ماہنامہ الشریعہ کے فروری 2013ء کے شمارہ میں خواجہ امتیاز احمد صاحب (سابق ناظم اسلامی جمعیت طلبہ گوجرانوالہ )کا ایک مضمون شائع ہوا، جو چوہدری محمد یوسف صاحب ایڈووکیٹ (سابق رکن جماعت اسلامی)کے مضمون کے جواب میں تھا۔ جس میں جماعت اسلامی کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا تھا۔خواجہ امتیاز احمد صاحب نے اپنے مضمون کے شائع ہونے کے بعد مئی 2013ء کے شمارہ میں ایک مکتوب کے ذریعے مولانا فیاض صاحب کے استفسار پر چند وضاحتیں کیں۔ جن میں مولانا غلام غوث ہزاروی علیہ الرحمۃ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ
’’وہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ کو سیاہ دل کہا کرتے تھے اورکہتے تھے چراغ باہر روشنی دیتا ہے، اندر سے سیاہ ہوتا ہے ۔ ‘‘
اس مکتوب کے جواب میں مولانا محمد فیاض خاں سواتی مد ظلہ نے الشریعہ کے جون 2013 ء کے شمارہ میں ایک طویل مضمون لکھا ہے، جس میں جماعت اسلامی ، مولانا مودودی رحمہ اللہ اور مولانامحمد چراغ رحمہ اللہ کے بارے میں خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ اپنے مضمون میں انہوں نے حضرت مولانا محمد چراغ کے بارے میں جس قسم کا اظہار کیا ہے وہ نہ صرف یہ کہ مولانا فیاض صاحب کے شایان شان نہیں ۔ بلکہ وہ اس کی معلومات کے ناقص ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اس لیے صرف دو باتوں کی وضاحت ضروری محسوس کرتے ہوئے چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔
مگر ان گزارشات سے پہلے ذرا مولانا فیاض خاں سواتی صاحب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے۔جو انہوں نے حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ اورمولانا غلام غوث رحمہ اللہ کا تقابل کرتے ہوئے تحریر فرمائے ہیں ۔
’’حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی اورمولانا محمد چراغ دار العلوم دیو بند میں کلاس فیلو تھے، دونوں نے محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ سے ۱۹۱۸ء میں دورۂ حدیث پڑھا تھا۔ مولانا ہزاروی مولانا محمد چراغ مرحوم سے علم میں فائق بھی تھے ۔ ان کی کلاس میں اوّل انڈیا کے ایک عالم جبکہ دوسرے نمبر ہر مولانا ہزاروی آئے تھے ۔ اسی وجہ سے کچھ عرصہ دار العلوم دیو بند میں مدرس بھی متعین کیا گیا تھا، اورپھر دار العلوم نے اپنے نمائندہ کے طور پر قاضی کے عہدہ پر انہیں حیدر آباد بھیجا تھا۔ وہ مولانا چراغ مرحوم کو جتنا قریب سے جانتے تھے ، ماوشمانہیں جانتے تھے۔مولانا غلام غوث ہزاروی کی علمی پوزیشن کے بارے میں بریگیڈیر جناب فیوض الرحمن جدوں اپنی کتاب مشاہیر علماء ج ۲ ص ۵۴۷ میں لکھتے ہیں: ایک رسالہ پوسٹ مارٹم بھی لکھا جس میں جناب مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب کی تحریروں پر مضبوط گرفت کی ، ان میں سے بعض تحریروں سے مولانا نے رجوع فرما لیا ہے۔‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بالکل غلط اورخلافِ واقعہ ہے کہ مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ اورمولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ دیوبند میں کلاس فیلو تھے۔ کیونکہ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ مولانا قاری محمد طیب رحمہ اللہ کے کلاس فیلو تھے اورانہوں نے ۱۹۱۸ء میں دورۂ حدیث کیا جس طرح فیاض صاحب نے اپنی تحریر میں ذکر کیا ہے ، جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے ۱۹۱۹ء میں دورۂ حدیث کیا۔
جیسا کہ ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت بیاد امام اہلِ سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ (شمارہ جولائی --اکتوبر۲۰۰۹)کے صفحہ ۶۷ مضمون : حضرت شیخ الحدیث(مولانا محمد سرفراز خاں صفدر رحمہ اللہ )کے اساتذہ کا اجمالی تعارف از مولانا حافظ محمد یوسف (رفیق شعبہ تصنیف و تالیف الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ )میں حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے متعلق درج ہے:
’’۱۳۳۷ھ مطابق ۱۹۱۹ء میں حضرت کشمیری ،حضرت مولانا غلام رسول(صحیح مولانا رسول خاں ) علامہ شبیر احمد عثمانی اورحضرت مولانا ابرہیم بلیاوی سے دورۂ حدیث پڑھ کر سند حاصل کی۔‘‘
نیز ماہنامہ الرشید دارالعلوم دیوبند نمبر شمارہ فروری ،مارچ۱۹۷۶ء میں علماء دیوبند سرحدکی تصنیفی خدمات کے عنوان کے تحت قاری فیوض الرحمن صاحب جدون مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں:
’’۱۳۳۷ھ /۱۹۱۹ء میں امام العصر مولانا انورشاہ کشمیری ؒ سے دورۂ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی‘‘ (ص:۴۴۳)
مزید حوالے کے لیے دیکھئے سوانح مجاہد ملت حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی ؒ تالیف عبدالقیوم حقانی ،ص:۳۰ کہ اس میں بھی سنِ فراغت ۱۹۱۹ء درج ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ بہتر ہوتا مولانا فیاض صاحب مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے اس قول کا بوجھ اپنے سر نہ لیتے ، جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون کے شروع میں لکھا ہے:
’’ہر آدمی صرف اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہوتا ہے، دوسروں کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے:(ولا تزر وازرۃ وزر اخری) ’’کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘اورجناب نبی اکرم ؐ نے بھی اپنے خطبۂ حجۃ الوادع میں زمانۂ جاہلیت کی رسم کو ختم کرتے ہوئے اعلان کر دیا: (الا، لا یجنی جان الا علی نفسہٖ) ’’ہر جنایت کرنے والا خود ذمہ دار ہو گا‘‘اورمشہور محاروہ بھی ہے :’’جو کرے وہی بھرے‘‘۔
مگر انہوں نے اپنے ہی اصول کی نہ صرف خلاف ورزی کی ہے بلکہ حضرت مولانا محمد چراغ کے بارے میں مولانا ہزاروی ؒ کے قول کی بالواسطہ تائیدکر کے مولانا محمد چراغ کے ہزاروں تلامذہ اورعقیدت مندوں کے دلوں کو مجروح کیا ہے۔
مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے اگر حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ کو ’’سیاہ دل ‘‘کہا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ صریح بد گمانی ہے ۔ اس لیے کہ اولاً دلوں کا حال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ نبی ؐ نے حضرت اسامہ ابن زیدؓ سے ایک نو مسلم کے قتل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے عرض کیا :’’حضور ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھا تھا‘‘ تو آپ نے فرمایا: افلا شققت عن قلبہ (صحیح مسلم) پھر آپ نے فرمایا: من لک بلا الٰہ الا اللہ یوم القیامۃ (سنن ابی داؤد) اس پر حضرت اسامہ بن زید سخت نادم ہوئے اورفرماتے ہیں کہ میں تمنا کرنے لگا کہ کاش میں آج ہی اسلام قبول کرتا کہ میرا یہ گناہ بھی اسلام لانے کی وجہ سے معاف ہوجاتا ۔
اور ثانیاً بد گمانی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ایاکم و الظن فان الظن اکذب الحدیث) ’’بدگمانی سے بچو کیونکہ یہ سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے ‘‘۔ (صحیح بخاری)
جہاں تک محترم مولانا فیاض صاحب کے اس قول کا تعلق ہے کہ ’’مولانا ہزارویؒ مولانا چراغ مرحوم سے علم میں بھی فائق تھے۔۔۔ وہ مولانا چراغ مرحوم کو جتنا قریب سے جانتے تھے ، ما و شما نہیں جانتے تھے۔‘‘
معلوم نہیں مولانا فیاض صاحب کو کس نے اس منصب پر فائز کیا ہے کہ وہ ان دونوں بزرگوں کا علمی محاکمہ کر کے اپنا فیصلہ صادر فرمائیں ۔ کیا وہ ان دونوں بزرگوں سے بڑے عالم ہیں یاانہوں نے ان دونوں بزرگوں سے براہ راست اکتساب فیض کیا ہے اوران کی علمی مجالس میں شرکت کی ہے کہ وہ اپنا حکم جاری کریں۔
معلوم ہوتا ہے وہ ولئ کامل عالمِ بے بدل شیخ التفسیر والحدیث استاذ العلماء حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے علمی مرتبہ سے آگاہ نہیں ۔ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے علمی مرتبہ کے بارے میں چند باتیں’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘کے طور پر عرض کر دی جائیں:
تعلیم و تربیت
حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ نے اپنی مختصر خود نوشت سوانح میں لکھا ہے :
’’میری تعلیم و تربیت میں تین اساتذہ کا بہت بڑا حصہ ہے ، اورمیں جو کچھ ہو انہیں بزرگوں کا فیضان نظر ہوں ۔ 1 ۔ حضرت مولانا سلطان احمد صاحب گنجویؒ (تلمیذ رشید شیخ الہند رحمہ اللہ )2۔ حضرت مولانا ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ (انہی شریف)، 3۔ محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ‘‘
مولانا محمد الیاس رحمہ اللہ کی طرف سے تحسین
آپ دورِ طالب علمی میں ہی کتنے ذہین و فطین اورقابل تھے ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ مدرسہ مظاہر العلوم (سہارنپور ، انڈیا )میں پڑھنے کے لیے گئے اورحضرت مولانا محمد الیاس صاحبؒ بانی تبلیغی جماعت کے درس میں شریک ہوئے تو انہوں نے کنزالدقائق کے مقدمہ میں چند الفاظ کے بارے میں پوچھا ، انہیں کس طرح پڑھا جائے ، بتائیے؟مگر کوئی پنجابی طالب علم ابھی نہ بولے۔ اب کسی نے کچھ پڑھا کسی نے کچھ۔ پھر آپ نے فرمایا : ہاں اب کوئی پنجابی بولے ۔ اس پر مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ نے درست عبارت پڑھی ۔ تو آپ نے شاباش دی اورذہانت کی تعریف کی۔
آپ سے پوچھا گیا: حضرت نے پنجابیوں کو کیوں خاموش رہنے کا کہا؟ آپ نے فرمایا: پنجابی طالب علم عموماً حضرت مولانا ولی اللہ صاحبؒ انہی شریف والوں کے مدرسے میں پڑھ کر آتے ہیں ۔ اس لیے ان کو وہاں صرف ونحو کے قواعد میں طاق کر دیا جاتا ہے کہ عربی عبارت فرفر پڑھ لیتے ہیں ۔ آپ نے موقوف علیہ تک مولانا ولی اللہ ؒ سے ہی تعلیم حاصل کی۔ مزید فرمایا: دار العلوم دیوبند میں داخلہ کے لیے طلبہ کا ٹیسٹ ہوتا لیکن انہی شریف کے فارغ التحصیل طلبہ اس سے مستثنیٰ تھے۔ ایک موقع پر حضرت شاہ صاحب (مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ )نے فرمایا: ’’انہی والے مولوی صاحب کا ہم پر احسان ہے کہ وہ ایسے ذی سِواد(صاحب استعداد)طالب علم بھیج دیتے ہیں جو ہماری باتوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ ‘‘
محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ اورمولانا محمد چراغ ؒ
جب آپ دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے تو محدث العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے درس بخاری کو دورانِ درس اردوسے عربی میں منتقل کر کے محفوظ کیا۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے افادات کے اس مجموعہ کا نام آپ نے ’’السیح الجاری الی جنۃ البخاری‘‘ رکھا۔ عراق کے ایک شیخ (عبدالغفور موصلی )نے حضرت سے درخواست کی کہ آپ مجھے بھی اس کی ایک نقل دے دیں ۔ وہ دور فوٹو اسٹیٹ کا نہیں تھا ۔ آپ نے امتحان کے دنوں میں اس کی نقل تیار کر کے انہیں دے دی۔ حضرت شاہ صاحبؒ عراقی شیخ سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ایک دفعہ وہ ملاقات کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے پوچھا : آپ کے ہاتھ میں یہ کاغذات کیسے ہیں؟انہوں نے کہا یہ آپ کے درس بخاری کے افادات ہیں جو سراج بنجابی (مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ )نے جمع کیے ہیں ۔ آپ نے دیکھ کر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نہیں سمجھتا تھا کہ اس زمانے میں بھی ایسے ذی سِواد (صاحب استعداد)ہوتے ہیں۔‘‘ پھر آپ نے آئندہ سال کے لیے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب کو بلا کر اپنی تقریر ترمذی نوٹ کرنے کا کہا جو بعد میں العرف الشذی کے نام سے چار دانگ عالم میں مشہور ہوئی۔ اس کے بارے میں علامہ خالد محمود صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت شاہ صاحب کی ’’العرف الشذی ‘‘سے حدیث کا کوئی مدرس مستغنی نہیں رہ سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے عجیب مقبولیت بخشی۔‘‘ (ماہنامہ الرشید دار العلوم دیو بند نمبر، ص: ۱۱۴،جلد ۴ شمار ۲،۳فروری ،مارچ ۱۹۷۶ء)
حضرت مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ تو اپنے شیخ (مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ )سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے اوران کی باتیں لطف لے لے کر بیان کرتے تھے۔ حضرت شیخ کے نز دیک اپنے شاگرد کا کیا مرتبہ تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے راوی مولانا محمد یوسف مرحوم (امرہ کلاں گجرات) ہیں۔
’’حضرت مولانا سید محمد انور شاہ صاحب مرحوم جامع مسجد گوجرانوالہ تشریف لائے، ان کے تلامذہ اوردیگر عقیدت مند لوگ اورعلماء جوق در جوق بغرضِ ملاقات آنا شروع ہوگئے ۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم سب سے بیٹھے بیٹھے مصافحہ کر رہے تھے ۔ حضرت مولانا محمد چراغ صاحب ؒ جب حاضرہوئے تو فرمایا: ٹھہرو مجھے پان لگالینے دو پھر پان منہ میں رکھا ، ہاتھ صاف کیے اور کھڑے ہو کر آپ کے ساتھ معانقہ کیا۔‘‘ (ماہنامہ چراغ اسلام ، اپریل ، مئی ص:۲۴۷،۲۰۱۱ء)
پیر سید جماعت علی شاہ صاحب رحمہ اللہ کی نظر انتخاب
پیر سید جماعت علی شاہ صاحب (۱۸۴۵ء--۱۹۵۱ء، علی پورسیداں ، ضلع سیالکوٹ)جوخود بھی بہت بڑے عالم تھے۔ (جن کے بارے میں محمد خالد متین اپنی کتاب تحفظ ختم نبوت اہمیت اورفضیلت میں لکھتے ہیں : امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ ؒ ان عظیم بزرگوں میں شامل ہیں جن کی زندگی کا مقصد صرف تحفظ ناموسِ رسالتؐ تھا اوراس مشن کی تکمیل کے لیے انہوں نے شب و روز ایک کر دئیے تھے، تحفظ ختم نبوت اورفتنۂ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں آپ کی خدمات جلیلہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں )انہوں نے اپنے صاحبزادے سید محمد حسین کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ کو انتہائی ادب و احترام سے علی پور سیداں مدعو کیا ۔ چنانچہ آپ نے سید محمد حسین صاحب کو تعلیم سے بہرہ یاب فرمایا ۔ بعد ازاں وہ دورۂ حدیث کے لیے دار العلوم دیو بند تشریف لے گئے۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمہ اللہ کے نزدیک مولانا محمد چراغ رحمہ اللہ کا مقام
حضرت مولانا احمدعلی لاہوری رحمہ اللہ نے قرآن مجید کے تفسیری حواشی پر جن علماء کرام سے تقاریظ لکھوائیں ان میں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری، مولانا قاری محمد طیب ، مولانا مفتی کفایت اللہ کے ساتھ حضرت مولانا محمد چراغ ؒ سے بھی تقریظ لکھوائی ۔ جو آپ کے استاذ بھی ہیں اورشاگرد بھی۔
امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ کا اعتماد
امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری رحمہ اللہ آپ کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ جیل میں کافی عرصہ اکٹھے رہے ۔ انہوں نے حضرت(مولانا محمد چراغ ؒ )سے کہا : میں چاہتا ہوں کہ میری بچیاں آپ کے گھر رہ کر آپ سے تعلیم حاصل کریں ،مگر آپ نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے معذرت کر لی۔
آپ ؒ کے تلامذہ
مولانا غلام محمد (مرہانہ ، ڈسکہ ضلع سیالکوٹ والے)جن کے پاس امامِ اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خاں صاحب رحمہ اللہ بھی پڑھنے کے لیے گئے مگر داخلہ نہ مل سکا۔ وہ حضرتؒ کے خود بھی شاگردِ خاص تھے ۔ ان کے بیٹے، پوتے اورپڑپوتے بھی حضرت کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ آپ کے شاگردوں کی فہرست تیار کی جائے تو ایک چراغ سے ہزاروں چراغ روشن ہوئے ہیں جن میں مولانا مفتی عبدالواحد (مرکزی مسجد شیرانوالہ باغ) جو مولانا فیاض صاحب کے دادا استاذ ہیں، مولانا محمدحیات ، فاتح قادیان ، قاضی عصمت اللہ (قلعہ دیدار سنگھ)، مولانا عبد الخالق طارق (مولانا ولی اللہؒ کے پوتے، یوگنڈا) مولانا عبداللطیف (جہلم ) مولانا منظوراحمد چنیوٹی، حضرت مولانا مفتی نذیر احمدؐ (سابق شیخ الحدیث جامعہ عربیہ )اوردیگر بہت سے علماء قابل ذکر ہیں۔
ردّ قادیانیت کے سلسلے میں آپ کی خدمات
پھر ردّ قادیانیت اورمرزائیت کے ردّ میں جو آپ کی خدمات ہیں ان سے کون واقف نہیں ۔ آپ نے مرزا قادیانی کی تمام کتب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اورا س کے تضادات کو جمع کر کے ایسا مواد ترتیب دیا کہ مرزا قادیانی کو جھوٹا قرار دینے کے لیے ان کی اپنی تحریں کافی ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’بندۂ ناچیز اس میدان میں جو کچھ بھی ٹوٹی پھوٹی خدمت اندورن ملک اوربیرون ملک سر انجام دے رہا ہے یا جو کچھ معلومات رکھتا ہے، یہ فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات کا تمام تر فیض ہے ۔ اوربالواسطہ حضرت الاستاذ مولانا محمد چراغ مولف’’چراغ ہدایت‘‘کا فیض ہے۔ حضرت موصوف مدظلہ العالی (رحمہ اللہ) میرے دادا استاد ہیں۔ جہاں جہاں حضرت استاد کا فیض افادہ کار فرما رہا، آپ نے وہاں قادیانیت کے خلاف ایک عملی روح پھونکی ، اس الحاد کے خلاف فکری چراغ جلائے۔ جماعت اسلامی کے حلقوں میں بھی جہاں کہیں آپ کو قادیانیت کے خلاف کوئی کام ملے گا ، اس کے پیچھے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کی علمی اورفکری قوت ملے گی جو اپنے استاد حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری سے پائی تھی۔ ‘‘(مقدمہ چراغ ہدایت ، ص:۳۷،۳۸)
حضرت مولانا فیاض صاحب حضرت رحمہ اللہ کے بارے میں کچھ جانیں یا نہ جانیں ، ان کو ایک دنیا جانتی ہے ۔ ان کے تفقہ فی الدین ،تفہیم دین، تقویٰ ، دیانت ، خودی ، اخلاص اورعلمی کارناموں کی بہترین مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے
مضمون کی طوالت کا خوف ہے، ورنہ اس موضوع پر مواد کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ پورا رسالہ بھی تنگئ داماں کی شکایت کرے۔
مولانا محمد فیاض نے قاری فیوض الرحمن کی اس تحریر کا حوالہ دیا ہے کہ
’’حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ پوسٹ مارٹم لکھاجس میں جناب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی صاحب ؒ کی تحریروں پر مضبوط کی گرفت کی، ان میں سے بعض تحریروں سے مولانا نے رجوع فرما لیا ہے۔‘‘
شکر ہے یہ بات تو تسلیم کر لی گئی ، مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے رجوع کر لیا کرتے تھے۔دوسرے نمبر پران کے نزدیک اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ مولانا مودودی جیسے بڑے عالم پر حضرت مولانا ہزاروی ؒ نے گرفت کی جو ان کے بڑا عالم ہونے کی دلیل ہے۔ اگرچہ اس کی کوئی مثال نہیں دی گئی مگر مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے خطوط شائع ہو چکے ہیں جس میں اس امر کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے حضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے توجہ دلانے پر اپنی رائے سے رجوع کیا ۔
میرا مقصد قطعاً حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ کی تنقیص نہیں ہے۔ اورنہ میں نے کوئی ایسا جملہ لکھا ہے جس میں کسی قسم کی توہین یا تنقیص پائی جائے۔مولانا محمد فیاض صاحب بھی ہمارے محترم ہیں۔ میں صرف احقاقِ حق کرنا چاہتا ہوں اورحضرت مولانا محمد چراغ صاحب رحمہ اللہ کے علمی مرتبہ کے بارے میں بعض لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں۔ کاش انہوں نے حضرت کی شاگردی کی ہوتی تو انہیں پتہ چلتا کہ فصیح عربی ادب کا ٹھیٹھ پنجابی ادب میں کس طرح ترجمہ کیا جاتا ہے ۔ اورعربوں کے محاورات کی تفسیرو توضیح کس طرح کی جاتی ہے۔ اورترجمہ ہی اس طرح کیا جائے کہ تشریح سے مستغنی کر دے۔
آخر میں ایک واقعہ------ جو مولانا محمد اشرف قریشی صاحب نے اپنی کتاب ’’ہجرت کشمیر‘‘ میں تحریر کیا ہے------بلاتبصرہ نقل کرتا ہوں ۔ قارئین خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کون فائق ہے۔
’’حضرت استاذ اخبار و رسائل کا بالاستیعاب مطالعہ فرمایا کرتے تھے اورطلبہ کی سہولت کے لیے اہم مضمون یا خبر پر سرخ لائن لگا دیتے تھے۔ علامہ عامر عثمانی کے ماہنامہ تجلی دیو بند کا ایک سلسلہ وار مضمون ’’مسجد سے میخانے تک‘‘کا انتظار رہتا ، اسی طرح شورش کاشمیری ؒ کا ہفت روزہ چٹان ہم طلبہ بھی شوق سے دیکھتے ۔ ایک دفعہ شورش کاشمیری مرحوم نے لکھ دیا کہ مولانا غلام غوث ہزاروی کو کسی بے قاعدگی کی پاداش میں دار العلوم دیو بند سے بغیر سند دئیے نکال دیا گیا تھا۔حقیقت کا علم تو اللہ کے پاس ہے مگرمولانا ہزاروی اورشورش چوں کہ اکٹھے رہ چکے تھے اورپورے ملک میں شورش کاشمیری ہی مولانا ہزاروی کے انداز میں انہیں للکارا کرتے ۔ اوراگرچہ اس پُر فتن دور کا یہ ایک اہم انکشاف تھا مگر حضرت استاذ رحمہ اللہ نے اس پر سرخ نشان نہیں لگایا۔جب رسالہ ہم تک پہنچا تو ہم نے بھی پڑھ لیا ، اوردوسرے روز جب ہدایہ پڑھنے کے لیے حضرت کی کلاس میں گئے تو طلبہ کے ساتھ پہلے سے مشاورت کی بناپر میں نے حضرت سے شکایت کی کہ آپ نے اپنے ہم جماعت (ہم مکتب)کی پردہ پوشی فرمائی ہے اوراتنے اہم انکشاف پر سرخ نشان نہیں لگایا؟اتنا عرض کرنا تھا کہ حضرت کو خلاف معمول جلال آگیا اورفرمایا:اس طرح کی حرکتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنے آپ کو اللہ کے ہاں جواب دہ تصور نہیں کرتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو یہ تعلیم نہیں دی ،اورشورش نے انتہائی غلط حرکت کی ہے۔مولانا ہزاروی اپنے رویہ کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس قسم کی حرکتیں کرنا شروع کردیں ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا:یہ سیاست یا اخلاق نہیں بلکہ اخلاقی جرم ہے ،اورمیں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ کبھی اس قسم کی باتوں میں دلچسپی نہ لینا، اورپھر آپ نے چند مثالیں دے کر سمجھایا۔‘‘ (ص: ۴۷۵)
اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:(ومن اصدق من اللہ قیلا)’’اور اللہ کے فرمان سے زیادہ سچا قول کس کا ہو سکتا ہے ‘‘(انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء) ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو (حقیقی) علماء ہوں ‘‘۔
مولانا محمد فیاض خان سواتی کا وضاحتی نوٹ
’’تاریخ دار العلوم دیوبند‘‘ ص ۱۰ پر پیش لفظ میں حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ لکھتے ہیں:
’’(سید محبوب رضوی) جنھیں ذمہ داران دار العلوم نے اس خدمت کے لیے منتخب کیا، انھوں نے تاریخ دار العلوم پر نہایت خوش اسلوبی، جامعیت اور تحقیق کے ساتھ قلم اٹھا کر اپنی سعی ومحنت کی حد تک اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔‘‘
سید محبوب رضوی لکھتے ہیں:
’’مولانا غلام غوث ہزارویؒ ۱۳۳۷ھ میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔‘‘ (ج ۲ ص ۱۳۹)
’’مولانا محمد چراغ گوجرانوالوی ۱۳۳۷ھ میں دار العلوم دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے۔‘‘ (ج ۲ ص ۱۳۶)
یاد رہے کہ ۱۳۳۷ھ، یہ ۱۹۱۸ء کا سال ہے۔ اس کی تعیین بھی اسی کتاب میں قاری محمد طیب صاحبؒ کے تذکرے میں موجود ہے کہ قاری صاحب نے
’’۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء میں فراغت اور سند فضیلت حاصل کی۔‘‘ (ج ۲ ص ۱۳۳)
اس میں یہ امکان بھی نہیں ہے کہ مورخ کو یہ تاریخ لکھنے میں کوئی سہو ہوا ہے، کیونکہ انھوں نے یہی تاریخ اپنی اسی کتاب میں آگے جا کر دوبارہ بھی لکھی ہے: ۱۳۳۷ھ (یعنی) ۱۹۱۸ء (ملاحظہ فرمائیں ج ۲ ص ۲۳۶)
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ قاری محمد طیب صاحبؒ نے اپنے قلم سے خود لکھا ہے:
’’مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے ۱۳۳۷ھ میں علوم دینیہ سے فراغت حاصل کی۔‘‘ (دار العلوم دیوبند کی صد سالہ زندگی ص ۷۶)۔
نیز یہ کہ
’’احقر کے ہم سبق رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص ۷۸)
اب یا تو تاریخ دار العلوم دیوبند غلط ہے یا مولانا عارف صاحب۔ اس کا فیصلہ قارئین خود فرما لیں۔