حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کا ہر سال عیدالاضحی کی چھٹیوں میں تبلیغی احباب کے ساتھ سہ روزہ لگانے کا معمول ہے۔ اس سال سفر حج کے باعث اس سہ روزہ کی ترتیب ماہ جمادی الاولیٰ میں بنائی گئی اور ۱۶ تا ۱۸ مارچ تین دن کے لیے فیصل آباد میں مفتی زین العابدین رحمہ اللہ والی مسجد میں تشکیل ہوئی۔ منگل کے روز گوجرانوالہ مرکز میں حاجی اسحق صاحب کی ہدایات سننے کے بعد صبح نو بجے بیس علما کا قافلہ مختلف سواریوں پر گوجرانوالہ سے فیصل آبادروانہ ہوا۔ راقم الحروف اسی گاڑی میں تھا جس میں شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی تشریف فرماتھے۔
بات چل نکلی مصحف عثمانی کی تو حضرت نے فرمایاکہ یہ کل چھ نسخے تھے جن میں سے اس وقت دنیا میں صرف تین مصحف پائے جاتے ہیں: ایک ترکی میں، ایک لندن میں اور ایک تاشقند میں۔ فرمایا، کئی برس پہلے صنعاء (یمن) سے مصحف علوی کے دریافت ہونے کی خبر آئی تو مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: یہ خبر پڑھی ہے؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو مجھے وہ خبر نکال کر دکھائی اور فرمایا: یہ کہیں مولیٰ علی کے نام پہ سازش نہ ہو۔ میں نے کہا: ہاں، یہ بھی ہو سکتا ہے۔ کہنے لگے: کیا پھر میں اس معاملہ کو دیکھوں؟ میں نے کہا: دیکھ لیں۔ مولانا چنیوٹی بڑے باذوق آدمی تھے۔ وہ سفر کر کے یمن (صنعا) گئے۔ایک ہفتہ وہاں رہ کر اس مصحف علی کو دیکھتے رہے۔ جن جن مقامات پر شبہ ہو سکتا تھا، انہیں خوب اچھی طرح دیکھا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ واقعی یہ مصحف علی ہی ہے، کوئی ڈراما نہیں، اور اس میں اور مصحف عثمانی میں کوئی فرق نہیں۔ جرمن تحقیق کار بھی وہاں ریسرچ کر رہے تھے۔ ان کی تحقیق کا طریقہ یہ ہے کہ سیاہی دیکھتے ہیں، کاغذ پر تحقیق کرتے ہیں، رسم الخط کی جانچ کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق بھی یہ مصحف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ہے۔ مولانا زاہد الراشدی نے فرمایا کہ چند ماہ قبل برمنگھم سے ان سب سے قدیم ’’مصحف صدیقی‘‘ دریافت ہوا ہے، یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کامصحف، لیکن وہ مکمل نہیں ہے۔ وہ لوگ اس کے باقی اوراق کو تلاش کر رہے ہیں۔
قاری ریاض احمد صاحب نے ایران کے سفر کے دوران آیت اللہ جنتی کے ساتھ حضرت مولانا زاہدالراشدی کے مکالمے کی تفصیل سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت نے فرمایا کہ ایک مکالمہ مولانا چنیوٹی رحمہ اللہ کا آیت اللہ خزعلی کے ساتھ ہواتھا جبکہ دوسرا مکالمہ میرا آیت اللہ جنتی کے ساتھ ہوا تھا۔ پھر حضرت نے ان مکالموں کی تفصیل بیان کی۔ فرمایا کہ ان دنوں علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ کی کتاب "الشیعۃ والقرآن" کا عالم عرب میں کافی شور تھا جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ شیعوں کا موجودہ قرآن پر ایمان نہیں ہے۔ عراق کے صدر صدام حسین نے اس کتاب کے ایک ملین نسخے چھپوا کر تقسیم کروائے تھے۔ یہیں سے علامہ کے، صدر صدام سے تعلقات کی ابتدا ہوئی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرعراق کے اعزازی سفیرتھے۔
جب ۱۹۸۷ء میں پاکستان سے ایک وفد ایرانی حکومت کی دعوت پر ایران گیا تو ایک نشست میں آیت اللہ خزعلی نے کتاب"الشیعۃ والقرآن"ہاتھ میں لے کر کہا کہ یہ ہم پر بڑا بہتان ہے۔ ہم قرآن کو مانتے ہیں اور ہمارا اس قرآن پر پورا یقین ہے۔ چنیوٹی صاحب نے میرے کان میں کہا :مڑ چھیڑاں ایہنوں؟ (چھیڑوں پھر اس کو؟) میں کہا: چھیڑیں! تو مولانا چنیوٹی کھڑے ہوئے اور کہا: ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ ایک شیعہ عالم کی زبان سے ہم سن رہے ہیں کہ یہ قرآن برحق ہے اور ہمارا اس پر پورا یقین ہے، لیکن آپ کی روایات اس کے خلاف کہتی ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ آیت اللہ خزالی مسکرانے لگے اور کہا کہ آپ کے ہاں بھی تو علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ قرآن پاک کی آیات سترہ ہزار تھیں، جبکہ اب صرف چھ ہزار سے کچھ اوپر پائی جاتی ہیں۔ تو جیسے آپ علامہ سیوطی کی اس روایت کو نہیں مانتے، اسی طرح ہم بھی ان روایات کو نہیں مانتے۔ علامہ چنیوٹی کھڑے ہوئے اور کہا کہ یہ تو ایک روایت ہے، ہم اس کو نہ مانیں بلکہ پورے سیوطی کو بھی نہ مانیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، جبکہ آپ کی تو صحاح اربعہ(جن کی حیثیت ان کے ہاں ہماری صحاح ستہ جیسی ہے) میں دو ہزار سے زائد روایات قرآن کا انکار کرتی ہیں، ان کاآپ کیا کریں گے؟ مولانا چنیوٹی نے دو چار روایات سنا بھی دیں جو انہیں زبانی یاد تھیں۔ اس پر آیت اللہ صاحب تھوڑا ٹھٹھکے۔ پھر فوراً سنبھل کر کہنے لگے کہ امام جعفر سے روایت ہے کہ جو بھی روایت قرآن سے ٹکرائے، اسے دیوار پہ دے مارو۔ لہٰذا ہم ان سب روایات کو دیوار پر مارتے ہیں۔ علامہ چنیوٹی پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا: بہت اچھا۔ ہمیں آپ کا موقف سمجھ آگیا ہے۔ لیکن ایک بات بتا دیجیے، ہمارے ہاں جوتحریف قرآن کا قائل ہو، ہم اسے دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر مانتے ہیں۔ آپ کا ان روایات کے راویوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آیت اللہ خزعلی ڈائس چھوڑتے ہوئے کہنے لگے، آئیے چائے پییں۔ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے اور مجھے کہیں جانا بھی ہے۔
فیصل آباد میں تقریباً چالیس چھوٹے بڑے مدارس میں گشت کے دوران علماء وطلبہ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ جامعۃ الحسنین، دارالقرآن، مدینۃ العلم، جامعہ عبیدیہ، کاشف العلوم اور جامعہ امدادیہ میں مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کے بیانات ہوئے۔ بہت سے علماء اور شخصیات دور ونزدیک کے علاقوں سے حضرت سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے رہے۔ کئی ایک کے پاس آپ خودملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ تیسرے روز نماز ظہر کے بعد جامع مسجد عثمانیہ میں علماء کے ایک بڑے مجمع سے مولانا زاہد الراشدی نے خطاب فرمایا جس میں علماء کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے اور جدوجہد کا دائرہ وسیع کرنے کی ترغیب دی۔ فرمایا کہ اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ اللہ جل شانہ ہم سے ناراض ہیں، چنانچہ ہمیں مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ اللہ جل شانہ کو راضی کرنے اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے پر آمادہ کرنا چاہیے۔ آخر میں مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا یوسف ثالث صاحب نے (جو مدینہ منورہ میں مقیم ہیں اور اِن دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں) تشکیل کے فرائض انجام دیتے ہوئے علماء کو اللہ کے راستے میں نکلنے کی ترغیب دی۔