(یہ مقالہ اسلامک فقہ اکیڈمی،انڈیا کی طرف سے 12-13 اکتوبر 2013 کو ’’تصور آزادی اور فقہ اسلامی میں اس کی تطبیق‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کیا گیا۔)
آزادی فکر ونظر انسانی فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔انسان حیوان ناطق ہے۔اسے عقل اور قوت تفکیر سے نوازا گیا ہے جس کے ذریعے وہ خیر وشر میں تمیز کرتا ہے اور جس کی بنیاد پر اس سے فطرت کا مطالبہ ہے کہ وہ خود اپنی ذات وکائنات میں غور کرکے اپنے وجود کے مقصد کی دریافت کرے ۔قرآن میں درجنوں مقامات پر تقلیدی روش اختیار کرنے کے بجائے انسان کو عقل کے استعمال پر ابھارا گیا ہے اور عقل وفکر کو پس پشت ڈال دینے والوں کو اس معاملے میں جانوروں بلکہ ان سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔(الاعراف: 179) اس لحاظ سے دوسرے تمام قابل ذکر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کو عقل و فکر کا مذہب قرار دیا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے قبل انسانی عقل تقلید وروایت پرستی اور اساطیر و اوہام کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔تاریخ انسانی میں یہ سہرا بلا شبہ اسلام کے سر ہی جاتا ہے کہ اس نے اس کوان زنجیروں سے آزاد کیا۔اسلام میں اقدامی سطح پر جس فتنے کے استیصال کے لیے جہاد و قتال کی اجازت دی گئی، وہ در اصل مذہبی تعذیب کی وہ صو رت حال تھی جو وقت کی مطلق العنان طاقتوں نے ہر اس شحص کے لیے روا رکھی تھی جو’’الناس علی دین ملوکہم‘‘ کے کلیے سے انحراف وانکار کی روش اختیار کرتے ہوئے فکروعقیدے کی آزادی کا قائل ہو۔اسلام نے ہر فر د مسلم کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا مکلف بنایا ہے اس کا بھی تقاضا ہے کہ اس کو اظہار راے کی مکمل آزادی حاصل ہو۔رسول اللہ نے سلطان جائرکے سامنے کلہ حق بلند کرنے اور اس کوراہ حق کی طرف تلقین کو افضل جہاد قرار دیا ہے۔(1)
اسلام کی نظر میں فکری تکثیریت، خواہ اس کا تعلق انسان کے حیات وکائنا ت کے نظر یے (world view)یا بالفاظ دیگر عقیدے سے ہی کیوں نہ ہو،انسانی فطرت کا اقتضا اوراس کائنات کے بنائے ہوئے نقشے کے عین مطابق ہے، اس لیے اس نقشے کو نہ توچیلنج کرنا ممکن ہے اور نہ چینج کرنا۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس پہلو کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: قل الحق من ربکم فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر۔’’کہہ دیجیے کہ حق اللہ کی طرف سے ہے۔ تو جوچاہے ایمان کا راستہ اختیارکرے اور جو چاہے کفر کا‘‘۔( الکہف: 29)۔ لو شاء ربک لامن من فی الارض کلہم جمیعا افانت تکرہ الناس حتی یکونوا مؤمنین ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو دنیا کے تمام لوگ ایمان قبول کرلیتے۔ کیا لوگوں کو مومن بنانے کے لیے آپ ان کے ساتھ زبردستی کریں گے؟‘‘ ( یونس:99)) دوسری جگہ کہا گیا ہے: ولو شاء اللہ لجعلکم امۃ واحدۃ ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو صرف ایک امت بنادیتا۔‘‘(المائدہ:48) ہو الذی خلقکم فمنکم کافر ومنکم مؤمن’’اللہ نے ہی تمہاری تخلیق کی ہے تو تم میں کچھ لوگ مومن ہیں اور کچھ لوگ منکر‘‘( التغابن:2)۔ اس طرح مومن کے ساتھ منکر ہونے کو ایک ابدی اور فطری حقیقت کے طور پر خود قرآن میں تسلیم کیا گیا ہے۔
اسلام میں فکرورائے کی ایک اہم اساس مشورہ کا اصول ہے جس کے متعدد روشن نمونے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتے ہیں۔ آپ اجتماعی معاملات میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے ۔مختلف جنگوں کے مواقع پر آپ نے صحابہ کرام کے مشوروں پر عمل کیا۔یہاں تک کہ آپ اپنی ازواج مطہرات سے بھی مشورہ کرتے تھے۔(2) چناں چہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے اپنی زوجہ مکرمہ ام سلمہ کے مشورے پر عمل کیا۔ مختلف احادیث میں رسول اللہ نے مشورہ کرنے اور مشورہ کے مطابق اقدام پر زوردیا۔ مشورے کے علاوہ رسول اللہ کا ایک اسوہ اصحاب کرام کواجتہاد کی روش اختیار کرنے کی ترغیب دینا تھا۔ حضرت معاذ بن جبل سے تعلق رکھنے والا مشہور واقعہ ہے کہ آپ نے انہیں یمن روانہ کرتے وقت دریافت کیا کہ تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں۔ آپ نے پوچھا کہ اگر تمہیں کتاب اللہ میں متعلقہ حکم نہ ملے تو؟ انہوں نے فرمایا اللہ کے رسول کی سنت میں۔آپ نے سوال کیا کہ اگر اس میں بھی تم وہ مسئلہ نہ پاؤ تو کیا کروگے؟ حضرت معاذ نے جواب دیا پھرمیں اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کسرنہیں چھوڑوں گا (اجتہد ولا آلو)۔اس پرآپ نے ان کے سینے پرہاتھ مار کر فرمایا :’’ اللہ کے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں جس نے اللہ کے رسول کے رسول کوتوفیق سے نوازا‘‘۔(3)
اس طرح آپ نے عقبہ بن عامر اوران کے ساتھ ایک دوسرے صحابی سے فرمایا کہ : اجتہدوا فان اصبتما فلکم عشر حسنات وان اخطأتما فلکما حسنۃ’’ (4) ’’تم اجتہاد کرو، اس میں اگرتم نے صحیح اجتہاد کیا تو تم کو دس نیکیاں ملیں گی اور اگرتم سے اس میں خطا سرزد ہوئی تب بھی تمہیں ایک نیکی ملے گی۔‘‘ ذخیرہ احادیث میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہیں۔
ڈاکٹر طہ جابر جابر علوانی لکھتے ہیں کہ حریت عقیدہ کی قرآن کی کم ازکم دو سو آیات میں ضمانت دی گئی ہے۔(5) حریت عقیدہ کے تعلق سے سب زیادہ بحث ومناقشے کا موضوع اسلامی فقہ میں ارتداد کی سزا کا مسئلہ ہے۔ علما کی ایک جماعت اس بات کی قائل رہی ہے کہ ہرصورت میں ارتداد کی سزا قتل نہیں ہے، لیکن غالب موقف بہرحال یہی رہا ہے کہ ارتداد کی راہ اختیارکرنے والا شخص قابل قتل ہے۔ تاہم رسول اللہ کے تعلق سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ نے کسی کو اس جرم میں قتل نہیں کرایا۔ ڈاکٹرعلوانی لکھتے ہیں: انہ من الثابت المستفیض انہ لم یقتل مرتد ا طیلۃ حیاتہ الشریفۃ ’’یہ بات پورے طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں کسی کو ارتداد کے جرم میں قتل نہیں کرایا‘‘۔(6) ابن الطلاع کا قول ہے کہ کسی مشہور کتاب میں یہ مذکور نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مرتد یا زندیق کوقتل کرایا ہو۔(7) اس لیے صحابہ میں حضرت عمر فاروق اور فقہا میں امام نخعی اور سفیان ثوری کی رائے یہ رہی ہے کہ ان سے ہمیشہ توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا ،انہیں قتل نہیں کیا جائے گا: یستتاب ابدا ولایقتل۔ (8) یوسف قرضاوی کے نزدیک ارتداد کی دوقسمیں ہیں: ۱۔ خاموش ارتداد (ردۃ صامتۃ) جس کا وبال فرد کی اپنی ذات تک محدود ہو اور ۲۔ علانیہ اور ددسروں کو اپنی طر ف دعوت دینے والا (ردۃ مجاہرۃ داعیہ)۔ان میں سے دوسری قسم کے مرتدین قابل قتل ہیں۔ پہلی قسم کے مرتدین سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔(9) نیز اس بات پر فقہا کے درمیان اتفاق ہے کہ ارتداد میں ملوث ہونے والی عورتوں کو بہر حال قتل نہیں کیا جائے گا۔اس سے بھی اس موقف کوتقویت ملتی ہے کہ وہ ارتداد موجب قتل ہے جو محاربہ کے ہم معنی ہو۔ اس لیے یہ موضوع بہرحا ل غور و فکر کا متقاضی ہے۔یہاں اس مسئلے کے دوسرے پہلوؤوں پر تفصیل سے بحث ممکن نہیں ہے۔
رسول اللہ کی سیرت طیبہ میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فرد کو فکر ورائے کی مکمل آزادی دیتے تھے اور خاص طور پر عقیدے کے باب میں کسی قسم کے جبر کو پسند نہیں کرتے تھے۔ دین میں جبر واکراہ کوممنوع قرار دینے والی مشہور آیت :لا اکراہ فی الدین کا شان نزول حضرت ابن عباس سے یہ بیا ن کیا جاتا ہے کہ: مدینہ کی ایسی عورتیں جن کو اولاد نہیں ہوتی تھی وہ اس بات کی نذر مان لیتی تھیں کہ اگر انہیں اولاد ہوئی تو وہ اس کویہودی بنا دیں گی ۔چناں چہ جب قبیلہ بنونظیر کو مدینہ سے جلاوطن کیا گیا تو مدینہ کے ایسے مسلمان جواس طرح یہودی بن گئے تھے، ان کے والدین رسول اللہ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ سے کہا کہ ہم ایسا جاہلیت میں اس وقت کرتے تھے جب ہم یہود کے مذہب کو اپنے سے بالا وبرتر سمجھتے تھے، لیکن اب جب کہ اسلام کی شکل میں حق ہمارے پاس آچکا ہے تواب ہم اپنے بچوں کو کیوں نہ مجبور کریں کہ وہ اسلام قبول کرلیں۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(10)
اسلامی تہذیب کی شاندارروایت
عہد نبوی کے علاوہ صحابہ و تابعین اور ان کے بعد مسلمانوں کے دور زریں میں اور تہذیبی عروج کے زمانے میں حریت فکر ونظر اورآزادی اظہار رائے کی نہایت اعلی مثالیں ملتی ہیں۔ صحابہ کرام میں حضرت عمر کے تعلق سے آزادی اظہار رائے کے متعدد نادر واقعات مشہور ہیں جن کے اعادے کی یہاں ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ایک واقعہ جو حضرت امام ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے، یہ ہے کہ :ایک شخص نے حضرت عمر کومخاطب کرتے ہوئے کہا :اے عمر! اللہ سے ڈرو۔اور بار بار اس کو دہرایا۔حاضرین میں سے کسی نے اس شخص کواس پرٹوکا کہ اب چپ ہوجاؤ امیرالمؤمنین کو بہت کچھ کہہ چکے ۔حضرت عمرنے اس پر جوجملہ ارشاد فرمایا، وہ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے ۔آپ نے فرمایا:’’اس کوکہنے دو۔اس لیے کہ تم میں کوئی خیر نہیں اگر تم ایسی بات مجھ سے نہ کہو اور ہمارے اندر کوئی خیر نہیں اگرہم اس کو قبول نہ کریں‘‘(لا خیر فیکم ان لم تقولوھا ولا خیر فینا ان لم نسمعھا)۔(11)
یہ نہایت قابل غور پہلو ہے کہ صحابہ اور ائمہ محدثین میں سے جلیل القدر شخصیات سے ایسے اقوال و فرمودات مشہور ہیں جن کے حاملین پر آج آسانی کے ساتھ بدعت وزندقہ سے اوپر بڑھ کر نعوذ باللہ کفر کا حکم چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ قرآن کی آخری دونوں سورتوں (معوذتین) کو قرآن کی سورت تسلیم نہیں کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ دعا ہے جو جھاڑ پھونک کے لیے نازل کی گئی تھی۔(12)حضرت عبدا للہ ابن عمر کتابیہ سے نکاح کے قائل نہیں تھے۔ حالا ں کہ یہ نص قرآنی سے ثابت ہے۔حضرت ابو طلحہ روزے کی حالت میں اولہ کھانے کو ،حضرت ابوحذیفہ سورج نکلنے تک سحری کھانے کوجائز سمجھتے تھے ۔(13) حضرت عمر،عبداللہ ابن مسعود،ؓ ابوہریرہ ، عبد اللہ ابن عباس، ابوسعید اور تابعین میں اما م شعبی اور اور بعد کے اہم علما میں ابن تیمیہ اور ابن قیم اس بات کے قائل تھے کہ ایک دن جہنم کوفنا کردیا جائے گا اور بالآخر کفار بھی جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔(14)۔حضرت ابوذر غفاری ایک دن سے زائد مال جمع کرنے کو کنز تصور کرتے تھے اور اسے حرام و ناجائز سمجھتے تھے۔ ابن قیم نے اعلام المؤقعین میں لکھا ہے کہ عبداللہ ابن مسعود نے تقریبا سو مسائل میں حضرت عمر فاروق سے اختلاف کیا۔(15) لیکن اس کے باوجود عمر ان کو علم وفقہ سے بھرا ہوا پیالہ (کنیف مُلیءَ فقہا وعلما) سمجھتے تھے۔
اسلام کے عہد زریں میں باطل فرقوں کی کثرت تھی۔معتزلہ، جہمیہ حشویہ ، قدریہ ان سب میں سب سے زیادہ شدت پسند فرقہ خوارج کا تھا، لیکن اہل سنت والجماعت کے علما نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ بلکہ امام تیمیہ سے منقول ہے کہ امام احمد بن حنبل ان فرقوں کے ائمہ کے پیچھے نماز تک پڑھ لیتے تھے:
قد نقل ابن تیمیہ ان الامام احمد بن حنبل لم یکفر ھذہ الفرق(القدریۃ والجہمیۃ وغیرہا) بل صلی(احمد بن حنبل) رضی اللہ عنہ خلف بعض الجہمیۃ و بعض القدریۃ وان اکبر ما توصف بہ کل تلک الفرق عند ابن تیمیہ ہو الفسق۔
’’امام ابن تیمیہ سے منقول ہے کہ امام احمد بن حنبل نے (جہمیہ اورقدریہ جیسے) گمراہ فرقوں کی کبھی تکفیر نہیں کی ۔بلکہ انہوں نے بسااوقات جہمیہ یا قدریہ کے پیچھے نماز تک ادا کی۔زیادہ سے ابن تیمیہ ان فرقوں کوفاسق قرار دیتے تھے‘‘۔(16)
محدثین و مفسرین کی رواداری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے ان کی روایات تک اپنی کتابوں میں شامل کی ہیں۔ان میں خود اما م بخاری بھی شامل ہیں ۔انہوں نے اہل بدعت اور شیعہ راویوں کی روایتیں اپنی الجامع الصحیح میں شامل کی ہیں۔ اس کی متعدد حیرت انگیز مثالوں میں سے ایک مثال یہ ہے کہ عمران بن حطان بخاری کے رواۃ میں سے ہیں۔یہ اپنے ہم مسلک خو ارج کے سردار اورخارجیت کے اتنے بڑے علم بردار تھے کہ جب ابن ملجم نے حضرت علی کو قتل کیا تواس پر انہوں نے نہایت مسرت انبساط کا اظہارکیا۔ابن ملجم کی موت پرانہوں نے اس کا مرثیہ لکھا جس کے دو اشعار سے حضرت علیؓ سے ان کی نفرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
یا ضربۃٌ مِّنْ تقیِّ ما ارادَ بھا
الا لیَبْلُغَ مِنْ ذی العرشِ رِضوانا
’’واہ! اس پرہیز گار نے کیا وار کیا ہے۔یہ وار کرنے والے کی اس سے کوئی غرض نہیں تھی سوائے اس کے اس نیکی سے عرش کا مالک خدا راضی ہوجائے‘‘۔
انِّی لأذکرہ یوما فأحْسِبُہ
أوفَی البریِّۃِ عند اللہِ میزانا
’’میں جب اس وار کویاد کرتا ہوں توسوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس(ابن ملجم) کی یہ نیکی تمام نیکیوں سے بڑھ جائے گی۔‘‘(17)
غور کرنے کی بات ہے کہ عمران بن حطان کی دو روایتیں بخاری کتاب اللباس میں موجود ہیں (18)۔ اسی طرح ابوداؤد اوراما م نسائی نے بھی ان کی روایتیں اپنی سنن میں لی ہیں۔ پاکستان کے مفتی سعید خان صاحب لکھتے ہیں:
’’بدعتیوں کے تمام فرقہ باطلہ خوارج ،شیعہ، قدریہ ،مرجۂ ،معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ سے اہل السنت والجماعت کے ائمہ حدیث ،تفسیراورفقہ وتاریخ نے ان گنت روایات لی ہیں اوریہ ایسی حقیقت ہے کہ کوئی بھی صاحب مطالعہ مفسر، محدث ،فقیہ یا مؤرخ اس کا انکارنہیں کرسکتا۔اسماء الرجال کی کتابوں میں اگرکوئی ابان بن تغلب،سعید بن فیروز ،سعید بن عمرو ہمدانی،عبداللہ بن عیسی کوفی ، عدی بن ثابت ،محمد بن جحادہ اور زاذان کندی وغیرہ کے حالات کا مطالعہ کرے گا توہماری گزارشات کی تصدیق ہوجائے گی‘‘۔(19)
ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کے مقدمے ’’ہدی الساری‘‘ میں اٹھارہ ایسے روات کا تذکرہ کیا ہے جو شیعہ تھے اور ان کی روایات بخاری (20)میں موجود ہیں۔(21)۔بخاری میں کم ازکم ایک رافضی کی بھی روایت موجود ہے، حالاں کہ عام طورپر محدثین نے تشیع اوررفض میں فرق کرتے ہوئے اہل تشیع کی روایات تو قبول کی ہیں، لیکن رافضی کی روایات کو لینے سے احتراز کیا ہے۔یہ رافضی راوی عباد بن یعقوب الرواجنی الکوفی ابو سعید ہیں۔ابن حجر نے ان کے بارے میں جو کچھ فتح الباری کے مقدمے ہدی الساری میں لکھا ہے، وہ بے کم وکاست یہاں نقل کردینا کافی ہے۔لکھتے ہیں:
رافضی مشہور الا انہ کان صدوقا وثقہ ابو حاتم،وقال الحاکم کان ابن خزیمہ اذا حدث عنہ یقول حدثنا الثقۃ فی روایتہ، المتہم فی رأیہ عباد بن یعقوب۔وقال ابن حبان کان رافضیا داعیۃ وقال صالح بن محمد کان یشتم عثمانؓ ۔قلت روی عنہ البخاری فی کتاب التوحید حدیثا واحدا مقرونا و ہوحدیث ابن مسعود ای العمل افضل ولہ عند البخاری طرق اخری من روایۃ غیرہ (22)
غور کرنے کی بات ہے کہ حدیث کی سب سے عظیم ومہتم بالشان کتاب صحیح بخاری کی سب سے مہتم بالشان حصے کتاب التوحید میں ایک رافضی کی روایت موجود ہے۔محدثین نے اہل بدعت و ہوی کی روایات اس اصول کے تحت اپنی کتابوں میں لی ہیں کہ وہ جھوٹ سے بچنے والا اور صادق اللسان ہو(صدوق) اور اپنے مذہب کا داعی نہ ہو۔ابن حجر نے اس تعلق سے محدثین اوراصحاب علم کے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ایک قول یہ نقل کیا ہے:
ان یکون داعیۃ لبدعتہ او غیر داعیۃ،فیقبل غیر داعیۃ و یرد حدیث الداعیۃ۔وہذا المذہب ہو الاعدل وصارت الیہ طوائف من الائمۃ و ادعی ابن حبان اجماع اہل النقل علیہ لکن فی دعوی ذلک نظر۔(23)
مسلم معاشرے کی موجودہ صورت حال
اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں آزادی فکر ونظر کی صورت حال کیا ہے؟ اس میں شک نہیں کہ اسلام فکر ونظر کی آزادی کا داعی ونقیب ہے۔اسلام کے دور زریں میں اس کی نہایت شاندار روایت قائم رہی ہے ۔معاصر اور بعد میں ظہور میں آنے والی تہذیبوں پر اس کے غیر معمولی اثرات قائم ہوئے۔تاہم جہاں تک معاصر مسلم معاشرے کامعاملہ ہے ،حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنی ہموار کردہ راہ پر چلنے سے گریزاں ہے۔ یہاں سیاسی اور فکری دونوں طرح کی آزادی کی صورت حال نہایت مخدوش ہے۔جہاں تک سیاسی صورت حال کی بات ہے،اس تعلق سے مسلم ممالک کی صورت حال دنیا کے دوسرے تمام ممالک کے مقابلے میں نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ مغرب کی ماد ر پدر آزادی کے تصور کو نشانہ تنقید بنانے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے گھرکی اس صورت حال کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔فکری حلقوں کی صورت حال یہ ہے کہ اس بات کوتقریباً خاموشی کے ساتھ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اسلاف کرام جیسی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کی پیدائش کا سلسلہ اللہ تعالی نے بند کردیا ہے کیوں کہ ایسی صلاحیت رکھنے والے لوگوں کی اب ضرورت باقی نہیں رہی۔ اس لیے کہ سادہ لوح دین پسند اذہان کے مطابق دین وشریعت کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جو سلف صالحین کی فکر و نظر کا مرکزنہ بنا ہو اور جس میں انہوں نے بعد میںآنے والوں کے لیے کوئی خلا یا گنجائش چھوڑی ہو۔اس تعلق سے یہ مقولہ مشہور ہے کہ بھلا علمائے سلف نے پچھلوں کے لیے کام کی گنجائش چھوڑی ہی کہاں ہے؟اجتہاد کی مزعومہ قفل بندی کے بعد یہ نظر یہ آخری حد تک مستحکم ہوگیا کہ: ما اغلقہ السلف لا یفتحہ الخلف۔’’اسلاف کرام نے اجتہاد کے جس راستے کوبند کردیا ہے، اس کوان کے بعد آنے والے لوگ کھول نہیں سکتے‘‘۔اسلامی حلقوں کے اس غالب رجحان کے مطابق، گویا اصل مسئلہ سرے سے فکر کا ہے ہی نہیں! مسئلہ صرف عمل کا ہے۔ یہ دراصل ہماری عملی کوتاہیاں ہیں جنہوں نے ہمیں عروج کے میناروں سے اٹھا کر زوال کی کھائیوں میں پھینک دیا ہے۔ حالاں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد آیات سے اس کا اشارہ ملتا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کا اصل سرچشمہ وہ فکری انحراف وانتشار ہے جو امت کے اندر دور زوال میں پیدا ہوجائے گا۔چناں چہ رسول اللہ کی مشہور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا : لتتبعن سنن من کا ن قبلکم شبرا شبر و ذراعا بذراع حتی لو دخلوا جحرضب تبعتموہ’’ تم لوگ گزشتہ لوگو ں کی بالشت در بالشت اور دست در دست پیروی کروگے حتی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھس جائیں تو تم بھی ایسا ہی کروگے‘‘۔(24 )۔بعض احایث میں علم اٹھالینے اورجہل پھیلنے کی بات کہی گئی ہے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ آپ کوئی بھی بات غالب فکر سے ہٹ کر کہنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کی طرف سے ایسی جرأت کا اظہار ہوتا ہے تونہ صرف آپ پرکفر وزندقے کا الزام عائد ہوتا ہے بلکہ آپ کو اسلام اور اہل اسلام کا باغی تصور کیا جاتا ہے۔
عالم اسلام کے مختلف خطوں خصو صاً مصر میں ایک طرف جماعۃالتکفیروالہجرۃ اور اس طرح کی بعض دوسری جماعتوں کی تکفیری ذہنیت اور دوسری طرف فکری اباحیت پسندوں کے ایک طبقے کی طرف سے دین کے بعض اہم مسلمات پر زبان درازی کی وجہ سے مختلف مصنفین اور قلم کاروں سے متعلق تنازعات پیدا ہوتے رہے ہیں۔بعض لوگ جن میں فرج فودہ (مصر)، مہدی عامل اورحسین مروہ (لبنان )وغیرہ شامل ہیں، کا قتل ناگہانی بھی کیا گیا اوربعض دوسرے لوگوں پر کفر وزندقہ کا ملزم قرار دے کر انہیں ملک سے چھوڑ دینے کے لیے مجبورکردیا گیا۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے بہت سے معاملات میں فکری ا باحیت کے شکار لوگوں کی فکری جارحیت ہی فساد کا باعث ہوتی ہے۔ خود ان مذکورہ قلم کاروں میں کوئی بھی ایسا نہیں جوفکری اباحیت کا شکار نہ ہو، لیکن ایسے مسئلے پر زیادہ شدت پسندانہ رخ اختیارکرنے کی وجہ سے اسلام اورمسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے۔ایسے بہت سے مسائل کے ساتھ ازہرکے بالغ نظر علما نے نہایت حکمت اوردانائی کے ساتھ تعامل کیا اور اس کے نہایت شاندار نتائج سامنے آئے۔اس کی مثالیں طہ جابر علوانی کی ’’اشکالیۃ الردۃ والمرتدین‘‘ اوردوسری کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ 1937میں ایک مصری مصنف اسماعیل ادہم نے ’’ لماذا انا ملحد‘‘( میں ملحد کیوں ہوں؟) کے نام سے کتاب لکھی۔ اس کا جواب سنجیدہ طور پر علماے ازہر نے کتاب لکھ کرہی دیا ۔ مصرکے حسن حنفی اور نجیب محفوظ کے تعلق سے بھی دانش مندی کی روش اختیارکرتے ہوئے مصر کے اصحاب علم وفکر نے عوام کویہ موقع نہیں دیا کہ وہ ان کی جان کونشانہ بنائیں اورمسئلے سے سنجیدہ طور پر نمٹنے کی کوشش کی۔
ہندوستان میں بعض شخصیات کوان کے بعض علمی واجتہادی نقطہ نظر کی بنا پر ملک کے بعض اہم دینی اداروں سے برطرف کر دیے جانے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ایک قابل ذکرعالم ومصنف کو رجم کے حد شرعی نہ ہونے کے موقف پر کتاب لکھنے کی پاداش میں ایک بڑے دینی ادارے کے منصب تدریس سے مستعفی ہوکر جنوبی ہند میں پناہ لینا پڑی۔ اس نوع کی بہت سی مثالیں ہیں۔بعض شخصیات پر جان لیوا حملے کیے جانے اور علمی حلقوں میں انہیں تقریبا اچھوت بنا دئے جانے کی بھی مثالیں موجود ہیں۔
ہمارے معاشرے میںیہ روایت بالکل نئی نہیں ہے۔ اس کی مثالیں اسلام کے دور زریں میں بھی ملتی ہیں، لیکن اس کی وجہ سے سماج میں انتشار پیدا نہیں ہوتا تھا۔اس کا توازن نہیں بگڑتا تھا۔ آپس کے تعلقات متاثرنہیں ہوتے تھے۔ حضرت امام شافعی کے بارے میںیونس صدقی کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ عقل مند اور روادار کسی کو نہیں دیکھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ مناظرہ کیا، پھر الگ ہوگئے۔ پھر ایک دن جب ان سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:اے ابوموسیٰ، کیا یہ بہترنہیں ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھا ئی رہیں، خواہ کسی مسئلے میں بھی متفق نہ ہوں۔(الا یستقیم ان یکون اخوانا وان لم نتفق فی مسئلۃ) (26)
لیکن آج کی صورت حال یہ ہے کہ آج یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ جس کی فکر ہماری فکر سے ہم آہنگ نہیں ہے، وہ ہم سے نہیں۔ ہندوستان کے دینی حلقوں سے اس وقت بلاشبہ سیکڑوں رسائل مجلات شائع ہوتے ہیں ،جن میں ایسے رسائل ومجلات کی تعداد شاید انگلیوں پر گنے جانے کے بھی قابل نہ ہو جوتعدد فکرکے حامی و مؤید ہوں۔اکثر رسائل میں خطوط تک کی اشاعت میںیہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ ان میں متعلقہ حلقے کی فکر سے متصادم کوئی بات نہ کہی گئی ہو، حالاں کہ ان رسائل میں بھی یہ روایتی جملہ زیب قرطاس ہوتا ہے کہ ’’ مقالہ نگار کی رائے سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں ہے۔‘‘
دینی مدارس کی صورت حال
دینی مدارس نظری سطح پر اس بات کی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ امت کا اختلاف رحمت ہے (اختلاف امتی رحمۃ)۔ ادب اختلاف پر تقریروں اورتحریروں کے ضمن میں اسلام کے صدر اول کی نیم افسانوی حد تک نظرآنے والی استعجاب انگیز مثالوں سے محفل سخن میں گرمی لانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن عملی سطح پر آپ کو اس کی اجازت نہیں کہ آپ خالص مجتہد فیہ مسائل میں بھی اپنے حلقے کے موجودہ اکابر کی کسی رائے سے اختلاف کی جرأت کرسکیں۔ہاں، فقہی مباحث میں آپ کو نہ صرف اس کی اجازت حاصل ہے بلکہ آپ کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے کہ آپ اپنے مسلکی نقطہ نظر کی توجیہ و ترجیح میں دوسرے مکاتب فقہ کے صف اول کے ائمہ و محدثین پر پوری شدت کے ساتھ رد وقدح کریں اور انہیں ہدف تنقید بنائیں۔یہاں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دیگر فقہا اور ائمہ ومحدثین کی آرا کوزیر بحث لاتے ہوئے ان پر تنقید کے ضمن میں ان کااحترام ملحوظ رکھا جاتا ہے،اگرچہ یہ بات کلی طور پر درست نہیں ،تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اپنے حلقے کی اہم شخصیات کے فقہی و علمی مواقف وآرا پر اسی درجے میں زبان کھولنے اور ردوقدح کی اجازت حاصل ہے جس درجے میں دوسرے مکاتب فقہ کی اکابر شخصیات کے خلاف اس کو جائز اور قابل ثواب تصور کیا جاتا ہے؟ ظاہر ہے، اس کا جواب نفی میں ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ خالص علمی و اجتہادی مسائل میں بھی یہ در اصل ہمارے حلقے کی نمائندہ اور مقتدا شخصیات ہیں جنہیں اصلاً دلائل وبراہین کی جگہ حاصل ہوگئی ہے۔ہمارے دینی و علمی حلقوں میں انظروا الی ماقال کے بجائے انظروا الی من قال کی روایت نہایت پختہ اورمستحکم ہوچکی ہے۔امام غزالی نے مظاہر تکفیر کی رد میں لکھی جانے والی اپنی کتاب’’ فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ ‘‘میں لکھا ہے کہ حق سے دوراور نظریاتی افراط کا شکارہوجا نے کا ایک بڑا ذریعہ شخصیت پرستی ہے جس میں حق کو ایک شخص کے ساتھ محصورسمجھ لیا جاتا ہے۔ ان کے الفاظ میں :’’اگرتم انصاف سے کام لو گے توتمہیں اس بات کا علم ہوجائے گا کہ بعینہ کسی ایک صاحب نظر پرحق کو موقوف کردینے والا کفر اور تناقض سے زیادہ قریب ہے‘‘۔ (ان انصفت علمت ان من جعل الحقائق و قفا علی واحد من النظار بعینہ فھو الی الکفر والتناقض اقرب) (27)
اس المیے پر غور کیجیے، ہندوستان کے ایک عظیم و نامور علمی ادارے کے ایک فاضل کواس جرم میں اس کی تحقیقی اکیڈمی سے نکا ل دیا گیا کہ اس نے ایک اخبار میں ادارے کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت پر مراسلہ لکھ دیا تھا۔اسی طرح اس واقعے سے سیکڑوں لوگ واقف ہیں کہ اسی ادارے کے ناظم تعلیم نے ایک صحافی کو ایک اجتماع عام کے بعد عمومی دسترخوان سے اس جرم و گستاخی کی بنا پر کھدیڑ کر بھگا دیا گیا کہ اس نے دہلی کے ایک اردو ماہنامے میں ادار ے کے نصاب میں تبدیلی کی ضرورت پر مضمون لکھ دیا تھا۔بہت سے مدارس میں دوسرے مکاتب فکر کی کتابیں تک رکھنا اور پڑھنا ممنوعات میں سے ہے۔ دراصل مدارس میں حریت فکر ونظر کے خاتمے میں سب سے بڑا دخل اس مسلکی کش مکش کو ہے جس کا سلسلہ انیسویں صدی کے اواخر سے اب تک جاری ہے۔مثالوں سے قطع نظر بظاہر ایسی کوئی علامت نظر نہیں آتی جس سے یہ امید قائم ہوتی ہو کہ مسلکی شدت پسندی اور تناؤ میں فی زمانہ کوئی کمی آئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوپاک میں پابندی فکرونظر کی موجودہ صورت حال میں اس وقت تک نمایاں سطح پر تبدیلی نہیںآسکتی جب تک کہ وہاں ایک متعین فقہ پر ترکیز کے بجائے یا اس کے ساتھ خالص اسلامی فقہ یافقہ مقارن کو پڑھانے کا التزام نہ کیا جائے اور اس تناظر میں مدارس کے نصا ب میں مناسب تبدیلی نہ لائی جائے۔نیز ان کی مجموعی فضا پر حلقہ واریت کے بجائے اسلامیت کے رنگ کوپختہ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
تکفیر کا ظاہرہ
دور حاضر میں ہمارے علمی ودینی حلقوں میںآزادی فکرونظر کو پابند سلاسل کرنے اور اس پرقدغن لگانے کی جو کوششیں کی جاتی رہی ہیں،اس کا ایک نہایت خطرناک مظہر تکفیرکی صورت حال ہے۔اسلامی تاریخ میں صحابہ کرام کے مثالی دور میں اس کے واقعات نہیں ملتے، حالاں کہ ان کے درمیان مختلف دینی امور میں شدید ترین نظریاتی اختلافات پائے جاتے تھے۔ کبھی یہ اختلافات شدید تر بھی ہوجاتے تھے۔ حضرت قدامہ بن مظعون نے جو بدری صحابی اور ام المؤمنین حفصہ کے ماموں تھے، شراب پی اور حضرت عمر کی طرف سے اس بابت سوال اور محاسبے پر اپنے اس فعل حرام کے جواز میں قرآن کی اس آیت سے استدلال کیا: لیس علی الذین آمنوا وعملوا الصالحات جناح فیما طعموا اذا ما اتقوا (28) صحابہ کرام کے مشورے سے جس میں حضرت علی اور عبد اللہ ابن عباس شامل تھے، حضرت عمرؓ نے ان پر حد جاری کی لیکن ان کی تکفیر نہیں کی۔ سیاسی سطح پر حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے اختلافات نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا، لیکن ان نظری و سیاسی اختلافات نے کبھی تکفیر کی شکل اختیار نہیں کی۔ خوارج حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ سمیت اکثر صحابہ کی تکفیر کرتے اور انہیں مباح الدم سمجھتے تھے، لیکن حضرت علیؓ نے ان کی تکفیر نہیں کی۔ اس تعلق سے ایک شخص کے سوال کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ وہ کفر سے ہی تو بھاگے ہیں۔ (من الکفر فروا) جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر ان پر کیا حکم لگایا جائے توانہوں نے فرمایا: اخواننا بغوا علینا‘‘،وہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے خلاف باغی ہوگئے ہیں‘‘۔ (29)۔۔فقہا و محدثین کی جماعت میں اس تعلق سے احتیاط کی روش پائی جاتی تھی۔ وہ حکمِ شرعی کا اطلاق فرد کی ظاہری حالت پر کرتے ہوئے باطن کی کیفیت کو خدا پر چھوڑنے کے قائل تھے۔ اسلاف کا مسلک تھا کہ ہم ظاہر حال پر حکم لگاتے ہیں اور چھپے ہوئے احوال کو اللہ کے حوالے کردیتے ہیں۔(نحن نحکم بالظواہر ونولی الی اللہ السرائر) اس لیے جو لوگ دین کے اساسی اعتقادات پر ایمان لاتے ہوئے خود کو مسلمان کہتے تھے، انھیں مسلمان سمجھا جا تا تھا۔ یہی وجہ ہے جیسا کہ اوپرگزرا، خوارج، معتزلہ،جمہیہ، یا قدریہ جیسی جماعتوں کے ضلال وانحراف کے اظہر من الشمس ہوجانے اور ان سے ہر طرح اختلاف کے باوجود علما ئے اہل سنت اس نکتے پر متفق رہے کہ ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
البتہ متاخرین فقہا میں جب تقلیدی جمود پیدا ہوا، ان کے ایک طبقے میں دنیا داری سرایت کرگئی اور اس نے بڑے بڑے سرکاری مناصب کے حصول کے لیے فقہ کو پڑھنا شروع کردیا جس پر امام غزالیؒ جیسے لوگوں نے شدید تنقید کی ہے۔ (30) اس سے علما کے درمیان حلقہ بندی میں شدت پیدا ہوئی۔ فقہ میں انتشار کی کیفیت جو بعد کے ادوار میں پیدا ہوگئی تھی، اس میں سنگین اضافہ ہوگیا اور یہ شعبہ انحطاط کا شکار ہوتا چلا گیا۔ باہمی کشمکش کے اس ماحول میں تکفیر کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ’’الاقتصاد فی الاعتقاد‘‘ میں غزالی نے لکھا ہے کہ: ’’غلطی سے ایک ہزار کفار کو چھوڑدینا اس کے مقابلے میں ہلکا ہے کہ غلطی سے ایک مسلمان کا (اس پر کفر کے اطلاق کے بعد مرتد کی سزا کے طور پر)خون بہا یا جائے‘‘(31)فیصل التفرقۃ میں انہوں نے یہ بامعنی بات لکھی ہے کہ تکفیر میں تو خطرہ ہے، لیکن سکوت میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ (32)
پس چہ باید کرد!
ہمارے علمی ودینی حلقوں میں فکر ونظر اور اظہار رائے کی آزادی کے تصورکی عملی سطح پر بحالی کے لیے مختلف سطحوں پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔حقیقت یہ کہ ہم اصولی سطح پر اس کے جتنے بھی حامی و مدعی ہوں،لیکن عملی سطح پر ہم اس کے لیے تیار وآمادہ نہیں ہیں۔ہمارے علمی دوینی حلقے اس خوف واندیشے میں مبتلا ہیں کہ فکرونظر اور اظہار رائے کی آزادی مسلم معاشرے کومغرب کی راہوں پر ڈال دینے کاباعث ہوگی جس کے نتیجے میں مغرب کے نمونے پر مسلم معاشرے میں فکری اباحیت کا دروازہ کھل جائے گا۔اس میں شک نہیں کہ مغرب کے طرز پر فکرونظر کی مکمل آزادی مکمل اباحیت کا دوسرا نام ہے۔اس سلسلے میں مغرب کی تقلید نہ صرف مذہبی بلکہ انسانی اقدارو روایات اورشرافت وتہذیب کے معیارات کو بھی ملیامیٹ کرکے رکھ دے گی۔ تاہم اہمیت کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں خود اسلامی تہذیب کا ورثہ نہایت متمول اوروسیع ہے۔ممکن ہے اس کے بعض ادوار میں چنداں افراط و تفریط کی صورتیں بھی پائی جاتی ہوں لیکن فی نفسہ اس میں بہت حدتک اعتدال نظر آتا ہے۔عباسی دور میں مانوی،دیصانی،راوندی جیسے باطل فرقوں کی وہ کثرت تھی کہ عباسی حکم راں مہدی کوباضابطہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکوتی سطح پر الگ سے ایک شعبہ قائم کرنا پڑاجس کے تحت ایک طرف ا ن کے خلاف مقدمات قائم کیے جاتے تھے، لیکن دوسری طرف باضابطہ اہل علم سے کتابیں لکھواکر فکری سطح پران کے رد کی بھی کوشش کی جاتی تھی۔(33) ۔اس دور کے مشہور زنادقہ میں حماد عجرد، حماد الراویہ ،مطیع ابن ایاس، ابن ابی العوجاء، صالح بن عبدالقدوس اوربابک خرمی جیسوں کی ایک طویل فہرست ہے۔(34) یہ لوگ ہندوعجم کے افکارسے متاثر ہوکر اسلامی مسلمات کونشانہ بناتے تھے، لیکن اللہ کی بنائی ہوئی فطرت’’اما الزبد فیذہب جفاء واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض‘‘ کے تحت ان کی کتابیں فنا کے گھاٹ اترگئیں یاپھروہ آج محض تحقیق ومطالعہ کے لیے لائبریریوں کی زینت ہیں۔اسلامی سماج پران کے اثرات بعد میں باقی نہیں رہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علمی حلقوں خصوصا مدارس و جامعات اورفکری اداروں میں آزادی فکرونظر کی روایت کودوبارہ بحال کرنے کو مرکز توجہ بنایا جائے ۔تنقید ذات (self criticism ) کو رواج دینے او رپوری جرأت وحوصلہ مندی کے ساتھ اپنے علمی وتہذیبی ورثے کی تنقیح وتنقید کی کوشش کی جائے۔یہ کام عقل و فکر اور اظہار رائے کی آزادی کے بغیرممکن نہیں ہے۔عرب ممالک کی موجودہ صورت حال طہ جابر علوانی (35) اورنجات اللہ صدیقی (36)کے مشاہدات وتجربات کی روشنی میںیہ ہے کہ وہاں طلبہ کوعلمی وفکری موضوعات پراس بات کی اجازت ہی حاصل نہیں ہے کہ وہ کھل کر ان میں غوروفکر کرسکیں اور اپنی رائے قائم کرسکیں۔ان کے لیے کسی بھی صورت میں یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ یہ لکھ سکیں کہ فلاں مسئلے میں میری رائے یہ ہے۔پی ایچ ڈی کے مناقشوں میں اس طرح کی جرأت مندی کا اظہار کرنے والوں کے مقالے کورد کردیا جاتا ہے۔ ہندوپاک کے علمی حلقوں میں بھی غالب صورت حال تقریباً یہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس صورت حال میں جب تک اعتدا ل کے ساتھ خوش گوار تبدیلی نہ آئے،اس وقت تک ہمار ا فکری قافلہ اپنی راہ پرآگے نہیں بڑھ سکتا اورہم یہ توقع نہیں کرسکتے کہ امت مسلمہ خود مسلط کردہ تہذیبی زوال کے دائروں سے خود کونکال پائے گی۔
حواشی وحوالہ جات
(1) رسول اللہ کی مشہور حدیث ہے: افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر۔ مسلم
(2) رسول اور اصحا ب رسو ل کی سیرت کے مقابلے میں یہ موضوع حدیث امت میں پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ: عورتوں سے مشورہ اور وہ جوکچھ وہ مشورہ دیں ان کے خلاف کرو (شاوروہن وخالفوہن)
(3) احمد بن حنبل : جلد 5مسند احمد، بیروت، دارالکتب العلمیہ،2008،ص،236
(4) ابو حامد الغزالی :المستصفی ج: 2 ،بیروت :دارالکتب العلمیہ،1413ص،355
(5) طہ جابر علوانی: اشکالیۃ الرد ۃ و المرتدین من صدر الاسلام الی الیوم ۔قاہرہ،مکتبہ الشروق الدولیہ، ،2006 ص،138
(6) : ایضا ص165
(7) ایضا ص،166بحوالہ عمدۃ القاری ج، ۱۱ ص،235۔
(8) یوسف قرضاوی :فی فقہ الاولویات : قاہرہ، مکتبہ وہبہ2005 ص140
(9) ایضا
(10) قرطبی: الجامع لاحکام القرآن: دارالکتب العلمیہ،بیروت،1988،ج،3 ص182-183
(11) ابویوسف:کتاب الخراج ،مکتبہ مشکا ۃ الاسلامیۃ روایت نمبر32 ص12،یہ کتاب ہم نے نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کی ہے اور اس نسخے میں دیگرتفصیلات درج نہیں ہیں۔
(12) قرطبی :ج،20 ص،172
(13 ابن تیمیہ : قاعدۃ جلیلہ فی التوسل والوسیلہ لاہور: ادارہ ترجمان السنۃ بدون سنہ ص103-104
(14) ابن قیم : حادی الارواح الی بلاد الافراح مکتبہ المتنبی ،قاہرہ بدون سن ص،247 - ابن قیم نے اپنے استاذ علامہ ابن تیمیہ اور اپنے موقف کی حمایت میں اس کتاب میں نہایت تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے۔یہ موقف جمہورامت سے یقیناًہٹا ہوا ہے، لیکن ابن قیم کی اس موضوع پر بحث (دیکھیے مذکورہ کتاب ص،246 تا 271) پڑھنے کے لائق ہے۔یوسف قرضاوی :فتاوی یوسف قرضاوی ،(اردو ترجمہ ’’فتاوی معاصرہ ‘‘ مترجم سید زاہد اصغر فلاحی)، دہلی : مرکزی مکتبہ اسلامی ،2005ص62
(15) طہ جابر علوانی : ادب الخلاف، ورجینیا،امریکا، المعہد العالمی للفکر الاسلامی 1991 ص،63
(16) جمال بنا: حریۃ الفکر والاعتقاد فی الاسلام، قاہرہ: دارالفکر الاسلامی، بدون سنہ
(17) سیر اعلام النبلاء: بحوالہ http://ar.wikisource.org
مزید تفصیل اس سائٹ پر موجود ہے: http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=283236
(18)محمد بن اسماعیل البخاری : الجامع الصحیح :کتاب اللباس ،باب لبس الحریر وافتراشہ للرجال وقدر مایجوز منہ ،دار عالم الکتب ،ریاض1996 جلد ،7ص،45۔فتح الباری میں ابن حجر نے اس روایت کے تحت عمران بن حطان پرگفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
و عمران ہوالسدوسی کان احد الخوارج من العقدیۃ بل ہو رئیسہم وشاعرہم و ہو الذی مدح ابن ملجم قاتل علی بالابیات المشہورۃ و ابو حطان... وانما اخرج لہ البخاری علی قاعدتہ فی تخریج احادیث المبتدع اذا کان صادق اللہجۃ متدینا وقد قیل ان عمران تاب من بدعتہ وہو بعید۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، ج،8 ص،338 ۔دیوبند:مکتبہ شیخ الہند،2006)
اہل بدعت کے تعلق سے محدثین کے موقف پرابو داؤد کے اس قول سے روشنی پڑتی ہے: امام ابو داؤد نے فرمایا:
’’لیس فی اہل الاہواء اصح حدیثا من الخوارج‘‘اہل ہویٰ کے اندر حدیث کی روایت میں خوارج سے زیادہ صحیح فرقہ کوئی اور نہیں ہے۔ (سیر اعلام النبلا ء، ج ۴ ص، 214 موسسہ الرسالہ ط ۳ 1985)
(19) مقالہ’’ اہل بدعت کی روایات‘‘: ماہنامہ الندوۃ،اسلام آباد،دسمبر2011 ص،11
(20) الصحیح البخاری ،حدیث نمبر3197
(21) ہدی الساری مقدمہ فتح الباری، دیوبند :مکتبۃ شیخ الہند،2006 دیکھیے الفصل التاسع ص،535-540
(22) ایضا،ص،465-466
(23) ایضا ص،455
(24) بخاری کتاب الفتن باب ظہور الفتن ج،8 ص،89
(25) اس کتاب کے مصنف محمد عیسی انصاری ہیں۔کتاب مکتبہ فہم قرآن وسنہ ،لاہور، سے 2011 میں شائع ہوئی ہے۔
(26) سیر اعلام النبلاء ج،10 ص،16
(27) ابو حامدغزالی : فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ،تعلیق و تخریج: محمود بیجو، مکتبہ دار البیروتی ، ط:1، ۱۹۹۲، ص،61 ص،23
(28) قرطبی:ج،ص،192
(29) ابوبکر عبدالرزاق بن الہمام: مصنف عبد الرزاق ج،10، المجلس العلمی ،جنوب افریقیاص، 150
(30) غزالی:احیاء العلوم،مکتبہ مطبعہ کریاتہ فوترا،سماروغ ،اندونیشیا،بدون سن ج،1،ص،22
(31) الاقتصاد فی الاعتقاد، (ضبطہ و قدم لہ :مونس الفوزی الجسر) ط،1،1994، ص، 211
(32) فیصل التفرقہ بین الاسلام والزندقہ۔ 61 ۔ تکفیر کے مسئلے پر علما ے سلف میں غزالی نے نہایت متوازن اور روادارانہ موقف اس کتاب میں اختیار کیا ہے۔ غزالی کے موقف پر تجزیاتی مطالعہ کے لیے دیکھیے راقم کا مضمون: ’’غزالی اور مسئلہ تکفیر‘‘، سالنامہ کتابی سلسلہ ’’ الاحسان ‘‘ الہ اباد:شاہ صفی اکیڈمی 2012
(33) احمد امین :ضحی الاسلام ،قاہرہ ،مکتبہ النہضۃ المصریۃ بدون سنہ ج،۱ ص۔140-141
(34) ایضا
35۔ طہ جابر علوانی: ’’جدید فکری بحران نشاند ہی اور حل‘‘ اردو ترجمہ :عبدالحفیظ رحمانی، نئی دہلی :قاضی پبلشرز،1994 ،ص 41-42
36۔ حوالے کے لیے دیکھیے انٹرویو: یوگیندر سکنداز نجات اللہ صدیقی