ڈچ سیاستدان یورام فین کلیفرین کا قبولِ اسلام

ٹی آر ٹی ورلڈ کا انٹرویو

عمران گارڈا: انٹرویو میں تشریف لانے کا شکریہ۔ 

یورام فین کلیفرین: دعوت دینے کا بہت شکریہ۔

عمران گارڈا: ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ مجھے نیدرلینڈز کے ایک سابق انتہائی دائیں بازو کے رکن پارلیمنٹ سے بات کرنے کا موقع ملے، جو اپنے ملک میں اسلام پر پابندی لگانا چاہتا تھا ، اور پھر فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے اپنا ذہن بدل لیا ہے اور میں مسلمان بننا چاہتا ہوں، اب میں ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتا جن پر پہلے یقین رکھتا تھا، اور میں اپنے پرانے عقائد کو مسترد کرتا ہوں۔ آسان لفظوں میں، یہ کیسے ہوا اور کیوں؟

یورام فین کلیفرین: میری پرورش ایک کافی پروٹسٹنٹ ماحول میں اور ایک روایتی خاندان میں ہوئی تھی۔  یہ کافی معمول کے مطابق تھا سوائے اس حقیقت کے کہ ہم ایمسٹرڈیم میں رہتے تھے۔ ایمسٹرڈیم یقیناً‌ ایک بہت ہی آزاد خیال شہر ہے، جبکہ ہم اتنے آزاد خیال نہیں تھے۔ ایک تو یہ بات تھی۔ میرا بچپن اچھا گزرا، لیکن میں ایک طرح کا پڑھاکو لڑکا تھا اور میں نے بہت سی کتابیں پڑھیں جو تقریباً ہمیشہ مذہب کے بارے میں ہوتی تھیں۔ ہم ایک پروٹسٹنٹ ماحول سے تھے جیسا کہ میں نے کہا، اس لیے میں نے کیلون، مارٹن لوتھر، زونگلی کے بارے میں بہت کچھ پڑھا۔ یہ لوگ اپنے نظریات کے حوالے سے تو سخت تھے ہی، کیونکہ وہ کیتھولک عیسائی نہیں تھے، لیکن ان کے اسلام کے بارے میں بھی بہت سخت جذبات تھے، اس لیے اس نے مجھے ایک نوجوان کے طور پر متاثر کیا۔ اور مثال کے طور پر جب میں نے اپنے والدین سے پوچھا، یا چرچ کے لوگوں سے کہ  مجھے اسے کس نظر سے دیکھنا چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ مسلمان ٹھیک ہیں لیکن ان کے نظریہ ہمارا نظریہ نہیں ہے۔ اور میرے ایک قریبی دوست کے والد جو خود پادری تھے، وہ بھی اسلام کے بارے میں بہت مضبوط تھے۔

عمران گارڈا: منفی معنوں میں مضبوط؟

یورام فین کلیفرین: منفی معنوں میں، ہاں۔ ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب میں نے ایمسٹرڈیم میں یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو وہ دن ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کا تھا۔ میرے اندر پہلے سے ہی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تعصب تھا اور پھر میں نے ان لوگوں کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے اندر جہاز تباہ کرتے دیکھا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ میں نے کہا واقعی یہ لوگ اس سے بھی زیادہ پاگل ہیں جتنا میں نے پہلے سوچا تھا۔ اور پھر چند سال بعد نیدرلینڈز میں ایک مشہور فلم ساز تھیو وان گو کو قتل کر دیا گیا، انہوں نے اسے گولی مار دی اور گلا کاٹنے کی کوشش کی، اور اس نے سڑک پر جان دے دی۔ یہ جگہ میرے پرانے گھر سے زیادہ دور نہیں ہے۔ تو میں نے سوچا کہ یہ لوگ واقعی ہمارے معاشرے کے لیے خطرہ ہیں، مجھے کچھ کرنا ہو گا۔ تو، اگر آپ ملک کو برائی کے ایک عالمی نظریے سے بچانا چاہتے ہیں تو سب سے مؤثر کام کیا ہے؟ تقریباً یہی میرا تصور تھا اور میں نے سوچا کہ مجھے سیاست میں جانا ہے کیونکہ تب آپ مؤثر ہو سکتے ہیں، آپ قانون تبدیل کر سکتے ہیں۔ پھر میں نے دیکھا کہ نیدرلینڈز میں سب سے زیادہ مخالف اسلام پارٹی کون سی ہے؟ ایک پارٹی تھی جسے فریڈم پارٹی کہا جاتا تھا اور یہ ابھی قائم ہوئی تھی، اس لیے میں نے (گیرٹ ولڈرز) کو ایک خط لکھا، ایک حقیقی خط، میں اس زمانے میں کچھ زیادہ ای میل استعمال نہیں کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ آپ کا بہت خیرمقدم ہے۔ تو اس طرح یہ سلسلہ شروع ہوا۔

عمران گارڈا: گیرٹ ولڈرز پارٹی کے رہنما تھے، یا پارٹی کے راہنما ہیں۔ میں اندازہ لگا رہا ہوں کہ آپ واقعی ان کے مداح تھے، کیا آپ نے ان سے بہت کچھ سیکھا؟

یورام فین کلیفرین: سیاسی معنوں میں، میں نے بہت کچھ سیکھا، ہاں یہ سچ ہے۔

عمران گارڈا: اسلام قبول کرنے کے بعد کیا آپ کی ان سے بات ہوئی ہے؟ 

یورام فین کلیفرین: نہیں، میں نے بس ٹیلی ویژن پر ان کا ردعمل دیکھا ہے اور ریڈیو پر کچھ باتیں کہتے سنا ہے۔ یہ ان کے لیے بھی ایک طرح سے عجیب تھا کیونکہ یہ سب اچانک ایک دن میں خبروں میں آیا تھا۔ پہلی چیز جس پر جس پر مجھے ہنسی بھی آئی کیونکہ یہ مقبولیت حاصل کرنے کی ایک بات تھی۔ لوگوں نے ایک لائیو شو کے دوران ان سے پوچھا کہ آپ کے دوست یورام فین کلیفرین کو کیا ہوا جو آپ کا دستِ راست تھا؟ انہوں نے کہا کہ مجھے تو یقین نہیں آتا، یہ بڑی عجیب بات ہے۔ اور پھر انہوں نے پوچھا کہ اب آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک سبزی خور کام کرنے کے لیے ذبح خانے جا رہا ہو۔ تو یہ ایک مقبولِ عام بات تھی، لیکن یہ ایک طرح سے مزاحیہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابلِ افسوس بات بھی تھی۔ 

عمران گارڈا: ان کے بارے میں آپ مزید کیا کہنا چاہیں گے۔ ہم انہیں ایک ایسے یک جِہتی شخص کے طور پر دیکھتے ہیں کہ جو بس مسلمانوں کو، اور شاید وسیع تناظر میں، غیر ملکیوں کو نیدرلینڈز سے باہر رکھنا چاہتا ہے، کیونکہ وہ شاید ایک سفید فام قوم پرست ہے یا اسلام دشمن ہے۔ ان کے بارے میں کیا بس یہی بات ہے، یا اس سے زیادہ ہے؟ 

یورام فین کلیفرین: بنیادی طور پر یہی بات ہے۔ انہوں نے واقعی اسلام سے لڑنے کے مقصد کے لیے تنظیم کی بنیاد رکھی۔ ایسے لوگ زیادہ نہیں ہیں جو کبھی مجھ سے کہیں کہ ٹھیک ہے لیکن ان کے پاس صحت کی دیکھ بھال یا تعلیمی نظام کے حوالے سے بھی کچھ سیاسی موقف ہیں۔ لیکن اندرونی طور پر انہوں نے ہمیشہ مجھے یہی کہا کہ اس سے فرق نہیں پڑتا، میں تو یہاں اسلام سے لڑنے کے لیے موجود ہوں۔ تو اصل میں بنیادی بات یہی ہے۔ اور تقریباً ہر وہ چیز جس کے بارے میں ہم نے بات کی ہمیشہ اسلام سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھتی تھی، اور اگر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا، تو انہوں نے اسے گڑھا تھا۔ 

عمران گارڈا: میں آپ سے یہ اس لیے پوچھ رہا ہوں کیونکہ میں آپ کی اُس وقت کی ذہنیت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ مجھے بتائیں کہ جب آپ نیدرلینڈز میں اسلام پر پابندی لگانا چاہتے تھے، آپ کیا سوچ رہے تھے؟ کیا آپ مساجد کے بارے میں سوچ رہے تھے؟ کیا آپ قرآن کے بارے میں سوچ رہے تھے؟ کیا آپ ان مراکشی اور ترک لوگوں کے بارے میں سوچ رہے تھے؟ جب آپ یہ سوچ رہے تھے کہ میں ان لوگوں کو اپنے معاشرے میں نہیں دیکھنا چاہتا، وہ خطرہ ہیں اور ایک برے نظریے کی نمائندگی کرتے ہیں، تو آپ کے ذہن میں کیا تھا؟

یورام فین کلیفرین: ڈچ میں ہم اسے  جو کہتے ہیں اگر انگریزی میں ترجمہ کریں تو مطلب ہے کہ اسلام کی بڑی علامتیں۔ جیسا کہ آپ نے کہا، یہ قرآن کے بارے میں ہے، مساجد ، اسلامی اسکول، اسلام کے بارے میں آپ جو بھی ظاہری چیزیں دیکھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر پردہ، حجاب، حلال کھانے، ایسی چیزوں پر ہم پابندی لگانا چاہتے تھے۔ اور کیونکہ یہ دراصل ایک سیکولر پارٹی بھی تھی، اس لیے یہ میرے لیے کبھی کبھی تھوڑا سا مشکل ہوتا تھا، کیونکہ میری پرورش ایک بہت ہی پروٹسٹنٹ طریقے سے ہوئی تھی اور میں عقیدتاً‌ ایک عیسائی تھا۔

عمران گارڈا: تو وہ یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ بائبل قرآن سے بہتر ہے۔ بلکہ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ چیز فطری طور پر بری ہے۔ کیا وہ اسے سیکولر نقطۂ نظر سے دیکھ رہے تھے؟

یورام فین کلیفرین: وہ بہت زیادہ سیکولر نقطہ نظر سے دیکھ رہے تھے، لیکن میں ذاتی طور پر نہیں۔ میں نے سوچا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ اسلام سے لڑنا ہے۔ تو میرا ذاتی طور پر یہ خیال تھا، جبکہ ان کا نقطۂ نظر سیکولر ہی تھا۔ اور پھر میں اسے اس طرح دیکھتا تھا کہ کچھ بھی ہو یہ اسلام سے تو بہتر ہی ہے، اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ یہ اسلام کے حوالے سے ظاہری چیزوں کے بارے میں تھا لیکن اصل میں ہم اسلام سے ایک نظریے کے طور پر لڑنا چاہتے تھے اور اس کا تعلق یقیناً‌ مسلمانوں سے بھی تھا۔ 

ب آپ پروگراموں اور بات چیت کو دیکھیں جو ہم پارٹی کے اندر کرتے تھے، تو یہ واقعی نظریے کے بارے میں تھا، لیکن بعد میں ۲۰۱۴ء میں ان کی طرف سے کچھ تبدیلی آئی۔ انہوں نے انتخابات کے دوران ایک ریلی میں لوگوں سے پوچھا کہ آپ نیدرلینڈز میں زیادہ مراکشی لوگ چاہتے ہیں یا کم؟ لوگ جواب میں چلّائے کہ کم، کم۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، میں اس بات کو ممکن بناؤں گا۔ 

میں وہاں نہیں تھا، میں اپنے حلقے کی ایک ریلی میں تھا ۔ کسی نے مجھے فون کیا اور کہا کہ یہ کیا ہے، یہ کچھ نیا ہے؟ میں نے پوچھا کہ کیاہوا؟ اس نے کہا کہ بس ٹیلی ویژن دیکھو، تو میں نے اسے ٹیلی ویژن پر لگایا کیونکہ پہلے میں پولز دیکھ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ واقعی کچھ نیا ہوا ہے۔ تو میں نے انہیں (گیرٹ ولڈرز کو) فون کیا کہ یہ کیا ہے؟ پھر ہماری اس پر بحث ہوئی کیونکہ میں پارلیمنٹ میں اسلام کے موضوع پر ان کا ترجمان تھا اور انہوں نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی کہ وہ یہ کہنے والے ہیں۔ ہمارا ایک طرح سے جھگڑا ہوا ، میں نے کہا کہ آپ کو اسے تھوڑا سا تبدیل کرنا ہوگا یا اس میں کچھ شامل کرنا ہوگا یا جو کچھ بھی آپ کر سکتے ہیں، کیونکہ میں وہ شخص ہوں (جس نے ترجمانی کرنی ہے)، اس بارے میں ہمیں بات کرنی ہو گی کیونکہ میرا نہیں خیال کہ ہم سب مراکشی لوگوں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 

عمران گارڈا: کیونکہ یہ ایک نسل پرستانہ موقف ہے، ہے نا؟

جواب؟ ہاں یہ نسلی حوالے سے تھا، نسل پرستی کے بارے میں۔ میں نے سوچا کہ میں واقعی اسلام سے نفرت کرتا ہوں لیکن ایسا نہیں تھا کہ میں نے تمام مراکشی لوگوں سے یا تمام ترک لوگوں سے نفرت کرتا تھا۔ کیونکہ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ فریڈم پارٹی کے لیے مراکشی اور ترک پس منظر والے لوگ بھی کام کر رہے تھے، اور یقیناً وہ مسلمان ہی نہیں تھے،  وہ سیکولر تھے، یا پھر وہ کسی اور مذہب سے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ ایک طرح کی بے وفائی ہے،  اور انہوں نے کہا کہ یہ ضمنی یا غیر ارادی  نقصان ہے، اور میں نے سوچا کہ اچھا! یہ میرے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ 

عمران گارڈا: یہ سیاست ہے، سیاست بری چیز ہے۔

یورام فین کلیفرین: ہاں، واقعی بری، تو میں نے سوچا کہ یہ میرے لیے ناقابل قبول ہے اس لیے میں نے کہا کہ ہمیں اسے تبدیل کرنا ہوگا ورنہ میں (عہدہ) چھوڑ دوں گا۔ (انہوں نے کہا کہ) آپ ایسا نہیں کریں گے۔ لیکن میں نے چھوڑ دیا۔ اور پھر آخر کار میرے پاس ایک دیرینہ خواہش پورا کرنے کا وقت آگیا کہ میں اسلام کے خلاف ایک کتاب لکھنا چاہتا تھا کیونکہ میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں اسلام کو خطرہ کیوں سمجھتا ہوں۔ اور ایسے بیانات کے طور پر نہیں جیسے آپ سیاست میں دیتے ہیں بلکہ ایک فکری انداز میں فریڈم پارٹی کے موقف کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ 

عمران گارڈا: اور آپ دائیں بازو کے اندر ایک معقول آدمی بننا چاہتے تھے کہ نہیں! میں صرف ایک متعصب آدمی نہیں ہوں۔

یورام فین کلیفرین: ہاں کم از کم یہی میں نے سوچا۔

عمران گارڈا: (آپ نے سوچا کہ)  میرے پاس اس کے لیے ایک مذہبی نقطہ نظر ہے، ایک فلسفیانہ نقطہ نظر ہے۔

یورام فین کلیفرین: زیادہ فلسفیانہ کیونکہ نیدرلینڈز میں زیادہ تر لوگ اب مذہبی نہیں ہیں کیونکہ آج کل یہ بہت زیادہ سیکولر ہو چکا ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہماری ثقافتی وراثت، جیسا کہ عیسائیت،  اسلام سے بہتر کیوں ہے۔ اور میں یقیناً اب بھی عیسائیت پر ہی یقین رکھتا تھا۔ لیکن بہت سے لوگوں کے لیے (نیدرلینڈز میں) عیسائیت اتنی ناپید نہیں ہے کیونکہ جب وہ کرسمس دیکھتے ہیں یا چرچ کی گھنٹی سنتے ہیں وغیرہ ، تو یہ سب ثقافت کا حصہ ہےجبکہ اسلام نہیں۔ تو میں بغیر بہت زیادہ عیسائی بنے اسے عیسائی نقطہ نظر سے بیان کر سکتا تھا، اس لیے میں یہی کرنا چاہتا تھا۔

عمران گارڈا: یہ تقریباً پرانے زمانے کی طرح کی کہانی ہے، جیسے آپ کے ہاں سینٹ پال دمشق کے راستے پر عیسائیوں کو ستاتے ہوئے اس ’’لمحے‘‘ کا سامنا کرتا ہےاور عیسائی بن جاتا ہے۔ عمر ابن الخطاب پیغمبر  کو قتل کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس دوران اسلام قبول کر لیتا ہے۔ تو کیا آپ کو ایسا لگا کہ آپ نے ایک کام پر کمر کسی ہوئی تھی اور پھر اچانک ایک تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس تبدیلی کے بارے میں بتائیں۔

یورام فین کلیفرین: یہ راتوں رات نہیں ہوا تھا، اس میں تقریباً تین سال لگےتھے  بلکہ اس سے بھی زیادہ، کیونکہ جب میں اسلام کے خلاف کتاب لکھ رہا تھا تو مجھے کافی زیادہ معلومات ملی جو ان چیزوں کے برعکس تھی جن کے بارے میں میرا خیال تھا کہ مجھے معلوم ہیں۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ جو کتابیں میں نے اسلام کے بارے میں پڑھیں ان میں پچانوے فیصد ایسی تھیں جو غیر مسلم لوگوں نے اسلام کے بارے میں لکھی تھیں۔ چاہے وہ 16ویں، 17ویں، 18ویں صدی کے لوگ ہوں یا آج کل کے لوگ۔  اور یقیناً اس سے آپ کے سوچنے کے انداز پر اثر پڑتا ہے کیونکہ معلومات کے حوالے سے جو چیزیں وہ آپ کو دیتے ہیں وہ  اصل بات نہیں ہے۔ اور مجھے اتنی زیادہ معلومات ملی کہ میں نے سوچا کہ یہ تو سب گڈمڈ ہو گیا ہے۔ تو مجھے کسی کی ضرورت تھی جو مجھے کچھ تصورات دے تاکہ میں اس معلومات کو نتیجہ خیز بنا سکوں۔ میں نے مختلف مذہبی حلقوں کو لکھنا شروع کیا جن میں علماء اور شیوخ بھی تھے۔ اور جن شیوخ کو میں نے لکھا ان میں سے ایک کیمبرج یونیورسٹی کے عبدالحکیم مراد تھے۔ میرا خیال تھا کہ  وہ کبھی جواب نہیں دیں گے، کیونکہ جب میں نے اپنا خط لکھا تھا تو آخر میں ایک چھوٹا سا ویکی پیڈیا لنک شامل کیا تھا جس پر میرے خلافِ اسلام خیالات کا ذکر تھا۔ 

عمران گارڈا: (گیرٹ) ولڈرز کا ولی عہد۔

یورام فین کلیفرین: ہاں۔  اور میں نے سوچا کہ وہ کبھی جواب نہیں دیں گے۔ جو کچھ میں جان چکا تھا تو میں اب اتنا خلافِ اسلام نہیں رہا تھا ، لیکن میں واقعی تسلی کرنا چاہتا تھا۔ اگرچہ مجھے اب بھی اسلام پسند نہیں تھا لیکن اب میں اتنا سخت نہیں تھا۔ میں نے ان سے بہت سے ایسے سوالات پوچھے تھے جن کے بارے میں میرے پاس جواب نہیں تھا۔ تقریباً چھ ہفتوں بعد، جیسا کہ مجھے یاد ہے، ایک ہفتہ کی شام مجھے ان کی طرف سے ای میل موصول ہوئی جو کہ بہت تفصیلی تھی۔ انہوں نے اس میں وضاحت کی اور میرے سوالوں کے دوٹوک جوابات دیے۔  اور یہ تجویز دی کہ اگر آپ اپنی تمام پرانی کتابیں دوبارہ پڑھ سکیں تو …  …آپ دیکھیں گے کہ ان لوگوں نے اسلام کے خاص موضوعات کے بارے میں لکھتے ہوئے غلط رخ اختیار کیا۔ انہوں نے کچھ چیزیں شامل کیں جو ان میں نہیں تھیں، اور کچھ چیزیں چھوڑ دیں جو ان میں موجود تھیں۔ ضروری نہیں کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا ہو، کبھی لوگ واقعی نہیں جان پاتے، یا ترجموں کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے۔ 

بہرحال آخر میں نتیجہ یہ نکلا کہ میرے پاس تقریباً دو اسلام تھے: ایک مستشرقین والا اسلام اور دوسرا اصل اسلام۔ یقیناً صرف ایک اسلام ہی ہے لیکن اس وقت میری یہی صورتحال تھی۔ چنانچہ بالآخر میں نے مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابوں سے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھنا شروع کیا، کیونکہ شیخ عبدالحکیم مراد نے مجھے بتایا کہ اگر آپ عیسائیت کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں تو آپ ایک ملحد کی کتاب نہیں پڑھتے، آپ عیسائیوں کی کتاب پڑھتے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کہ دلائل وغیرہ کیا ہیں۔ اسی طرح انہوں نے کہا کہ اگر آپ اسلام کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں تو آپ مسلمانوں کی کتابیں پڑھیں۔ میں نے سوچا ہاں یہ منطقی بات ہے، تو میں نے یہی کرنا شروع کیا۔

اس دوران کچھ ایسے شکوک و شبہات دوبارہ سامنے آئے جو مجھے بچپن میں تھے۔ کیونکہ جب میں چھوٹا تھا تو مجھے کچھ عیسائی عقائد جیسے تثلیث، کفارہ، مسیح کی قربانی، پیدائشی گناہگار وغیرہ پر شبہات تھے، جنہیں میں نے ایک طرف کر دیا تھا، کیونکہ جب میں نے ماضی میں مذہبی راہنماؤں سے مثال کے طور پر تثلیث کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مسیح خدا سے دعا کر سکتے ہیں جبکہ وہ خود خدا ہیں؟ تو میرے لیے یہ ایک معمہ تھا۔ جن لوگوں سے میں نے پوچھا وہ مجھے تسلی بخش جواب نہیں دے سکے تھے، لیکن میں نے یہ سوچ کر اسے ایک طرف کر دیا تھا کہ شاید میں اسے سمجھنے کے قابل نہیں ہوں۔

لیکن سالوں بعد جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا، وہ سوالات دوبارہ سامنے آئے کیونکہ مجھے اسلام اور عیسائیت کے درمیان یہ موازنہ کرنا پڑا۔ اور پھر میں نے توحید کا یہ تصور دیکھا، جسے میں  تقابلی مذہب کے ایک طالب علم کے پس منظر سے جانتا تھا  …لیکن یہ محض مطالعہ کی غرض سے تھا۔ میں اس وقت بھی ایک بہت ہی سخت عیسائی تھا۔ تب یہ میرے لیے ایک نقطۂ نظر تھا، لیکن اب بات کھل چکی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ یہ زیادہ منطقی بات ہے۔ 

پھر میں نے بائبل کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا  اور پرانا عہد نامہ دیکھا، جیسا کہ یہودیوں کی بائبل ہے، اس میں انہوں نے توحید کے بارے میں بات کی ہے کہ صرف ایک خدا ہے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں صرف یہ دیکھوں گا کہ خود یسوع نے کیا کہاہے، نہ کہ دوسرے لوگوں نے یسوع کے طور پر کیا کہا ہے۔ چنانچہ میں نے بائبل میں سے ان کے اقتباسات تلاش کیے۔ اور پھر یہ عبارت دیکھی کہ ایک شخص ان کے پاس آتا ہے اور پوچھتا ہے: ’’ اے اچھے آدمی! میں جنت میں کیسے داخل ہوں، میں جنت کیسے حاصل کروں؟‘‘  اور وہ کہتے ہیں کہ ’’پہلی بات یہ ہے کہ دو چیزیں ہیں‘‘۔ اور پھر وہ شمہ کہتے ہیں، یہ تقریباً‌ یہودیوں کی ’’شہادت‘‘ کی طرح ہے۔ وہ فرماتے ہیں: ’’اے اسرائیل سنو! صرف ایک خدا ہے‘‘۔اس پر میں نے سوچا کہ وہ صرف ایک خدا کا بتا رہے ہیں۔ اور پھر انہوں نے کہا کہ ’’اپنے پڑوسی کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا سلوک تم اپنے ساتھ چاہتے ہو‘‘۔

میں نے سوچا کہ اگر یسوع بھی ایک خدا کے بارے میں بات کرتے ہیں تو شاید اس اسلامی تصور میں بھی کچھ سچائی ہے۔ چنانچہ حقیقی توحید کو قبول کرنے کا معاملہ اس طرح سے شروع ہوا۔ البتہ میں تب بھی اسلام کے خلاف ہونے پر مطمئن تھا جس کی وجہ وہ شخصیت تھی جو ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان فرق کے طور پر موجود تھی،  اور وہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ ایک بدمعاش کی طرح کا برا آدمی (نعوذ باللہ)۔ کیونکہ بچپن سے میں نے جو کچھ پرانی کتابوں میں پڑھا تھا جیسا کہ مارٹن لوتھر وغیرہ، انہوں نے ان کے بارے میں تقریباً دجال کے طور پر بات کی ہے۔

یہی تصویر میرے ذہن میں تھی اور پھر میں نے ان تمام دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں سوچا، میں نے سوچا کہ ہاں وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو محمد نے بتایا تھا۔ لیکن جب میں مسلمانوں کی کتابیں پڑھ رہا تھا اور میں نے سیرت پڑھی اور میں نے مارٹن لنکس کی ایک کتاب پڑھی جو  حضرت محمدؐ کے بارے میں ابتدائی مآخذ سے ہے۔ پھر میں نے اچانک انہیں ایک باپ کے طور پر دیکھا، ایک دوست، ایک استاد اور ایک سیاستدان کے طور پر دیکھا۔ میں نے سوچا کہ یہ ایک متاثر کن آدمی ہے، چاہے مجھے وہ پسند ہو یا نہ ہو، اس نے کچھ خاص کام کیا ہے۔

پھر مجھے ہند (بنت عتبہ) کی کہانی ملی۔ یقیناً آپ ہند کی کہانی مجھ سے کہیں بہتر جانتے ہوں گے۔ وہ ابو سفیان کی بیوی تھی جو اسلام کا اور پیغمبر کا دشمن تھا۔ انہوں نے ان کے پسندیدہ چچا حمزہ کو میدان جنگ میں قتل کرنے کے لیے رقم ادا کی۔ اور وہ ان کے کان اور ناک کاٹنے کے بعد ان کے گرد دندناتے رہے۔ تو میں نے سوچا کہ یہ بہت خوفناک (منظر) ہے۔ 

سالوں بعد محمدؐ مکہ میں اقتدار میں آئے اور ہند ابھی بھی وہاں تھی۔ تو میں کتابیں پڑھ رہا تھا کہ اب اسے مصلوب کیا جائے گا، اب اسے قتل کیا جائے گا، لیکن پھر اچانک لوگ۔

عمران گارڈا: آپ اس لمحے کا انتظار کر رہے تھے۔

یورام فین کلیفرین: ہاں میں واقعی اس کا انتظار کر رہا تھا کہ وہ کیسے مرتی ہے؟ لیکن آخر میں کوئی نبی کے پاس آیا اور بتایا کہ ہند ابھی بھی یہاں ہے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے خون بہانا ختم ہو چکا ہے، جو بھی یہاں مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے  تو یہ نئے اصول ہیں، آپ رہ سکتے ہیں، اگر آپ نہیں چاہتے تو چلے جائیں، اب کوئی انتقام نہیں۔

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اگر ان میں معاف کرنے کا اور انتقام نہ لینے کا حوصلہ تھا تو یہ بڑی خاص بات ہے۔ وہ ایک بدمعاش، برے آدمی، یا دجال نہیں ہو سکتے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ کے پسندیدہ چچا، آپ کے رشتہ داروں میں سے ایک کو اس طرح مارا گیا کہ انہوں نے اس کے جسم کو بھی کاٹ ڈالا۔ اور پھر آپ سالوں بعد کہتے ہیں کہ آپ کو معاف کر دیا گیا ہے۔ اور سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ آخر میں وہ (ہند) مسلمان ہو جاتی ہے۔

تو یہ میرے لیے سوئچ کی طرح تھا، اور میں نے سوچا کہ یہ آدمی تو کچھ اور ہے۔ یہ وہ تصویر نہیں تھی جو میرے ذہن میں تھی۔ اس لیے میں نے پڑھنا شروع کیا، اور پڑھنا شروع کیا، یہ تھوڑا سا جذباتی لگتا ہےلیکن  آخر میں، میں اسلام سے محبت کرنے لگا۔ میں مزید جاننا چاہتا تھا اور مزید پڑھنا چاہتا تھا،  خاص طور پر نبی کی زندگی کے بارے میں۔ اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقعی یہ آدمی ایک نبی ہے۔ اگر میرے پاس اپنے دلائل ہیں کہ مثال کے طور پر موسیٰ، عیسیٰ، ابراہیم سب نبی تھے، تو میرے پاس اس آدمی، اس آخری نبی کے خلاف دلائل نہیں ہیں۔ تو میں نے سوچا کہ شاید وہ نبی ہے۔ لیکن پھر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اگر آپ کہتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہے اور محمد اس کے رسول ہیں، یہ تو عملی طور پر شہادت ہے۔ میں نے کہا اوہ! یہ ایسی چیز ہے جو میں نہیں چاہتا۔

پھر بھی میں مسلمان نہیں بننا چاہتا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ ایک متاثر کن آدمی ہے جیسا کہ اس کا تصور ہے لیکن بس اتنا ہی۔ جب میں اپنی کتاب لکھ رہا تھا تو میز پر بہت سی دوسری کتابیں تھیں۔ یہ واقعہ کچھ پریوں کی کہانی کی طرح لگتا ہے اور میں اسے متعدد مواقع پر بتا چکا ہوں۔ جب میں نے اپنی تمام کتابیں ایک طرف رکھ دیں کیونکہ میں نے سوچا کہ میں لکھنا بند کر دیتا ہوں اور بس۔ جب میں اپنی تمام کتابیں سمیٹ رہا تھا تو بھری ہوئی شیلف سے کچھ کتابیں گر گئیں۔ جو کتابیں گریں ان میں سے ایک قرآن تھا۔ یہ کھلا ہوا گرا تھا،  میں نے جب اسے اٹھایا تو اس پر میرا انگوٹھا تھا، میں نے اسے الٹایا تو سورہ 22 کی آیت 46 میرے سامنے تھی، جو یہ کہہ رہی تھی کہ ’’یہ آنکھیں نہیں بلکہ دل ہیں جو اندھے ہیں۔‘‘

میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ہاں واقعی میرا یہی مسئلہ ہے۔ کیونکہ میں واقعی دیکھ سکتا تھا کہ میں نے خود کیا لکھا ہے، کسی نے مجھے وہ کتاب لکھنے پر مجبور نہیں کیا، یہ حقائق ہیں، لیکن میں اب بھی اسلام کو قبول نہیں کر سکتا۔ تو یہ علم کا مسئلہ نہیں ہے، یہ حقائق کا مسئلہ نہیں ہے، یہ کچھ اور ہے، یہ دل کا مسئلہ ہے۔ یہ جذباتی لمحہ تھا، پھر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ شاید اسلام سچ ہے۔ پھر میں نے ایک چھوٹی سی دعا کی۔ میں نے کہا: ’’اے رب! مجھے پرواہ نہیں ہے کہ یہ عیسائیت کا خدا ہے یا اسلام کا، ، بس ہم جانتے ہیں کہ کوئی خدا موجود ہے‘‘۔ میں خدا پر یقین رکھتا تھا۔  ’’مجھے کوئی نشانی  وغیرہ دو‘‘ ۔ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی اڑتی ہوئی مخلوق یا بارش یا کچھ سامنے نہ آیا۔ 

عمران گارڈا: کوئی فرشتے نہیں؟

یورام فین کلیفرین: کوئی فرشتے نہیں۔  میں سو گیا، لیکن اگلی صبح جب میں اٹھا تو میں نے بڑی حفاظت اور سکون اور اطمینان محسوس کیا۔ اور پھر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ میں مسلمان بنوں گا۔ 

عمران گارڈا: انہوں نے کیسے رد عمل ظاہر کیا؟

یورام فین کلیفرین: وہ بہت اچھی اور پرسکون تھی۔اس نے کہا کہ میں نے یہ تبدیلی دیکھی ہے، کیونکہ شروع میں میز پر بہت سی کتابیں تھیں اور ان میں سے ایک کتاب ڈچ میں ہے جو ’’اینڈ گیم‘‘ کہلاتی ہے اور یہ اسلام اور غیر مسلم دنیا کے درمیان آنے والی جنگ کے بارے میں ہے۔ اور پھر یہ سلسلہ ایک کتاب کے ساتھ ختم ہوا  جو ’’اسلام، غلط سمجھا گیا مذہب‘‘ تھی۔ اس نے کہا کہ میں نے یہ تبدیلی آتے دیکھی ہے۔ وہ بہت اچھی تھی لیکن بہت سے دوسرے لوگ اتنے معاون نہیں تھے۔ میرے زیادہ تر پرانے دوست بہت غصے میں  اور بہت جارحانہ تھے۔ کچھ حامی لوگ جنہوں نے مجھے ووٹ دیے تھے، وہ بھی۔

عمران گارڈا: انہوں نے دھوکہ محسوس کیا کیونکہ آپ نے ان پر اثر ڈالا تھا اور انہیں قائل کیا تھا کہ یہ لوگ دشمن ہیں۔ اب آپ کہہ رہے تھے کہ میں ان کی طرف جا رہا ہوں۔

یورام فین کلیفرین: ہاں یقیناً۔  یہ ’’جو بوئے گا وہی کاٹے گا‘‘ جیسا ہے۔ ہاں واقعی، جیسا کہ آپ نے کہا، میں نے یہ سب کہا تھا، میں نے لوگوں کو متاثر کیا تھا، میں نے ان کی ایک طرح سے راہنمائی کی تھی۔ اور پھر جب میں کہتا ہوں کہ میں نے اپنا ذہن بدل لیا ہے، میں غلط تھا، یہ غلط تھا، تو یہ بالکل مختلف تھا۔ جیسا کہ آپ نے کہا، لوگوں نے واقعی دھوکہ دہی محسوس کی۔ مجھے تب جھٹکا لگا جب انہوں نے کہا کہ اب آپ نسل کے غدار بن چکے ہیں۔ میں نے اپنے آپ سے کہا، ٹھیک ہے میں مذہب سے غداری کا، ملک سے غداری کا تصور سمجھتا ہوں، جو بھی آپ کہیں، لیکن نسل کی غداری!

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی نسل کے غدار سے کیا مراد ہے؟ (انہوں نے کہا) آپ ایک سفید فام یورپی آدمی ہیں، آپ مسلمان نہیں ہو سکتے، یہ مضحکہ خیز ہے، یہ ممکن نہیں ہے۔ اور میں نے ان سے کہا کہ اور بھی سفید فام مسلمان ہیں بلکہ ممالک بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایک نام بتائیں۔ میں نے کہا کہ بوسنیا، البانیہ وغیرہ۔ (انہوں نے کہا) ٹھیک ہے، یہ اور بات ہے۔ بہرحال یقیناً یہ منطقی ردعمل نہیں ہے لیکن یہ ایسی چیز تھی جو لوگوں نے واقعی محسوس کی۔

آپ دیکھتے ہیں کہ اسلام کے خلاف یہ تاریخی تعصب ہے کیونکہ بطور یورپی۔ عبدالحکیم مراد نے ایک بہت ہی خوبصورت کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’ٹریولنگ ہوم‘‘ ہے، یہ ان کی تازہ ترین کتاب ہے، اور وہ اس بارے میں بات کرتے ہیں کہ یورپیوں نے اپنے آپ کو پہلی بار قدیم ترین متون میں کیسے پایا۔ یہ سال 754  سے ہے اور 732 کے سال میں ٹورز (پوئٹیئرز) میں ہونے والی جنگ کے بارے میں ہے جب مسلمان فرانس میں آئے تو انہیں روک دیا گیا۔ لیکن سالوں بعد لوگوں نے اس جنگ کے بارے میں لکھا۔ ... ہمارے پاس سب سے قدیم تحریری متن جس میں یورپیوں نے اپنے آپ کو یورپیوں کے طور پر دیکھا۔ میں نے (نسل کا غدار کہنے والوں سے) کہا کہ ہم وہ نہیں ہیں۔ جب آپ انہیں ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ تصور یورپی معاشرے میں بہت گہرائی میں پایا جاتا ہے کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔

عمران گارڈا: اب جبکہ آپ اس دنیا میں ہیں جسے ہم اسلام کی دنیا کہہ سکتے ہیں، اس حقیقت کا کہ آپ نے اسلام قبول کیا ہے، یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ موجود نہیں ہیں جنہوں نے عمارتوں میں جہاز تباہ کیے، یا جو کچھ بھی انہوں نے کیا اسے اسلام کے نام پر کرنے کا دعویٰ کیا۔ ہمارے ہاں مسلم دنیا میں ’’یورام فین کلیفرین‘‘ کے انتہائی دائیں بازو کے اپنے ورژن ہیں، نوجوان ورژن، یا گیرٹ ولڈرز کے ورژن۔ ایسے لوگ جو نہیں چاہتے کہ مسلمان آپ جیسے یا عبدالحکیم مراد جیسے سفر سے گزریں،جو پہلے ٹموتھی ونٹر تھے اور مسلمان ہو گئے۔ تو مسلم دنیا کے اندر مسائل ہیں۔ سیاست ہے، دہشت گردی ہے، آمریت ہے، لوگ مذہب کے نام پر خوفناک کام کر رہے ہیں، مذہب کو مظالم کے لیے، دوسروں کو دبانے کے لیے سہارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ جبکہ آپ یہ سب دیکھ رہے ہیں، جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ ابھی بھی مسلمان ہونے کے ایک قسم کے ابتدائی مرحلے میں ہیں۔ مجھے بتائیں کہ آپ کے ذہن میں کیا چل رہا ہے؟

جواب: بات یہ ہے کہ میں پہلے ہی ان چیزوں کو جانتا تھا کیونکہ اسلام کے بارے میں میرا اپنا نظریہ یہی تھا۔ میں نے سوچا کہ مسلمان ایسے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن جب وسیع تناظر میں دیکھتے ہیں ، میں نے اس کا موازنہ کیا، میں نے کہا کہ مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں KKK کی وجہ سے عیسائی نہیں ہو سکتا، یہ امریکہ کی ایک بہت ہی پروٹسٹنٹ تنظیم ہے، بہت زیادہ نسل پرست، انہوں نے ان سب افریقی امریکیوں کو قتل کیا، لوگوں کو جلایا، لوگوں کی عصمت دری کی، بہت ہی خوفناک کام کیے، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک عیسائی تنظیم ہیں، ہم یسوع مسیح کی مرضی پوری کر رہے ہیں۔ یقیناً یہ ناقابلِ فہم ہے اور یہ مضحکہ خیز ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں۔ اور اسی طرح میں ’’بوکو حرام‘‘ جیسے لوگوں کو دیکھتا ہوں۔  اگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سچے مسلمان ہیں لیکن ہم ان بچوں کو اغوا کرتے ہیں اور ہم یہ سب خوفناک کام کرتے ہیں لیکن ہم مسلمان ہیں۔ میرے لیے یہ ایک جیسا ہے، اس لیے یہ اصل چیز نہیں ہے۔

مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا تھا کہ میں KKK کی وجہ سے عیسائی نہیں ہو سکتا۔ اور مجھے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ میں کسی ایسی تنظیم کی وجہ سے مسلمان نہیں ہو سکتا جو ایسے کام کرتی ہے جو ان طریقوں کے مطابق نہیں ہیں جو ہمارے نبی محمدؐ ہمیں سکھاتے ہیں۔ تو مجھے یہ بات صحیح نہیں لگتی۔ بہرحال جیسا کہ آپ نے کہا کہ یہ دنیا ہے، جہاں خبطی لوگ ہر جگہ موجود ہیں۔ 

عمران گارڈا: یورام فین کلیفرین! آپ بہت پرکشش شخصیت ہیں، کاش ہمارے پاس زیادہ وقت ہوتا، لیکن میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں، یہ واقعی بہت اچھا رہا۔

یورام فین کلیفرین: بہت شکریہ۔

https://youtu.be/IeuWdpFp9nY

وائس آف امریکہ کا انٹرویو

(گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جانب سے پہلی مرتبہ اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منایا گیا، لیکن اب بھی کئی مغربی ممالک میں ایسے گروپس اور سیاسی پارٹیاں نظر آتی ہیں جن کے ایجنڈے میں مسلمانوں سے نفرت شامل ہے۔ فریڈم پارٹی نیدرلینڈز کی دائیں بازو کی ایسی ہی ایک جماعت ہے۔ اس جماعت کے ایک اسلام مخالف، سرگرم رکن یورم وان کلیورن نے چند سال قبل اپنے نظریات تبدیل کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ وی او اے کی آعیزہ عرفان کے ساتھ ان کی گفتگو — وائس آف امریکہ)


یورام فین کلیفرین: میں ایک اسلام مخالف سیاسی جماعت کا رکن تھاجو میرے خیال میں یورپ میں سب سے زیادہ اسلام مخالف جماعت ہے، اور شاید دنیا میں بھی۔  اور گیرٹ وِلڈرز اس کا راہنما ہے، وہ بھورے بالوں والا شخص، کچھ لوگ اسے جانتے ہوں گے، میں اس کاخاص آدمی تھا۔ میں پارلیمنٹ میں اسلام پر بات کرنے کے لیے فریڈم پارٹی کا ترجمان تھا۔ میں واقعی اس کا قائل تھا کہ اسلام ایک خطرہ ہے، یہ ایک غلط مذہب ہے، اور میں پورے مذہب سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ 

اسلام کے بارے میں میرے خیالات میں میری مذہبی تعلیم و تربیت کا بہت دخل تھا۔ کیونکہ میری پرورش ایک بہت سخت پروٹسنٹ مذہبی روایت میں ہوئی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے والدین مذہب کے بارے میں بہت سخت تھے، لیکن میں ایک طرح کا پڑھاکو لڑکا تھا، لہٰذا میں نے بہت ساری کتابیں پڑھیں۔ بعد میں، میں نے ایمسٹرڈیم یونیورسٹی میں تقابلی مذہب کا مطالعہ کیا۔ لیکن کالج جانے کا میرا پہلا دن، یہ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء تھا، اس دن ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ہوا۔   

میں پہلے ہی تھوڑا متعصب تھا، پھر میں نے ایسا ہوتے دیکھا۔ اور میرے کالج کے دنوں میں نیدرلینڈز کے ایک مشہور فلمسساز تھیو وین گو تھے، اور انہیں ایک ایسے شخص نے سڑک پر قتل کر دیا جو خود کو جہادی کہتا تھا۔ میں پہلے سے ہی اسلام کے بارے میں منفی سوچ رکھتا تھا۔ اور پھر میں نے ان مسلم لوگوں کو ایسے کرتے دیکھا اور میں نے سوچا، یہ سب تو پاگل ہیں، مجھے اپنے ملک کی حفاظت کرنی ہے۔ 

میں سمجھتا تھا کہ اسلام نیدرلینڈز کے لیے، یورپ کے لیے، بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ اور میں اپنے ملک سے اسلام کو مٹا دینا چاہتا تھا۔ اس میں اسلام کے تمام ظاہری نشان شامل تھے۔ چاہے وہ حجاب ہویا قرآن، یا اسلامی اسکول۔ میں ایک علمی کتاب لکھنا چاہتا تھا کہ اسلام مخالف سیاستدان ہونے کے ناطے میں اسلام کو برا یا خطرہ کیوں سمجھتا ہوں۔ اور میں لوگوں کو اس کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ یہ کوئی سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ ایک مذہبی بیان تھا، اور اس میں کچھ سیاست بھی شامل تھی۔ 

لہٰذا میں نے ایک کتاب پڑھنا شروع کی اور پھر دوسری کتاب، ایک مضمون پھر دیگر مضامین۔ چنانچہ آخر میں  اس نے اسلام کے بارے میں میرا نقطۂ نظر بدل دیا۔ کیونکہ میں نے تقریباً‌ دو اسلام دیکھے۔ ایک اسلامی روایات کے علماء کا اسلام، یعنی اصل بات۔ لیکن میں نے مستشرقین کا اسلام بھی دیکھا۔ اور یہ بیشتر دو مختلف مذاہب جیسے لگے۔ 

بہت کچھ موازنہ کرنے کے بعد،خاص طور پر خدا کے تصور، اللہ کے تصور پر میں نے سوچا، ہاں میرے خیال میں یہ زیادہ منطقی ہے۔ اور میں نے بائبل کو اسلامی نقطۂ نظر سے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ تو میں نے یسوعؑ کو ایک خدا کے بارے میں بات کرتے دیکھا، اور میں نے موسٰیؑ کو ایک خدا کے بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا، اور ابراہیمؑ کو۔ تو میں نے سوچا، مجھے لگتا ہے کہ یہ سچ ہے۔ 

 آعیزہ عرفان: جب آپ نے اسلام قبول کیا تو آپ کے خاندان، دوستوں، سابق ساتھیوں کا ردعمل کیا تھا؟ 

یورام فین کلیفرین: زیادہ تر لوگوں  کا ردعمل منفی تھا۔ اور خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے میری حمایت کی، جنہوں نے مجھے ووٹ دیا، وہ بہت غصے میں تھے۔ مجھے دو ہزار سے زیادہ جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملیں اور لوگوں نے برا بھلا کہا، گلیوں میں چلّائے، اس طرح کی چیزیں ہوئیں۔ میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ملک میں یہ اسلام مخالف ماحول پیدا کیا۔ تو ہاں، یقیناً‌ مجھے ردعمل ملنا تھا۔ سو وہی ہوا جو ہونا تھا۔ 

 آعیزہ عرفان: کیا یورپ میں سیاستدانوں کی جانب سے مذہبی منافرت کو مقبولیت حاصل کرنے اور زیادہ ووٹ حاصل کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟ 

یورام فین کلیفرین: جی ہاں، لیکن جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ واقعی اس بات پر قائل ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ میں اسلام سے نفرت کرتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک خطرہ ہے، وغیرہ وغیرہ، تو یہ ان لوگوں کے لیے کھیل نہیں ہے۔ بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ واقعی اسلام مخالف ہے؟ کیا وہ واقعی مذہب سے نفرت کرتا ہے؟  یا یہ صرف سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے ہے؟ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی سیاسی جماعت کا ایجنڈا پورا ہو جائے۔ چنانچہ لوگوں کے لیے یہ کھیل نہیں ہے۔ وہ واقعی اسلام سے نفرت کرتے ہیں۔ لیکن پھر بھی تقریباً‌ پچھتر فیصد کو اسلام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 

رسول اللہ محمدؐ، اگر ہم واقعی ان کی پیروی کرتے، جس طرح وہ سوچتے تھے، جو ان کا عمل تھا، جس طرح وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ سلوک کرتے تھے، تو میر ےخیال میں دنیا میں امن قائم ہو جائے گا، لیکن لوگ ایسا نہیں کرتے۔

https://www.youtube.com/watch?v=KEgK0CDiyCo

عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter