طالبان اور امریکہ کے مذاکرات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قطر میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر کھلنے کے ساتھ ہی امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دینے لگا ہے اور دونوں طرف سے تحفظات کے اظہار کے باوجود یہ بات یقینی نظر آرہی ہے کہ مذاکرات بہرحال ہوں گے، کیونکہ اس کے سوا اب کوئی اور آپشن باقی نہیں رہا اور دونوں فریقوں کو افغانستان کے مستقبل اور اس کے امن و استحکام کے لیے کسی نہ کسی فارمولے پر بالآخر اتفاق رائے کرنا ہی ہوگا۔ 

افغانستان میں امریکی افواج اور نیٹو کی عسکری یلغار کے بعد ہم نے اس وقت بھی عرض کر دیا تھا اور اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً یہ گزارش کرتے آرہے ہیں کہ مداخلت کار قوتوں کو بالآخر طالبان کا وجود تسلیم کرنا ہوگا اور ان کے ساتھ مذاکرات کی میز سجانا ہوگی، اس کے لیے کوئی لمبی چوڑی فراست درکار نہیں تھی کیونکہ تاریخ کا عمل اسی کو کہتے ہیں اور تاریخ پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کی رائے اس سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ 

یہ مذاکرات ابھی وقت لیں گے، مذاکرات کے دوران بلکہ اس سے پہلے بھی روٹھنے اور منائے جانے کے کئی مراحل درمیان میں آئیں گے، بلکہ بعض مناظر مایوسی کے بھی دکھائی دینے لگیں گے، مختلف حوالوں سے ایک دوسرے کے بارے میں بے اعتمادی اور تحفظات کا اظہار ہوگا، یہ مذاکرات کئی بار ٹوٹتے ٹوٹتے جڑیں گے اور جڑتے جڑتے ٹوٹیں گے، لیکن یہ بات اب نوشتۂ تقدیر ہے کہ آخر کار یہ مذاکرات منطقی نتیجہ تک پہنچیں گے اور نہ صرف یہ کہ افغانستان مکمل آزادی اور خود مختاری کی منزل سے ہمکنار ہوگا بلکہ امریکہ اور نیٹو افواج بھی کسی نئے ہدف کی تلاش میں خود کو آزاد محسوس کریں گی۔ 

افغان طالبان افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج کے انخلا کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ اس سے قبل افغان مجاہدین اپنی سرزمین سے سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے لیے جنگ لڑ چکے ہیں۔ اس وقت افغان قوم کے سامنے ہدف یہ تھا کہ سوویت یونین کی فوجیں افغانستان کی سرزمین سے نکل جائیں اور اب اس حریت پسند قوم کا ہدف یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج افغانستان کا علاقہ خالی کر دیں۔ مگر ایک فرق واضح ہے کہ اُس وقت انہیں عالمی برادری حتیٰ کہ امریکہ کی بھی حمایت و امداد حاصل تھی جبکہ اب وہ تنہا ہیں اور کوئی ان کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ درپردہ امداد و حمایت کی بات الگ ہے، مگر ظاہری منظر یہی نظر آرہا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف تو عسکری جنگ کے ساتھ ساتھ سفارتی جنگ میں بھی عالمی برادری ان کی پشت پر تھی مگر امریکہ اور نیٹو کے خلاف جنگ میں میدان جنگ کے علاوہ سفارتی محاذ پر بھی وہ اکیلے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے یہ افغان طالبان کی ذہانت و فراست کا بہت کڑا امتحان ہے اور اگر انہوں نے گزشتہ عشرے کے دوران اپنی کشمکش کے پس منظر اور پیش منظر سے کچھ سبق حاصل کر لیا ہے اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر حقیقت پسندی کی بنیاد پر حکمت و تدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کا عزم رکھتے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اس امتحان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ 

مذاکرات کے عمل کے دوران افغان طالبان کی ایک بڑی ضرورت یہ بھی ہوگی کہ مذاکرات کو صحیح نتائج تک لے جانے کے لیے ان کا عسکری دباؤ کمزور نہ ہونے پائے، اس مقصد کے لیے ان کے ساتھ پاکستان کے علماء کرام، دینی کارکن اور اصحابِ خیر اس فیصلہ کن مرحلہ میں جو بھی تعاون کر سکتے ہوں، اس سے گریز نہ کیا جائے۔ مثال کے طور پر:

  • افغان طالبان کو عمومی سیاسی و اخلاقی حمایت مہیا کی جائے اور نہ صرف ملکی رائے عامہ بلکہ عالمی رائے عامہ کو بھی ان کے جائز موقف کی طرف توجہ دلانے کا اہتمام کیا جائے۔
  • بین الاقوامی اداروں اور خاص طور پر عالم اسلام کے بین الاقوامی اداروں میں افغانستان کی آزادی و خود مختاری اور اس کے اسلامی تشخص کی بحالی و تحفظ کے لیے لابنگ اور ذہن سازی کی قابل عمل صورتیں نکالی جائیں۔
  • افغان طالبان کی جدوجہد اور پاکستان کے قبائلی علاقوں کی صورت حال کے فرق کو واضح کیا جائے اور پاکستان کی داخلی کشمکش کی ذمہ داری سے افغان طالبان کو بری الذمہ قرار دینے اور اصل زمینی حقائق کے اظہار کے لیے علمی و فکری محنت کی جائے۔

حالات و واقعات

(جولائی ۲۰۱۳ء)

تلاش

Flag Counter