احکام القرآن، حجۃ اللہ البالغہ، اقلیتیں، شام، نگارشات

’’خطباتِ فتحیہ: احکام القرآن اور عصرِ حاضر‘‘

نحمده تبارك وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الكريم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعين۔

جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور ہمارے خطے کے قدیم ترین دینی اداروں میں سے ایک ہے جو ۱۸۷۵ء سے دینی تعلیم و تدریس اور عوامی اصلاح و ارشاد کی مساعی جمیلہ میں مصروف چلا آرہا ہے اور مختلف اوقات میں جہاں مشاہیر اہلِ علم و فضل تعلیمی خدمات دیتے رہے ہیں وہاں بہت سی علمی شخصیات نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ یہ ادارہ اپنی تاریخ کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مراد آباد، اور مدرسہ معین الاسلام ہاٹ ہزاری، بنگلہ دیش کے ساتھ قدیم دینی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔

جامعہ فتحیہ کے مہتمم حافظ میاں محمد نعمان لاہور کی اہم سماجی و سیاسی شخصیت ہیں اور جامعہ کے نظام میں اپنے اسلاف کی بخوبی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کے ارشاد پر مجھے چند سالوں سے جامعہ فتحیہ میں جزوی طور پر تدریسی خدمات میں شرکت کی سعادت اس طرح حاصل ہو رہی ہے کہ ہفتے کے دن کو ظہر کے وقت حاضر ہوتا ہوں اور دورۂ حدیث شریف کے طلبہ کو بخاری شریف اور حجۃ اللہ البالغہ کے چند منتخب ابواب کا درس دیتا ہوں۔ جبکہ عصر کے بعد عوام الناس سے کسی عمومی موضوع پر گفتگو کا موقع مل جاتا ہے۔ اس دوران مشاورت سے یہ طے ہوا کہ کچھ خصوصی خطبات ’’احکام القرآن‘‘ پر دیے جائیں اور عصرِ رواں کے منتخب مسائل کو زیربحث لا کر انہیں حکمتِ قرآنیہ کی روشنی میں حل کیا جائے۔ اس پس منظر میں یہ چودہ خطبات دیے ہیں۔

اسلام کے خاندانی نظام کے مختلف پہلوؤں پر بات چیت ہوئی اور دینی مدارس کے کردار و مسائل اور آئندہ حکمت عملی پر بھی گفتگو ہوئی، اور کچھ نشستوں میں سرور کائنات ﷺ کی سیرت طیبہ کے کچھ حصوں پر گزارشات پیش کرنے کا شرف حاصل ہوا۔

جامعہ فتحیہ کے خطیب مولانا محمد سعید عاطف ہمارے قابل احترام دوست اور باذوق ساتھی ہیں۔ انہوں نے اس گفتگو کو بہت حد تک مرتب کر دیا ہے جس کا بیشتر حصہ خاندانی نظام کے بارے میں ہے۔ گفتگو تو سادہ اور عوامی سطح کی ہے مگر حافظ صاحب محترم کے حسنِ ذوق نے اسے مستقل کتاب کی شکل دے دی ہے۔ جس میں انہوں نے آیات و احادیث و اقوالِ سلف کی تخریج کے ساتھ ساتھ ضروری مقامات پر وضاحتی نوٹس شامل کیے ہیں، اور ان کے علاوہ میرے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں میں متعلقہ مضامین کو بھی اس کا حصہ بنایا ہے۔ آخر میں مصادر و مراجع کی فہرست بھی مرتب فرمائی ہے جو ان کے عمدہ تحقیقی ذوق کی علامت ہے۔ علاوہ ازیں ان خطبات کے آخر میں حافظ سعید صاحب نے میرے ایک پرانے مضمون بعنوان ’’انسانی اجتماعیت کے تقاضے اور اسلام کا عادلانہ نظام‘‘ کو بھی شامل کر دیا ہے، اس طرح سے کچھ عصری مباحث پر میری علمی رائے بھی ان خطبات کا حصہ بن گئی ہے (الحمد للہ)۔

حافظ صاحب موصوف کے شکریہ کے ساتھ تمام احباب سے میری درخواست ہے کہ جامعہ فتحیہ کے بانیان اساتذہ و طلبہ کے ساتھ ساتھ ہم دونوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ تا دمِ آخر اسی نوعیت کی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں اور قبولیت و رضا کے ساتھ انہیں ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔

(۱۲ جولائی ۲۰۲۲ء)

’’درس حجۃ اللہ البالغہ‘‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے افکار و فلسفہ کی تعلیم و اشاعت گزشتہ نصف صدی سے میری تدریسی اور تعلیمی سرگرمیوں کا محور چلا آرہا ہے، جو مجھے مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ سے ورثہ میں ملا ہے۔ اور اس میں دورۂ حدیث کے طلباء کو ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے کچھ ابواب پڑھانا بھی شامل ہے، جو بحمداللہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور طلباء کو جو بھی فائدہ ہو، خود مجھے اس سے استفادہ اور فیضیاب ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

ملک کے مختلف اداروں میں اس سلسلے میں محاضرات کی صورت میں گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا ہے اور بعض جگہ کچھ دوستوں نے کسی حد تک قلم بند بھی کیا ہے۔ اسی حوالے سے معہد الخلیل بہادر آباد کراچی میں حضرت مولانا محمد الیاس مدنی دامت فیوضہم کے ارشاد پر ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے کچھ حصوں پر گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی، اور اس کے ساتھ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کی شخصیت اور تعلیمات اور آج کے بین الاقوامی معاہدات سے امت مسلمہ، بالخصوص دینی حلقوں کو درپیش مسائل کے بارے میں بھی گزارشات پیش کیں، جنہیں ہمارے فاضل دوست مولانا اظفر اقبال صاحب نے مرتب کر کے کتابی شکل دی ہے اور مولانا فضل الہادی صاحب استاذ الحدیث جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ نے اس پر نظر ثانی کی ہے اور اب اسے اشاعت کے مرحلے سے گزار کر احباب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

میں اس کاوش پر مولانا اظفر اقبال صاحب اور مولانا حافظ فضل الہادی صاحب کا شکر گزار ہوں اور سب دوستوں سے دعا کا خواستگار ہوں کہ اللہ تعالیٰ اسے ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بنائیں اور زیادہ سے زیادہ دوستوں کے لیے نفع کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

(۳۰ نومبر ۲۰۲۲ء)

’’اسلام اور اقلیتیں: پاکستانی تناظر‘‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض محمود صاحب الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے پرانے رفقاء میں سے ہیں اور صاحبِ فکر و نظر استاذ ہیں۔ انہوں نے اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق و معاملات کا پاکستان کے تناظر میں جائزہ لیا ہے اور ایک ضخیم مقالہ میں مشکلات و مسائل پر اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے جس میں انہیں محترم خورشید احمد ندیم صاحب کی راہنمائی حاصل ہے۔ 

یہ موضوع نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں ایک اہم مباحثہ کا عنوان ہے جو امتِ مسلمہ کو درپیش سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل کے پس منظر میں اہلِ علم کی خصوصی توجہ اور مباحثہ و مکالمہ کا متقاضی ہے کیونکہ جدید پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا حل اصحابِ فکر و دانش کے آزادانہ مباحثہ و مکالمہ کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ مقالہ موجودہ صورتحال کے معروضی جائزہ، مسائل و مشکلات کے تعین اور ان کے حل کی طرف راہنمائی کرتا دکھائی دیتا ہے اور اس بحث میں خاطر خواہ اضافہ ہے۔ میں اس پر ڈاکٹر محمد ریاض محمود صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ ان کی یہ کاوش امتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کے لیے مفید ثابت ہو، آمین۔

(۴ اکتوبر ۲۰۲۴ء)

’’شام کی موجودہ صورت حال کا تاریخی پس منظر‘‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شام حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام کی سرزمین رہی ہے اور خاص طور پر سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی ذریتِ طیبہ کی علمی و دینی سرگرمیوں کا ہمیشہ مرکز رہی ہے۔ بیت المقدس اس کی عظمت کی علامت ہے اور اس ارضِ طیبہ پر مختلف اقوام کے استحقاق کا دعویٰ آج اقوامِ عالم کے مابین شدید کشمکش کا نقطۂ عروج دکھائی دے رہا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ملاحمِ کبریٰ‘‘ یعنی قیامت سے قبل نسلِ انسانی کی مسلسل جنگوں کا میدان شام کو بتایا ہے اور حالات بتدریج اس رخ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خاص طور پر پہلی جنگِ عظیم کے بعد فلسطین و شام میں یہودی اثر و نفوذ کے اضافہ اور بیت المقدس پر مسلمانوں کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے مسیحی اور یہودی قوتوں کا گٹھ جوڑ پوری دنیا کے امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر رہ گیا ہے، اس ماحول میں عرب سرزمین بالخصوص شام و فلسطین میں بپا بین الاقوامی کشمکش آج کی دنیا کا ایک سلگتا ہوا موضوع ہے جس پر راقم الحروف بھی نصف صدی سے اخبارات و جرائد میں اظہارِ خیال کرتا آ رہا ہے۔

غزہ اور شام کی صورت میں حالیہ تبدیلیوں نے اہلِ علم و فکر کو ایک بار پھر توجہ دلائی ہے اور مختلف اربابِ فکر و دانش اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں عزیزم مولانا حافظ کامران حیدر (فاضل جامعہ نصرۃ العلوم) نے راقم الحروف کے نصف صدی کے دوران شائع ہونے والے مضامین و بیانات کو زیرنظر مجموعہ میں مرتب کیا ہے جو ان کی کاوش و ذوق کی علامت ہے۔ امید ہے کہ اس سے احباب کو شام و غزہ کی موجودہ صورت حال کے دینی، سیاسی اور تاریخی پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اللہ پاک اس کاوش کو قبولیت و ثمرات سے نوازتے ہوئے ہم سب کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

(۲۸ دسمبر ۲۰۲۴ء)

’’ گذارشات برائے نگارشات‘‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

کتاب کے ساتھ تعلق والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور عمِ مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتی رحمہما اللہ تعالیٰ کی برکت و توجہات کے باعث بچپن سے ہے اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنے پڑھنے کا ذوق بھی ان بزرگوں کی عنایت سے چلا آ رہا ہے۔ بحمد اللہ تعالیٰ تحقیقی، معلوماتی، ادبی، تاریخی، تدریسی اور تجزیاتی ہر نوع کی کتابیں زیر مطالعہ رہی ہیں اور استفادہ کی سعادت سے بہرہ ور ہوتا آ رہا ہوں۔ مختلف جرائد کی ادارت کے دوران تبصرہ کے لیے آنے والی متنوع کتابوں کے علاوہ بعض دوستوں کے ارشاد پر ان کی تصانیف پر نقد و تبصرہ کا موقع بھی ملتا رہتا ہے۔ فرزند عزیز حافظ ناصر الدین خان عامر نے جرائد و کتب میں بکھری ہوئی ان سینکڑوں تحریروں کو یکجا کر کے حسنِ ذوق کے ساتھ مرتب کرنے کا اہتمام کیا ہے جو اس کے ذوق کے ساتھ ساتھ محنتِ شاقہ کا ثمرہ ہے، اور اس سے نصف صدی سے زائد عرصہ کو محیط متفرق گذارشات محفوظ ہو گئی ہیں، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔ اللہ تعالیٰ اس محنت و کاوش کو قبولیت و ثمرات سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع بخش بناتے ہوئے ہمارے لیے آخرت کا مقبول ذخیرہ بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔

(۱۲ دسمبر ۲۰۲۴ء)


تعارف و تبصرہ

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter