اراکان کے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

این۔این۔آئی کے حوالہ سے ’’پاکستان‘‘ (۲۰ جون کو) میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے برما (میانمار) سے مطالبہ کیا ہے کہ اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی شہریت اور طویل مدتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے معاملات کا تعین کیا جائے جن میں لاکھوں افراد نسلی تشدد کے واقعات کے نتیجے میں پناہ گزین خیموں میں رہائش پر مجبور ہوئے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ برما کی مغربی ریاست راکھین (اراکان) میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد بے گھر ہیں۔ ایک برس سے جاری بودھ مسلمان فسادات کے باعث تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ یہ خطہ مذہبی اور نسلی بنیادوں پر بٹ چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ضرورت مندوں کو اب روزانہ کی بنیاد پر خوراک تقسیم ہوتی ہے اور اکہتر ہزار سے زائد افراد کو پناہ دینے کے لیے عارضی خیمے قائم ہیں۔ عالمی ادارے نے متنبہ کیا ہے کہ تناؤ کی بنیادی وجوہات ختم کیے بغیر دیرپا امن اور ہم آہنگی قائم نہیں ہو سکتی۔ رپورٹ میں کم و بیش آٹھ لاکھ مسلمانوں کی شہریت کے تعین کے معاملے کو حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ 

میانمار (برما) کی مغربی ریاست اراکان کے بارے میں اس قسم کی رپورٹیں کم و بیش ایک سال سے تسلسل کے ساتھ اخبارات کی زینت بن رہی ہیں اور اقوام متحدہ اور او۔آئی۔سی سمیت عالمی اداروں کی طرف سے احتجاج اور برما کی حکومت سے اصلاح احوال کے مطابات بھی نظر سے گزرتے رہتے ہیں، لیکن صورت حال میں بہتری کی کوئی صورت سامنے نہیں آرہی بلکہ اراکانی مسلمانوں کی اس بے رحمانہ خونریزی کو بودھ مسلم فسادات یا نسلی فسادات کا عنوان دے کر فریقین کے درمیان کشمکش بتایا جا رہا ہے حالانکہ یہ سب کچھ یکطرفہ ہے۔ قتل بھی صرف مسلمان ہو رہے ہیں، مکانات صرف ان کے جل رہے ہیں، وہی جلا وطن ہو رہے ہیں، پناہ گزینوں کے کیمپوں میں صرف ان کا بسیرا ہے اور انہی پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ اراکان کے ان مسلمانوں کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، ایک اسلامی ریاست کا پس منظر رکھتے ہیں اور بد قسمتی سے بودھ اکثریت کے ملک برما (میانمار) کا حصہ بن گئے ہیں، جبکہ ان کا اس سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ سے ملاقات کر کے ان سے اس کی درخواست بھی کر دی جو بوجوہ قبول نہ کی جا سکی۔ اس لیے ہمارے خیال میں یہ مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’’مسئلہ کشمیر‘‘ سے مختلف نہیں ہے۔ گزشتہ برس ہم نے مولانا فضل الرحمن سے جو اس وقت پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، ملاقات کر کے درخواست کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ اراکان کے مسئلہ کو بھی حکومت پاکستان کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے اور اس کے لیے عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے۔ مولانا موصوف نے قومی اسمبلی میں اور مختلف بین الاقوامی اداروں میں برما کے ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے اور اس کے اثرات بھی سامنے آئے ہیں، لیکن اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ او آئی سی اس سلسلہ میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دے، بنگلہ دیش کی حکومت اسے باقاعدہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرے اور حکومت پاکستان بھی اسے ترجیحات کا حصہ بنائے۔ اراکانی مسلمان صدیوں تک ایک آزاد اسلامی ریاست کا پس منظر رکھنے کے باوجود آج مسلسل مظالم اور بے بسی کا شکار ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانا اور عالمی رائے عامہ اور اداروں کو برما (میانمار) کی حکومت پر موثر دباؤ ڈالنے کے لیے آمادہ کرنے کے ساتھ ساتھ مظلوم مسلمانوں کی امداد کا اہتمام کرنا بہرحال ہماری دینی اور قومی ذمہ داری بنتی ہے۔

حالات و واقعات

(جولائی ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter