غزہ میں فتح اور شکست

آخر کار جنگ بندی ہو گئی۔ پندرہ مہینوں کی مسلسل نسل کش جنگ کے بعد ہم آخر کار سکون کا سانس لینے کے قابل ہوئے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل ہوئے ہیں، یا جو کچھ بھی وہاں باقی رہ گیا ہے۔

اب جبکہ ہم بمباری کے بغیر اس وقت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، دنیا اس بات پر ایک شدید بحث میں مصروف نظر آ رہی ہے کہ کون جیتا:

  • کیا اسرائیل فاتح ہے؟
  • یا حماس فتح کا اعلان کرنے کی حقدار ہے؟
  • یا بہادر فلسطینی عوام فاتح ہیں؟

میں ایک نرس ہوں نہ کہ کوئی ماہر، اس لیے میں اس کا جواب نہیں دے سکتی۔ لیکن عزیز قارئین! مجھے یہ کہنے دیجیے کہ دنیا کو ہمارے بچ جانے سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے۔ غزہ میں زندہ رہنا بہادری کا مترادف نہیں ہے۔ موت سے بچ جانا فتح نہیں ہے۔ ہم بمشکل ہی بچے ہیں۔ ہزاروں فلسطینی نہیں بچ سکے۔

نسل کش جنگ نے وقت کو ایک دائرے میں بند کر دیا تھا، کوئی آغاز یا اختتام نہیں تھا، کوئی منزل نہیں تھی جس کی طرف ہم بڑھ رہے تھے، ہم بس ایک دائرے میں چلتے رہے اور ہر روز آغاز پر واپس آتے رہے۔

ہر روز ہر خاندان کو پینے کے پانی، دھونے کے پانی، خوراک اور آگ جلانے کے لیے چیزیں تلاش کرنے کے لیے باہر جانا پڑتا تھا۔ بالکل بنیادی چیزیں، جو اگر ملتی بھی تو ان کو حاصل کرنے میں گھنٹوں لگتے تھے۔ روٹی، جسے ہم ایک مسلّمہ حق سمجھتے تھے، اسے تلاش کرنا ایک جدوجہد بن گئی تھی۔ خاندانوں کے پیسے ختم ہو گئے۔ امدادی تنظیموں کے راشن ختم ہو گئے۔ ایسا وقت آیا کہ کہ کیڑے لگے آٹے اور میعاد ختم شدہ ڈبہ بند خوراک بھی ایک عیاشی بن گئی۔ اس سلسلہ کو صرف بیماری روکتی تھی یا پھر موت، جب غمزدہ لوگ اپنے پیاروں کو دفن کرتے تھے۔

بیرونی دنیا نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی بچوں، عورتوں اور مردوں کی پرتشدد اموات کی بہت سی تصاویر اور ویڈیوز دیکھیں۔ لیکن انہوں نے دائمی مریضوں اور قابلِ علاج بیماریوں سے متاثرہ افراد کی خاموش اور ایذیتناک اموات نہیں دیکھیں۔

ہمارے پاس انفیکشن والے لوگ اینٹی بایوٹکس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ ہمارے پاس گردے کے مریض ہلاک ہو گئے کیونکہ ایسا وقت آگیا جب ڈائیلاسز کی سہولت صرف وقتاً فوقتاً اور بہت کم طبی مراکز میں دستیاب تھی۔ یہ اموات سرکاری نسل کشی کی اموات کی تعداد میں شامل نہیں کی گئیں، جبکہ ان میں سے بہت سی ایسی تھیں جن کو روکا جا سکتا تھا۔

بے گھر لوگوں کے کیمپوں کی گلیوں میں، زندہ بچ جانے والے غمزدہ، سسکتے ہوئے، یا خاموشی سے بیٹھے ہوئے افراد دیکھے جاتے تھے۔ موت سے بچنے کے بعد وہ بھی وقت کے اس بھنور میں آ گئے تھے۔

اتنے مہینوں کے اجتماعی نقصان، ظلم اور تڑپ کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ دل میں موت سے مزید فرار کے لیے کوئی جگہ نہیں رہی۔ میں خود دوسرے بہت سے فلسطینیوں کی طرح خوفناک حد تک ساکت اور بے حس ہو گئی تھی۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب ہم اس زمین پر آوازوں، مسکراہٹوں اور بھرپور زندگی کے ساتھ جی رہے تھے۔ ہم نے اپنے اندر بڑے خواب اور امیدیں قائم کر رکھی تھیں۔ لیکن ہم خود کو زیادہ پہچان نہیں پائے کہ ہم وہ نہیں ہیں جو ہم بن رہے ہیں۔ ہم، ہم نہیں ہیں۔ ہم ایسا سمجھتے تھے۔

اجتماعی تکلیف اتنی زیادہ تھی، اتنی بھاری تھی کہ ایسا محسوس ہوا کہ سکون کی تلاش کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی کو بتانے کے لیے کوئی نہیں ہے کہ اندر کیا ہو رہا ہے، کیونکہ سب اسی تاریک جگہ پر تھے۔

لیکن عزیز قارئین! بڑے پیمانے پر درد اور بڑے پیمانے پر موت کے حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال آپ کو ہر چیز کے باوجود زندگی سے چمٹے رہنے پر مجبور کرتی ہے، اپنے قابضین کی موجودگی میں بھی۔ غزہ میں ہر چیز ہماری موت کا مطالبہ کر رہی تھی، لیکن ہم نے اس سے زندگی بنانا سیکھ لیا۔ بلاشبہ، ہم اب اپنے جیسے نہیں رہے، لیکن ہم مرے نہیں ہیں۔ ہماری نئی صورتیں جدوجہد جاری رکھنے اور مزید جینے کے لیے بنی ہیں۔

وقت کے لامتناہی دائرے میں لوگ پھر بھی اطمینان محسوس کرنے یا مقصد پانے کے طریقے تلاش کرتے ہیں۔ میں نے ایک عارضی طبی مرکز میں بطور نرس رضاکارانہ طور پر کام کر کے ایسا کیا، اور کافی کی تلاش میں دور دور تک پیدل جا کر بھی۔ یہ مزاحمت کا اور جینے کا میرا طریقہ تھا۔ فاقہ کشی نے نقصان پہنچایا لیکن میں نے اس کا دوسرا پہلو دیکھا۔ میں اکثر ہنس پڑتی تھی کہ آخر کار میں نے وہ وزن کم کر لیا جس کی میں تمنا کرتی تھی اور جو میں ماضی میں آزمائی گئی ان تمام ڈائٹنگ کی کوششوں سے کبھی نہیں کر پائی۔

میں نے خیمے کی سخت زندگی کے دوران اپنی ماں کے بالوں میں سفیدی دیکھی، لیکن ہم اس پر بھی ہنسے۔ میں جانتی تھی کہ یہ سفیدی اسے شکست نہیں دے سکے گی۔ وہ رنگوں سے محبت کرتی ہے اور انہیں اپنے مطابق ڈھالنے میں بہت ماہر ہے۔

پندرہ مہینوں کی جہنم کے بعد ہم اپنی پناہ گاہوں اور خیموں سے نکلے ہیں کہ تباہی کے منظر دیکھ سکیں۔ ہم ابھی تک ملبے کے نیچے سے نکالی گئی لاشوں کی گنتی کر رہے ہیں، صرف ایک جوتے یا ایک قمیض سے قابل شناخت۔

میں تباہی کو دیکھتی ہوں اور اپنے آپ کو دیکھتی ہوں جو بچ گئے ہیں۔ موت نے ہمیں شکست نہیں دی، اس لیے نہیں کہ ہم ہیرو ہیں، بلکہ اس لیے کہ ہم ایسے لوگ ہیں جو زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ 

عزیز    قارئین!     کیا   زندگی  سے   چمٹے  رہنا    ایک فتح  ہے؟

aljazeera.com


فلسطین و اسرائیل

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter