حضرت عمرو ابن حزم انصاری خزرجی ان نوجوان صحابیوں میں سے ہیں جن کے جوہرِ قابل کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوعمری ہی میں بڑی اہم ذمہ داریوں پر مامور فرمایا۔ ان کی عمر ابھی ۱۷ سال تھی کہ ان کو اہم سفارتی ذمہ داریوں پر مقرر کیا گیا۔ چنانچہ نجران کے وہ عیسائی پادری جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کے لیے آئے تھے اور جو اپنے علم پر بڑے نازاں تھے، ان کے علاقہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو ابن حزم کو عامل (حاکم)، محصل (ریونیو افسر)، اور معلّم (مبلغ اور مربی) کی حیثیت سے بھیجا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے صرف چند ماہ قبل ان کو نجران (یمن) میں گورنر مقرر کرتے ہوئے جو تحریری ہدایات دی تھیں ان کو امام ابو جعفر دیبلی سندھی متوفی ۳۲۲ھ نے ’’مکاتیب النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے نام سے اپنے ایک مجموعہ میں شائع کیا ہے۔ یہ ہدایت نامہ حضرت عمرو ابن حزم کے خاندان میں محفوظ چلا آتا تھا، امام جعفر دیبلی کو ان کے پڑپوتے سے ملا ہے۔ حافظ ابن طولون نے اپنی کتاب ’’اعلام السائلین‘‘ میں امام ابوجعفر دیبلی کے پورے مجموعہ کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمرو ابن حزم کے نام یہ ہدایت نامہ بہت معمولی فرق کے ساتھ احادیث اور تاریخ کی اکثر کتابوں میں محفوظ ہے۔
حضرت عمرو ابن حزم کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ہدایت نامہ کا جو پس منظر بیان ہوا ہے اس سے ہدایت نامہ کی چند اہم خصوصیات واضح ہوتی ہیں:
(۱) حجۃ الوداع سے صرف چند ماہ قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایات تحریری صورت میں جاری فرمائی تھیں، اس لحاظ سے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری تحریری ہدایات ہیں۔
(۲) یہ انتہائی مستند ہیں۔ تحریر اور زبانی سند کے لحاظ سے یہ قطعی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ ہدایات ہیں جن کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
(۳) خوش قسمتی سے ہم کو یہ ہدایات ایک سندھی محدث امام ابو جعفر دیبلی کے ذریعے سے حاصل ہوئی ہیں۔
(۴) ان ہدایات سے واضح ہوتا ہے کہ کسی حاکم کی نگاہ میں کن امور کا اولیت حاصل ہونی چاہیئے اور حاکم کو کن صفات کا حامل ہونا چاہیئے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ھذا بیان من اللہ و رسولہ ’’یا ایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود‘‘۔
’’اللہ کے نام سے جو رحمٰن اور رحیم ہے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان ہے: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، عہد و پیمان کو پورا کرو‘‘ (القرآن)
عہد من عند النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) لعمرو ابن حزم الانصاری حین بعثہ الی الیمن۔
’’عمرو بن حزم انصاری کو یمن بھیجنے کے موقع پر نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب سے یہ ہدایات عمرو ابنِ حزم کو دی جا رہی ہیں۔‘‘
(۱) امرہ بتقوی اللہ فی امرہ کلہ ’’ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون‘‘۔
’’وہ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ (عمرو ابن حزم) اپنے تمام معاملات و نظام میں اللہ سے ڈرتا رہے کیونکہ: اللہ ان کے ساتھ ہے جو (اس سے) ڈریں اور جو خوبی کے ساتھ اپنے کام انجام دیں‘‘ (القرآن)
(۲) وامرہ ان یاخذ الحق کما امرہ اللہ۔
’’وہ اس کو حکم دیتے ہیں کہ وہ (حکومت کے) واجبات اسی طرح وصول کرے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے۔‘‘
(۳) وان یبشر الناس بالخیر ویامرھم بہ۔
’’لوگوں میں بھلائی کی تلقین کرے اور اسی کا حکم دے۔‘‘
(۴) ویعلم الناس القراٰن ویفقھم فیہ۔
’’لوگوں کو قرآن سکھائے اور قرآن کی سمجھ پیدا کرے۔‘‘
(۵) وینھٰی الناس ان لا یمس احد القراٰن الا وھو طاھر۔
’’اور لوگوں کو اس بات سے منع کرے کہ کوئی شخص ناپاکی کی حالت میں قرآن کو ہاتھ لگائے۔‘‘
(۶) ویخبر الناس بالذی لھم والذی علیھم۔
’’اور لوگوں کو (صاف طور پر) باخبر کر دے کہ ان کے کیا حقوق ہیں اور کیا فرائض ہیں۔‘‘
(۷) ویلین للناس فی الحق، ویشتد علیھم فی الظلم، وان اللہ کرہ الظلم و نھٰی عنہ فقال: ’’الا لعنۃ اللہ علی الظالمین‘‘۔
’’لوگوں کے حقوق دینے میں نرمی کا رویہ اختیار کرے۔ (البتہ) اگر کوئی ظلم کرے تو اس پر سختی کرے۔ اللہ نے ظلم کو ناپسند فرمایا ہے اور اس سے منع فرمایا ہے، چنانچہ اس کا ارشاد ہے: سنو! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔‘‘
(۸) ویبشر الناس بالجنۃ وبعملھا۔
’’لوگوں میں جنت اور جنت دلانے والے اعمال کی تبلیغ کرے۔‘‘
(۹) وینذر الناس بالنار و بعملھا۔
’’اور لوگوں کو جہنم اور جہنم والے اعمال سے ڈرائے۔‘‘
(۱۰) ویستألف الناس حتیٰ یفقھوا فی الدین۔
’’اور لوگوں کی دلداری کرے تاکہ وہ دین کو سمجھنے کے لیے آمادہ ہوں۔‘‘
(۱۱) ویعلم الناس معالم الحج و سننہ و فرائضہ و ما امر اللہ بہ والحج الاکبر والحج الاصغر (وھو العمرۃ)۔
’’اور وہ لوگوں کو حج کے مناسک، اس کے طریقے اور اس کے فرائض سکھائے اور اللہ کے احکام کی تعلیم دے اور حجِ اکبر اور حجِ اصغر (عمرہ) سکھائے۔
(۱۲) وینھٰی الناس ان یصلی احد فی ثوب واحد الا ان یکون ثوبًا واحدًا یثنی طرفیہ علی عائقیہ۔
’’لوگوں کو اس بات سے منع کرے کہ وہ ایک چھوٹے سے کپڑے میں نماز ادا کریں، البتہ اگر کپڑا بڑا ہو اور اس کے دونوں کنارے دونوں شانوں پر ڈال لیے جائیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(۱۳) وینھٰی ان یجتبی احد فی ثوب واحد فضی بفرجہ الی السماء۔
’’(نماز میں) کوئی شخص ایک کپڑا پہن کر اس طرح اکڑوں نہ بیٹھے کہ اس کی ستر کھلی ہوئی ہو۔‘‘
(۱۴) ولا یعقص احد شعر راسہ اذا اعضاء علی قضاء۔
’’اگر کسی نے اپنے بال بڑھا کر گدی پر لٹکا لیے ہوں تو ان کا (نماز میں) جوڑا نہ باندھے۔‘‘
(۱۵) وینھٰی اذا کان بین الناس صلح عن الدعا الی القبائل والعشائر و لیکن دعاءھم الی اللہ وحدہ لا شریک لہ فمن لم یدع الی اللہ و دعا الی العشائر و القبائل فلیعطفوا بالسیف حتی یکون دعاءھم الی اللہ وحدہ لا شریک لہ۔
’’اور لوگوں کے درمیان اگر (اختلاف ختم کرنے کے لیے) صلح ہو رہی ہو تو لوگوں کو اس بات سے منع کرو کہ وہ (اپنے اپنے) قبیلہ یا (اپنے اپنے) خاندان کا نعرہ لگائیں۔ ان کو صرف اللہ وحدہ لا شریک کا نعرہ لگانا چاہیئے۔ لیکن جو لوگ اللہ کا نعرہ نہ لگائیں اور خاندانوں اور قبیلوں کی طرف بلائیں تو ان کو تلوار کے ذریعے سے جھکایا جائے یہاں تک کہ وہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کا نعرہ لگائیں۔‘‘
(۱۶) ویامر الناس باسباغ الوضوء وجوھھم وایدیھم الی المرافق وارجلھم الی الکعبین ویمسحوا برؤوسھم کما امر اللہ۔
’’اور وہ لوگوں کو حکم دے کہ وہ وضو میں اپنے چہروں کو اچھی طرح دھوئیں، ہاتھوں کی کہنیوں اور پیروں کے ٹخنوں تک پانی پہنچائیں، وہ اپنے سروں پر اس طرح مسح کریں جس طرح اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘
(۱۷) وامرہ بالصلوٰۃ لوقتھا واتمام الرکوع والخشوع ویفلس بالصبح ویھجر بالھاجرۃ حتٰی تمیل الشمس وصلوٰۃ العصر والشمس فی الارض مدبرۃ والمغرب حین یقبل اللیل ولا یؤخر حتٰی تبدو النجوم فی السماء والعشاء اول اللیل، وامرہ بالسعی الٰی الجمعۃ اذا نودی لھا، والغسل عند الرواح۔
’’اور انہوں نے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے) اس کو (عمرو ابن حزم کو) حکم دیا ہے کہ وہ نمازیں وقت پر ادا کرے، رکوع اور خشوع (قلبی جھکاؤ) کو مکمل کرے۔ نمازِ فجر اندھیرے میں ادا کرے، اور سورج کے مغرب کی جانب جھکنے سے قبل نمازِ ظہر ادا کرے، اور عصر کی نماز اس وقت ادا کرے جب دھوپ زمین سے واپس ہونا شروع ہو، اور رات کی آمد کے وقت مغرب ادا کرے اور مغرب میں اتنی تاخیر نہ کرے کہ ستارے ظاہر ہو جائیں، اور نمازِ عشا رات کے پہلے حصہ میں ادا کرے، اور اس کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو نماز کے لیے لپک کر پہنچے اور نمازِ جمعہ کے لیے جاتے وقت غسل کرے۔‘‘
(۱۸) وامرہ ان یاخذ من الغانم خمس اللہ۔
’’اور اسے حکم دیا ہے کہ وہ مالِ غنیمت میں سے اللہ کا مقرر کردہ خمس وصول کرے۔‘‘
(۱۹) وما کتب علی المؤمنین فی الصدقۃ من العقار۔ عشر ما سقٰی البعل و ما سقت السماء۔ وعلٰی ما سقٰی الغرب نصف العشر۔ وفی کل عشر من الابل مثلتان و فی کل عشرین من الابل اربع شیاہ۔ وفی کل اربعین من البقر بقرۃ۔ وفی کل ثلاثین من البقر جذع او جذعۃ۔ وفی کل اربعین من الغنم سائمۃ شاۃ۔ فانھا فریضۃ اللہ التی افترض علی المؤمنین فی الصدقۃ فمن زاد خیرًا فھو خیر لہ۔
’’اور زکوٰۃ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو فرض کیا ہے اسے وصول کرے جس کی تفصیل اس طرح ہے: جس زمین کو دریا یا بارش نے سیراب کیا ہو اس کی پیداوار کا دسواں حصہ۔ اور جس کو ڈول (مصنوعی آبپاشی) سے سیراب کیا گیا ہو اس کی پیداوار کا بیسواں حصہ۔ ہر دس اونٹوں پر دو بکریاں اور ہر بیس اونٹوں پر چار بکریاں۔ اور ہر چالیس گائیوں پر ایک گائے۔ اور ہر تیس گائیوں پر ایک نر یا مادہ ایک سالہ بچہ۔ اور ہر چالیس چرنے والی بھیڑوں پر ایک بکری۔ زکوٰۃ کے سلسلہ میں یہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ ضابطہ ہے جو اس نے اپنے بندوں پر نافذ کیا ہے، جو شخص اس سے زیادہ دے تو وہ خود اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘
(۲۰) وانہ من اسلم من یھودی او نصرانی اسلامًا خالصًا فانہ من المؤمنین لہ مثل ما لھم و علیہ ما علیھم۔ و من کان علٰی نصرانیتہ او یھودیتہ فانہ لا یفتنن علیھا۔
وعلٰی کل ما لم ذکر او انثٰی حرا و عبد دینار ران او عرضہ ثیابًا۔ فمن ادی ذٰلک فان لہ ذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ و من منع ذٰلک فانہ عدو للہ و رسولہ وللمومنین جمیعًا۔
’’یہ کہ اگر کوئی یہودی یا عیسائی مخلصانہ طور پر مسلمان ہو جائے اور دینِ اسلام اختیار کر لے تو وہ مومنوں میں سے ہو گا۔ اس کے وہی حقوق ہوں گے جو اہلِ ایمان کے ہوتے ہیں اور اس کے فرائض بھی انہی جیسے ہوں گے۔ اور جو اپنی نصرانیت یا یہودیت پر قائم رہے تو اس کو اس کے دین سے پھیرنے کے لیے سختیوں میں نہیں ڈالا جائے گا۔
اور ہر بالغ مرد یا عورت آزاد یا غلام سے ایک پورا دینار یا اس کی قیمت کے مساوی کپڑے بطور جزیہ وصول کیے جائیں گے۔ جو شخص یہ (جزیہ) ادا کر دے گا تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہو گا، اور جو اس کو دینے سے انکار کرے گا تو وہ اللہ، اس کے رسول اور مومنین سب کا دشمن سمجھا جائے گا۔‘‘