زبان کی برائی اور دل کی اچھائی

(یوٹیوب چینل Syed Ejaz Bukhari سے ایک ویڈیو کی گفتگو)

السلام علیکم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ 

آپ لوگوں نے اکثر یہ سنا ہو گا کہ وہ دل کا بہت اچھا ہے۔ زبان کا تھوڑا کڑوا ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔ یہ جملہ آپ نے بہت زیادہ سنا ہو گا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ دل کا کوئی کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو جائے، دل کا تو خدا کو ہی پتہ ہوتا ہے کہ دل میں کون کیسا ہے، ہمارے جو تعلقات ہوتے ہیں وہ زبان کے ہوتے ہیں زیادہ تر۔ اور زبان اگر آپ کی درست نہیں ہے،  آپ دل کے جتنے اچھے کیوں نہ ہوں، دنیا کو تو آپ کی زبان سے ہی پتہ لگے گا کہ آپ دل کے کتنے اچھے ہیں۔ 

میں نے اکثر دیکھا ہے کہ اگر ایک صاحب، شوہر سخت زبان رکھتا ہے، بیوی کے ساتھ وہ برے لب و لہجے کے ساتھ بات کرتا ہے تو اکثر ساس صاحبہ یہ کہتی سنائی دیتی ہیں کہ تم وہ نہ ہو، یہ دل کا بڑا اچھا ہے بس زبان کا تھوڑا کڑوا ہے۔ بعض اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ شادی بیاہ کرنے کے لیے جب رشتہ لے کر جا رہی ہوتی ہیں عورتیں، وہ بھی کہتی ہیں کہ دل کا بہت اچھا ہے، ہر ایک کا بڑا خیال رکھتا ہے، بس زبان کا تھوڑا سا ایسے ہے۔ 

تو دیکھیں! رشتے لہجوں سے بنتے ہیں، اور رشتے لہجوں سے خراب ہوتے ہیں۔ میں نے اس کے اوپر ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ لفظوں سے زیادہ لہجے لہو لہان کرتے ہیں۔ اور لہجہ، یہ جو آواز کا اتار چڑھاؤ ہے، ایک عام سی بات اگر آپ برے طریقے سے کہیں گے تو اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 

مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم اسے کیوں اس طرح سے دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اگر زبان کا سخت ہو گا تو ہم سمجھ جائیں کہ وہ دل کا بڑا اچھا ہے۔ وہ دل کا ہو سکتا ہے اچھا ہو، میں اس پر اعتراض نہیں کر رہا ہوں، لیکن دل کے اندر تو خدا بستا ہے، دل کے معاملات کو خدا جانتا ہے، جن لوگوں کے ساتھ ہمارے روزمرہ کے معاملات طے پاتے ہیں وہ تو ہماری زبان کے ساتھ طے پاتے ہیں۔ وہ ہمارے چہرے کے اوپر ہونے والی خوشی سے طے پاتے ہیں۔ چہرے کے اوپر ہونے والے دکھ، غم یا سختی کے ساتھ طے پاتے ہیں۔ تو دنیا تو اسی چیز کو جانتی اور دیکھتی ہے۔ اور آپ کے رشتے بھی اسی چیز کو دیکھتے اور جانتے ہیں۔ 

آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ بچوں اور والدین کے درمیان اگر کبھی کوئی تلخ کلامی ہوتی ہے تو کیا والدین دل کے اچھے نہیں ہوتے اپنے بچوں کے ساتھ؟ وہ تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔ لیکن بچہ دل کس بات پہ  خراب کر کے بیٹھا ہوتا ہے؟ زبان سے۔ اسی لیے میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ دل خراب ہوتے ہیں زبان ہے۔ آپ دل کے جتنے اچھے ہو جائیں۔ تو آپ لوگوں کے دلوں کو بچا سکتے ہیں اپنی زبان کو ٹھیک کر کے۔ آپ لوگوں کے دلوں کو بچا سکتے ہیں اپنے لب و لہجے کو ٹھیک کر کے۔ 

اور اس طرح کے اور کئی مقولے ہیں جو آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں، یا ان کی سمجھ اب آتی جا رہی ہے۔ تو آپ کو کوئی بھی کہے کہ وہ دل کا بہت اچھا ہے لیکن زبان کا خراب ہے، تو زبان کے خراب لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اور یہ بات آپ کو بھی سمجھنی ہے اور انہیں بھی سمجھنی ہے۔  دیکھیں حیوانِ ناطق جب انسان کو کہا گیا ہے تو اس کا مطلب کیا ہے، وہ بول سکتا ہے، وہ بات کر سکتا ہے، اور یہی فرق ہے۔ بولنے کے حوالے سے عرض کر رہا ہوں۔ آپ جب اس اعتبار سے اسے دیکھیں گے تو پھر آپ دھیان رکھیں گے۔  

