امام محمد اسماعیلؒ بخاری نے تحریف کی تفسیر یوں کی ہے کہ تحریف کے معنی ہیں بگاڑ دینے کے اور کوئی شخص نہیں ہے جو بگاڑے اللہ کی کتابوں سے لفظ کسی کتاب کا مگر یہودی اور عیسائی خدا کی کتاب کو اس کے اصلی اور سچے معنوں سے پھیر کر تحریف کرتے تھے، انتہٰی۔ یہ قول اخیر صحیح بخاری میں ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحبؒ اپنی کتاب فوز الکبیر میں لکھتے ہیں کہ اہلِ کتاب توریت اور کتبِ مقدسہ کے ترجمہ میں (یعنی تفسیر میں) تحریف کرتے تھے نہ کہ اصل توریت میں اور یہ قول ابن عباس کا ہے، انتہٰی۔
امام فخر الدین رازیؒ اپنی تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ آیت ۱۴ کی تفسیر کرتے ہیں کہ تحریف سے یا تو غلط تاویل مراد ہے یا لفظ کا بدلنا مراد ہے اور ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ پہلی مراد بہتر ہے کیونکہ جو کتاب بار بار نقل ہو چکی اس میں تغیر لفظ کا نہیں ہو سکتا، انتہٰی۔
تفسیر درمنشور میں ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے وہب بن منبہ سے روایت کی ہے کہ توریت و انجیل جس طرح کہ ان دونوں کو اللہ نے اتارا تھا اسی طرح ہیں ان میں کوئی حرف بدلا نہیں گیا لیکن یہودی بہکاتے تھے لوگوں کو معنوں کے بدلنے اور غلط تاویل کرنے سے جیسا کہ آج کل کے بعض مسلمان علماء و مشائخ جو قرآن کی ایک آیت کو پکڑ کر الگ الگ تاویل اپنے اپنے مطلب کے موافق کرتے ہیں اور آپس میں خوب جھگڑتے ہیں، اور حالانکہ کتابیں تھیں وہ جن کو انہوں نے اپنے آپ لکھا تھا اور کہتے تھے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں، اور وہ اللہ کی طرف سے نہ تھیں، مگر جو اللہ کی طرف سے کتابیں تھیں وہ محفوظ تھیں ان میں کچھ بدلنا نہیں ہوا تھا۔ انتہٰی۔ سورہ بقرہ رکوع ۹ میں جو یہ آیت ہے:
فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ۔
’’پس افسوس اوپر حال ان لوگوں کے جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھ سے پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے۔‘‘ ۔۔۔ انتہٰی۔
بیضاوی میں ہے:
ولعلہ اراد بہ ما کتبوہ من التاویلات الزانیۃ (شہادت قرآنی فصل ۷۲ ص ۱۰۲)
’’اور اس سے شاید وہ مراد ہے جو تاویلات یعنی تفسیریں انہوں نے (یعنی یہودیوں نے) سزائے زنا کی بابت لکھیں۔‘‘ انتہٰی۔
اس کے سوا ایسی کتاب کو محرف نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ تو سرے ہی سے جھوٹی کتاب ہے اسے تحریف سے کیا علاقہ لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ علماء اسلام کا حسنِ عقیدت نسبت توریت و انجیل کی ہے ورنہ تحریف لفظی بلکہ اکثر آیتیں ان مقدس کتابوں میں ملائی جانا معتبر علماء اہل کتاب کے اقوال سے بصحت تمام ثابت ہے۔ باوجود اس کے مسلمانوں کو توریت و انجیل سے واقف ہونا ضروری ہے تاکہ اہلِ کتاب سے مناظرہ کر سکیں اور ان کتابوں کی عظمت سمجھنا تاکہ ایمان جاتا نہ رہے خاص کر اس واسطے کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشر سے خبر دینے والے خدا پرستوں میں یہی کتابیں ہیں۔ اس کے سوا علماء اسلام اگر توریت وغیرہ کو محرف کہیں تو اس کا نصارٰی کب یقین کریں جب تک معتبر نصرانی علماء توریت و انجیل کی تحریف کا اقرار کریں۔ اس جگہ میں نے یہ سب قول مفسرین وغیرہ ان مسلمانوں کی ترغیب کے واسطے نقل کیے جو سمجھتے ہیں کہ توریت و انجیل کو آنکھ سے بھی نہ دیکھنا چاہیئے اگرچہ الف لیلٰی وغیرہ پڑھنا ناجائز نہیں ہے نعوذ باللہ۔
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنَاھُمُ الْکِتَابَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ اُولٰئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَمَنْ یَکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ ۔۔الخ (سورہ بقرہ رکوع ۱۴)
’’جو لوگ کہ دی ہم نے ان کو کتاب، پڑھتے ہیں اس کو، حق پڑھنے اس کے کا، یہ لوگ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس کے، اور جو کوئی کفر کرے ساتھ اس کے، پس یہ لوگ وہی ہیں زیاں پانے والے‘‘۔ انتہٰی
اب مثال کے لیے دو ایک مقام اور بیان کروں جس سے معلوم ہو گا کہ اہلِ اسلام کو یہود و نصارٰی اور دنیا کی سب قوموں سے بحث و مناظرہ کرنا مقتضائے حمیت اسلام ہے، بلکہ خدا ہی نے مسلمانوں کو مناظرہ کا طرز تعلیم کیا ہے کہ یہود و نصارٰی کے عقائد کی تردید اور ان کی کتابوں کے مضامین سکھلائے۔ چنانچہ قال اللہ تعالٰی جل شانہٗ:
اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَ مُوْسٰی۔
’’بالتحقیق یہ ہے پہلی کتابوں میں، کتابوں میں ابراہیم اور موسٰی کی۔‘‘
اب اگر کوئی توریت سے ناواقف ہو تو کیسے کہہ سکے کہ صحفِ ابراہیمؑ و موسٰیؑ میں یہی تعلیمیں نجات اور آخرت وغیرہ کی مرقوم ہیں جو قرآن مجید میں ہیں۔ اس لیے اپنے دعوے کے اعتبار کی غرض سے مسلمانوں کو توریت و انجیل سے واقف ہونا چاہیئے۔
وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ o نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ o عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ o وَاِنَّہٗ لَفِیْ زُبُرُ الْاَوَّلِیْنَ o اَوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ اٰیَۃً اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمَآءُ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ o
’’اور بالتحقیق یہ اترا ہے رب العالمین سے۔ اتارا روح الامین نے۔ اسے تیرے دل پر کہ تو بھی ایک ڈرانے والا ہو۔ صاف زبان عربی میں۔ اور بالتحقیق یہ ہے پہلوں کے صحیفوں میں۔ اور کیا ان کے واسطے یہ نشانی نہیں ہوئی کہ بنی اسرائیل کے علماء اسے جانتے ہیں؟‘‘ (سورہ شعرا)
اب اگر پہلوں کے صحیفوں سے ہم واقف نہ ہوں تو کس طرح یہود و نصارٰی سے کہہ سکیں کہ یہ پہلوں کے صحیفوں میں ہے۔ اس کی تفسیر میں بیضاوی نے لکھا ہے کہ اس کا ذکر یا اس کے معنے کتب متقدمین میں مرقوم ہیں، اور کتب کو تو سب جانتے ہیں کہ توریت و انجیل ہے۔ چنانچہ کشاف میں صاف لکھا ہے ’’کالتورات والانجیل‘‘ یعنی کتب سے مراد توریت و انجیل ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْھُدٰی مِنْ بَّعْدِ مَا بَیَّنَّاہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ اُولٰئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللہُ وَیَلْعَنُھُمُ اللَّعِنُوْنَ۔
’’بالتحقیق جو لوگ چھپاتے ہیں ان صاف باتوں اور ہدایتوں کو جو ہم نے نازل کیں، بعد اس کے کہ ہم کتاب میں ظاہر کر چکے ان لوگوں کے واسطے، انہیں لعنت کرے گا اللہ اور لعنت کریں گے لعنت کرنے والے۔‘‘(سورہ بقرہ)
اس آیت کا شانِ نزول ابن اسحاق کی روایت سے سیرت ہشامی میں اس طرح پر ہے کہ معاذ بن جبل اور سعد بن معاذ اور خارجہ بن زید نے بعضے یہودی عالموں سے توریت کی کسی بات کا استفسار کیا لیکن یہود اس کو ان سے چھپا گئے اور بتلانے سے انکار کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ جو لوگ چھپاتے ہیں الخ۔ اور تفسیر حسینی میں ہے ’’ان الذین‘‘ علماء یہود جو بوجہ حسد ’’یکتمون‘‘ چھپاتے ہیں ’’ما انزلنا‘‘ جو ہم نے اتارا ’’من البینات‘‘ توریت میں واضح دلائل سے ’’والھدٰی‘‘ راہ دکھانا یعنی ہدایت ’’من بعد ما بیناہ‘‘ بعد اس کے کہ ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کے طور پر بیان کیا ’’فی الکتاب‘‘ توریت میں یعنی ہم واضح کرتے ہیں اور یہ چھپاتے ہیں۔‘‘
دیکھیئے کہ مسلمانوں سے جو یہودیوں نے توریت کو چھپایا تو یہ بات خدا کو ایسی ناپسند معلوم ہوئی کہ اس شدت کے ساتھ ان پر لعنت کی۔ یہاں سے ظاہر ہے کہ خدا کو توریت سے مسلمانوں کو واقف کرنا کس قدر منظور تھا کہ اسے چھپانے کے سبب یہودیوں پر ایسی سخت لعنت فرمائی۔ اور پھر اسی سورۃ میں حق تعالٰی فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنَ الْکِتَابِ۔
یہاں بھی یہودیوں کو وہی الزام دیا گیا ہے کہ انہوں نے غرض دنیاوی کے واسطے ان شہادتوں کو جو توریت میں دینِ اسلام اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت تھیں ظاہر نہ کیا۔ پس اگر مسلمان توریت کے ان مضمونوں سے واقف ہو جاتے تو یہودیوں کے چھپانے سے پھر نقصان کیا تھا؟ مگر چونکہ اس زمانہ میں توریت عربی زبان میں ترجمہ نہ ہوئی تھی (دیکھو تواریخ ابو الفدا جو ساتویں صدی ہجری میں تھا) اس سبب سے ان باتوں کا اعلان صرف یہودیوں پر ہی منحصر تھا۔ اور جب کہ وہ ایسی باتوں کو چھپاتے تھے تو اللہ جل شانہ نے ان کی اس حرکت سے سخت ناراض ہو کر فرمایا کہ
’’اُولٰئِکَ مَا یَأْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ o وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ فَنَبَذُوْہُ وَرَآءَ ظُھُوْرِھِمْ ۔۔ الخ
’’یعنی وہ آگ کھاویں گے اپنے پیٹ میں اور خدا ان سے بات نہ کرے گا قیامت کے دن اور نہ پاک کرے گا ان کو، اور ان کے واسطے ہو گا سخت عذاب۔ اور جب خدا نے اقرار لیا ان لوگوں سے جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کو بیان کریں بنی آدم سے اور نہ چھپاویں، پس انہوں نے پھینک دیا وہ اقرار اپنی پیٹھ کے پیچھے۔‘‘ (آل عمران)
یہاں بھی وہی الزام ہے جو قرآن میں بار بار توریت وغیرہ کے مضامین چھپانے پر یہودیوں کو دیا گیا لیکن اگر توریت کے مضامین اس وقت میں مسلمانوں میں مشتہر ہو گئے ہوتے تو پھر یہودیوں کے چھپانے کی شکایت کیا تھی اور اسلام کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے اور کسی تدبیر کی حاجت کیا ہوتی؟ کیونکہ حضرت موسٰی نے توریت میں بنی اسرائیل سے صاف فرمایا تھا کہ ایک نبی میری مانند ہو گا، تم اس کی سننا۔ لیکن اب وہ دن آیا ہے کہ کتابوں کی کثرت اور ہر زبان میں توریت کا ترجمہ ہو جانے کے سبب اسلام کی فضیلت اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر توریت و انجیل سے ایسی صاف اور واضح بیان ہوتی ہے جو اس سے پیشتر کبھی نہ ہوئی تھی۔ غرض اسی طرح الزام توریت چھپانے کی بابت یہودیوں کو بار بار بار دیا گیا ہے۔ دیکھو سورہ انعام وغیرہ۔
وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَا۔
’’یعنی پوچھ ان رسولوں سے جنہیں ہم نے تجھ سے پہلے بھیجا۔‘‘ (زخرف)
پوچھ ان رسولوں سے یعنی ان کی امت سے۔ بیضاوی میں لکھا ہے ان کی امت اور ان کے علماء دین سے۔ اور کشاف میں ہے کہ یہود و نصارٰی کی امت سے۔ اب خیال کیجئے کہ ان سے پوچھنا ازروئے توریت و انجیل ہی تھا یا کچھ ان کی بنائی ہوئی باتوں سے غرض تھی؟
فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مما انزلنا الیک فاسئل الذین یقرؤن الکتاب من قبلک۔
’’یعنی پس اگر تو ہے شک میں اس سے جو اتارا ہے ہم نے تیری طرف تو پوچھ ان سے جو پڑھتے ہیں کتاب تجھ سے پہلے والی۔‘‘ (سورہ یونس)
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمّی محض تھے، کوئی کتاب نہ پڑھ سکتے تھے، اور اگر پڑھ سکتے تو توریت عربی زبان میں نہ تھی بلکہ عبرانی میں تھی۔ اس سبب سے حکم ہوا کہ پوچھ ان سے۔ اور جو شخص آپ توریت پڑھ سکتا ہو تو پوچھنے کی نسبت یہ زیادہ بہتر ہے کہ وہ آپ توریت میں دیکھ لے۔ مگر اب جو لوگ کہ ان آیتوں سے تو انکار نہیں کر سکتے مگر توریت کے پڑھنے سے گبھراتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ خط کو تو نہیں کھولتے صرف قاصد سے زبانی خبر پوچھتے ہیں۔ یعنی بڑی تسلی کو چھوڑ کر ادنٰی تسلی کی طرف دوڑتے ہیں۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَسْئَلْ بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ۔
’’یعنی اور بالتحقیق ہم نے موسٰی کو نو نشانیاں صاف دیں پس پوچھ بنی اسرائیل سے۔‘‘
اب دیکھئے کہ ان نشانیوں کا ذکر توریت میں بہت تفصیل کے ساتھ ہے۔ اگر کوئی توریت سے خوب واقف نہ ہو تو کیونکر یہ نو گنوا سکے کیونکہ قرآن مجید میں اسرائیلی کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے، پس ضرور ہے کہ انہیں کتابوں سے ثابت کیا جائے۔ پوچھ بنی اسرائیل سے یعنی توریت کے پڑھنے والوں سے، ورنہ ان کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حضرت موسٰیؑ انہیں لوگوں کے درمیان تھے پس انہیں کی کتابوں سے اس کا ثبوت بہت مستحسن ہے اور یہاں بھی یہی بات ہے کہ پوچھ اہلِ کتاب سے۔ اسی طرح سورہ نحل میں ہے:
فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔
’’پس پوچھ اہل ذکر (یعنی اہل کتبِ الٰہی) سے اگر نہیں جانتے ہو۔‘‘
اور اسی طرح سورہ انبیاء رکوع ۱ میں ہے اور سورہ آل عمران میں بھی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتَابِ یُدْعُوْنَ اِلٰی کِتَابِ اللہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُعْرِضُوْنَ۔
’’یعنی کیا تو نے نہیں دیکھے وہ لوگ جن کو ملا ہے حصہ کتاب میں سے، وہ بلاتے ہیں اللہ کی کتاب کی طرف تاکہ وہ فیصلہ کرے درمیان ان کے، پھر الٹے پھرے ایک فریق ہٹ کر اور وہ منہ پھیرنے والے ہیں۔‘‘
تفسیر حسینی میں ہے کہ ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے ایک گروہ کو اسلام کی دعوت دی۔ نعمان بن ابی اوفی نے کہا میں آپ کے ساتھ اپنے علماء دین کی موجودگی میں مناظرہ کروں گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صحیفہ توریت سے لایا جائے جو کہ میری صفت اور نعت پر مشتمل ہے۔ انہوں نے اس سے انکار کیا اور وہ آیات نہ لائے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ توریت پڑھتے ہیں پھر منہ پھیر لیتا ہے ان میں سے ایک گروہ جو رؤسا ہیں اور یہ حق سے اعراض کرتے ہیں، انتہٰی۔ یہاں سے مناظرہ کا قانون صحیح دانشمندوں کو معلوم ہو جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے مناظرہ کے وقت قرآن مجید پیش نہیں کیا کیونکہ وہ اسے نہیں مانتے تھے بلکہ انہیں کی کتاب منگوائی۔ اب وہ لوگ جنہیں توریت و انجیل سے واقف کاری نہیں ہے کیونکر اپنے کسی دعوٰی کے ثبوت میں ایسی جرأت کر سکتے ہیں، اور جو لوگ اس سے بے پروا ہیں ثابت ہے کہ انہیں دینِ اسلام اور خدا اور رسولؐ کے نام کی حمایت سے بھی کچھ غرض نہیں ہے اور فعلِ رسول اللہؐ کو بھی پسند نہیں کرتے۔
(از نوید جاوید ص ۵۶ تا ۶۱)