مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کی دشمنی کوئی پوشیدہ بات نہیں، سالہا سالوں سے ان دو ملکوں کی دھمکیوں اور بالواسطہ جھڑپوں کا تبادلہ چلا آرہا ہے، مگر ۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسرائیل پر ہونے والے ایرانی ڈرون حملوں نے ساری صورتحال کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا۔ اسرائیل پر کسی ملک کا براہ راست حملہ کرنا، امریکہ سے لڑائی مول لینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں عراق کے صدر صدام حسین نے جب اسرائیل کو نقشہ ارض سے مٹا دینے کے عزائم ظاہر کیے تو امریکہ اور نیٹو نے مل کر عراقی قوت کو اس طرح گرایا کہ اب تک عراق اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اس خبر کو دیکھا جائے تو حیرت کے ساتھ ساتھ بہت سے سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے اس حملے سے اسرائیل کو ہونے والے نقصان کے بارے میں سوال اٹھایا جو کہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ۳۰۰ میزائیل اور ڈرونز میں سے صرف ۱ فیصد اپنے ہدف پر لگے جس سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا اور معمولی مالی نقصان پہنچا۔ اس سوال کا جواب خود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک میٹنگ میں دیا کہ کتنے میزائیل مارے گئے اور کتنے اسرائیل کو لگے، یہ اہمیت کے حامل نہیں، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ایرانی فوج کی قوت بین الاقوامی میدان میں ابھر کر واضح ہوئی۔
بعض طبقات نے اس کو غزہ کے مجاہدین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان سمجھا۔ درحقیقت یہ حملہ یکم اپریل ۲۰۲۴ء کو شام میں موجود ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کی جوابی کاروائی تھی جس میں ایرانی فوج کے اعلیٰ افسران مارے گئے۔
ایک سوال یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ عرب ممالک بھی اس خطے کے اقتدار کے امیدوار ہیں۔ اس واقعے میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا؟ اس کا جواب افسوسناک ثابت ہوا کیونکہ عرب ممالک بالخصوص سعودیہ عرب اور دبئی نے اسرائیل کو حملے کی قبل از وقت اطلاعات مہیا کیں اور اردن نے باقاعدہ جہازوں کے ذریعے ایرانی میزائیل اسرائیل پہنچنے سے پہلے تباہ کیے۔ لیکن اس حملے سے ۲ چیزیں واضح ہوتی نظر آئیں:
- عالمی میڈیا کی طرف سے بنائی گئی ایک ناقابل تسخیر اسرائیل کی تصویر دھندلی ہو گئی۔ ایران کے حملے کا اعلان سنتے ہی اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لی۔ قبل از وقت اطلاعات اور آئرن ڈوم فضائی دفاع سسٹم ہونے کے باوجود لگنے والے میزائیل اس بات کا ثبوت اور اسرائیل کے دفاعی ریکارڈ پر سوالیہ نشان ہے۔
- نہ تو ایران اور نہ ہی اسرائیل ایک باقاعدہ جنگ کے خواہاں ہیں۔ سی این این کی خبر کے مطابق ایرانی حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم کو میزائل روکنے کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ جوابی کاروائی کرنے سے منع کیا۔ امریکی افسران کے مطابق کسی جوابی کاروائی میں امریکہ اسرائیل کا ساتھ نہیں دے گا۔ اسی موقف کا حامل ایران بھی نظر آرہا ہے کیونکہ ۱۸ اپریل کو ایران کے شہر اصفہان پر ہونے والے اسرائیلی ڈرون حملے کو بہت حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اس حملے کو معمولی ظاہر کرنے کیلیے ایران نے اس حملے سے ہونے والے نقصان کو چھپانے کی بھی کوشش کی۔