مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ بیت المقدس سے مسلمانوں کا بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ رشتہ کئی اہم پہلوؤں مثلاً عقائد، عبادات، تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے۔ بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لئے شروع سے ہی عقیدتوں کا مرکز رہی ہے، جو اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو سب سے اہم ترین عبادت نماز کیلئے قبلہ بنانے، نماز پڑھنے اور دیگر فضیلتوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں اور بیت المقدس کے یہ تمام رشتے کھل کر سامنے آتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ دینی رشتے کے چند پہلو ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بُقعہ ان بے شمار انبیاءؑ کا قبلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانہ کعبہ سے پہلے آپ اسی طرف اپنا روئے مبارک کر کے اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کر کے نماز پڑھی۔ یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ (صحیح مسلم 525، و صحیح البخاری 4492)
لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (سورۃ البقرۃ 144)
تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہٰذا بیت المقدس مسلمانوں کا اولین قبلہ شمار ہوتا ہے۔
مسجد اقصیٰ میں 250 نمازوں کا ثواب
نماز دین کا اہم ستون ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (صحیح الترغیب 1179)
چونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر ہوا۔
ثواب کی نیت سے سفر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عبادت کی نیت اور ارادے سے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ترغیب دی ہے، اور درج ذیل فرمان کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے جوڑ دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ (رواہ البخاری 1189 و مسلم 1397)
نماز پڑھنے کی بہترین جگہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کو نماز پڑھنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے، حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ، جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہو گی۔ (صحیح الترغیب 1179)
مسجد اقصیٰ کی زیارت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کو دیکھنے کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا پوری دنیا سے زیادہ افضل ہو گا۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 2902)
نماز پڑھنے کی منت ماننا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر یا منت ماننے کو جائز اور درست قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے عرض کیا:
ترجمہ: اے اللہ کے رسول! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ مکرمہ کو فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو۔ اس نے پھر سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی۔ (صحیح ابی داؤد 3305)
مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب
بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر کا ثواب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی، الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 4/599)
گناہوں کی معافی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز کو گناہوں کی معافی کا سبب قرار دیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں کیں: (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ (3) یا اللہ! جو آدمی اس مسجد اقصیٰ میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فر مالی ہیں (کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کر لی گئی ہو گی۔ (صحیح ابن ماجہ 1164 و صحیح الترغیب 1178)
برکت کی دعا
بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارضِ شام کا نام لے کر برکت کی خصوصی دعا کی ہے۔ بیت المقدس ارضِ شام کا ہی علاقہ ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔ (صحیح البخاری 7094)
مذکورہ بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت اور بندگی کا ایک مضبوط تعلق اور رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا۔
بیت المقدس سے تاریخی رشتہ
بیت المقدس ہزاروں سال قدیم شہر ہے، بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے جیسے یبوسی، معموری، آرامی، کنعانی۔ قدیم زمانے میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے۔ قوم یبوس عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو فلسطین میں سات ہزار پانچ سو سال قبل مسیح سے پہلے آباد ہوئی۔ چنانچہ بیت المقدس میں موجود پتھر کی تختیاں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں یبوسی اور کنعانی عربوں سے زیادہ قدیم کوئی قوم نہیں پائی گئی ہے۔ مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت المقدس کی بنیاد رکھنے والے اور اسے آباد کرنے والے یبوسی تھے، اور بیت المقدس کا پہلا نام یبوس تھا۔ارضِ فلسطین کو ارضِ کنعان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے بھی رہ چکے ہیں۔ بیت المقدس کے دیگر ناموں میں ایک نام اورو سالم بھی ہے، جو ایک کنعانی نام ہے جس کا مطلب امن کا شہر ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اسے یورسالیم کہا جانے لگا جو اب یروشلم ہوگیا ہے، اور یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں۔ جس وقت افریقی اور رومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے اس وقت اس شہر کا نام ایلیا تھا۔ سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کر کے بیت المقدس رکھ دیا گیا، جس کے معنی ہیں پاک گھر، مبارک و مقدس سر زمین۔ (معجم البلدان 5/166)
معاہدہ عمریہ
جب سنہ 15 ہجری یا 638 عیسوی میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے۔ کیونکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس تشریف لائیں۔ چنانچہ کنیس القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کے نام سے تاریخِ اسلام میں مشہور ہے۔ (فتوح البلدان، للبلاذری ص 144)
فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔ معاہدہ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے۔ (تاریخ طبری ج 3 ص 6.8/6.9)
یہ معاہدہ بیت المقدس میں جابیہ کے مقام پر طے پایا۔ اس تاریخی معاہدے پر سیدنا خالد بن الولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے۔ (فتوح البلدان ص 144)
مسلمانوں کی طویل حکومت
عربوں اور مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر 1967 عیسوی تک حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88 سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے سنہ 583 ہجری بمطابق 1187م میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کر دیا۔ عربوں اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی، امن و امان کی بحالی اور استحکام، اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا۔
امتِ مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امتِ مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی، اس بابرکت مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی، اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی۔ لیکن آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں، انہیں وہاں ہر قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں، بچوں کو قتل کر رہے ہیں، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کی جا رہی ہے، یہ سب حالات تمام مسلمان رہنماؤں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہو کر متفق و متحد ہو جائیں، اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں اور جہاد کا پختہ عزم اور اعلان کریں تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑ جواب دیا جائے ؎
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں، جیسا اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ والا قصہ بن جائے گا۔ یا اللہ! مسجد اقصیٰ کو ظالموں، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما، فلسطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما، انہیں قوت عطا فرما، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما، آمین یا رب العالمین۔