ایک منظم سازش کے تحت جس طرح مسلمانوں کو ہدفِ ملامت بنایا جا رہا ہے اور مذہبِ اسلام میں طرح طرح کے کیڑے نکالنے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ان شر پسندوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ جہاں ایک طرف اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو دور رکھا جائے وہیں دوسری طرف مسلمانوں میں مذہب اسلام سے ایک قسم کی بدظنی پیدا کی جائے اور اشتعال انگیزی پیدا کر کے اپنا الّو سیدھا کیا جائے۔ ابھی حال ہی میں پندرہ روزہ ہندی جریدہ ’’سرتیا‘‘ مئی ۱۹۹۰ء (دوئم) میں سراج الحق نے اپنے مضمون ’’سعودی عرب میں ناری کی دردشا‘‘ میں جس طرح قرآنی آیات کو توڑ مروڑ کر گھناؤنے انداز سے پیش کرنے کی مذموم حرکت کی ہے اس سے مسلمانوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیے ہندی جریدہ ’’سرتیا‘‘ نے یہ مضمون ایک سازش کے تحت شائع کیا ہے۔
آج دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے اور اسلام کے بارے میں لغویات بکنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ انہوں نے اپنی اس گھناؤنی سازش میں ایسے نام نہاد مسلمانوں کو بھی شامل کر لیا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں جو سرِعام ننگے ہو کر شہرت حاصل کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ مذہب اسلام سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔ مالی فائدے اور جھوٹی شہرت کے بھوکے ایسے لوگ دراصل دشمنانِ اسلام کے آلہ کار ہیں جو دھوکہ دینے کے لیے مسلمانوں جیسا نام رکھے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھوپال کے مقبول واجد نے اپنے ایک مضمون میں توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ منکرِ خدا سراج الحق نے جس طرح کھلم کھلا مقدس قرآن پر حملہ کر کے اس کے غلط معنی پہنائے ہیں اور اہلِ اسلام پر بھی تہمتیں عائد کی ہیں وہ عالمِ اسلام کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ہندی جریدے سرتیا نے یہ مضمون شائع کیا تاکہ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا سکے۔ اس سازش میں سلمان رشدی کا پیروکار سراج الحق بھی شامل ہے جو نام کے اعتبار سے مسلمان ضرور لگتا ہے لیکن خود کو اس نے دائرہ اسلام سے الگ کر لیا ہے جیسا کہ اس نے مضمون کے شروع میں تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
’’میں خود ایک مذہبی مسلمان تھا اور سبھی مذہبی امور عقیدت سے انجام دیتا تھا لیکن مسلمانوں کی جائے پیدائش اور مسلم برادری کے لیڈر سعودی عرب کی حالت دیکھ کر اسلام سے میری تمام عقیدت ختم ہو گئی۔‘‘
سراج الحق نے اپنے پورے مضمون میں سعودی عرب اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں ایسی تصویر پیش کی ہے جو اس کی گندی ذہنیت کی علامت ہے لیکن سب سے زیادہ قابلِ مذمت اور قابلِ اعتراض بات اس نے قرآنی آیات کو توڑ کر اور اپنی طرف سے من مانی ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل کے اقتباسات میں کہی ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’خاص طور پر باہر سے آئی ہوئی عورتوں کا جو جسمانی استحصال ہوتا ہے اس کی یہاں (سعودی عرب میں) بڑی گھناؤنی شکل ہے جو کوئی بھی مذہب سماج برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ استحصال ان کی ذہنیت بن چکا ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ قرآن کے ۲۳ ویں باب میں صاف صاف لکھا ہے کہ جو شخص اللہ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلے گا اسے مرنے کے بعد جنت میں انتہائی دلکش اور کم عمر غلام ملیں گے۔ واضح رہے کہ ان ممالک میں کم عمر اور خوبصورت غلاموں سے غیر فطری جنسی فعل کا عورت سے صحبت سے زیادہ چلن ہے۔‘‘
’’اسی طرح جب ان کا مذہب ہی فطری اور غیر فطری دونوں تعلقات کو تسلیم کر رہا ہے تو ایسا کیوں نہ کریں۔ اگر نہیں کریں گے تو نام نہاد جنت سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘
شیطان رشدی کے چیلے سراج الحق نے جس طرح من گھڑت طریقے سے مقدس قرآن کی سورہ یس میں کم عمر غلام اور ان کی بدفعلی کا ذکر کیا ہے وہ اس کے گندے ذہن کی عکاسی کرتا ہے، اس سورہ میں کسی غلام کا ذکر ہی نہیں آیا ہے۔ سورہ یس میں جس جگہ اس نے اپنی غلط بیانی، بدکلامی کا ثبوت دیا ہے اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’اور تم کو بھی بس ان کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے۔ اہلِ جنت بے شک اس دن اپنے مشغلوں میں خوش دل ہوں گے۔ وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے لیے وہاں ہر طرح کے میوے ہوں گے اور جو وہ مانگیں گے ان کو ملے گا۔ ان کو پروردگار کی جانب سے سلام فرمایا جائے گا۔‘‘
ہاں قرآن شریف کے ۲۷ ویں پارے میں غلمان کا ذکر اس طرح ضرور آیا ہے:
’’وہ لوگ سونے کے تاروں سے بنے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ان کے آس پاس ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، یہ چیزیں لے کر آمد و رفت کیا کریں گے۔‘‘
اس بات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ مذہب اسلام پر لگائے گئے الزام شرپسندی کے سوا اور کچھ نہیں ہے جو ایک خاص مقصد کے تحت لگائے جا رہے ہیں۔ جہاں تک اسلامی تعلیمات کا سوال ہے اور معاشرے میں عورتوں کے حقوق کی حفاظت کی بات ہے تو سنجیدہ قسم کے غیر مسلم تک بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو جو مقام عطا کیا وہ دوسرے مذاہب میں بھی نہیں ہے۔ رہا سوال کسی ملک کی فرسودہ رسم و رواج اور سراج الحق جیسے بدکردار لوگوں کی بداعمالیوں کا تو اس سے مذہب اسلام کا کیا تعلق، ہر شخص کا فعل ہی اسی تک محدود ہے اور وہ اپنے اعمال کا ذمہ دار خود ہے۔
ملک کی موجودہ صورتحال میں جب کہ چاروں طرف بڑے بڑے مسائل کھڑے ہوئے، ایک خاص طبقہ کی یہی کوشش ہے کہ وہ مسلمانوں اور مذہب اسلام کے بارے میں فتنہ انگیز قسم کی باتیں کر کے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کریں تاکہ وہ اصل مسائل کی طرف توجہ نہ دے پائے۔ کبھی قرآن میں تبدیلی کا فتنہ اٹھایا جاتا ہے، کبھی یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، کبھی شیطان رشدی کی پذیرائی کی جاتی ہے، اور کبھی مسلم حکمرانوں کی تاریخ کے نام پر زہر گھولنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان شرپسندوں میں بھیڑ کی کھال اوڑھے سراج الحق جیسے بھیڑیے بھی شامل ہو گئے ہیں۔ نجی مفاد اور جھوٹی شہرت کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دینے کو تیار رہتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور انتظامیہ اس معاملے کی صحیح جانچ کر کے قصور واروں کو گرفت میں لے اور حالات کو بد سے بدتر ہونے سے روکنے کے لیے جلدازجلد قدم اٹھائے ورنہ حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔
(ہفت روزہ ’’حرمت‘‘ اسلام آباد)