علامہ زاہد الراشدی صاحب سے راقم نے پوچھا کہ استاد جی! آپ ‘‘رابطہ‘‘ کی جانب سے اسلام آباد مختلف مسالک کے علماء کی تقریب میں مدعو تھے پھر بھی شریک نہیں ہوئے، خیریت تو ہے؟
استاد جی صبح صبح تر و تازہ اور فل گپ شپ کے موڈ میں ہوتے ہیں، پوچھا کیا عنوان تھا؟
راقم نے بتایا ’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘۔
استاد جی نے غمزدہ لہجے میں فرمایا کہ قبلۂ اول کے دامن میں ہمارے بچوں کی کھوپڑیوں کے مینار اور ہڈیوں کے پل تعمیر کیے جا رہے ہوں اور ہم غیر ضروری عناوین پر یہاں بانسری بجانے بیٹھ جائیں، اور ہماری تقریبات نشستند، گفتند، خوردند اور برخاستند تک محدود ہوں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہماری قومی حمیت کا جنازہ ہے۔ تم بتاؤ اس وقت اس عنوان کی ضرورت تھی یا مجھے اس عنوان کے تحت ہونے والی تقریب میں جانا چاہیے؟
میری خاموشی کو بھانپ کر استاد جی نے فرمایا: تم میرے مزاج سے واقف ہو کہ میں اتحادِ امت کا داعی ہوں بلکہ میں تو علاقائی سطح پر مسلکی ہم آہنگی سے شروع کر کے عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی پر ہر فورم پر بات کرتا ہوں اور اس کی ضرورت کو سمجھتا ہوں، مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ اب اس وقت امت پر کیا افتاد آن پڑی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس وقت ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ
؏ ’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘
استاد جی کا عالمی فورم ’’رابطہ عالمِ اسلامی‘‘ سے دردمندانہ مطالبہ یہ ہے کہ اسے قضیہ فلسطین اور غزہ کے حوالے سے کھل کر اپنا موقف امت کے سامنے رکھنا چاہیئے اور ہر فورم پر ۱۹۹۰ء کی دہائی کی طرح مؤثر آواز اٹھانی چاہیئے اور عالمی سطح پر صرف اور صرف القدس اور فلسطین کو موضوع بحث بنانا چاہیئے۔ استاد جی نے رابطہ کی دعوت کے جواب میں جو حرفِ انکار لکھا ہے وہ بھی مظلوم طبقات کے دل کی آواز ہے۔ استاد جی کا جوابی خط ملاحظہ کیجئے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔گرامی قدر عزت مآب جناب سعد بن مسعود الحارثی صاحب زیدت مکارمکم
رئیس مکتب الرابطۃ العالم الاسلامی اسلام آباد پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسلام آباد میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور رابطہ کے حوالہ سے رابطہ عالمِ اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ یا دفرمائی کا تہہِ دل سے شکریہ!
میرے مخدوم! ہم انتظار میں تھے کہ فلسطین کی موجودہ سنگین صورتحال اور مسجدِ اقصیٰ کو درپیش خطرات کے موضوع پر امتِ مسلمہ کے جذبات و احساسات کی ترجمانی اور فلسطینی مظلومین کی حمایت کے لیے رابطہ عالمِ اسلامی کا مؤقر فورم کوئی کردار ادا کرے گا۔ مگر اس سلسلہ میں مسلم حکمرانوں، او آئی سی اور رابطہ عالمِ اسلامی کے ماحول میں مکمل سناٹے کی کیفیت نے امت کو مایوس کیا ہے اور ’’یتحیر فیہا البسیب‘‘ کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ اس تناظر میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے عنوان پر سرگرمیاں میرے نزدیک بے وقت او ربے مقصد ہیں۔ مجھے اس موضوع کی اہمیت و ضرورت سے قطعی انکار نہیں ہے مگر یہ وقت اس کا نہیں بلکہ مسجدِ اقصیٰ اور فلسطینی مظلومین کے حق میں مؤثر آواز بلند کرنے اور امتِ مسلمہ کو عالمی استعماری قوتوں کے حصار سے نکالنے کی جدوجہد کا ہے۔ اس لیے میں بصدِ احترام ۱۴ اپریل کی مذکورہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت خواہ ہوں۔
شکریہ، والسلام، ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
۱۳ اپریل ۲۰۲۴ء‘‘