پچھلے ہی دنوں مجھے شاید کہیں فیس بک پر کچھ پڑھنے کو ملا کہ یہ جو جذباتی لوگ ہوتے ہیں یہ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، جو منہ پہ آتا ہے کہہ دیتے ہیں، یہ دل کے اندر نہیں رکھتے چیزوں کو، یہ منافق نہیں ہوتے ہیں دوسرے لوگوں کی طرح جو اندر ہی اندر دل میں چیزوں کو پالتے رہتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے نہیں اور اسکیم بنا رہے ہوتے ہیں۔ 

ایسا نہیں ہوتا جناب! تو اس کا مطلب، اگر کوئی دل کا اچھا ہے اور جذباتی ہے، اور جو کچھ اس کے دل میں آ رہا  ہے وہ آپ کو بول دیتا ہے، تو حکمت کا کیا نام ہے؟ رشتوں میں حکمت چاہیے ہوتی ہے۔  کب، کیا، کیسے کہنا ہے؟ جن کو یہ بات سمجھ آجاتی ہے وہ دل کے برے ہوں یا اچھے ہوں، ان کی زبان اچھی ہوتی ہے۔ 

کئی لوگ کیا کہتے ہیں کہ وہ جی میٹھی چھری ہیں، وہ بڑے میٹھے میٹھے سلیقے طریقے سے بات کرتے ہیں لیکن آپ کو اندازہ نہیں کہ وہ اپنے اندر دل میں کیا کیا چھپا کے بیٹھے ہیں، تو ہم ایسے لوگ نہیں ہیں، ہم تو جی صاف صاف سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں منہ کے اوپر۔ 

یہ جو صاف صاف سیدھی سیدھی بات کرتے ہیں منہ کے اوپر، ان لوگوں سے معاشرے کو زیادہ نقصان ہوتا ہے  کیونکہ ان سے معاشرے کے اندر سٹریس بڑھتا ہے۔ ان سے معاشرے کے اندر خرابیاں اس طرح کی بڑھتی ہیں کہ لوگوں کے لب و لہجے خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ انہی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔  باقی جہاں تک تعلق ہے دل کے اندر آپ کسی کے لیے خراب خیال رکھتے ہو یا اچھا خیال رکھتے ہو، آپ منافق ہو، نہیں ہو، سچے ہو، کیا ہو، یہ تو آپ کا اور آپ کے رب کا معاملہ ہے۔ لیکن جو انسانوں کے ساتھ حقوق العباد کے حوالے سے آپ کا معاملہ ہے، وہ پھر یہی ہے۔ 

حقوق العباد پر بھی میں آپ سے بات عرض کرتا چلوں، کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک ریکارڈنگ کروائی تھی جس میں، میں نے کہا آپ اپنا خیال رکھیں۔ اس پر بھی باکمال لوگوں نے اپنے اپنے حساب سے کامنٹس کیے کہ میں خودغرضی کی دعوت دے رہا ہوں۔ ارے میں آپ کو آپ کا ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔ میں آپ کو خودغرض ہونے کی دعوت نہیں دے رہا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے یہ باتیں کہی ہیں، وہ شاید اس کو پورا نہیں سن پائے ہوں گے، جو بھی وجہ ہو گی، میں نے بڑا کلیئرلی اس کے اندر یہ بات ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ جو اپنا خیال رکھ سکتا ہے وہ دوسروں کا کتنا خیال رکھے گا! 

جب میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جو اپنا خیال رکھ سکتا ہے وہ دوسروں کا کتنا خیال رکھے گا، اس کا مطلب کیا ہوا، میں حقوق العباد کے حق میں نہیں ہوں؟ یا میں اس حق میں نہیں ہوں کہ آپ لوگ جو بھی ہیں، ان کو لوگوں کا خیال نہیں رکھنا چاہیے، یا رشتوں کا خیال نہیں رکھنا چاہیے۔ میرا تو کام ہی یہی ہے، میں کہتا ہی یہی ہوں کہ آپ اس طرح سے جئیں کہ آپ کے ساتھ رہنے والے بھی جی سکیں۔  اور آج کی گفتگو سے بھی آپ کو اس بات کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ میرے پاس میں ہوں کا مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہے کہ اور کوئی ہے ہی نہیں اس دنیا میں، اس کا بالکل یہ مطلب نہیں تھا۔ 

مجھے یہ بات کرتے ہوئے ذہن میں وہ بات آ گئی تو میں نے کہا اس کی وضاحت کردوں۔  ویسے وہ جڑ بھی جاتی ہے اس کے ساتھ کہ جب آپ دل کے جتنے اچھے ہو جائیں، آپ لوگوں کے لیے نقصان کا سبب ہوتے ہیں جب آپ زبان کے اچھے نہیں ہوتے۔ کیونکہ آپ اگر زبان کے اچھے نہیں ہوں گے تو لوگوں کے دل خراب ہوں گے۔ جب لوگوں کے دل خراب ہوں گے تو ان کے دماغ خراب ہوں گے۔ جب ان کے دماغ خراب ہوں گے تو پھر ان کی زبان خراب ہو گی۔ اور وہ جو خراب زبان ہے وہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس سے پھر جو زہر ہے، وہ معاشرے کے اندر تقسیم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ 

اس لیے میں آپ سب سے یہ گزارش کروں گا کہ اگر آپ ایسا ہےکہ  اونچا بہت زیادہ بولتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، لیکن آپ دل کے بہت اچھے ہیں، تو جناب آپ کے دل کا معاملہ آپ کے رب کے ساتھ ہے، لیکن آپ کی زبان کا معاملہ جہاں آپ کے رب کے ساتھ ہے وہاں ان لوگوں کے ساتھ بھی ہے جن کے ساتھ آپ کا نباہ ہے۔ آپ کی زبان سے اگر کسی کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ 

بلکہ حدیثِ مبارکہ بھی یہ ہے کہ مومن تو ہوتا وہی ہے جس کے ہاتھ سے، زبان سے محفوظ ہوں اس کے لوگ۔ جو اس کے اردگرد لوگ موجود ہیں۔ اور یہ سب عین ممکن ہے اگر آپ اپنی زبان کا خیال رکھتے ہیں۔ اور سب کو پتہ ہوتا ہے۔ جس گھڑی کوئی کسی کو کہے نا کہ یہ دل کا بہت اچھا ہے تو  اسے تو الرٹ ہو جانا چاہیے کہ کہیں اگلا جملہ وہ یہ نہ کہہ دے کہ زبان بس اس کی خراب ہے۔ 

زبان خراب ہونا سچا ہونے کی علامت نہیں ہے۔ جذباتی ہونا بھی سچا ہونے کی علامت نہیں ہے۔ اگر آپ جذباتی ہیں تو اس کا مطلب آپ سچے ہیں؟ دس لوگوں کے دل خراب کر دیے، ان کے دماغ خراب کر دیے، اور آپ کہیں کہ نہیں جناب میں بڑا سچا آدمی ہوں، مجھ سے منافقت نہیں ہوتی، میں تو جی سیدھا منہ کے اوپر بات کر دیتا ہوں۔ بالکل منہ پر بات کیجیے، لیکن کب، کہاں، کیسے کا خیال رکھ کر بات کیجیے۔ اور یہ منافقت نہیں ہے، یہ حکمت ہے۔ کوشش کریں کہ لوگوں کا خیال رکھیں اس اعتبار سے کہ آپ سے انہیں تکلیف نہ ہو۔ اور جب ہم کہیں کہ مجھ سے کسی کو تکلیف نہ ہو تو اس میں، میں سب سے زیادہ اپنا خیال رکھ رہا ہوتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری قبر خراب ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ اللہ کے حضور میں کل کو جا کر یں شرمندہ ہوں کہ میں نے اس کے ساتھ برا کیا تھا، یا اس کے ساتھ برا کیا تھا، یا اس کے ساتھ برا کیا تھا۔ 

اور تقویٰ کہتے ہی اسی کو ہیں کہ آپ کو اپنا اتنا خیال ہوتا ہے کہ آپ سے سارے جڑے لوگ جو ہیں، ان کے حقوق کا آپ خیال رکھنا شروع کر یتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ان کے حقوق کا اس طرح خیال رکھیں کہ اپنا حق ہی مار دیں۔ اور وہ میرے پاس میں ہوں کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا آپ کے اوپر حق ہے، اور اس کا خیال رکھنا آپ کا فرض ہے۔ 

خدا آپ کے اور ہمارے دلوں کو بھی منور رکھے، روشن رکھے، سب کے لیے اچھا رکھے، اور ساتھ ہی ساتھ ہماری زبانوں کو بھی اتنا میٹھا اور اچھا کرے کہ لوگ ہماری بات سنیں، ہماری بات سے لطف اندوز ہوں، اور ہم سے انہیں سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے۔ بہت شکریہ دھیان سے سننے کا۔  ہاں طرزِ اختلافِ رائے کا خیال رکھیں، اختلاف تو آپ کر سکتے ہیں۔ 

https://youtu.be/g9LU_mQ8XVY


دین و حکمت

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter