ترکیہ اور مشرقِ وسطیٰ: سابق ترک صدر عبد اللہ گل کی نظر میں

سابق ترک صدر نے ’’المجلہ‘‘ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں شام  اور ترکی کے مابین مصالحتی کوششوں، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے امکانات، اور دیگر اہم علاقائی مسائل پر گفتگو کی۔


عبد اللہ گل ترکی کی ایک ممتاز سیاسی شخصیت ہیں جو ترکی کے متعلق ملکی اور بین الاقوامی دونوں حوالوں سے گہری اور جامع سمجھ کے حامل مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ترکی اور بیرون ملک دونوں جگہوں پر تعلیم حاصل کی اور کام کیا۔ انہوں نے سیاست میں قدم رکھا اور نجم الدین اربکان کے ساتھ ’’ویلفیئر پارٹی‘‘  میں شامل ہوئے اور بعد میں رجب طیب اردگان کے ساتھ ’’جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔

جناب عبد اللہ گل کئی اہم عہدوں پر رہے جن میں وزیر خارجہ، وزیر اعظم، اور صدر کے عہدے شامل ہیں۔ ۲۰۰۷ء سے ۲۰۱۴ء تک وہ چانکایہ صدارتی رہائشگاہ میں مقیم رہے اور اپنی مدت کے اختتام پر انہوں نے صدارت اپنے دیرینہ دوست رجب طیب اردگان کو منتقل کی۔

ماہر تعلیم، سیاستدان، ماہر اقتصادیات، سفارتکار، اور سابق صدر ترکی کی تاریخ کے کئی اہم لمحات کے بھی گواہ ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی اہم بدلتے ہوئے حالات کے بھی۔ جناب عبد اللہ گل ۲۰۰۳ء میں عراق پر امریکی حملے کے دوران وزیر اعظم تھے اور جب ترکی کی پارلیمنٹ نے عراق جنگ کی صورت میں امریکی فوجیوں کو ملک میں تعینات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ ۲۰۰۸ء،۲۰۰۹ء میں غزہ اسرائیل جنگ اور ۲۰۱۱ء کے ’’عرب اسپرنگ‘‘  (انقلاب) کے دوران صدر تھے۔

’’المجلہ‘‘ نے سابق صدر کے ساتھ استنبول کے جنگلات کے وسیع منظر میں ایک پہاڑی پر واقع ان کے دفتر میں بہت تفصیلی انٹرویو کیا۔ سابق صدر نے ترکی کی داخلی، سیاسی اور اقتصادی صورتحال سے لے کر مشرقِ وسطیٰ میں علاقائی جنگ کے امکانات تک کے مختلف مسائل پر بات کی۔ ذیل میں گفتگو کے اہم حصے پیش کیے جا رہے ہیں۔ 


ابراہیم حمیدی: آئیے ترکی سے شروع کرتے ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والے پارلیمانی، صدارتی، اور مقامی انتخابات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عبد اللہ گل: صدر رجب طیب اردگان گزشتہ سال کے انتخابات میں دوبارہ منتخب ہوئے، جس سے خارجہ پالیسی اور اقتصادی امور میں تبدیلی آئی۔ دوبارہ منتخب ہونے کے بعد انہوں نے حکومت میں نئے وزراء کو مقرر کیا تاکہ ان کی زیادہ عملی سوچ کی عکاسی ہو، خصوصاً‌ ترکی کے خارجہ اور اقتصادی امور کے حوالے سے۔ مقامی انتخابات میں اپوزیشن نے خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کیے، خاص طور پر زیادہ آبادی والے بڑے شہروں میں، جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان طاقت کا توازن پیدا ہوا۔

ابراہیم حمیدی: یوں لگتا ہے کہ صدر اردگان کی اقتصادی اصلاحات کا نفاذ مقامی انتخابات میں ان کے لیے نقصان کا باعث بنا جس میں اپوزیشن کی کامیابیاں دیکھنے میں آئیں۔ کیا ترکی میں ووٹروں کے لیے معیشت سب سے اہم مسئلہ ہے؟

عبد اللہ گل: معیشت کسی بھی ملک میں ایک خاص  مسئلہ ہے۔ ترک انتخابات سے پہلے کے پانچ سال مشکل تھے، خاص طور پر معیشت کے حوالے سے اور اس کے بارے میں لوگوں کے خدشات کے حوالے سے۔ مہنگائی تقریباً ایک سو فیصد تک پہنچ گئی، اور لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم اور آمدنی کا فرق نمایاں طور پر بڑھا۔

صدر اردگان نے اس حوالے سے پچھلی پالیسیوں کی خامیوں کو تسلیم کیا، جس نے انہیں اپنی اقتصادی پالیسی میں فیصلہ کن اور حقیقت پسندانہ تبدیلی کرنے پر تیار کیا۔ اس تبدیلی کی ایک اہم علامت ان کی طرف سے نئے وزیر خزانہ اور سنٹرل بینک کے گورنر کی تقرری تھی، جو دونوں انتہائی ماہر اور قابل ہیں۔

ابراہیم حمیدی: کیا کیے گئے اقدامات کافی تھے، یا وہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مزید کچھ کر سکتے تھے؟

میرا خیال ہے کہ اختیار کیا  گیا راستہ صحیح ہے، لیکن چونکہ پچھلی پالیسیوں میں خامیاں تھیں، اس لیے اہم اضافی اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں قانون اور انصاف کی حکمرانی کو مضبوط کرنا اور معیشت کو مؤثر طریقے سے منظم کرنا شامل ہے اور لوگوں کی ضروریات کا خیال کرنا بھی۔

ابراہیم حمیدی: کیا آپ کا خیال ہے کہ اس وقت قانون کی حکمرانی نہیں ہے؟

عبد اللہ گل: ۲۰۱۵ء میں بغاوت کی ناکام کوشش اور مختلف بیرونی سیاسی اور اقتصادی عوامل نے اس علاقے میں ترقی کو متاثر کیا ہے۔ جب میں نے ۲۰۱۴ء میں صدارت چھوڑی تو ہم نے نمایاں پیشرفت کر رکھی تھی، لیکن اس کے بعد سے مختلف عوامل کی وجہ سے تنزلی ہوئی ہے۔ ان مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے درست اور معقول پالیسیوں کی طرف واپس جانا ضروری ہے، جیسا کہ یہ اب ہو رہا ہے۔

ابراہیم حمیدی: آپ ترکی کی موجودہ سماجی صورتحال کا کس طرح جائزہ لیتے ہیں، اور ترکی کی معاشرتی ہیئت میں پناہ گزین کہاں فٹ ہوتے ہیں؟

عبد اللہ گل: صرف دو سالوں میں ترکی نے اتنے پناہ گزینوں کو قبول کیا جتنا جرمنی نے تیس سالوں میں کیا۔ اس کے پاس دنیا کی سب سے زیادہ پناہ گزین آبادی ہے جس نے قدرتی طور پر ملک کی معاشرتی ہیئت کو اہم حوالوں سے متاثر کیا ہے۔

ابراہیم حمیدی: کیا شامی پناہ گزین واقعی ایک مسئلہ ہیں، یا ان کی موجودگی کو ترکی میں سیاسی فائدے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟

عبد اللہ گل: ملک میں پناہ گزینوں کے حوالے سے بڑی سطح پر کوئی تنازع نہیں ہوا، بس کہیں کہیں کچھ واقعات ہوئے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں ترکی نے پانچ سے زیادہ مقامی، صدارتی، اور پارلیمانی انتخابات منعقد کیے ہیں، اور کسی بھی سیاسی جماعت نے پناہ گزین مسئلے کا استعمال نہیں کیا۔  حالیہ انتخابات میں یہ کچھ حد تک سامنے آیا لیکن ترک عوام نے عام طور پر انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے کام لیا ہے۔

بلکہ میں اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر مرکزی اپوزیشن جماعت کی تعریف کروں گا کہ انہوں نے انتخابات کے دوران اس مسئلے کو ہتھیار نہیں بنایا۔ (البتہ) یورپ کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا، جہاں ہجرت کا مسئلہ انتہائی سیاسی بن چکا ہے۔ 

ابراہیم حمیدی: کیا آپ کو لگتا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کو اپنے وطن واپس جانا چاہیے؟

عبد اللہ گل: میں نے کئی مواقع پر اس مسئلہ پر بات کی ہے کہ کسی بھی ملک میں موجود پناہ گزین کبھی بھی اپنے آپ کو ’’گھر میں‘‘ محسوس نہیں کرتے۔ قدرتی طور پر وہ اپنے وطن، اپنے گھروں، کھیتوں، اور اسکولوں کے لیے ترستے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے گھروں کو واپس جانے کا انتخاب کر سکتے ہیں جہاں وہ زیادہ سکون محسوس کریں، جبکہ باقی یہاں رہنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

تاہم، میزبان ملک صرف اتنی دیر تک پناہ فراہم کر سکتا ہے جب تک کہ سماجی تناؤ سامنے نہ آئے، کیونکہ مقامی لوگ غیر ملکیوں کو اقتصادی بوجھ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ پناہ گزینوں کی واپسی کا معاملہ اس طرح سے حل کرنا چاہیے کہ غیر ملکی اور مقامی لوگ دونوں محفوظ اور مطمئن محسوس کریں۔

ابراہیم حمیدی: صدر اردگان نے حال ہی میں شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ ان کے اہم مقاصد میں سے ایک شامی پناہ گزینوں کی واپسی پر بات کرنا ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عبد اللہ گل: میں صدر اردگان کی صدر الاسد سے ملاقات کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اگر شام میں امن اور سماجی ہم آہنگی بحال ہو جاتی ہے تو زیادہ تر پناہ گزین قدرتی طور پر اپنے وطن واپس جانے کی طرف مائل ہوں گے۔ تاہم، اگر حالات واپسی کے لیے سازگار نہیں ہیں تو آپ ان سے کیا توقع کرتے ہیں؟ یہ میری ذاتی رائے ہے، لیکن میں اس معاملے پر کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔

ابراہیم حمیدی: کیا آپ الاسد اور اردگان کے درمیان ملاقات کا خیرمقدم کریں گے، یا آپ کو تحفظات ہیں؟

عبد اللہ گل: اگر دونوں فریق واقعی ملنا چاہتے ہیں تو صورتحال کو احتیاط سے سنبھالنا چاہیے۔ اگر بات چیت کی خواہش دونوں طرف سے ہے تو وہ ماضی کی شکایات سے درگذر کرتے ہوئے تعلقات کا ایک نیا باب کھول سکتے ہیں۔ تاہم، ملاقات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مکمل تیاری ضروری ہے۔ اس میں مختلف سطحوں پر ملاقاتیں شامل ہو سکتی ہیں  —  سفارتی، وزارتی، سیاسی، اور حفاظتی  حوالے سے— تاکہ تناؤ کو کم کر کے نتیجہ خیز گفتگو کے لیے ماحول بنایا جا سکے۔ اس طرح، جب دونوں صدور آخر کار ملیں گے تو وہ ان معاملات کو حل کرنے کے حوالے سے پہلے ہی نمایاں پیشرفت کر چکے ہوں گے۔ ایسی تیاریوں کے بغیر مبہم مسائل پر بات چیت کے لیے ہونے والی ملاقات اس سارے عمل کو پٹری سے اتار سکتی ہے۔

ابراہیم حمیدی: ترک اور شامی حکام کے درمیان بغداد، ماسکو، اور دونوں ممالک کے سرحدی علاقوں میں کھلی اور خفیہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور سیاسی رابطے رہ چکے ہیں۔  تاہم،  الاسد کا اصرار ہے کہ وہ اردگان سے ذاتی طور پر اس وقت تک ملاقات نہیں کریں گے جب تک کہ شامی علاقے سے ترک افواج کے انخلا کا کم از کم اصولی طور پر اعلان نہ ہو جائے۔ آپ الاسد کے مطالبے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

عبد اللہ گل: ترکی شام کی علاقائی سالمیت کے لیے ہر طرح سے پرعزم ہے ، یہ ایسا اصول ہے جس کی کئی بار تصدیق کی جا چکی ہے۔ ’’نئی عثمانیت‘‘ یا اس طرح کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ ترکی ایک آزاد، خودمختار اور متحد شام چاہتا ہے ،جغرافیائی اور سماجی دونوں حوالوں سے۔ 

لیکن ترک فوجی یونٹ شام میں کیوں موجود ہیں؟ یہ بنیادی طور پر ملک کے لیے پیدا ہونے والے داخلی سلامتی اور دہشت گردی کے خطرہ کی وجہ سے ہے۔ ترکی کا ایسا کوئی ارادہ نہ ہے اور نہ ہی کبھی تھا کہ وہ شام کی سلامتی کو نقصان پہنچائے یا اس کے علاقائی نقشے کو تبدیل کرے۔ بین الاقوامی برادری اور ہمارے شامی بھائیوں کو یہ سمجھنا چاہیے۔ صدر مملکت، وزیر خارجہ، اور تمام متعلقہ حکام اس حوالے سے بہت واضح ہیں۔ 

جہاں تک ترک فوجی یونٹوں کے شام سے انخلا کا تعلق ہے، اس پر بات چیت کی ضرورت ہے۔ میں اس بات کی ذمہ داری لینے کی پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس بارے میں مخصوص تفصیلات فراہم کروں کہ یہ کب یا کیسے ہوگا، لیکن میں مخلصانہ طور پر امید کرتا ہوں کہ یہ ہموار اور شفاف طریقے سے کیا جائے گا  جس سے تمام متعلقہ فریق مطمئن ہو جائیں۔

یہی بات عراق پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ وہاں ترکی کی موجودگی بھی سلامتی کے حوالے سے موجود خطرہ کی بدولت ہوئی ہے۔ اگر عراقی اور شامی حکومتیں سلامتی کے ان مسائل کو مکمل طور پر حل کر سکیں تو دونوں ممالک میں ترک فوج کی موجودگی کی ضرورت نہیں رہے گی۔

ابراہیم حمیدی: عراق اور شام کے درمیان موازنہ واقعی متعلقہ بات ہے۔ مثال کے طور پر ترکی عراق میں بشیقہ بیس پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے اور کردستان ورکرز پارٹی (PKK) کے حوالے سے السوڈانی حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں مصروف ہے۔ جہاں تک شام کا تعلق ہے، کیا آپ کو لگتا ہے کہ دہشت گرد گروپوں یا کردوں، خاص طور پر PKK اور اس سے منسلک کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس (YPG) کے خلاف دمشق اور انقرہ کے درمیان تعاون کا امکان ہے؟

عبد اللہ گل: سب سے پہلے ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اس خطہ  شام، عراق، ایران، اور ترکی میں کرد ایک اہم نسلی گروپ ہیں  ۔ میرا خیال ہے کہ انہیں اپنے متعلقہ ممالک میں برابر شہری ہونا چاہیے اور آزادی کے ساتھ قانون کے تحت ضمانت شدہ تمام حقوق سے بہرہ مند ہونا چاہیے۔ جبکہ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ کچھ ممالک میں چیلنجز کا سامنا ہے، جیسا کہ مجھے یاد ہے، شام میں کچھ کرد آبادیاں تاریخی طور پر پسماندہ رکھی گئی تھیں کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے پاس شناختی کارڈ بھی نہیں تھے۔ تاہم، ہمیں کرد عوام کو مجموعی طور پر اور PKK کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور دیکھتے ہوئے ان کے درمیان واضح طور پر فرق کرنا چاہیے۔

۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی دہائیوں میں دہشت گرد گروپ PKK شام میں موجود تھا، اور عبداللہ اوجلان شامی علاقے سے متحرک تھے۔ اس گروپ کو ۱۹۹۸ء تک حفاظت اور استحکام حاصل تھا، جب انقرہ اور دمشق کے درمیان آدانا  معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ دہشت گرد گروپوں کے خلاف ترکی اور شام کے درمیان تعاون اورمشترکہ کاروائی  ممکن بھی ہیں اور ضروری بھی۔ آدانا معاہدہ کی دفعات اس طرح کے تعاون کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ تاہم، ملک میں رہنے والے دہشت گردوں اور کرد شہریوں کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔

ابراہیم حمیدی: ۱۹۹۰ء کی دہائی کے آخر میں شام، ترکی، اور عراق کے درمیان شمال مغربی عراق میں ایک کرد ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے  ’’سہ فریقی تعاون‘‘ کے نام سے ہونے والی سرگرمیوں میں ترکی شریک تھا۔ ترکی اور شام کے درمیان موجودہ تناؤ کے باوجود شمال مشرقی شام میں ایک کرد ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری ہیں۔ آپ نے چار ممالک میں کردوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے: ترکی، شام، ایران، اور عراق۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ان چار ممالک کے درمیان کرد ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے ہم آہنگی ہونی چاہیے؟

عبد اللہ گل: قدرتی طور پر دہشت گردی اور دہشت گرد گروپوں کے خلاف جنگ کے لیے ان ممالک کے درمیان باہمی تعاون ممکن ہے، جبکہ دہشت گردوں اور ان ممالک میں رہنے والے شہریوں کے درمیان واضح فرق کرنا ضروری ہے تاکہ ان کے ساتھ برابری کا سلوک کیا جا سکے۔ تاہم، اگر ان ممالک کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق کرنے والی علیحدگی پسند تحریکیں یا دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں، تو ان ممالک کے درمیان باہمی تعاون ضروری ہو جاتا ہے۔ 

ابراہیم حمیدی: کرد ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے باہمی تعاون بھی شامل ہے؟

عبد اللہ گل: ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ کسی بھی ملک میں تمام شہریوں کو سلامتی، آزادی، اور ان کے تمام خودمختاری اور قانونی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ تمام شہریوں بشمول کردوں اور غیر کردوں کو ان کے بنیادی حقوق دیئے جانے چاہئیں۔ لیکن دہشت گرد یا علیحدگی پسند تحریکوں کو انسانی حقوق کا جائز محافظ نہیں سمجھا جا سکتا۔ وقتاً فوقتاً ان تحریکوں کو بیرونی قوتوں جیسے روسیوں اور امریکیوں کی طرف سے پراکسی (ذریعہ) کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کی کرد ریاست اگر قائم ہو گی تو اسرائیل اسے اپنے ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھے گا۔ لہٰذا تمام علیحدگی پسند اور دہشت گرد تحریکیں،  جو متعلقہ ممالک کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق کرتی ہیں، ان سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔

ابراہیم حمیدی: میں اسرائیل کے موضوع پر واپس آؤں گا، لیکن میں پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا آپ کو حیرت ہوئی کہ الاسد ’’عرب اسپرنگ‘‘  والے ممالک کے واحد رہنما ہیں جو عہدے پر برقرار رہنے میں کامیاب رہے۔

عبد اللہ گل: میں اسے حیرت کی بات نہیں سمجھتا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ خطے کے ممالک جنہیں ’’عرب اسپرنگ‘‘ کا تجربہ ہوا ہے، کسی نہ کسی طرح سے تبدیل ہو چکے ہیں، چاہے وہ منفی ہو یا مثبت۔

ابراہیم حمیدی: آپ کا الاسد سے آخری رابطہ کب ہوا تھا؟

۲۰۱۱ء میں جب ’’عرب اسپرنگ‘‘ شروع ہوا تھا۔ شام میں دیکھنے کی آخری چیز جو میں کبھی دیکھنا چاہتا تھا وہ شامی فوج کا اپنے ہی لوگوں کے مسلح گروہ کا سامنا کرنا تھا۔ جب واقعات شروع ہوئے، ۲۰۱۲ء تک میں نے دیکھا کہ روس اور ایران بھی اپنے مفادات کے تحت شامل ہو چکے ہیں تو مجھے شام میں جلدی حکومت کی تبدیلی کا امکان دکھائی نہیں دیا۔ روس کی روایتی بحیرہ روم کی پالیسی معروف ہے۔ ایران کا اپنے قومی مفاد کا ایجنڈا ہے۔ یہ واضح تھا کہ روس اور ایران (شامی) حکومت کی حمایت کرتے رہیں گے۔

دوسری طرف شام کی مسلح تحریکوں کو اس سطح کی ضروری حمایت حاصل نہیں تھی۔ ایک غیر متوازن معاملہ تھا۔ میں نے اپنی حکومت کے ساتھ بات کی اور بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائی کہ یہ تنازع سفارتی یا سیاسی حل کی طرف بڑھے بغیر طے نہیں پائے گا۔ میرا تجزیہ تھا کہ صورتحال بالآخر موجودہ نتیجے کی طرف جائے گی جس میں معاملات جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔

مجھے یاد ہے کہ آخری سنجیدہ کوشش کوفی عنان کی طرف سے سامنے آئی تھی، جنہیں ۲۰۱۲ء میں شام کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ خصوصی ایلچی کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ میں نے بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر، جیسا کہ ۲۰۱۲ء میں  ’’نیٹو شکاگو سمٹ‘‘، اپنی تقریروں میں اس کوشش کو شام کا آخری موقع قرار دیا اور امید کی کہ ایک سیاسی عمل شروع ہو گا۔ مجھے انتہائی دکھ ہے کہ معاملہ اس المناک نتیجہ تک پہنچ گیا ،چار لاکھ سے زیادہ افراد کی ہلاکت کے ساتھ، صورتحال واقعی دل دہلا دینے والی ہے۔

ابراہیم حمیدی: ’’عرب اسپرنگ‘‘ پر نظر  ڈالیں تو تیرہ سال بعد آپ کا کیا خیال ہے، کیا یہ واقعی ’’عرب بہار‘‘ تھی یا یہ ’’تاریک سَرما‘‘ جیسا تھا۔ 

عبد اللہ گل: عرب نوجوانوں اور لوگوں کے مطالبات یقینی طور پر جائز تھے۔ میں نے اسے نوجوانوں اور شہریوں کی طرف سے ایک عظیم تحریک کے طور پر دیکھا جو باعزت زندگی کے لیے کوشش کر رہے تھے اور اچھی حکمرانی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ کچھ ممالک بشمول بادشاہتوں  نے اپنے شہریوں کے جائز مطالبات کو سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی کوششوں کے ذریعے بحران کو سنبھالا۔ دوسری طرف ’’منتخب‘‘  آمر تھے جو صورتحال کو صحیح طریقے سے سنبھالنے میں ناکام رہے۔

ابراہیم حمیدی: کیا ’’عرب اسپرنگ‘‘ ناکام رہا؟ 

عبد اللہ گل: جب میں دیکھتا ہوں کہ یہ تیونس میں کس طرح سے شروع ہوا  اور اس کا موازنہ کرتا ہوں کہ آج ملک کہاں کھڑا ہے، تو اس نتیجہ کو کامیابی کے طور پر دیکھنا مشکل ہے۔ حالیہ تیونسی انتخابات میں ووٹروں کی شمولیت تقریباً‌ ستائیس فیصد تھی۔ اسے کامیابی کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ راشد غنوشی، جو اَب تراسی سال کے ہیں، پچھلے انتخابات میں ایک اہم شخصیت تھے، آج وہ جیل میں ہیں۔

ابراہیم حمیدی: کیا یہ آپ کے لیے مایوسی کی بات ہے؟

عبد اللہ گل: یہ مایوسی نہیں ہے بلکہ اس کے بعد کے حالات پر افسوس ہے۔ عرب لوگ بہتر اقتصادی اور سماجی حالات چاہتے تھے اور اپنی حکومتوں سے جوابدہی چاہتے تھے۔ کیا عرب لوگوں کو  ان کے اقتصادی، سیاسی، اور سماجی حقوق کی ضمانت کے ساتھ جرمن، فرانسیسی، برطانوی اور دیگر کی طرح زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے؟ معاملات کو ان حالات تک پہنچا دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا ہے۔ 

ابراہیم حمیدی: اسرائیل کی طرف آتے ہیں اور مزید علاقائی کشیدگی کے امکان پر بات کرتے ہیں۔ اسرائیل دمشق، بیروت، حدیدہ، عراق، ایران، مغربی کنارے، اور یقیناً‌ سب سے زیادہ غزہ پر بمباری کر رہا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

عبد اللہ گل: مجھے انتہائی دکھ ہوتا ہے۔ خطے کے اسلامی ممالک متحد نہیں ہیں، وہ بہت زیادہ منقسم ہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین کے اندر بھی مغربی کنارے  اور غزہ میں دو محاذوں پر تقسیم ہے۔ اس تقسیم نے اسرائیل کو اس طرح سے اقدام کرنے کی صلاحیت دی ہے۔ خطے کے ممالک کے درمیان اتحاد اور ہم آہنگی کی کمی نے بنیادی طور پر اسرائیل کو اس طرح سے برتاؤ کرنے کا تاریخی موقع دیا ہے۔

ابراہیم حمیدی: آپ سات اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

عبد اللہ گل: میں کسی بھی طرح سے بے دفاع، غیر مسلح شہریوں پر حملوں کی حمایت نہیں کرتا۔ لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جو کہا وہ سمجھنا بہت ضروری ہے: ’’یہ حملے خلا میں نہیں ہوئے۔‘‘

اسرائیل نے دہائیوں سے فلسطینیوں کی زمینوں پر غیر قانونی اور ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے باوجود ایک ظالمانہ آبادکاری پالیسی چلا رہا ہے۔ اسرائیلی حکام نے فلسطینیوں کو منظم طریقے سے مستقل طور پر اپنی زمین چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ ان تمام مظالم کے علاوہ، جب لوگوں کو مسلسل ان کی عزت اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جاتا ہے تو وہ ایسا محسوس کر سکتے ہیں کہ ’’آؤ ہم سب مر جائیں کیونکہ ہم پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں‘‘۔ جب لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے، یا انہیں انسانوں کی طرح نہیں سمجھا جاتا، تو یہ فطری ہے کہ مزاحمتی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں، اور یہی ہوا ہے۔

ابراہیم حمیدی: اگرچہ اسرائیل نے حزب اللہ کی قیادت ختم کر دی ہے، لیکن اس نے پورے لبنان میں اپنی بمباری بند نہیں کی ہے۔ آپ کے خیال میں ان کا مقصد کیا ہے؟

عبد اللہ گل: تمام اسرائیلی پالیسیاں ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر واپسی کے مسئلے سے بچنے کے لیے ہیں۔ ۲۰۰۶ء میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد ۱۷۰۱ منظور ہوئی جس میں اسرائیل کی واپسی اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم، چونکہ قبضہ ختم نہیں ہوا اس لیے مزاحمت اور مسلح جدوجہد بھی جاری رہی۔ یہ مسائل آپس میں بہت جڑے ہوئے ہیں۔

ابراہیم حمیدی: تو کیا حل قرارداد ۱۷۰۱ میں ہے؟

عبد اللہ گل: صرف ۱۷۰۱ کے ذریعے نہیں، حالانکہ یہ اس معاملے پر سب سے حالیہ قرارداد ہے۔ حل کی بنیاد ۱۹۶۷ء کی سرحدوں (اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۴۲) میں ہے۔ میں نے ۱۷۰۱ کا ذکر خاص طور پر لبنان کے تناظر میں کیا۔

ابراہیم حمیدی: حالیہ ترک بیانات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ اسرائیل ’’وعدہ شدہ زمین‘‘ چاہتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ترک پارلیمنٹ نے حال ہی میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں اس حوالے سے خدشات پر بحث کی گئی اور یہ کہ کس طرح سے یہ ترکی کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

عبد اللہ گل: میں ایسے نظریاتی یا افسانوی دعووں کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ یہ خواب پرانے ہو چکے ہیں۔ اسرائیل ترکی کے خلاف دشمنانہ رویہ دکھانے کی جرات نہیں کرتا۔

ابراہیم حمیدی: اسرائیل اور ایران طویل عرصے سے ایک خفیہ جنگ میں مصروف چلے آ رہے ہیں جس نے اپریل میں تباہ کن صورت اختیار کی جب ایران نے پہلی بار اسرائیل پر براہ راست میزائلوں کا حملہ کیا، جو دمشق میں ان کے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے جواب میں تھا۔ انہوں نے یکم اکتوبر کو پھر ایسا ہی حملہ کیا، جو تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ اور بیروت میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کے قتل کے جواب میں تھا۔ کیا آپ کو علاقائی جنگ، یا ایران اسرائیل جنگ کے امکان کا خطرہ نظر آتا ہے؟

عبد اللہ گل: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ  خطہ متحد نہیں ہے۔ بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ میں اسلامی دنیا میں تقسیم ہے۔ ایران کی جارحانہ پالیسیاں خطے میں خطرے کے تصورات کو تبدیل کر چکی ہیں۔ جہاں روایتی طور پر عرب دنیا اسرائیل کو بنیادی خطرہ سمجھتی تھی، (اب) ایران نے اس کی جگہ لے لی۔ اس نے عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ تعلقات قائم کرنے پر مجبور کیا۔ اسرائیل ، جو ایسی تقسیم چاہتا تھا، اس نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

اس صورتحال نے خطے اور اس کی مجموعی ہم آہنگی کو متاثر کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ حالیہ دنوں میں واحد مثبت پیشرفت سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی ہے، جو چین کی مدد سے ہوئی، اس نے خطے کو فائدہ پہنچایا ہے۔

ایران کی جارحانہ بیان بازی اور اسرائیل کو نقشے سے مٹانے اور اسرائیلی ریاست کو ختم کرنے کے نعرے تل ابیب کے لیے فائدہ مند رہے ہیں۔ ایران کی اسرائیل مخالف بیان بازی امریکی اور کچھ یورپی ممالک کی غیر محدود فوجی حمایت کو جائز قرار دینے کے لیے ایک بہانہ فراہم کرتی ہے۔

اسرائیل جنگ کو خطے میں پھیلانا چاہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اس میں اس کا مفاد ہے، اور اس مقصد کے لیے خطے کے ممالک خاص طور پر ایران کو اکساتا ہے۔

ابراہیم حمیدی: آپ نے چین کی مدد سے ہونے والے سعودی ایرانی معاہدے کا ذکر کیا۔ ہم نے صدر اردگان کی طرف سے ایک نیا نقطہ نظر بھی دیکھا ہے جو  مصر، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔ آپ ترک صدر کے اس نئے علاقائی نقطہ نظر کو کیسے دیکھتے ہیں؟

عبد اللہ گل: میں ان اقدامات کی مکمل حمایت کرتا ہوں اور مجھے ان برادرانہ قوموں کے ساتھ اپنے تعلقات کی ایک دہائی کھونے پر افسوس ہے۔ میں تہہِ دل سے اس رُخ جانے کی تائید کرتا ہوں۔ ترکی اور ان ممالک کے درمیان یکجہتی خطے کی سلامتی اور خوشحالی کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب کرے گی۔

فلسطینی مسئلے کی طرف واپس آتے ہوئے، میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اسرائیلی فلسطینی تنازع کے حوالے سے ایک بڑی کمزوری موجود ہے، جو فلسطینیوں کے درمیان تقسیم ہے۔ اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے بہت کوششیں کی گئی ہیں، خاص طور پر سعودی بادشاہ عبداللہ کی مساعی کے ذریعے۔ میں نے بھی مختلف مواقع پر اپنے سابقہ عہدوں پر اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے۔ یہ تقسیم مقصد کی قوت کو کمزور کرتی ہے۔ غزہ اور مغربی کنارہ مختلف لوگوں پر مشتمل نہیں ہیں، وہ سب بے اختیار فلسطینی ہیں، اتنے زیادہ مصائب سے گزرنے کے بعد  اب وقت ہے کہ متحد ہو جائیں۔

ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ’’عرب امن منصوبہ‘‘ جو ۲۰۰۲ء میں بیروت میں شاہ عبداللہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور او آئی سی کی طرف سے منظور کیا گیا تھا، جس کا ایران بھی رکن ہے، فلسطینی مسئلہ کے ایک مؤثر اور بامعنی حل کے لیے ایک اہم کوشش کے طور پر موجود ہے۔ اس مسئلے کا دو ریاستی صورت پر مبنی مستقل حل تلاش کیے بغیر مشرقِ وسطیٰ میں علاقائی امن اور سلامتی کو یقینی بنانا مشکل ہے۔

ابراہیم حمیدی: عالمی تبدیلیوں کے سلسلہ میں — ابھرتا ہوا چین، یوکرین میں روس کی مصروفیت، اور امریکی اثر و رسوخ  میں کمی — آپ کو بین الاقوامی نظام کیا رخ اختیار کرتا نظر آتا ہے؟ اور آپ کو کیا لگتا ہے کہ خطہ پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

عبد اللہ گل: آج کے حالات میں عالمی اقدار اور معیارات مغربی قوتوں کے ذریعے پامال ہو رہے ہیں، جن کا مغربی دنیا دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ان کے زبردست محافظ ہیں، جیسے انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی، جمہوریت۔

فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کے معاملے میں مغرب نے واضح طور پر وہی معیارات لاگو نہیں کیے ہیں۔ غزہ میں بین الاقوامی نظام کی ناکامی کو بڑی تکلیف کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ غزہ کی جنگ پر مغربی قوتوں خاص طور پر امریکہ کا موقف، روس یوکرین جنگ کے حوالے سے ان کے دلائل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ منافقت ان کی ساکھ کو اور ان کی قائل کرنے کی صلاحیت کو کم کرتی ہے۔ افسوس کے ساتھ، یہ دوہرا معیار کچھ ممالک کو چین یا دیگر آمرانہ حکومتوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، تاکہ مغرب کی اس کھلی جانبداری کا مقابلہ کیا جا سکے۔

امریکہ اور چین کے درمیان موجودہ کشمکش، جو بنیادی طور پر اقتصادی مسائل اور اثر و رسوخ کے دائروں کے حوالے سے ہے، اگلے دس سالوں میں دنیا کو ایک نئے منقسم دور کی طرف لے جائے گی۔ یہ یقینی طور پر مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے کے لیے چیلنجز کا باعث بنے گی۔

مغربی دنیا کو بین الاقوامی قانون اور عالمی اصولوں کے تقاضوں کا احترام کرتے ہوئے خود پر اور اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اسے مکالمہ اور ایمانداری پر مبنی منصفانہ، شراکتی اور شفاف پالیسیوں کی طرف لوٹنا ہو گا۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ  بحال کر سکتے ہیں اور عرب دنیا بلکہ وسیع تر خطے ایشیا سے لے کر لاطینی امریکہ تک کے لوگوں کا اعتماد دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی سمجھداری ایک بار پھر مغربی دنیا اور اس کے اداروں کو  تحریک کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔ بصورتِ دیگر وہ مایوسی کے طور پر دیکھے جاتے رہیں گے۔

نیز ایسی مثبت تبدیلی اور زیادہ آگاہی بہت سے ممالک کو ، چاہے مغرب میں ہوں یا مشرق میں ، اندرونی طور پر مائل کرے گی اور اپنی سماجی و اقتصادی پالیسیوں پر نظرثانی کی دعوت دے گی، جس سے اچھی حکمرانی پر مبنی پالیسیوں کے نفاذ کی راہ ہموار ہو گی۔ 

https://en.majalla.com/node/323056


حالات و مشاہدات

(الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter