اختِ ہارون و بنتِ عمران حضرت مریم علیہا السلام
تاریخی حقائق کی روشنی میں

محمد یاسین عابد

کتبِ تاریخ عالم میں مریم نام کی دو عورتیں سب سے زیادہ مشہور ہوئیں۔ پہلی وہ جو حضرات موسٰیؑ اور ہارونؑ کی بہن تھیں۔ حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ سگے بھائی تھے اور دونوں اللہ کے سچے نبی تھے۔ آپ کے والد محترم کا نام عمران تھا، بائبل میں عمرام درج ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی اولاد کے مقابلہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد نے زیادہ فضیلت پائی، چنانچہ بائبل مقدس میں ہے کہ

’’عمرام کے بیٹے ہارون اور موسٰی تھے اور ہارون الگ کیا گیا تاکہ وہ اور اس کے بیٹے ہمیشہ پاک ترین چیزوں کی تقدیس کیا کریں اور سدا خداوند کے آگے نجور جلائیں اور اس کی خدمت کریں اور اس کا نام لے کر برکت دیں۔ رہا مردِ خدا موسٰی سو اس کے بیٹے لاوی کے قبیلے میں گنے گئے۔‘‘ (۱ تواریخ ۲۳: ۱۳ تا ۱۴)

ثابت ہوا کہ خدا نے بنی ہارونؑ کو ایک الگ و اعلٰی مقام عطا فرمایا تھا جو دیگر بنی اسرائیل کو حاصل نہ تھا۔ اسی لیے موسٰی علیہ السلام کی بہن مریم کو بعد کے لوگ ہارونؑ کی بہن مریم کے نام سے یاد کرتے اور لکھتے تھے جیسا کہ بائبل میں ہے کہ

’’تب ہارونؑ کی بہن مریم نبیہ نے دف ہاتھ میں لیا۔‘‘ (خروج ۱۵: ۲۰)

بنی اسرائیل کی عورتوں میں موسٰیؑ کی بہن مریم نیکی، پرہیزگاری، تقوٰی اور خدا کی حمد و ثنا کرنے میں بہت مشہور تھیں اور مردوں میں حضرت ہارونؑ اپنی مثال آپ تھے اسی لیے بائبل مقدس نے موسٰیؑ کی بہن مریم کی بجائے ہارونؑ کی بہن مریم کہا۔

تاریخ کی دوسری مشہور اور عظیم مریمؑ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ محترم ہیں۔ یہ مریمؑ پہلی مریم سے کہیں زیادہ فضیلت والی اور زہد و تقوٰی، پاکدامنی، نیکی، پرہیزگاری اور خدا کی حمد و ثنا کرنے اور زیادہ سے زیادہ وقت عبادتِ الٰہی میں مصروف رہنے والی عظیم ترین شخصیت تھیں۔ آپؐ تمام عمر کنواری رہیں، نہ آپ کسی کی منکوحہ تھیں اور نہ ہی منگیتر۔ ان حضرت مریمؑ کے والدِ محترم کا نام بھی عمران ہی ہے جیسا کہ کلامِ الٰہی میں ہے کہ

’’وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَان‘‘

’’اور مریم بیٹی عمران کی‘‘ (سورہ التحریم ۱۲)

بعض عیسائی علماء کہتے ہیں کہ عمران تو اس مریم کے والد کا نام ہے جو موسٰیؑ و ہارونؑ کی بہن تھی۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ ایک ہی نام کے بہت سے اشخاص ہو سکتے ہیں بلکہ بائبل مقدس سے بھی ثابت ہے۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے نام یہوداہ، شمعون، لاوی اور یوسفؑ تھے، جبکہ حضرت عیسٰیؑ کے شاگردوں میں بھی ان ناموں کے حضرات موجود تھے۔ معترض حضرات کو یہ تو سوچنا چاہیئے کہ اگر مریم دوسری ممکن ہے تو عمران نام کا دوسرا شخص کیوں نہیں ہو سکتا۔

بعض حضرات کہتے ہیں کہ مانا کہ ایک ہی نام کے کئی اشخاص ہو سکتے ہیں لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ دونوں عمرانوں کی بیٹیوں کے نام بھی مریم ہی ہوں؟ جواباً عرض ہے کہ ایسا تو اکثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پیغمبر یوسف علیہ السلام کے والدِ محترم کا نام گرامی یعقوبؑ تھا یعنی آپ یوسفؑ بن یعقوبؑ تھے۔ اور انجیل متی کے پہلے باب سے ایک نجار کا بھی یوسف بن یعقوب ہونا ثابت ہے۔ پس اگر ایک یوسفؑ بن یعقوبؑ کے بعد دوسرا یوسف بن یعقوب ممکن ہے تو ایک مریمؒ بنت عمران کے بعد دوسری مریمؑ بنت عمران کیسے غیر ممکن ہو سکتی ہے؟

بعض عیسائی دوست یہ بھی کہتے ہیں کہ سورہ تحریم کی آیت ۱۲ انجیل لوقا ۳: ۲۳ کے خلاف ہے کیونکہ انجیل کے مطابق مریمؑ کے والد کا نام عیلی ہے۔ ہم عرض کریں گے کہ لوقا ۳: ۲۳ کے مطابق عیلی یوسف نجار کا باپ ہے نہ کہ مریم کا۔ چنانچہ انجیل کی عبارت اس طرح ہے:

’’جب یسوع تعلیم دینے لگا قریباً تیس برس کا تھا ۔۔۔۔ اور یوسف کا بیٹا تھا اور وہ عیلی کا۔‘‘ (لوقا ۳ : ۲۳)

انجیل مقدس کی مذکورہ بالا آیت سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عیلی یوسف نجار کا والد ہے نہ کہ مقدسہ مریمؑ کا۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ عیلی کا اپنا کوئی بیٹا نہ تھا اس لیے یہودی دستور کے مطابق داماد یوسف کو بیٹے کی جگہ سلسلۂ نسب میں لکھا گیا۔ حالانکہ اس بات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ مریمؑ کے والد کا نام عیلی تھا، اس لیے یہ بے دلیل توجیہہ ہمارے نزدیک کوئی حجت نہیں رکھتی۔

بفرضِ محال اگر مان بھی لیا جائے کہ مقدسہ مریم کے والد کا نام عیلی ہے تب بھی قرآن حکیم کا حضرت مریمؑ کو ’’بنت عمران‘‘ یعنی حضرت موسٰیؑ و ہارونؑ کے باپ عمران کی بیٹی کہنا بھی صحیح ہے کیونکہ بزرگوں سے انتساب قرآنِ عزیز اور بائبل مقدس دونوں ہی سے ثابت ہے جیسا کہ کلام مقدس قرآن پاک میں ہے کہ:

اَمْ کُنْتُمْ شُھَدآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآئِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمَاعِیْلَ وَ اِسْحَاقَ اِلٰھًا وَّاحِدًا وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ۔ (البقرہ ۲ : ۱۳۳)

’’کیا تم حاضر تھے جس وقت پہنچی یعقوبؑ کو موت؟ جب کہا اپنے بیٹوں کو تم کیا پوجو گے میرے بعد؟ بولے ہم بندگی کریں گے تیرے رب اور تیرے باپوں (یعنی باپ دادوں) کے رب کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق، وہی ایک رب اور ہم اسی کے حکم پر ہیں۔‘‘

قرآن شریف کی مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق کو حضرت یعقوب کے باپ ’’اٰبَآئِکَ‘‘ کہا گیا ہے حالانکہ حضرت یعقوبؑ کے والد تو صرف حضرت اسحاقؑ ہی ہیں جبکہ حضرت اسماعیلؑ تایا اور حضرت ابراہیمؑ دادا لگتے ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے قرآن مجید سے سورۃ البقرہ آیت ۲۰۰ اور البقرہ ۱۷۰ اور النساء ۲۴ اور المائدہ ۱۰۴ اور الانعام ۹۲ اور الانعام ۱۴۹ اور الاعراف ۲۸ اور الاعراف ۷۰ تلاوت فرمائیں۔

انجیل کے مطابق فرشتہ نے یوسف نجار سے کہا کہ

’’اے یوسف داؤد کے بیٹے‘‘ (متی ۱ : ۲۰)

حالانکہ یوسف داؤدؑ کا نہیں بلکہ عیلی کا بیٹا تھا (دیکھو لوقا ۳ : ۲۳)۔ ظاہر ہے کہ فرشتہ نے عیلی کے بیٹے یوسف کو عزت افزائی کے لیے حضرت داؤدؑ کا بیٹا کہا تھا۔ متی ۱:۱ میں یسوع مسیحؑ کو داؤدؑ کا بیٹا اور ابراہیمؑ کا بیٹا کہا گیا ہے حالانکہ مردوں میں سے کوئی بھی شخص آپ کا باپ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بغیر باپ کے پیدا فرمایا، اور آپؑ کی والدہ مریمؑ بھی داؤدؑ کی نسل سے نہیں بلکہ ہارونؑ کی اولاد سے ہیں۔ اس سلسلہ سے متعلق تفصیلی بحث انشاء اللہ آگے چل کر کی جائے گی۔ فی الحال ہمارا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ حضرت مسیحؑ حالانکہ نہ تو داؤدؑ کے بیٹے ہیں اور نہ ہی آپ کا داؤدؑ کی نسل سے ہونا ثابت ہے، لیکن عزت افزائی کے طور پر آپؑ کو داؤد کا بیٹا کہا گیا، جیسا کہ انجیل لوقا میں ہے کہ

’’خدا اس کے باپ داؤد کا تخت اسے دے گا‘‘ (لوقا ۱ : ۳۳)

اسی طرح انجیل متی میں ہے کہ

’’دو اندھے اس کے پیچھے یہ پکارتے ہوئے چلے کہ اے داؤد کے بیٹے ہم پر رحم کر۔‘‘ (متی ۹ : ۲۷ مزید دیکھئے متی ۲۱ : ۹ اور ۱۲ : ۱۳ اور ۱۵ : ۲۲ اور ۲۰ : ۳۰ اور ۲۲ : ۴۲)

اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ سے فرمایا:

’’میں تیرے باپ کا خدا یعنی ابراہیمؑ کا خدا اور اضحاقؑ کا خدا اور یعقوبؑ کا خدا ہوں۔‘‘ (خروج ۳ : ۶)

غور فرمائیے کہ مندرجہ بالا حضرات میں سے ایک بھی شخص موسٰیؑ کا باپ نہیں لیکن عزت افزائی کے لیے موسٰیؑ کو ابراہیمؑ، اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا بیٹا کہا گیا ہے۔ اسی طرح حضرت یعقوبؑ سے کہا گیا کہ

’’میں خداوند تیرے باپ ابراہیمؑ کا خدا اور اضحاقؑ کا خدا ہوں۔‘‘ (پیدائش ۲۸ : ۱۳)

یعنی ابراہیمؑ کو یعقوبؑ کا باپ کہا گیا حالانکہ یعقوبؑ ابراہیمؑ کے بیٹے نہیں۔ یسوع مسیحؑ نے ایک مریضہ سے متعلق فرمایا:

’’یہ جو ابراہیمؑ کی بیٹی ہے جس کو اٹھارہ برس سے شیطان نے باندھ رکھا تھا۔‘‘ (لوقا ۱۳: ۱۶)

ظاہر ہے اس عورت کا باپ ابراہیمؑ خلیل اللہ نہ تھے۔ اسی طرح لوقا ۱۶ : ۲۴ تا ۳۱ میں عالمِ ارواح کے ایک منظر میں ایک شخص کا ابراہیمؑ کو ’’اے باپ‘‘ کہہ کر پکارنا اور ابراہیم کو اس شخص کا بیٹا کہہ کر پکارنا مذکور ہے۔ اکثر یہودی ابراہیمؑ کو اپنا باپ کہتے تھے، چنانچہ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے لوگوں سے فرمایا کہ

’’اپنے دلوں میں یہ کہنا شروع نہ کرو کہ ابراہیمؑ ہمارا باپ ہے۔‘‘ (لوقا ۳ : ۸)

بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ محض نیک ہونے کی وجہ سے بھی کسی کو ابراہیمؑ کا بیٹا کہہ دیا جاتا تھا اور بدی کی وجہ سے ابلیس کا بیٹا کہا گیا جیسا کہ مسیحؑ نے یہودیوں سے فرمایا:

’’تم نے جو اپنے باپ سے سنا ہے وہ کرتے ہو۔ انہوں نے جواب میں اس سے کہا ہمارا باپ تو ابراہیم ہے۔ یسوع نے ان سے کہا اگر تم ابراہیم کے فرزند ہوتے تو ابراہیم کے سے کام کرتے۔‘‘ (یوحنا ۸ : ۳۸)

حضرت مسیحؑ نے مزید فرمایا:

’’تم اپنے باپ ابلیس سے ہو۔‘‘ (یوحنا ۸ : ۴۴ مزید دیکھئے یوحنا ۸ : ۵۶ اور لوقا ۱۹ : ۹)

پولس نے غیر اسرائیلیوں کو بھی محض ایمان دار ہونے کی وجہ سے ابراہیم کی اولاد قرار دیا:

’’پس جان لو کہ جو ایمان والے ہیں وہی ابراہیمؑ کے فرزند ہیں۔‘‘ (گلتیوں ۳ : ۷)

پولس نے رومیوں کے نام خط میں لکھا ہے کہ ایمان کی وجہ سے غیر اقوام کے نامختون بھی ابراہیم کے بیٹے کہلانے کے حقدار بن جاتے ہیں (دیکھو رومیوں ۴ : ۱۱)۔

ثابت ہوا کہ جس طرح صرف ایمان لانے کی وجہ سے ایسے لوگ بھی ابراہیمؑ کے بیٹے کہلائے جو ابراہیمؑ کی نسل سے بھی نہ تھے تو لازم آیا کہ ایمان کی مطابقت کی وجہ سے بھی بعض اوقات کسی شخص کو کسی ایسے شخص کا بیٹا کہا جا سکتا ہے جو دراصل اس کا باپ نہیں ہوتا۔ یعنی اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ مریمؑ کے باپ کا نام عمران نہیں تھا اور یہ کہ مریمؑ موسٰیؑ و ہارونؑ کے والد عمران کی نسل سے بھی نہیں تھیں تو تب بھی قرآن مجید کا حضرت مریمؑ کو بنتِ عمران کہنا غلط نہیں ہو سکتا۔ (مزید وضاحت کے لیے بائبل میں رومیوں ۴ : ۱۶ اور ۹ : ۱۰)۔ ثابت ہوا کہ کسی شخص کو محض نیکی و پرہیزگاری کی بنا پر بھی کسی نبی یا نیک بزرگ کا بیٹا کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ مریمؑ واقعی عیلی کی بیٹی تھیں اور یہ کہ حضرات موسٰیؑ و ہارونؑ کے باپ عمران کی اولاد سے بھی نہ تھی تب بھی قرآن پاک کا آپ کو بنتِ عمران کہنا غلط نہیں۔

جبکہ سچ تو یہ ہے کہ حضرت مریمؑ کے والد محترم کا نام واقعی عمران ہے کیونکہ قرآنِ حکیم نے حضرت مریمؑ کی والدہ محترم کو عمران کی بیوی قرار دیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مریمؑ کے والد کا نام واقعی عمران ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرَانَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ۔

’’جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میں نے نذر کیا تیری جو کچھ میرے پیٹ میں ہے آزاد، سو تو مجھ سے قبول کر، تو ہے اصل سنتا جانتا۔‘‘ (آل عمران ۳۵)

قرآنِ عزیز کی مذکورہ آیت کریمہ اس امر پر دال ہے کہ حضرت مریمؑ کے والد محترم کا نام دراصل عمران ہی ہے۔ اسی لیے آپ کی والدہ کو عمران کی بیوی قرار دیا گیا ہے۔ کسی شخص کو اعزازی طور پر کسی نبی یا بزرگ کا بیٹا، بھائی یا دوست تو کہا جا سکتا ہے لیکن کسی عورت کو کسی ایسے شخص کی بیوی نہیں کہا جا سکتا جو کہ اس کا شوہر نہ ہو۔ لہٰذا ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مریمؑ کے والد کا نام واقعی عمران ہے۔ رہا عیلی تو اس کے لیے ہم قاموس الکتاب مطبوعہ ۱۹۸۴ء صفحہ ۶۷۸ مقالہ عیلی عالی کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں کہ

’’عیلی مریم کے خاوند یوسف کا باپ‘‘ (لوقا ۳ : ۲۳)

کلامِ الٰہی قرآن پاک میں ہے:

یَآ اُخْتَ ھَارُوْنَ مَا کَانَ اَبُوْکِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا۔

’’اے ہارون کی بہن! تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکار تھی۔‘‘ (مریم ۲۸)

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مریمؑ کا کوئی بھائی نہ تھا اس لیے قرآن پاک کا آپ کو اختِ ہارونؑ کہنا ان کو قبول نہیں۔ یہود کے حضرت مریمؑ کو اختِ ہارون یعنی ہارونؑ کی بہن کہہ کر پکارنے کی ایک معقول وجہ موضح القرآن میں یوں درج ہے کہ

’’بہن ہارونؑ کی یعنی ہارونؑ کی بہن، دادے کا نام بولتے ہیں قوم کو جیسی عاد و ثمود، یہ تھیں اولاد حضرت ہارون میں۔‘‘

حضرت شاہ عبد القادر صاحب کا بیان واقعی حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اکثر ہوتا ہے کہ کسی قوم یا قبیلے بلکہ سلطنت کا نام ان کے کسی بزرگ کے نام سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً قومِ عاد جو کہ عاد کی اولاد ہے اور قومِ ثمود جو کہ ثمود کی اولاد ہے اور قومِ لوط جو کہ لوطؑ کی اولاد ہے اور قومِ قریش جو کہ قریش کی اولاد ہیں۔ بائبل مقدس میں بھی ۔۔ کی اولاد کو صرف ۔۔ بھی کہا گیا ہے (دیکھو روت ۱ : ۲، ۶۔ تواریخ ۱۸ : ۲۔ یسعیاہ باب ۱۵)۔ اسی طرح بنی لاوی کو صرف لاوی بھی کہا جاتا تھا۔ اسی طرح بنی اسرائیل قوم کو بھی اکثر اوقات صرف اسرائیل ہی کہہ دیا جاتا تھا (دیکھو تواریخ ۱۷ : ۷ اور ۱۶ : ۴ اور ۱۷ : ۲۱، ۲۲ و ۲۴۔ استثنا ۶ : ۲ تا ۵۔ استثنا ۹ : ۱ اور ۱۰ : ۱۲۔ یسعیاہ ۴۹ : ۳۔ مرقس ۱۲ : ۲۹)۔ اسی طرح بنی اقرائیم کو صرف اقرائیم کہا گیا (دیکھو قضاۃ ۱۹ : ۱۶)۔ اور بنی بنیمین کو بنیمین کہا گیا (دیکھو قضاۃ ۱۹ : ۱۴ اور ۲۰ : ۱۲)۔

یعنی بنی اسرائیل کے قبائل میں یہ رواج عام تھا کہ ہر قبیلے کو اس کے کسی بزرگ کے نام سے پکارتے تھے یعنی بنی ہاررون کو صرف ہارون بھی کہا جاتا تھا۔ اور جیسا کہ ہر شخص اپنی قوم کا بھائی اور ہر عورت اپنی قوم کی بہن ہوتی ہے اسی طرح ہر اسرائیلی اسرائیلی کا بھائی اور ہر ہارونی ہارونی کا بھائی اور ہر ہارونی عورت ہارون کی بہن ہے۔ یوں یہود کا حضرت مریمؑ کو اختِ ہارونؑ کہنا بالکل درست ثابت ہوا۔

کسی شخص کا اپنی قوم کا بھائی ہونے کے کافی شواہد بائبل مقدس میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر استثنا ۵ : ۱۲ میں ہے کہ

’’اگر تیرا کوئی بھائی خواہ وہ عبرانی مرد ہو یا عبرانی عورت تیرے ہاتھ بِکے۔‘‘

بائبل کی مندرجہ بالا عبارت سے ثابت ہوا کہ ہر اسرائیلی اپنی قوم کا بھائی اور عورت قوم کی بہن ہے (مزید دیکھو توریت، استثنا ۱۷ : ۱۵)

مذکورہ بالا شواہد اس امر پر دال ہیں کہ ہر شخص اپنی قوم کا بھائی اور ہر عورت اپنی قوم کی بہن ہوتی ہے۔ لہٰذا قرآن حکیم کا حضرت مریمؑ کو ہارون کی بہن کہنا دراصل بنی ہارون کی بہن کہنا ہے جیسا کہ خزائن العرفان میں ہے کہ

’’چونکہ یہ (یعنی مریمؑ) ان کی (یعنی ہارونؑ کی) نسل سے تھیں اس لیے ہارون کی بہن کہہ دیا جیسا کہ عربوں کا محاورہ ہے کہ وہ تمیمی کو یا اخا تمیم کہتے ہیں۔‘‘

اکثر اوقات اوصاف و عادات میں مماثلت کی بنا پر بھی کسی شخص کو دوسرے کا بھائی کہہ دیا جاتا ہے۔ مثلاً حضرت لوطؑ کو جو کہ حضرت ابراہیمؑ کے بھتیجے ہیں (دیکھو پیدائش ۱۱: ۳۱ اور۱۴ : ۱۲)۔ بائبل مقدس میں ابراہیمؑ کا بھائی کہا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

’’تب ابراہیمؑ نے لوطؑ سے کہا میرے اور تیرے درمیان اور میرے چرواہوں اور تیرے چرواہوں کے درمیان جھگڑا نہ ہو کیونکہ ہم بھائی ہیں۔‘‘ (پیدائش ۱۳ : ۸ اور ۱۴ : ۱۲ تا ۱۴)

اسی طرح یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ

’’کیونکہ تمہارا مرشد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو۔‘‘ (دیکھو متی ۲۳ : ۸)

چنانچہ تمام شاگردانِ مسیح آپس میں کہلاتے تھے (دیکھو لوقا ۲۲ : ۳۲ اور یوحنا ۲۱ : ۲۳ اور اعمال ۱ : ۱۵ اور ۹ : ۳۰ اور ۱۱ : ۱۲ اور ۱۲ : ۱۷ اور ۱۵ : ۱ اور ۱۶ : ۲ و ۴۰ اور ۲۱ : ۷ و ۱۷ اور (۱) یوحنا ۳ : ۱۴ تا ۱۶ اور (۳) یوحنا ۳ : ۵ و ۱۰ اور فلیمون ۱۰۱ و ۲۰ وغیرہ)۔

پس ثابت ہوا کہ محض عادات و اوصاف میں مماثلت کی وجہ سے بھی ایک شخص دوسرے کا بھائی کہلاتا ہے بلکہ بعض اوقات مماثلت کی بنا پر ایک جگہ کو دوسری جگہ کی بہن کہہ دیا جاتا ہے، چنانچہ یوحنا کے دوسرے خط میں ہے کہ

’’تیری برگزیدہ بہن کے فرزند تجھے سلام کہتے ہیں۔‘‘ (دیکھو ۲ یوحنا ۱ : ۱۳)

کیتھولک بائبل کے مطابق اس جگہ ایک کلیسیا کو دوسری کلیسیا کی بہن کہا گیا ہے اور کلیسیا کے مسیحیوں کو بیٹے کہا گیا ہے۔

مذکورہ بالا تمام شواہد ہمارے دعوٰی کے اثبات کے لیے کافی ہیں کہ عادات و اوصاف اور عزت و عظمت میں مماثلت کی بنا پر بھی کسی شخص کو دوسرے کا بھائی کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ہارونؑ اور ان کی اولاد کو عظمت کا جو مقام حاصل تھا وہ بنی اسرائیل کے تمام قبائل میں سے کسی کو حاصل نہ تھا۔ خدا نے کہا نت کے لیے ہارونؑ کو چن لیا تھا، ادھر حضرت عیسٰی علیہ السلام کی والدہ محترم کو بھی اللہ تعالیٰ نے چن لیا تھا، آپ ہیکل کی خدمت کے لیے وقف تھیں، ہر شخص آپ کا احترام کرتا تھا۔ یوں آپ مثیلِ ہارون تھیں اسی لیے بنی اسرائیل آپ کو اختِ ہارونؑ کے عظیم لقب سے پکارتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ بنی ہارون سے ہونے کی وجہ سے بھی ہارون کی بہن یعنی بنی ہارون کی بہن تھیں۔

مسیحی ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ بابت فروری ۱۹۹۰ء کے صفحہ ۹ پر ہے کہ

’’(قرآنی عیسٰیؑ) کی ماں مریم کے باپ کا نام عمران ہے اور ماں کا نام حنہ۔ یہ مریم جس کے باپ کا نام ’’قران‘‘ عمران بتایا ہے وہ موسٰی و ہارون کی بہن تھی۔‘‘ (گنتی ۲۶ : ۵۹) فرق صرف یہ ہے کہ قرآن نے عمرام کی جگہ عمران لکھ دیا ہے یعنی م کو ن سے بدل ڈالا ہے جو از رومی قواعد اور بلحاظ لغت واجب کہلاتا ہے۔ لیکن اس سے ایک بڑی غلطی وجود میں یہ آئی کہ لوگوں نے موسٰیؑ کی بہن مریم کو یسوع المسیح کی ماں مریم سمجھ لیا۔‘‘

جواباً عرض ہے کہ موسٰیؑ و ہارونؑ کی بہن مریم کی والدہ کا نام یوکبد ہے جب کہ حضرت عیسٰیؑ کی والدہ محترمہ حضرت مریمؑ کی والدہ  کا نام حنہ ہے، جیسا کہ خود ماہنامہ نے بھی تسلیم کیا ہے۔ پھر موسٰیؑ و ہارونؑ کی بہن مریم کو یسوع کی ماں سمجھ کر غلطی میں مبتلا ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔ رہا یہ کہ قرآنِ عزیز میں عمرام کے م کو ن سے بدل دیا گیا ہے، ہم جواباً عرض کریں گے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا بلکہ حضرت مریمؑ کے والد کا نام واقعی عمران ہی ہے نہ کہ عمرام جو کہ موسٰیؑ کے والد کا نام ہے۔ اگر مسیح کی والدہ کو موسٰیؑ و ہارونؑ کی بہن ثابت کرنا ہوتا تو قرآن شریف میں بنتِ عمران کی جگہ بنت عمرام لکھا جاتا اور آپ کی والدہ کا نام بھی یوکبد لکھا جاتا۔

مسیحی ماہنامہ ’’کلام حق‘‘ بابت دسمبر ۱۹۸۸ء کے صفحہ ۱۳ سلسلہ ۹ تا ۱۰ پر اناجیل اربعہ کے یسوع المسیح کی والدہ مریم کو اختِ ہارونؑ اور بنتِ عمران تسلیم کیا ہے۔ صفحہ ۱۰ پر انجیلی تعلیم کے نظریہ نمبر ۹ میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ حضرت مریمؑ ہارونؑ کی اولاد سے نہیں بلکہ یہوداہ کی نسل سے تھیں۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ لوقا کی انجیل میں ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مریمؑ ہارونؑ کی اولاد سے تھیں۔ چنانچہ لوقا ۱ : ۵ میں ہے کہ

’’زکریاہ نام کا ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع تھا۔‘‘

لوقا ۱ : ۳۶ سے مذکورہ بالا الیشبع کا حضرت مریمؑ کا قریبی رشتہ دار ہونا ثابت ہے۔ چنانچہ ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر زکریاہ کاہن کی بیوی الیشبع ہارون کی اولاد سے تھی تو ضروری ہوا کہ الیشبع کی قریبی رشتہ دار مریمؑ بھی ہارون کی اولاد سے ہو۔

جو لوگ مریمؑ کو عیلی کی بیٹی اور داؤد کی نسل سے قرار دیتے ہیں ان کا اصل مقصد دراصل لوقا ۳ : ۲۳ تا ۳۱ میں بیان کردہ نسب نامہ کو (جو کہ یوسف نجار کا نسب نامہ ہے) مریمؑ سے منسوب کر کے متی اور لوقا کے بیان کردہ یوسف نجار کے دو مختلف نسب ناموں کے درمیان پائے جانے والے شدید اختلاف پر پردہ ڈالنا ہے۔ حالانکہ متی اور لوقا دونوں کا دعوٰی ہے کہ وہ یوسف نجار کا نسب نامہ لکھ رہے ہیں۔ جیسا کہ انجیل کے قارئین سے یہ بات مخفی ہے کہ دونوں نے یوسف کا نسب نامہ ہی لکھا ہے، اس کا بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ فرقہ پروٹسٹنٹ کی اردو ریفرنس بائبل میں متی ۱ : ۱۲ میں مذکور ریکونیاہ کے بیٹے سیالتی ایل کے ذیل میں لوقا ۳ : ۳۷ کا ریفرنس دے کر گویا یہ اعتراف کر لیا ہے کہ لوقا ۳ : ۲۷ میں مذکور سیالتی ایل بھی یہی شخص ہے جس کا ذکر متی ۱ : ۱۲ میں ہے۔

ریفرنس بائبل میں یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ اسی شخص یعنی سیالتی ایل کا ذکر عذرا ۳ : ۲ میں بھی موجود ہے۔ جبکہ لوقا ۳ : ۲۷ میں مذکور سیالتی ایل کا ریفرنس دیتے ہوئے بھی عذرا ۳ : ۲ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور عذرا ۳ : ۲ میں مذکور سیالتی ایل کے ذیل میں ۱۔تواریخ ۳ : ۱۷ کا ریفرنس دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ متی ۱ : ۱۲ اور لوقا ۳ : ۲۷ اور عذرا ۳۱ : ۲ اور ۱۔تواریخ ۳ : ۱۷ میں ایک ہی شخص کا ذکر ہے۔ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ۱۔تواریخ ۳ : ۱۷ میں مذکور سیالتی ایل کے ریفرنس میں عذرا ۳ : ۲ اور ۵ : ۲ اور ۱ : ۱ و ۱۲ و ۱۴ اور ۲ : ۲ و ۲۳ اور متی ۱ : ۱۲ اور لوقا ۳ : ۲۷ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یعنی تمام مذکورہ جگہوں پر ایک ہی شخص سیالتی ایل کا ذکر ہے۔ یعنی یہ کہنا غلط ہے کہ لوقا والے نسب نامے اور متی والے نسب نامے میں سیالتی ایل نامی دو الگ اور مختلف آدمی ہیں بلکہ ریفرنس بائبل نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ دونوں نسب ناموں میں ایک ہی شخص کا ذکر ہے۔

لوقا کا بیان کردہ نسب نامہ یوسف سے ناتن بن داؤدؑ تک، اور متی تک کا نسب نامہ یوسف سے سلیمانؑ بن داؤدؑ تک پہنچتا ہے۔ اب کون عاقل یہ تسلیم کرے گا کہ ایک ہی شخص یعنی سیالتی ایل ناتن بن داؤد کی اولاد میں بھی ہے اور وہی سیالتی ایل سلیمانؑ بن داؤدؑ کی اولاد میں بھی ہے۔ البتہ ریفرنس بائبل کے اعتراف نے یہ ثابت کر دیا کہ متی اور لوقا ایک ہی شخص یوسف نجار کا نسب نامہ بیان کر رہے ہیں۔ جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچی کہ عیلی یوسف کا باپ ہے نہ کہ مریم کا۔ مزید مطالعہ فرمائیں، توریت میں ہے کہ

’’اور اگر بنی اسرائیل کے کسی قبیلہ میں کوئی لڑکی ہو جو میراث کی مالک ہو تو وہ اپنے باپ کے قبیلہ کے کسی خاندان میں بیاہ کرے تاکہ ہر اسرائیلی اپنے باپ دادا کی میراث پر قائم رہے۔ یوں کسی کی میراث ایک قبیلہ سے دوسرے قبیلہ نہیں جانے پائے گی۔ لیکن بنی اسرائیل کے قبیلوں کو لازم ہے کہ اپنی اپنی میراث اپنے قبضہ میں رکھیں۔‘‘ (گنتی ۳۶ : ۸ تا ۹)

چونکہ حضرت مریمؑ، ہارونؑ اور یوسفؑ، سلیمانؑ کی اولاد تھے لہٰذا بمطابق حکم توریت دونوں کا نکاح نہ ہو سکتا تھا اور نہ ہی ہوا۔

سیرت و تاریخ

(اگست ۱۹۹۰ء)

اگست ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۸

ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمہوریت، قرآن کریم کی روشنی میں
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

احادیث کی تعداد پر ایک اعتراض
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ایک مسلم حکمران کیلئے جناب رسالتمآب ﷺ کی ہدایات
مولانا سید وصی مظہر ندوی

توریت و انجیل وغیرہ کو کیوں پڑھنا چاہیئے؟
سید ناصر الدین محمد ابو المنصورؒ

علامہ عبد اللہ یوسف علی کی تفسیرِ قرآن کا ایک مطالعہ
محمد اسلم رانا

قرآنی آیات کو مسخ کرنے کی گھناؤنی حرکت
ادارہ

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت
پروفیسر غلام رسول عدیم

اختِ ہارون و بنتِ عمران حضرت مریم علیہا السلام
محمد یاسین عابد

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

امراضِ گردہ و مثانہ
حکیم محمد عمران مغل

معاشرتی زندگی کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter