کی تقریباً آدھی آیات کو مجاز، استعارہ اور تمثیل قرار دے دیا ہے۔ مثال کے طور پر قرآن کریم میں دسیوں مقامات پر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق، ان کے آگے فرشتوں کے سجدہ ریز ہونے اور ابلیس کے انکار کا واقعہ بیان ہوا ہے، لیکن چونکہ مغرب میں ڈارون کا نظریۂ ارتقا اس دور میں کافی مقبول ہو رہا تھا اور اس کی کچھ ناتمام سی اطلاعات ہندوستان میں بھی پہنچ رہی تھیں، اس لیے انہوں نے یہ دعوٰی کر دیا کہ قرآنِ کریم نے حضرت آدم علیہ السلام، فرشتوں اور ابلیس کا جو واقعہ بیان فرمایا ہے وہ محض ایک تمثیل ہے اور آدم علیہ السلام کا کوئی شخصی وجود ہے نہ فرشتوں کا اور نہ ابلیس کا۔ چنانچہ سرسید احمد خان لکھتے ہیں: ’’آدم کے لفظ سے وہ ذاتِ خاص مراد نہیں ہے جس کو عوام الناس اور مسجد کے ملّا باوا آدم کہتے ہیں بلکہ اس سے نوعِ انسانی مراد ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔‘‘ (علوم القرآن ۔ مصنفہ مولانا محمد تقی عثمانی ۔ مطبوعہ ۱۴۰۸ھ ص ۴۰۲)

مولانا صاحب مزید رقم طراز ہیں:

’’سرسید اور ان کے ہم نواؤں نے پورے قرآن کو شاعرانہ تمثیلات کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا۔‘‘ (ایضاً ص ۳۷۸)

راقم الحروف کو مرزا غلام احمد قادیانی کا کوئی مطالعہ نہیں ہے البتہ ان کے ایک دستِ راست محمد علی لاہوری کی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ دیکھنے کا موقع ملا ہے جو مجاز تمثیل، تشبیہ، استعارہ، روحانیت، مراد، مطلب، یعنی کی اصطلاحات کے گرد گھوم کے رہ گئی ہے۔ علامہ عبد اللہ یوسف علی بھی اسی دور کی پیداوار تھے، بائبل کے مندرجات کے حشر سے واقف تھے، زمانہ کی ہوا، فضا اور اپنے پیشروؤں سے ضرور متاثر تھے، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ العیاذ باللہ۔

عیسائیت سے متاثر

(۱) سورۃ بقرہ آیت ۶۳ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ کوہِ طور پر حضرت موسٰیؑ کو دس احکام اور شریعت دی گئی تھی۔

واضح ہو کہ یہودی (اور عیسائی) عقیدہ کے مطابق آپؑ کو دو تختیاں ملی تھیں، ان پر دس احکام لکھے ہوئے تھے (خروج ب ۲۰) باقی شریعت آپؑ کو منہ زبانی بتائی جاتی تھی (خروج ب ۲۵) اور آپؑ وہ احکام آ کر قوم کو سناتے تھے (خروج ب ۲۵) اور لکھتے تھے (استثنا ۳۱: ۲۴)۔ مسلمانوں کے ہاں دس احکام اور شریعت کا جدا جدا نظریہ نہیں ہے۔ تختیاں کافی تھیں، لفظ ’’اَلْواح‘‘ (جمع کسر اَلْ کے ساتھ) آیا ہے، ان پر مکمل شریعت لکھی ہوئی تھی، تورات وہی تختیاں تھیں۔ علامہ صاحب کا بحیثیت مسلمان یہودی نظریہ بیان کرنا سخت غلطی ہے۔

(۲) عیسائیوں کے ہاں قاعدہ ہے کہ سن عیسوی کو انگریزی میں AD لکھ دیتے ہیں جو لاطینی اصطلاح Anno Domini کا مخفف ہے۔ اس کے معنی ہیں In the year of our Lord یعنی ہمارے خداوند یسوع مسیح کے سال میں۔ مثلاً ۴۰۰ء کو انگریزی میں 400AD لکھیں گے۔ یہودی سنِ عیسوی کو AD کی بجائے سیدھا CE یعنی Christian Era لکھ دیتے ہیں۔ ہمارے علامہ صاحب سنِ عیسوی کو AD لکھ کر اپنے آپ کو یہودیوں سے بھی گیا گزرا ثابت کر گئے۔

(۳) عیسائی یسوع کو Jesus اور مسیح کو Christ لکھتے ہیں۔ علامہ صاحب کا ان کی تقلید کرنا کھٹکتا ہے۔ Jesus کی بجائے Isa اور Christ کی جگہ سیدھا Majih لکھنا چاہیئے تھا۔

(۴) حاشیہ ۳۹۷۲ میں ’’خدا کی بادشاہت‘‘ Kingdom of God اور نوٹ ۵۷۲۸ میں بشارت اسلام Gospel of Islam خالصتاً عیسائی اصطلاحات ہیں۔

عربی دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے اور انگریزی بائیں سے دائیں۔ علامہ صاحب نے انگریزی کو ترجیح دی اور اس کی تقلید میں قرآنی متن بھی بائیں سے دائیں لکھتے گئے۔ ان کا یہ رویہ ایک عام آدمی کو بھی بری طرح کھٹکتا ہے۔

قادیانیت سے متاثر

(۱) سورۃ النساء آیت ۱۵۸ میں مسیحؑ کے خدا کی طرف اٹھائے جانے کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اس آیت کی قطعی تفسیر میں اختلاف رائے ہے۔ الفاظ ہیں: یہودیوں نے مسیح کو قتل نہ کیا بلکہ اللہ پاک نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا (رَفَعَ) ایک مکتبِ فکر One School کی رائے میں مسیح پر عام انسانی موت وارد نہیں ہوئی تھی بلکہ آپ آج تک جسم کے ساتھ آسمان میں زندہ ہیں۔ دوسرے مکتبِ فکر کا کہنا ہے کہ آپؑ وفات پا گئے تھے (تَوَفَّیْتَنِیْ۔ المائدہ ۱۲۰) لیکن اس وقت نہیں جب آپ کو صلیب دیا جانا فرض کیا گیا تھا۔ آپؑ کے ’’خدا کی طرف اٹھائے جانے‘‘ کا مطلب ہے کہ یہودی نظریہ کے مطابق ایک مجرم کی حیثیت سے بدنام کیے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو اپنے رسول کی حیثیت سے سرفراز فرمایا۔ اگلی آیت بھی دیکھیں یہی رَفَعَ کا لفظ سورۃ ۱۰۴ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی مذکور ہے۔‘‘

اس موقع پر علامہ صاحب خاصے بہک گئے۔ ’’اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا‘‘ امت کا صحیح اجماعی عقیدہ ہے۔ اسے ایک مکتب فکر کی طرف منسوب کرنا اس عقیدہ اور اس کے ماننے والوں کی اہمیت کو گھٹانا ہے۔ علامہ صاحب ان الفاظ کو نوکِ قلم پر لاتے کترا گئے۔ اس کے مقابلہ میں مٹھی بھر قادیانیوں کو دوسرا مکتب فکر قرار دینا مبالغہ آرائی ہے۔ حق تعالیٰ حضرت مسیحؑ کے درجات بلند فرمائے اور انہیں لاکھ نبوت و رسالت سے نوازے اسے کون روک سکتا ہے اور اس سے کسی دوسرے پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ یہ معانی آیت کے ماحول اور منظر میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ یہودی آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے (انہیں اپنے اس ناپاک ارادے میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور) مسیحؑ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ حضرتؑ کو نبوت وقتِ مذکور پر نہیں ملی تھی۔ آپ اس سے پہلے نبوت سے نوازے جا چکے تھے۔ یہ تو آپ کا آخری وقت تھا۔ آپؑ کی نبوت پر ہی تو جھگڑا چل رہا تھا۔ اس آخری وقت میں نبوت دیے جانے کا نظریہ مضحکہ خیز ہے۔ اگر پیشتر ازیں آپ ایک عام آدمی کی سی سادہ زندگی بسر کر رہے تھے تو یہودی آپؑ کی جان کے دشمن کیوں تھے؟

اگر علامہ صاحب نے ذکر کر دیا تھا تو قادیانی نظریہ پر تنقید ضروری تھی۔ موجودہ صورتِ حال علامہ صاحب کی پوزیشن کو مشکوک بناتی ہے۔ سورہ المائدہ آیت ۱۲ (توفیتنی) اور سورہ الم نشرح ۴ کے حوالے دینے سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے کہ علامہ صاحب کا اپنا میلان قادیانی عقیدہ کی طرف تھا۔ ایک معمولی قاری بھی سورہ الم نشرح آیت ۴ کا ترجمہ پڑھ کر فورًا اسے غیر متعلق قرار دے گا، وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بلند کرنا لکھا ہے، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف بلند کرنا نہیں۔

(۲) سورۃ بقرہ آیت ۶۵ اصحابِ سبت کے واقعہ میں مولوی محمد علی کا باقاعدہ نام لے کر اس سے استفادہ کرتے ہیں۔

(۳) ان کے ہاں جِن کوئی باقاعدہ مخلوق نہیں ہیں۔ ’’روح‘‘ غیر مرئی یا مخفی قوت ہیں (حاشیہ ۹۲۹)۔ سورہ جِن (نوٹ ۵۷۲۸) میں اپنے استاد محمد علی کی پیروی (دیکھیں بیان القرآن تمہید سورہ الجن) میں جِن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو عرب میں اجنبی تھے۔

تمثیل کی تعریف

تمثیل ایک فرضی کہانی ہوتی ہے جس کی مدد سے کوئی اخلاقی سبق سکھانا مقصود ہوتا ہے۔ پادری ڈملو لکھتے ہیں:

’’ایک حکایت، افسانہ جو انسانی زندگی کے قوانین اور رسوم و روایات کے موافق ہوتا ہے اس کی مدد سے انسانوں کے فرائض یا خدا کی باتیں بالخصوص خدا کی بادشاہت کی ماہیت اور تاریخ مجازًا بیان کی جاتی ہے۔ (تفسیر بائبل ۔ مطبوعہ ۱۹۴۴ء)

قرآن میں تمثیلوں کا نظریہ

(۱) علامہ صاحب کے نزدیک قصۂ اصحابِ کہف ایک تمثیل تھی (کہف ۹)۔

(۲) ذوالقرنین کے بارے لکھتے ہیں ’’یہ کہانی تمثیل سمجھی جاتی ہے‘‘ (سورہ کہف ۸۳)

(۳) سورہ بقرہ آیت ۷۱ والے گائے کے قصہ کو تمثیل کہتے ہیں۔

(۴) سورہ یس کے دوسرے رکوع میں بیان کردہ واقعہ کو بھی تمثیل لکھتے ہیں۔

(۵) ’’میں کسی تمثیل سمجھی جانے والی کہانی جیسا کہ ذوالقرنین کا قصہ ہے بارے تاریخی یا جغرافیائی امور کا تعلق نہیں سمجھتا۔ درحقیقت قرآن مجید میں بیان کردہ تمام کہانیاں اور حکایات بطور تماثیل روحانی معنوں کے لیے ہیں۔ ان کی صحیح تاریخوں، شخصیات اور مقامات سے متعلق گرماگرم بحثیں اور بڑے بڑے دعاوی خارج از امکان ہیں‘‘ (ص ۷۶)۔

(۶) سورہ آل عمران آیت ۴۹ میں معجزاتِ مسیحؑ کی فہرست ہے۔ فاضل مفسر نے ایک ایک معجزہ کو خالصتاً قادیانی نظریہ روحانیت مجاز اور استعارہ کی نذر کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ آپ روحانی مُردوں کو زندہ کرتے اور روحانی بیماروں کو شفا دیتے تھے۔ یہ لکھتے وقت نہ سوچا کہ ایسے روحانی مُردوں اور بیماروں کو سبھی انبیاء کرام اور علماء و مبلغین آج تک زندہ کرتے اور شفا دیتے رہتے ہیں۔ مسیحؑ کے بارے اتنے دھڑلے سے بیان کرنے اور تخصیص کی کیا ضرورت تھی؟

قرآن مجموعۂ تماثیل نہیں ہے

قرآن کریم تاریخ اور دستان گوئی سے قطعی مختلف کتاب ہے۔ قرآن حکیم میں بیان کردہ قصوں سے مقصود قارئین کو سبق سکھانا ہے۔ روحانی و اخلاقی نتائج اور اسباق مرتب کرنا ہے۔ عبرت آموزی اور بصیرت افروزی ہے۔ زمان و مکان اور تاریخی و جغرافیائی لوازمات کو بے جا طوالت اور غیر ضروری قرار دے کر نظرانداز کر دیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان قصوں کا ان سے فی الواقع کوئی تعلق نہیں تھا۔

قرآن کریم کی مخاطب عرب میں بسنے والی تین جماعتیں مشرکین، یہودی اور عیسائی تھیں۔ ہر قرآنی واقعہ میں سے کسی نہ کسی قوم سے متعلق تھا جو اسے جانتی بوجھتی تھیں اور اس خاص واقعہ سے اس کی اصلاح مقصود تھی۔ اگر تاریخ میں (کسی وجہ سے) بعض واقعات کا تذکرہ یا تفصیل نہیں ملتی یا ہم بعض کہانیوں کا تاریخی اور جغرافیائی اقدار سے موزوں تعلق نہیں پا سکتے تو اس کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ وہ کہانیاں محض فرضی داستانیں تھیں، تمثیلیں تھیں۔ واضح رہے کہ قرآن ٹھوس زندہ حقائق پر مشتمل کتاب ہے۔ اگر یہ واقعات سچ مچ ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے تو انہیں کون اہمیت دے گا۔ ان سے سبق سیکھنے کی طرف کون مائل ہو گا۔ ان کہانیوں سے مراد صحابۂ کرام کی ڈھارس بندھانا، انہیں حوصلہ دلانا، ان کے ایمان مضبوط بنانا اور نصرتِ خداوندی کی امیدوں پر کھڑا کرنا تھا۔ ایسے میں وہ کہہ سکتے تھے کہ قرآن خود تو ہوائی فائر کر رہا  ہے جب کہ ہم زندہ سلامت اور صحیح آلام و مصائب میں گھرے ہوئے ہیں۔ تپتی ریت، گرم پتھروں اور دہکتے کوئلوں پر لٹائے جاتے ہیں، دھوئیں کے عذاب، مارکٹائی، قتل، ہجرت، اعزہ و اقارب سے دوری، بھوک پیاس اور قید و بند کی سزائیں بھگتنی پڑ رہی ہیں۔

یہ حالات قرآنی قصوں کو بے وقعت بناتے، قرآن حکیم کی اہمیت گھٹاتے، قرآنی فرمودات و تعلیمات پر سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھواتے، اسلام قبول کرنے والوں کی دل شکنی کرتے، اور اشاعتِ اسلام میں رکاوٹ بنتے، جس کا لازمی نتیجہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناکامی کی صورت میں نکلتا۔ جبکہ صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ تمام دکھوں اور مصیبتوں کی یلغار کے باوجود مسلمان ایمان کی مضبوطی اور تعداد میں بڑھتے ہی بڑھتے گئے جس کا صاف مطلب ہے کہ نزولِ قرآن کے دنوں قصص قرآن محض بچگانہ لوریاں، چکنی چپڑی باتیں، حسین داستانیں اور مقدس افسانے (Pious Fictions) (کاتب سے عبارت رہ گئی) سچے اور حقیقی فی الواقع ہو چکنے اور گوشت پوست کے انسانوں کے ساتھ پیش آنے والے ٹھوس واقعات سمجھے جاتے تھے۔ ان سے شہہ پا کر مسلمان سختیوں اور تکلیفوں کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتے، نصرتِ الٰہی کے منتظر رہتے جو ہجرتِ مدینہ اور بالآخر فتح مکہ کی صورت میں آ کر رہی فللہ الحمد علیٰ ذالک۔

وہ قصے آج بھی اپنی اہمیت و افادیت کے اعتبار سے تروتازہ اور شگفتہ ہیں اور زمانہ نے ان کے مقاصد کو اجاگر کیا ہے اور ان کی بصیرت افروزی کو جِلا بخشی ہے، ان کی واقفیت پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ اللہ کریم کو ایسے کوتاہ فہم اور پست ذہن لوگوں کی آمد کا پتہ تھا چنانچہ قرآن پاک میں جگہ جگہ قصص قرآن کی ضرورت و حکمت کے اشارات ملتے ہیں۔ صاف اور واشگاف الفاظ میں بتایا گیا کہ قرآن مجید میں پہلے گذر چکے لوگوں کے حالات بیان ہیں (نور ۳۴)۔ پہلی امتوں اور افراد کے قصے موضوع اور من گھڑت نہیں تھے، ان کی خبریں تھیں، حالات تھے (طہ ۹۹)۔ حضرات زکریاؑ، یحیٰیؑ، مسیحؑ اور مریمؑ کی باتوں کو غیب کی خبریں بتایا (آل عمران ۴۴)۔ نوحؑ کا قصہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی قوم جانتی نہیں تھی۔ یہ غیب کی خبریں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی بتائی گئیں کہ انجام متقیوں کے لیے ہے، نہ ڈرنے والے برباد کیے جائیں گے، ڈرنے والوں کو (بعد از تکلیف) نعمتیں ملیں گی (ہود ۴۹)۔ سابقہ رسولوں اور ان کی امتوں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت ہے (یوسف ۱۱۱)۔ قومِ لوطؑ کی بربادی میں اہلِ بصیرت کے لیے نشانیاں ہیں (حجر ۷۵)۔ قرآن مجید میں ڈرانے کی باتیں مذکور ہیں تاکہ لوگ بری راہوں سے بچیں (طہ ۱۱۳)۔ گذشتہ انبیاء کرامؑ کے حالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم (اور آپؐ کے ساتھیوںؓ) کے دل مضبوط بنانے کے لیے سنائے گئے (ہود ۱۲)۔ نزولِ قرآن کا مقصد ہے کہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے حق میں ہدایت اور بشارت بن جائے (نحل ۱۰۲)

ان بلند و بالا مقاصد کا تمثیلوں کی مدد سے حصول ناممکنات سے ہے۔ قرآنی قصص برحق ہیں۔ آب و گل کی اس دنیا میں جیتے جاگتے چلتے پھرتے تاریخی انسانوں کو سچ مچ پیش آئے تھے، ان سے درسِ عبرت صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان ان سے کماحقہٗ مستفید ہوتے تھے۔

فرض کرنا

علامہ صاحب نے پہلوں کی کوئی لت چھوڑی نہیں جس میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔

(۱) سورۃ بقرہ آیت ۳۰ پر فرشتوں سے متعلق لکھتے ہیں ’’ہم انہیں جذبہ یا جوش کے بغیر فرض کر سکتے ہیں ۔۔۔ ہم فرض کر سکتے ہیں کہ ان کی اپنی خواہشات کچھ نہیں تھیں‘‘۔

(۲) ہاروت و ماروت کا دور بھی فرض کرنے کی فکر میں ہیں۔

(۳) انہیں فرض کرنے کا بڑا چسکہ تھا۔ سورہ اعراف آیت ۱۵۰ میں ہے کہ حضرت موسٰیؑ نے قوم کی بچھڑا پرستی دیکھ کر شدید غصہ کی حالت میں تختیاں ڈال دیں، وہ ٹوٹی نہیں تھیں، ثابت رہیں۔ غصہ اترنے پر آپؑ نے اٹھا لیں لیکن ازروئے بائبل وہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں (خروج ۳۲: ۱۰)۔ اس موقع پر علامہ صاحب لکھتے ہیں ’’یہ فرض کرنا کہ اللہ پاک کے نبیؑ نے تختیاں توڑ دیں (کفر نہیں تو) ایک لحاظ سے خلافِ ادب ہے۔‘‘

قرآن مجید سے تختیوں کا ثابت رہنا ثابت ہے۔ بائبل میں واضح ہے کہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ تختیوں کا توڑنا فرض کرنے کی کوئی ضرورت، موقع محل اور حاجت ہی نہیں تھی۔

(۴) ’’بہت سے ممتاز مفسرین نے اس شہر کو انطاکیہ فرض کیا ہے‘‘ (سورہ یس ۱۳)۔ حالانکہ فرض کسی نے بھی نہیں کیا، سبھی مفسرین وہ بستی انطاکیہ ہی سمجھتے اور لکھتے ہیں، ان کی غلط فہمی علیحدہ سوال ہے۔

یاد رہے کہ ’’فرض کرنے‘‘ کی لت نے عیسائیت میں عروج پایا تھا۔

سکندر اعظم کی نبوت

نامور یونانی فاتح سکندر اعظم بت پرست تھا، ارسطو کا معتقد تھا، ایرانی بادشاہ داراگشتاسپ کی بیٹی سے شادی کی، دعوت میں کثرتِ شراب نوشی سے جاں بحق ہوا تھا۔ اسے خواہ مخواہ مسلمان ہی نہیں بہتیرا کچھ ثابت کرنے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں، اس ضمن میں لکھ گئے ’’ایتھوپیا کی روایاتی کہانیاں سکندر اعظم کو ایک بڑا پیغمبر بیان کرتی ہیں‘‘ (ص ۷۶۰)۔

ایسی روایات ناقابلِ التفات ہیں، دنیا میں کیا کچھ نہیں ہوتا رہا۔ پادری منیلی لکھتے ہیں ’’سیاسی مذہب کی ایک صورت بادشاہوں کی پرستش تھی جو یونانی دنیا میں سکندر اعظم کے ساتھ وجود میں آئی۔ خطابات مثلاً فیض رساں اور نجات دہندہ جو اس کے جانشینوں کو دیے گئے ۔۔۔۔ اگوستس کی پوجا دیوتا کے طور پر کی جاتی تھی۔ روم اور لاطینی مغرب میں بادشاہ یکے بعد دیگرے مرنے کے بعد دیوتاؤں کی فہرست میں شمار کیے گئے۔‘‘ (ایضاً ص ۳۸۹)

سکندر اعظم کو سورہ کہف کا ذوالقرنین ثابت کرنا آخر اتنا ضروری کیا ہے؟ بس اتنا جاننا کافی ہے کہ وہ کوئی مسلمان بادشاہ تھا۔ قرآن کریم کے مخاطب جانتے تھے۔ ہم نہیں جان سکتے تو کوئی حرج کی بات نہیں۔

سادہ ترجمہ

علامہ صاحب کا ترجمہ قرآن بھی کوئی قابلِ تعریف کوشش معلوم نہیں ہوتی۔ معاف فرمائیں ہمیں تو بعض مقامات پر پروفیسر صاحب کے مقابلہ میں پادری جے ایم راڈویل ایم اے کا ترجمہ اچھا لگا۔ دو مثالیں بغرضِ ملاحظہ درج ذیل ہیں:

(۱) سورۃ رعد آیت اول

’’یہ کتاب (عظیم) کی آیتیں ہیں اور جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا جاتا ہے وہ بالکل سچ ہے لیکن اکثر انسان ایمان نہیں لاتے‘‘ (تفسیر ماجدی)

علامہ صاحب:

These signs (or verses) of the Book that which hath been revealed onto thy from the Lord is the truth; but most men believe not.

راڈویل:

These are the signs of the Book! and that which hath been sent down to thee from they Lord is the very truth; but the most men will not believe.

(۲) سورۃ مریم آیت ۳

’’(قابلِ ذکر ہے) وہ وقت جب انہوں نے اپنے پروردگار کو خفیہ طور پر پکارا‘‘ (تفسیر ماجدی)

علامہ صاحب:

Behold! He cried to his Lord in secret.

راڈویل:

When he called upon his Lord with secret calling.

دردمندانہ مشورہ

القصہ زیر مطالعہ تفسیر خاصی گمراہ کن ہے، اس کی عام اشاعت نقصان دہ ہے، لہٰذا تبلیغی اداروں اور قرآن کریم کے ناشرین کرام کی خدمت میں دردمندانہ مشورہ ہے کہ وہ علامہ عبد اللہ یوسف کے ترجمہ و تفسیر قرآن کی بجائے مولانا عبد الماجد دریابادی کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کی اشاعت فرمائیں۔ اس تفسیر کی غلطیوں کی نشاندہی ہمارے ایک فاضل دوست سید شیر محمد (گلبرگ لاہور) نے کر دی ہے۔ راقم الحروف کا حصہ ڈالنا ابھی باقی ہے۔ دبیدہ التوفیق۔ مولانا نے عام مسائل اور بالخصوص مذاہبِ عالم کے حوالہ سے جتنا مطالعہ پیش کر دیا ہے، مستقبل کے کسی مفسر سے اس کی قطعی توقع نہیں ہے۔ علم و فضل اٹھتا جا رہا ہے۔ حق تعالیٰ ہمیں اس بیش بہا علمی خزینہ کی حفاظت اور اس سے مستفید ہونے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین۔


قرآن / علوم القرآن

(اگست ۱۹۹۰ء)

اگست ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۸

ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمہوریت، قرآن کریم کی روشنی میں
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

احادیث کی تعداد پر ایک اعتراض
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ایک مسلم حکمران کیلئے جناب رسالتمآب ﷺ کی ہدایات
مولانا سید وصی مظہر ندوی

توریت و انجیل وغیرہ کو کیوں پڑھنا چاہیئے؟
سید ناصر الدین محمد ابو المنصورؒ

علامہ عبد اللہ یوسف علی کی تفسیرِ قرآن کا ایک مطالعہ
محمد اسلم رانا

قرآنی آیات کو مسخ کرنے کی گھناؤنی حرکت
ادارہ

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت
پروفیسر غلام رسول عدیم

اختِ ہارون و بنتِ عمران حضرت مریم علیہا السلام
محمد یاسین عابد

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

امراضِ گردہ و مثانہ
حکیم محمد عمران مغل

معاشرتی زندگی کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter