ترکی کے لوزان معاہدہ کا خاتمہ

لوزان کا معاہدہ

’’لوزان معاہدے‘‘ کا باعث ’’سیوریس کے معاہدے‘‘ سے ترکوں کا عدم اطمینان تھا، جس نے سلطنت عثمانیہ کو اتحادی قوتوں کے تحت تقسیم کر دیا تھا۔ پھر مصطفیٰ کمال کی قیادت میں ’’ترک قومی تحریک‘‘ سامنے آئی جس نے اس معاہدے کی مخالفت کی، اس کے نتیجے میں ۱۹۲۱ء کی سکاریا جنگ ہوئی۔ 

لوزان معاہدہ ایک ایسا سمجھوتہ ہے جو مصطفیٰ کمال کی قیادت میں جدید ترکی کی تشکیل کا باعث بنا، 141 دفعات پر مشتمل ہے، جس پر 1923ء میں مصطفیٰ کمال کے مندوب عصمت انونو نے دستخط کیے تھے۔

معاہدے کے بنیادی نکات یہ تھے: نئی سرحد کو تسلیم کرنا؛ خلافت کا خاتمہ اور جمہوریہ ترکی کا قیام؛ شام کو فرانس کے تحت جبکہ مصر، سوڈان، عراق اور فلسطین کو برطانیہ کے تحت تسلیم کرنا؛ بحیرہ اسود اور بحیرہ ایجہ کے درمیان بحری گزرگاہوں کو سب جہازوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا رکھنا، اور ترکی پر تیل اور گیس کے لیے ڈرلنگ نہ کرنے کی پابندی۔

دنیا میں کسی بھی (طویل) بین الاقوامی معاہدے کی طرح، یہ صرف 100 سال کے لیے ہے۔ 2023ء تک ترکی اس معاہدے کے بندھن سے آزاد ہو جائے گا، اور یہ ’’یورپ کے بیمار آدمی‘‘ کی تقدیر بدل دے گا۔

نئی عثمانی سلطنت؟

ترکی کے ایک مضبوط آدمی اور سیاستدان رجب طیب اردگان جدید ترکی میں نئی سانسیں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک نیا دور جو مصطفیٰ کمال سے مختلف ہو۔ وہ مسلمانوں کے نئے خلیفہ ہیں، ان لوگوں کے لیے جو انہیں بطور ماڈل کے دیکھتے ہیں۔ تاہم، ایک جدید خلیفہ کے منصب کا آغاز کرنا ان کے لیے آسان نہیں تھا۔

متعدد بار افراطِ زر نے ترکی کو جھنجھوڑا ہے، اور اس کی موجودہ بلند شرح سب سے بدترین ہے، لیکن تنقید خود اردگان کے اوپر ہے۔ مغرب نے انہیں ایک غیر جمہوری رہنما، استبدادی اور آمر کہا ہے۔ مصطفیٰ کمال کی وفات کے بعد پانچ دہائیوں تک ترکی کی قسمت ریاستی ترقی کے حوالے سے بری حالت میں رہی ہے۔ 2003ء سے بطور وزیر اعظم اور 2014ء سے اب تک صدر کی حیثیت سے اردگان کی قیادت نے ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

2002ء اور 2011ء کے درمیان اوسط شرح نمو 7.5 فیصد رہی جبکہ اقتصادی حالات اور شرح سود نے مقامی کھپت میں اضافہ کیا۔ ترکی کی جی ڈی پی 2017ء میں 851 بلین ڈالر تک پہنچ گئی، جو کہ 2002ء کے مقابلے میں ایک ناقابل یقین کامیابی تھی جب یہ صرف 232 بلین ڈالر تھی۔ 2020ء کی دوسری سہ ماہی میں، لاک ڈاؤن کے دوران، ترکی میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں مثبت 1.8 فیصد اضافہ حاصل کیا۔ اردگان کی قیادت نے اپنی داخلی پالیسیوں کے حوالے سے اپنے لوگوں سے نفرت اور محبت دونوں حاصل کی، جس کا نمایاں پہلو (مصطفیٰ) کمالی میراث سے ہٹنا تھا۔

کچھ حامیوں نے انہیں ’’سلطان‘‘ کہا، جو کہ مسلم لیڈر ’’خلیفہ‘‘ کی علامت ہے۔ جیسا کہ انہوں نے خواتین کے اسکارف پہننے پر پابندی کے قوانین ختم کیے۔ شراب کی فروخت پر پابندیاں سخت کیں۔ حاجیہ صوفیہ ایک مسجد بن گئی جو مسلم تاریخ کی ایک بڑی علامت تھی۔ ترک فلمی صنعت کی ’’نرم طاقت‘‘ ڈرامہ سیریل ’’ارتغرل‘‘ جو مسلم دنیا کی دلچسپی کا مرکز بنی، خاص طور پر عرب اور پاکستان کی پرجوش آبادی میں۔ 

ترکی کے لوگ اردگان سے محبت کرتے ہیں۔ 2016ء میں ایک بغاوت کی کوشش کی گئی جو ترکی کے سیاسی معاملات کے لیے ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ بغاوت کی مخالفت کے لیے ہزاروں شہری سڑکوں پر جمع ہوئے، بغاوت کے اختتام پر 241 افراد ہلاک اور 2194 زخمی ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردگان کو اپنے لوگوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ 2017ء کے ایک ریفرنڈم جس میں صدر کی طاقت کو تسلیم کیا گیا تھا، عوامی ووٹ کے ذریعے منظور کیا گیا تھا۔ وہ قومی بجٹ اور فوج کو کنٹرول کر سکتا ہے، پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے، ججوں کی تقرری کر سکتا ہے اور مدت بڑھا سکتا ہے۔

آگے کیا ہو گا؟

100 سال بعد اس معاہدے کی میعاد ختم ہونے پر ترکی بحیرۂ اسود میں تیل اور گیس کے لیے ڈرلنگ کرنے جیسی سرگرمیوں کے قابل ہو جائے گا، جس کا تخمینہ بحیرہ اسود میں 10 بلین بیرل خام تیل اور 2 ٹریلین کیوبک میٹرک قدرتی گیس ہے۔ آبنائے باسفورس سے گزرنے والے بحری جہازوں سے فیس اور ٹیکس جمع کرنا، اور جہازوں کے گزرنے کے لیے ایک نیا راستہ بنانا، جیسا کہ استنبول نہر، اردگان بحیرۂ ایجہ کے جزیرہ پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔

2023ء میں ابھرتی ہوئی معاشی خوشحالی ترکی کی منتظر ہے۔ توانائی کے شعبہ میں ترکی اب روس، آذربائیجان اور ایران پر انحصار نہیں کرے گا۔ اقتصادی خوشحالی کے ساتھ ترکی خطے کے سب سے بااثر اور متاثر کن ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ نئے ترکی کا عروج ایک نئی جہت سے زیادہ متحرک جغرافیائی سیاست لے کر آئے گا، خاص طور پر نظریات کے حوالے سے۔

ترکی کے احیاء کے ساتھ مسلم دنیا اپنی ساکھ واپس لینے کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ صحیح راستے پر چلنے کی صورت میں ترکی ایک بار پھر مسلم دنیا کی قیادت کرے گا۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ ترکی ایک ابھرتی ہوئی علاقائی طاقت کے طور پر سپر پاور ممالک کے ساتھ کس طرح بات چیت کرے گا۔ ترکی خود کو امریکہ اور چین کے درمیان کیسے کھڑا کرے گا؟ کیا روس کے ساتھ تعلقات برقرار رہیں گے؟ ترکی مسلم ملک کی قیادت کیسے کرے گا، اور ترکی نیٹو اور G20 پر کیسے اثر انداز ہو گا؟ کیا ترکی دوسرے مسلم ممالک کی قیادت اور مدد کرے گا، خاص طور پر ترقی پذیر D8 ممالک کی؟

کیا ترکی ایک بار پھر مسلم ممالک کا لیڈر بننے کا اپنا خواب پورا کر پائے گا جیسا کہ ترکی کی خلافت بہت افسوسناک طریقہ سے ختم ہوئی تھی۔ یہ ترکی کے لیے انتہائی قابل فخر ہو گا۔ کیا اردگان اور ترکی اس تصوراتی کہانی کو پورا کر پائیں گے، اور ورلڈ آرڈر کی حقیقت سے گزرنا کتنا آسان ہو گا؟

https://midas.mod.gov.my

عالم اسلام اور مغرب

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter