آخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے اور غزہ میں سیز فائر کی کئی ناکام کوششوں کے بعد پندرہ مہینے سے جاری خوفناک اسرائیلی جارحیت رک جانے کی اب قوی امید پیدا ہوئی کہ ایک عارضی جنگ بندی حماس اور قابض اسرائیل کے درمیان ہو گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں حماس نے تین اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دیا ہے جو سب لڑکیاں تھی۔ ان کو حماس نے گفٹ دے کر ریڈ کراس کے حوالہ کیا، اس کے بدلے میں 95 فلسطینی قیدی رہا کیے گئے جن میں خواتین اور بچے اور نوجوان شامل تھے۔ ان میں فلسطینی ایکوسٹ خالدہ جرار اور ندا الزغیبی بھی شامل تھیں۔ مغویوں کی رہائی کے لیے حماس نے وسطی غزہ کا انتحاب کیا اور اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا۔ جس کو دیکھ کر اسرائیل کے سارے دعووں کی قلعی کھل گئی کہ حماس کو بڑی حد تک ختم کیا جا چکا ہے۔ غزہ کے لوگ جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے:
حط السیف قبال السیف احنا رجال محمد ضیف (لوہے کو لوہے نے کاٹا، ہم سب محمد ضیف کے آدمی ہیں)
یاعبیدہ یاحبیب اضرب بسیفک تل ابیب (اے ابوعبیدہ اے پیارے تل ابیب پر ضرب لگاؤ)
کلنا یحییٰ السنوار غزۃ انتصرت یاسنوار (ہم سب یحیی سنوار ہیں، سنوار دیکھو غزہ جیت گیا)
اس سیز فائر میں قطر کا کردار ثالث کا رہا اور بہت فعال رہا جبکہ مصر اور امریکہ کے نمائندے بھی دوحہ قطر میں موجود رہے۔ اس عارضی جنگ بندی کے سولہ دن کے بعد جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے فریقین میں پھر سے مذاکرات ہوں گے۔ اس سیز فائر کا اعلان قطر کے وزیراعظم محمد بن عبد الرحمٰن ثانی نے ۱۶ جنوری کی رات کو کیا۔ شہرِ عزیمت غزہ کے مظلوم، بے سہارا لیکن استقامت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے باشندوں نے راحت کی سانس لی اور خوشیاں منائیں۔ اہلِ غزہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے عمان، دمشق، بیروت، طنجہ کے علاوہ لندن و نیویارک میں بھی لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ اب لٹے پٹے فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ غاصب و جارح اسرائیل نے ان کا سب کچھ تباہ و برباد کر ڈالا ہے۔
امریکی صدر جوبائڈن نے اس کو Hostage ڈیل کہا اور اسے اپنی ناکام حکومت کے کھاتہ میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اس صہیونی امریکی نے اپنی خفت مٹانے کے لیے یہ بھی کہا کہ اُس نے بنجمن نتن یاہو کو غزہ کی کارپیٹ بامبنگ سے منع کیا تھا مگر نتن یاہو نے اس کی ایک بھی نہیں سنی۔ اس سے امریکی حکومت کے خبثِ نیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ ہوں یا جوبائڈن، بلنکن یا اور کوئی عہدہ دار یہ سب لوگ اپنے بیانات میں صرف اور صرف اسرائیلی قیدیوں کی بات کرتے ہیں۔ اسرائیل نے جس طرح پورے غزہ کو برباد کیا، جس طرح ایک لاکھ کے قریب بے قصوروں اور معصوموں کا قتل عام اور زخمی کیا اُس پر یہ کوئی بات نہیں کرتے، بس یہ کہتے ہیں کہ ایسا کرنا اسرائیل کی مجبوری تھی کیونکہ حماس والے عام فلسطینی شہریوں میں گھلے ملے تھے۔
یاد رہے کہ ایک محتاط اندازہ کے مطابق 47 ہزار فلسطینی اسرائیل کی بے محابا بمباری سے شہید ہو چکے ہیں جن میں 17 ہزار سے زیادہ معصوم بچے اور عورتیں ہیں۔ بلکہ نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اس کو 64 ہزار بتایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جتنے اعداد و شمار دیے جا رہے ہیں اصل تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ اس معاہدے میں نہ صرف موجودہ بائڈن حکومت کے نمائندے قطر میں تھے بلکہ ٹرمپ نے بھی اپنے نمائندے اسٹیووٹکوف کو وہاں بھیجا ہوا تھا جو بڑا متشدد قسم کا اسرائیل کا حمایتی ہے اور نتن یاہو کا معتقد۔ یہ وہ شخص ہے جس نے نتن یاہو کے امریکی کانگریس سے خطاب کے وقت کوئی پچاس بار اس کے لیے تالیاں بجائی تھیں اور نتن یاہو سے اپنی ملاقات کو ایک روحانی تجربہ قرار دیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ نتن یاہو کو اس معاہدے کے لیے آمادہ کرنے میں اس کا خاص رول رہا ہے۔
اس عارضی صلح کے تین مرحلے ہوں گے:
پہلے مرحلہ میں جو چھ ہفتوں یعنی 42 دن پر محیط ہوگا، اسرائیلی فوج غزہ سے پیچھے ہٹے گی لیکن انخلاء نہیں کرے گی۔ حماس ۳۳ غیر فوجی اسرائیلی قیدیوں کو جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے ہوں گے، رہا کرے گی۔ اور بدلے میں اسرائیل اپنی جیلوں سے ایک اسرائیلی کے بدلے 50 فلسطینیوں کو چھوڑے گا۔ روزانہ چھ سو امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے جن میں سے تین شمالی غزہ کے لیے خاص ہوں گے۔ ہر ہفتہ تین اسرائیلی یرغمالی رہا ہوں گے۔ یاد رہے کہ سات اکتوبر کے تاریخی طوفان الاقصیٰ حملہ میں حماس نے دو سو سے زیادہ اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے بہت سے اسرائیل کی اندھادھند بمباری میں مارے گئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں سے 94 لوگ ابھی زندہ ہیں۔
دوسرے مرحلہ میں جو کہ چھ ہفتوں کا ہوگا اسرائیلی فوج نتساریم کوریڈور کے ذریعہ غزہ سے باہر جائے گی۔ اور تمام اسرائیلی قیدی چھوڑ دیے جائیں گے۔ فلسطینی قیدیوں میں 200 وہ قیدی بھی شامل ہیں جن کو سزائے موت یا عمر قید دی گئی ہے۔ معروف فلسطینی رہنما مروان البرغوثی بھی ان میں شامل ہیں۔
تیسرا مرحلہ دو سالوں پر محیط ہو گا اور اس میں اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے نکل جائے گا۔ اس میں غزہ کی تعمیر نو ہو گی اور عرب ممالک اس میں تعاون کریں گے۔ البتہ فلاڈلفیا کوریڈور (معبر صلاح الدین) کو چھوڑنے کے لیے اسرائیل ابھی تیار نہیں، مصر اس کو منانے کی کوشش کر رہا ہے اور یہ ضمانت لے رہا ہے کہ اگر اسرائیلی فوج وہاں سے نکل جاتی ہے تو مصر اس کا کنٹرول سنبھال لے گا اور اسرائیل کی سلامتی کو یقینی بنائے گا۔
یہی اسرائیل کی داداگیری ہے، اس لیے کہ معبر صلاح الدین اور معبر رفح (رفح کراسنگ) کے بارے میں فلسطینی کوئی فریق نہیں ہیں۔ ان دونوں کے سلسلہ میں اسرائیل اور مصری حکومت کے درمیان بہت پہلے سے معاہدہ چلا آتا ہے جس کی رو سے دونوں کا نظم و نسق مصری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مگر اسرائیل دنیا میں ہر طرح کے قاعدے قانون سے بالاتر اپنے آپ کو سمجھتا ہے اور اس کے مغربی سرپرست واقعتاً اس کو ایسا ہی بنائے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے ایک سابق صدر بن گوریان نے کہا تھا کہ ’’اس خطہ میں اسرائیل کو پاگل کتے کی طرح رہنا ہوگا اور پڑوسیوں کو کاٹتے رہنا ہو گا تاکہ سب اس سے خوف زدہ رہیں‘‘۔ اسرائیل کا عمل بالکل اسی طرح کا رہا ہے۔ اس کی ضدمانی جاتی ہے، اس کے انسانیت کے خلاف جرائم کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
بہرحال اس کے بعد ہتھیاروں کی کڑی جانچ کے بعد غزہ کے 23 لاکھ لوگوں کو جنوب سے شمال کی طرف جانے کی اجازت دی جائے گی۔ البتہ اسرائیل ۸۰۰ میٹر چوڑے بفر زون برقرار رکھے گا جہاں اس کے فوجی تعینات رہیں گے۔ حماس نے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ پہلے دوسرے مرحلہ میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل پھر سے غزہ پر بمباری نہیں کرے گا۔ اس معاہدہ میں ایک پیچ ابھی تک پھنسا ہوا ہے، وہ یہ کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ معاہدہ ہو جانے کے بعد بھی اس کو یہ حق ہو گا کہ اپنی جاسوسی معلومات کے مطابق وہ غزہ میں کہیں بھی ٹارگیٹ کلنگ کر سکتا ہے۔ امریکہ بھی اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔ یہی وہ پوائنٹ ہے جو فلسطینیوں کے لیے ہمیشہ دردِ سر بنا رہے گا اور اس میں بہت واضح اپرہینڈ (بھاری پلہ) اسرائیل کو دے دیا گیا ہے۔
اس معاہدے کو اسرائیلی وار کابینہ میں توثیق کے لیے پیش کیا گیا جس نے اس کو پاس کر دیا ہے۔ اب اس کی منظوری کے بعد اتوار انیس جنوری سے یعنی جس دن ٹرمپ نے امریکہ میں اپنے عہدے کا حلف لیا اس سے ایک دن پہلے اس کو لاگو کیا گیا۔ اس سے قبل اسرائیل غزہ کے مختلف علاقوں میں مسلسل بمباری کرتا رہا تاکہ مزاحمتی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔ 16جنوری کو بھی اس کے حملہ میں جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی اسرائیل نے حملہ کر رہا ہے جن میں 115 فلسطینی شہید ہو گئے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کا انتظام سنبھالے گی، فلسطینی مقتدرہ کے تحت وزیراعظم محمد مصطفیٰ نے اپنے بیان میں کہا بھی کہ فلسطینی اتھارٹی ہی فلسطینیوں کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ نمائندہ ہے لہٰذا اسی کو غزہ کا انتظام سنبھالنے کا حق ہے۔ مگر اسرائیل اس کے لیے تیار نہیں ہے، یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ امریکہ اور متحدہ عرب امارات دونوں ملکر کوئی میکانزم بنائیں گے جس کے تحت غزہ کی باز آبادکاری اور نظم و نسق کو سنبھالا جائے گا۔
دوسری طرف متشدد اسرائیلی وزیر اسموترچ اور ایتماربن گوئیر دونوں اس معاہدہ کی شدید مخالفت کر رہے تھے اور اس کو دہشت گردی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔ بن گوئیر اب نتن یاہو کی حکومت سے بھی نکل چکا ہے۔ انہوں نے بنجمن نتن یاہو کی حکومت گرانے کی کوشش بھی کی ہے۔ حالانکہ معاہدہ کی تمام شرائط کو بنظر غائر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کا پلہ اس میں بھاری ہے اور حماس نے اسٹریٹیجک تنازل اختیار کیا ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا یہی تھا کہ فلسطینی عوام، جنہوں نے جانبازی اور قربانیاں دینے کی ایک بے مثال تاریخ رقم کر دی ہے، اب ان پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے اور کچھ ریلیف ان کو ملے۔
حماس کے ایک رہنما خلیل الحیۃ نے اپنے ویڈیو پیغام میں، جو الجزیرہ پر نشر ہوا حماس، الجہاد الاسلامی، حزب اللہ، یمن کے انصار اللہ (حوثی) عراقی تحریک مزاحمت، اور ایرانی و قطری اور مصری و ترکی کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے غزہ کے شہیدوں، شیخ اسماعیل ہانیہ، شیخ حسن نصر اللہ، حماس کے قائد یحیٰ السنوار، شیخ صالح العروری اور دوسرے شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ واضح رہے کہ تحریک حماس کی میدانی قیادت اب شہید یحییٰ السنوار کے چھوٹے بھائی محمد السنوار کو دے دی گئی ہے۔ جنہوں نے اپنی پلاننگ سے حماس میں پھر سے ہزاروں نوجوانوں کو بھرتی کر کے شمالی غزہ میں پھر سے اس میں جان ڈال دی ہے۔ اور وہ اسرائیلی فوج پر مسلسل گوریلاحملے کر کے اس کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔
خلیل الحیہ نے مزید کہا کہ ہم نے ایک لمحہ کے لیے بھی دشمن کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ حماس میدان چھوڑ رہی ہے یا کمزور پڑ گئی ہے۔ لیکن تحریکِ مزاحمت اور فلسطینی عوام کے وسیع تر مفاد میں یہ صلح کی جا رہی ہے۔
اس صلح میں جس میں زیادہ بڑا کردار نئے امریکی صدر ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے نمائندے اسٹیووٹکوف نے ادا کیا جنہوں نے سفاک اسرائیلی وزیراعظم کو اس کے لیے تیار کر لیا۔ اس صلح میں بظاہر اسرائیل کو اپرہینڈ ملا ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زندہ و جانباز فلسطینی قوم نے اپنی تمام تر تباہی و بربادی کے باوجود اور خاک و خون میں لوٹنے کے باوجود محیر العقول سخت جانی، بے نظیر پامردی و استقلال کا مظاہرہ کیا ہے جس نے قرونِ اولیٰ کے مجاہدوں کی یاد تازہ کردی جن کو اقبال نے یہ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا تھا ؎
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
اپنی بے نظیر شجاعت، ہمت اور بلند حوصلہ اور زبردست قربانیاں دے کر انہوں نے اسرائیل کو اپنے اعلان کردہ اہداف کو حاصل کرنے نہیں دیا۔ یعنی حماس کا خاتمہ، غزہ و مغربی کنارہ سے مزاحمت کا خاتمہ اور فلسطینی مسئلہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ حاصل کرنا۔
حماس نے فلسطینی عوام کی خاطر یہ کڑوی گولی حلق سے اتار لی ہے مگر مستقبل میں اس کا کیا ہو گا یہ ابھی واضح نہیں ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی پوری کوشش ہوگی کہ حماس کو نہتا کر دیا جائے یا غزہ سے بے دخل۔ اگر اب بھی محمود عباس اور الفتح والوں نے سمجھ سے کام نہ لیا تو اس سے فلسطین میں سول وار چھڑ جانے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ کیونکہ امریکہ کی نئی ٹرمپ حکومت نے اپنی آنے والی انتظامیہ کے جن چہروں کا اعلان کیا ہے ان میں سیکریٹری آف اسٹیٹ اور مشرقِ وسطیٰ کے لیے خصوصی ایلچی اسٹیووٹکوف معروف صہیونی ہیں۔ یہ دونوں مغربی کنارہ اور غزہ کے اسرائیل میں ضم کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ مغربی کنارہ کو یہ اس کے قدیم ببلیکل نام جوڈیاسمیرا سے ہی پکارتے ہیں۔
ٹرمپ بھی اپنے ایک بیان میں کہہ چکا ہے کہ اسرائیل کو مزید زمینوں کی ضرورت ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ مغربی کنارہ کی غیر قانونی طور پر بسائی گئی سینکڑوں یہودی سیٹلمنٹس اور گولان ہائٹس کو وہ اسرائیل میں مستقل طور پر ضم کرنے کی وکالت نہ کرے۔ ٹرمپ کا اپنا ریکارڈ فلسطین کے لیے بہت خراب رہا ہے۔ اسی نے اپنی پہلی میعاد میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تھا اور اس کو اسرئیل کا دارالحکومت ماننے کے لیے تیار تھا۔ اور اسی نے عربوں کو دھونس و دھمکی اور سیکورٹی کا لالچ دے کر صفقۃ القرن یا صدی کی ڈیل کروائی تھی اور ابراہام اکارڈ پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے سعودی عرب کو رام کیا تھا۔
گزشتہ سال طوفان الاقصیٰ نے سعودی و اسرائیل کی اس پیشرفت کو کھٹائی میں ڈال دیا تھا۔ تب سے اب تک سعودی عرب کا سرکاری موقف جو سامنے آیا ہے وہ یہی ہے کہ پہلے اسرائیل دو ریاستی حل کو تسلیم کرے اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہو، تبھی وہ اس معاہدے ابراہام اکارڈ پر دستخط کرے گا۔ تاہم محمد بن سلمان ذاتی طور پر فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتا، اس لیے بہت ممکن ہے کہ وہ ان کو دوبارہ بائی پاس کر کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا یہ معاہدہ کر ڈالے۔
حماس کا طوفان الاقصیٰ کا اقدام جرأتِ رندانہ تو یقیناً تھا مگر شاید اس کو فلسطینیوں کے حق میں اس کے فوری عواقب کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکا۔ اُس کا خیال غالباً یہ رہا ہو گا کہ مسلم دنیا اور خاص کر عرب ممالک ان کو یوں بے یار و مددگار نہیں چھوڑیں گے۔ جبکہ عربوں نے حقیقت میں ان کو تنہا چھوڑ دیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ حماس کی ٹاپ قیادت شہید ہو چکی جبکہ اس کے خاص مددگار حزب اللہ اور ایران کی حالت بھی پتلی ہے۔ یمن پر بھی متعدد بار اسرائیل اور اس کے آقا امریکہ و برطانیہ شدید بمباری کر چکے ہیں۔ غزہ کا معاشی بائیکاٹ پہلے سے زیادہ سخت ہے۔ عرب، مسلم ممالک اور باقی دنیا محض چلا کر اور چیخ و پکار کر رہ گئے اور عملاً فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں کر پائے۔ جنوبی افریقہ اسرائیلی کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں گیا۔ جہاں سے نتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر جنگ یواف گالانٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے، مگر امریکہ نے داداگیری سے اس اقدام کو فیل کر دیا اور اب خود اس بین الاقوامی عدالتِ انصاف پر پابندی لگانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کی حفاظت امریکی حکومت (چاہے وہ ڈیموکریٹس ہوں یا رپبلکن) کے مذہبی عقائدکا حصہ ہے۔ وہاں اقتدار ایوانجلکل مسیحیوں کا محتاج ہوتا ہے اور ان کی حمایت کے بغیر کوئی بھی پارٹی نہیں جیت سکتی۔ اور یہ لوگ اپنے مذہبی عقیدہ کی رو سے اسرائیل کا تحفظ خود اپنے ملک کے تحفظ کی طرح ہی مانتے ہیں۔ بڑے سے بڑا دانشور اور انٹیلیکچول اسرائیل کی بات آتے ہی جنونی طور پر اس کی حمایت کرتا ہے اور بائبل کے حوالے دیتا ہے۔
امریکی داعش، القاعدہ اور طالبان کو Fanatics اور فنڈامینٹلسٹ کہتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکی رولنگ کلاس سے بڑا فینیٹک اور بنیاد گیر دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ اسرائیل مغرب کی آخری چوکی یا سامراج کی کالونی ہے جسے وہ ہر قیمت پر محفوظ رکھنا چاہتے ہیں- اسی وجہ سے پندرہ مہینے کی اس جنگ میں امریکہ نے بیس بلین ڈالر اسرائیل کے لیے خرچ کر ڈالے۔ اگر امریکہ نہ ہوتا تو حماس کے مجاہدین نے جس حوصلہ اور شجاعت کا ثبوت دیا ہے وہ کسی معجزہ سے کم نہیں` اسرائیل کبھی کا اس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہوتا۔ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور اسرائیل سب کی انٹیلی جنس لگی ہوئی تھی، AI سے زبردست کام لیا جا رہا تھا مگر اسرائیلی مغویوں کو جنگ کے ذریعے یہ طاقتیں چھڑا نہیں پائیں بلکہ ان کو مذاکرات کی میز پر ہی آنا پڑا۔
صہیونی مغرب کی بڑی طاقتوں میں کلیدی عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ خود امریکہ ان کا دستِ نگر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو این او میں مسلسل اسرائیل کے خلاف آواز اٹھتی ہے، قراردادیں پاس ہوتی ہیں مگر عملاً کچھ نہیں ہو پاتا۔ اب اسرائیل نے امریکی آشیرباد سے مغربی کنارہ کی اتنی زمینین غصب کر لی ہیں اور ان پر اتنی یہودی بستیاں بسا دی ہیں کہ عملاً ان کو ہٹانا ممکن نہیں رہ گیا ہے۔ اسرائیل غالباً یہ طے کر چکا ہے کہ غزہ کے شمال میں بھی اس کو مستقل رہنا ہے۔ اس لیے صلاح الدین کوریڈور (معبرصلاح الدین) جس کو مغربی لوگ فلاڈلفیاکوریڈور کہتے ہیں، پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول ہے۔ اس پر نہ مصر کچھ کہتا ہے نہ اردن۔
دنیا کی رائے عامہ ضرور غزہ پر اسرائیل کی اِس جارحیت کے نتیجہ میں بیدار ہوئی ہے اور وہ اب فلسطینیوں کی حمایت کرتی ہے مگر مغربی ممالک امریکہ، جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ میں پالیسی ساز سب کے سب صہیونی یا صہیونیت کے ہمدرد ہیں۔ پورا مغربی میڈیا اسرائیل کا بیانیہ ہی بیچ رہا ہے۔ اور اس میں ابھی سالوں تک کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ عالمِ اسلام کا حال اور زیادہ خراب ہے۔ کچھ ہی دن پہلے ریاض میں او آئی سی اور عرب لیگ کا مشترکہ اجلاس ہوا تھا (جو گزشتہ سال بھی ہوا تھا) اس میں شاندار تقریریں ہوئیں، لفظی قرادادیں پاس ہوئیں، مگر اس سے آگے کوئی بات نہیں بڑھ سکی۔ ایران نے تجویز دی تھی کہ جن مسلمان اور عرب ممالک نے اسرائیل سے تعلقات بحال کر لیے ہیں وہ ان کو توڑ دیں اور اس کے ساتھ تجارت بند کر دیں مگر اس تجویز پر کسی نے کان نہیں دھرے، یعنی عملاً یہ اجلاس نشستند و گفتند و برخاستند پر ختم ہوگیا۔
اس سیز فائر کے دوسرے دن ہی وہائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے عہدہ کا حلف لے لیا۔ ٹرمپ نے فلسطین میں جنگ بندی کروا کے شروعات تو اچھی کی ہے مگر اس کا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے فلسطین کے حق میں کوئی خوش فہمی نہیں رکھنی چاہیے۔ بہت سے لوگ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی روا رکھ رہے ہیں، انہی میں پاکستان کے سینیٹر اور معروف دانشور مشاہد حسین سید بھی ہیں۔ مشاہد حسین بہت پڑھے لکھے آدمی ہیں مگر نئی امریکی حکومت سے کچھ زیادہ ہی خوش فہمی رکھتے ہیں۔ خاکسار کا خیال تو یہ ہے کہ ٹرمپ نے اس موقع پر نتن یاہو جنگ بندی کے لیے جو راضی کیا ہے تو مستقبل میں وہ اس کو بڑا انعام دینے والا ہے۔ مثلاً نتن یاہو اگر مغربی کنارہ کی یہودی بستیوں کو مستقل طور پر اسرائیل میں ضم کرے گا تو ڈونلڈ ٹرمپ اس کی حمایت کرے گا۔ اسی طرح وہ شام کی گولان ہائٹس اور لبنان کے اندر اسرائیل کے بفرزون بنانے کی حمایت کرے گا۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں مل کر اب ایران میں موجودہ مذہبی حکومت کا تختہ پلٹ کرانے کی سازش کریں گے اور اس طرح محور المقاومہ کی کمر توڑنے کی پوری طرح کوشش کریں گے۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے بڑے اور اہم مسلم ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کروایا جائے گا۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اب محال سے محال ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں حماس اور الفتح کو ہر قیمت پر ایک متحدہ محاذ بنانا ہو گا تبھی اس معاملہ میں کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔
یہ البتہ خوش آئند ہے کہ فلسطین کے پڑوس میں ایک آزاد مسلم مملکت قائم ہوگی ہے یعنی شام کا انقلاب کامیاب ہو گیا ہے۔ یہ نظریاتی لوگ ہیں اور مستقبل میں ان سے فلسطین کے لیے بھی خیر کی ہی امید کی جانی چاہیے۔ امریکہ اور اسرائیل دونوں کی کوشش یہ ہے کہ آئندہ غزہ کے نظم و نسق سے خود فلسطینیوں کو بے دخل رکھا جائے، تاہم الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے حماس کے ایک قائد اسامہ حمدان نے یہ صاف کر دیا ہے کہ فلسطینی اپنے امور و معاملات خود طے کرنے کے اپنے حق سے کبھی دستبردار نہ ہوں گے اور فتح کی طرح حماس بھی فلسطینی سوسائٹی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔
بہرحال اب یہ دیکھنے والی بات ہوگی کہ سیزفائر کے دوسرے دونوں مراحل کس طرح روبہ عمل لائے جاتے ہیں، مشرقِ وسطیٰ کے لیے نئے امریکی صدر کی پالیسی کیا ہو گی اور اس کے بعد خطہ کی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