تعارف
یہ مضمون محبت کے متنوع تصورات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ محبت کی مخصوص اسلامی صورتوں کو بحث میں شامل کرتا ہے، خاص طور پر ان صورتوں کو جنہیں قرون وسطیٰ کے مسلم مفکر و ماہر الہیات امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی 1111ء) نے پیش کیا تھا۔ مقصد محبت کے اسلامی تصور کو ”اگاپے“ (agape) کے غالب مسیحیت مرکزی تصورات اور محبت کی کفارہ پر مبنی شکلوں سے ممیز کرنا ہے جو فی زمانہ بین المذاہب مکالمے کو تشکیل دے رہے ہیں۔ اس مضمون کا استدلال ہے کہ ہمیں محبت کے مختلف تصورات کو تلاش کرنے اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پوپ بینیڈکٹ نے اپنے 2006ء کے ریجنزبرگ لیکچر سے مسلم دنیا کو بدنام کیا۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا ماخذ عیسائی علم کلام کے کچھ خاص طبقوں میں پائے جانے والے تصوراتِ محبت اور اسلام میں محبت کے اصول کو یکساں سمجھ بیٹھنا ہے۔ تاریخی طور پر، اسلام کا علم کلام رحمت کے اردگرد مرکوز ہے، جب کہ محبت انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ تجرباتی تعلقات کے ایک لاہوتی نظام کی زایدہ ہوتی ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غزالی کی محبت کے مظاہر محبت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ کرتے ہیں۔ معرفت الٰہی، ادراک اور اطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے غزالی مسلم الٰہیاتی نظام اور دائرہ کے اندر محبت کا ایک پیچیدہ تجرباتی تصور پیش کرتے ہیں۔ یہ تجویز کرنا کہ عیسائیت اور اسلام میں محبت مشترک ہے، جیسا کہ بعض نے کیا ہے، دونوں ہی ثروت مند روایتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، بلکہ ہر روایت میں محبت کے تصورات بہت مختلف ہیں۔
’’وہ اور بیو بولتے نہیں۔ اس نے اب تک اس سے سیکھ لیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ اس جانور پر مرکوز رکھے جس کو وہ مار رہے ہیں۔ اسے وہ چیز دے جس میں اسے اب اس کے مناسب نام سے پکارنے میں دشواری نہیں ہوتی: محبت۔‘‘ (جے، ایم، کوئٹزی، ڈسگریس)
’’محبت فرض تھی اور فرض محبت۔‘‘ (وکرم چندر، سیکرڈ گیمز)
اکتوبر2007ء میں عالم اسلام کے 138 ماہرینِ دینیات، بڑی شخصیات اور زعما نے ایک محضر پر دستخط کیے جس کا عنوان تھا: A Common Word Between Us and You (ہمارے اور آپ کے مابین ایک کلمۂ سواء) (1) اس یادداشت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان اور مسیحی دونوں ”محبت کی مشترک قدر“ پر اتفاق رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ امن و سلامتی کے داعی ہیں۔ محبت کی اس قدر مشترک کے دو جزء ہیں: ایک خدا سے محبت اور دوسری پڑوسی سے محبت۔ اس کے بعد سے اب تک اس یادداشت پر مزید 256 لوگ دستخط کر چکے اور اس بیان کو منظور کر چکے ہیں۔
یہ مصالحانہ اقدام مسلمانوں کی جانب سے دراصل اس سخت بدمزگی کا جواب تھا جو مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین سولہویں پوپ بینیڈکٹ کے اس خطاب کے بعد پیدا ہوئی جو انہوں نے 12 ستمبر 2006ء کو دیا تھا جس میں انہوں نے اسلام پر ایک جارحانہ تبصرہ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”غیر عاقلانہ کام کرنا خدا کے نیچرکے خلاف ہے“(2) انہوں نے دعوا کرتے ہوئے کہ مسیحیت نے اب تعقلی رویہ اختیار کر لیا ہے اس کا تقابل اسلام سے کیا اور اس کے لیے بطور حوالہ بازنطینی بادشاہ مینویل ثانی کا ایک فقرہ نقل کیا کہ: ”مجھے بتاؤ محمدﷺ کیا چیز نئی لے کر آئے؟ ظالمانہ اور غیر انسانی حکم کہ مذہب کو بزور شمشیر پھیلایا جائے کے علاوہ اسلام میں آپ کو کچھ نیا نہ ملے گا“(3) پوپ کے اس رمارک سے مسلمانوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے تھے۔ تو متذکرہ بالا مسلم بیان (The Common Word) پوپ کے اسی بیان کا جواب ہے۔ اِس بیان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں (Love) محبت کو اسلام اور مسیحیت کی ایک قدر مشترک کے طور پر لیا گیا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ”محبت“ اسلام اور مسیحیت دونوں میں یقیناً ہے مگر دونوں میں علمیاتی طور پر وہ بالکل مختلف انداز میں فنکشن کرتی ہے۔ اگلی سطور میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔
مجھے دونوں مذاہب میں ایک غلط یکسانیت پیدا کرنے پر اعتراض یوں ہے کہ دونوں کے مابین ظاہری مشابہتوں پر نہ جا کر دونوں کی انفرادیت پر نظر رہنی چاہیے۔ اس جائزہ میں اسلام کی سیاسی دینیات یا دوسرے لفظوں میں اسلام میں محبت کی سیاسیات پر ہی ارتکاز رہے گا۔ دونوں مذاہب میں ”محبت“ کے تصور کا تقابل یہاں میں نہیں کروں گا۔(4)
چونکہ اسلام میں محبت کے مباحث کو پہچاننے اور سمجھنے کا مطلب ہے اسلام میں محبت کے نظام کے ان ظاہری آیپریٹس (ذہنی تصوراتی خاکے) کو سامنے لانا(5) جو کہ ایسا تصور ہے جسے مشیل فوکو نے وضع کیا اور بعد میں جارجیو اگامبین نے اس کو وسیع کیا۔ یہ آ پیریٹس ”مکمل طور پر ایک متضاد چیزوں کی تشکیل کا ڈسکورس ہے'' جس میں فوکو کے خیال میں فن تعمیر کی شکلیں، ضابطے، قوانین، سائنسی، اخلاقی اور فلسفیانہ تجاویز شامل ہوں گی۔(6)
(وضاحت: آپریٹس سے مراد ایسا ذہنی تصوراتی خاکہ ہے جو چند الفاظ و اصطلاحات سے مل کر اپنے زمانی و مکانی اور روایتی سیاق میں ایک خاص معنی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اسلامی روایت میں ”محبت کی آپریٹس“ سے وہ معنی مراد ہوں گے جن کا ارتقاء اسلامی کلامی و اخلاقی ادب کے دائرہ میں ہوا۔ لیکن عیسائی روایت کے سیاق میں یہی لفظ (Love) ایک مختلف معنی دے گا۔ یعنی سیاق بدل جائے تو ایک ہی لفظ اور ایک ہی اصطلاح دو بالکل مختلف معنی دے گی)
میں یہاں پیشگی طور پر دینیاتی رشتوں پر روشنی ڈالوں گا۔ اسلام کے مختلف اظہارات (سنی، شیعہ، اباضی، زیدی، اسماعیلی) میں اللہ تعالیٰ کو عموماً رحمان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن رحمانیت اور محبت میں فرق ہے۔ کئی مصنفین مثلاً ایس ایچ نصر اور غازی بن محمد بن طلال رحمت و رحمانیت کو محبت سے جا ملاتے ہیں۔(7) تو بے پناہ رحمت محبت سے الگ کیسے ہے؟ رحمت اپنے آپ میں ایک مستقل صفت ہے جو اس عالم میں جاری و ساری ہے۔ اسلامی دینیات میں اِس عالم کا ظہور خدا کی صفت رحمت کا ہی ظہور ہے۔ اور اسلام کے سیاسی نظریہ میں یہ رحمت بندھی ہوئی ہے، اطاعت کے عہد سے محبت کے عہد سے نہیں۔ یہ واضح ہے کہ جدید احساسات میں اطاعت دقیانوسی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور محبت کا مسیحی ڈسکورس ہی غالب ہے، یہاں تک کہ سیکولر ڈومین میں بھی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محبت کے اسلامی تصورات کی روایت دب کر رہ گئی ہے۔ اس مشترکہ بیان میں جدید دور کی بین المذاہب مذاکرات کی سیاست کے چلتے روایت کی عطا کردہ مسلمہ موضوعیت کے مسلمہ اور ممتاز پہلووں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس میں کاسموپولیٹن ازم اور محبت پر مبنی بین المذاہب ہم آہنگی پر ابھارا جاتا ہے۔ مسلم علمی تاریخ میں جن تصورات کو بہت احتیاط و نزاکت سے برتا گیا ہے ان کو خلط ملط محض اس لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ مسیحت کی طرح اسلام میں بھی ”محبت“ ایک بنیادی قدر ہے۔ مگر اسلامی روایت کی یہ کانٹ چھانٹ بہت خطرناک ہے۔(8)
ایک دوسرے لیول پر Love کی ایک خاص ترکیب مغرب کے سیاسی نظریات میں سرایت کر گئی ہے۔ جو غالباً یوروپ کے مسیحی کلچر اور تہذیب سے ماخوذ ہیں۔ اگمبین ان کو Apparatus یا ذہنی تصوراتی خاکے کا نام دیتا ہے۔ جن کے ذریعہ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ تسلط جما لیا جاتا ہے۔(9) تو محبت کے بارے میں کوئی گفتگو جب دو روایتوں میں خلط ملط کر کے ہو جیسے کہ اسلامی و مسیحی روایتیں، تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ ایک روایت کو دوسری کا تابع بننا پڑے گا، اور جو زیادہ مضبوط و توانا ہو گی دوسری کو اس کے مطابق ڈھال دیا جائے گا۔ جو بڑے اور مضبوط وسائل والی ہو گی اس کا تسلط ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے کامن ورڈ لکھنے والوں نے بے شعوری میں اسلامی روایت کو مسیحی روایت کے تابع بنا ڈالا ہے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض ہے کہ محبت کے غالب تصور کو ”اگاپے“ سے تعبیر کیا جائے جو مسیحیت میں خدا سے بے لوث محبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس طرح کی بے لوث و بے فائدہ محبت انسانوں میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ خدا کی رحمت سے ہی مل پاتی ہے۔ ”اگاپے“ کو اسلام کے تصور محبت سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا(10)۔ ”اگاپے“ ایک قسم کا مخصوص مسیحی تصورِ محبت ہے جس کی جڑیں حقیقی گناہ میں پائی جاتی ہیں اور جس کے لیے کفارہ کا تصور ہونا لازمی ہے جو اسلام میں ہے ہی نہیں۔(11) مقصد یہ ہے کہ دیانت، استناد اور تکثیریت کے علمیاتی اور جدلی فائدے ظاہر کیے جائیں اگر اس میں غفلت برتی گئی تو ایک نالج ٹریڈیشن ڈی گریڈ ہو جائے گی۔ اور اس سے انسانی تکثیریت کا نقصان ہو گا۔(12)
محبت، اختلاف اور منطقیت
اسلامی تعلیمات میں محبت کے مقام اور اس کے منطقی وصف کی "کامن ورڈ“ کے بیان سے مغایرت، اسلام کی کلاسیکل تعلیمات سے ہر واقف کار پر آشکارا ہے کہ جہاں قرآن (3:64) اہل کتاب یعنی یہود و نصاری اور مسلمانوں کو ایک کلمۂ جامعہ کی طرف بلاتا ہے وہاں اشتراک کی یہ دعوت ہر سہ فریق کے درمیان ایک مشترکہ قدر توحید اور کفر و شرک کی مخالفت پر مرکوز ہے۔ اور جگہوں پر جہاں بھی قرآن یا مختلف مسلم فرقوں کا علم کلام محبت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ ایک مختلف فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اس پر کلام کرتا ہے۔ جو مذکورہ بالا کامن ورڈ سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر کامن ورڈ کا بیان اُس قدر مشترک کا حوالہ دیتا ہے جو خدا کی توحید، رسولوں کے اقرار اور خدا کی حاکمیت پر مبنی ہے۔ یہاں تک تو کامن ورڈ اور اسلام کی روایتی دینیات میں اتفاق و ہم آہنگی ہے۔ مگر آگے کامن ورڈ کے شارحین جو بات کر رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی کہتی ہے۔ اسلام میں ایمان مجمل کا ہر فقرہ، کامن ورڈ کے مطابق، ”خدا کی محبت و اخلاص“ کی ایک حالت کا بیان ہے۔ ان کی یہ وضاحت بظاہر بے ضرر سی ہے۔ مگر جب اُس کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وضاحت کائنات میں جاری و ساری محبت کے ایک پہلو کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔ جو کہ ایمان و عبادت دونوں کو محبت کا ہی ایک عمل سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز اسلام کی بنیادی دینیات سے جوہری طور پر مختلف ہے۔
روایتی سطح پر اسلام ایک ایمانی روایت ہے۔ دین کا پہلا مطالبہ خدا کی اطاعت اور اس کے آگے سراَفگندگی ہے۔ دین اُن اعمال کو کہا جاتا ہے جو نجات کے حصول کے لیے ضروری ہیں کیونکہ دنیا دارالعمل اور دارالتکلیف ہے۔(13) اسلام کو ایک دین مان کر بندہ ایک ماورائی خدا کی فرماں برداری کا عہد کرتا ہے۔ اطاعت اور سراَفگندگی محبت کے مماثل نہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر وضاحت کروں گا۔ کم ازکم عہد متوسط کے ماہرین دینیات تو یہی بتاتے ہیں کہ محبت خدا کی فرماں برداری کا ثمرہ ہونا چاہیے۔ جب اطاعت پائی گئی تو خدا سے محبت کا رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ خدا اور بندہ کے مابین حمد و ثنا کا تعلق خالق اور مخلوق کے رشتہ سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے اطاعت و فرماں برداری اور خود سپردگی ضرور ہونی چاہیے۔
اس کے برعکس مسیحیت میں محبت کی ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے جو مسیحی دینیات کے لیے بہت بنیادی ہے۔ ایچ جی ویلز ایک ناول نگار اور مؤرخ ہے متکلم نہیں۔ اُس نے عیسیٰ مسیح کو متفکرانہ انداز میں اِن لفظوں میں بیان کیا ہے: ”انہوں نے ایک نیا سادہ اور زبردست عقیدہ دیا یعنی ایک عالمگیر محبت کرنے والے باپ خدا کا اور اس کی آسمانی بادشاہت کے آنے کا۔“(14) خدا کا محبت کرنے والا باپ ہونا خدا کے تثلیثی تصور کا ایک جزء اور خدا کے مسلم تصور سے بہت دور ہے۔ اسلام خدا کے تثلیثی تصورات کی مخالفت کرتا ہے۔
آگسٹینین مسیحیت میں محبت کا مقام اور کردار ایک پیچیدہ و مختلف لاہوتی نظام اور امیجری کا حصہ ہے(15) جس کی اصلی بنیاد کفارہ میں پیوست ہے۔ اور جس میں قربانی کی ضرورت انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ مسیح علیہ السلام کی صلیب والی قربانی محبت کی علامت ہے۔ یوں ”اپنے پڑوسی سے پیار کرو“ والا اور صلیب کے ذریعہ تلافی کرنے والا پیار مسیحیت کے تثلیثی دینیاتی نظام کا حصہ ہے۔ مسیحیت کا یہ رول غالب یوروپی مسیحی پس منظر اس کے سیاسی تثلیثی و دینیاتی مفروضوں اور ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ لیکن اسلام جیسی کسی روایت کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کو اس میں غالب اخلاقی اور فلسفیانہ نظریات کے سہارے بے شعوری طور پر ملایا جا رہا ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں ”مسیحی محبت“ کی وجودیات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر سکیں۔
خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ: اسلام کا اختلاف کیا ہے؟
کامن ورڈ کے مصنفین نے جس چیز سے صرف نظر کر لیا ہے یا اُسے بائی پاس کر گئے ہیں وہ ہے اسلام میں خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ۔ اسلام میں اس سے زیادہ اساسی اور جوہری اور کوئی چیز نہیں جتنی یہ ہے کہ خدا تمام مخلوقات کے لیے رحیم ہے۔ اسلام کا یہ وہ بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے جس پر اہل کلام اور فقہاء متصوفین (جو روحانی، فلسفیانہ اور فقہی دقائق کے ترجمان ہیں) سب وسیع طور پر متفق ہیں۔
اسلامی دینیات میں خدا کی دو صفات بطور خاص مستقل اور اہم ہیں۔ یہ ہیں: رحمان اور رحیم کی۔ رحمان جس نے رحمت اپنے اوپر واجب کر لی یا جس کی رحمت کے کوئی حدود نہیں۔ رحیم جس کی رحمت ہر چیز کو محیط ہو(16)۔ یہ بحث بھی موجود ہے کہ خدا کی صفات کا کوئی بھی بیان کیا ان کے معنی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتا ہے کیونکہ ہر صفت کے لیے استعمال کیا گیا لفظ مختلف معانی اور خصوصیتوں کو بتاتا ہے حالانکہ خدا کے ۹۹ نام (اسماء حسنی) ہیں۔ پھر بھی انسانی علم خدائی صفات کے کلی ادراک سے قاصر ہے (17) جیسا کہ فرمایا: ”اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی پھر بھی تیرے رب کے کلمات (صفات) ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن (18:109)(18)۔ خدا کی یہ دو صفات خدا کے لیے مخصوص ہیں انہیں مخلوق کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جیسے بعض اور صفات کا معاملہ ہے مثلاً قادر ہونا یا تخلیق کی صفات کو محدودیت کے ساتھ انسانوں کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں دو اسماء صفات استثنائی ہیں اور دوسرے الفاظ ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان میں ایک ہے: اللہ جو عربی زبان میں اِس کائنات کے خالق و مالک کے لیے مختص ہے۔ دوسرا رحمان ہے یعنی انتہائی درجہ کا مہربان جس کی رحمت کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ اِسے اللہ کا مترادف بھی مانا جا سکتا ہے۔(19) (جیسا کہ خود قرآن نے کہا ہے: ”کہو تم اُسے اللہ کہو یا رحمان کہہ کر پکارو، کیونکہ اسی کے ہیں سارے اسماء حسنیٰ (قرآن:۱۱۱) رحمانیت میں کوئی بھی مخلوق اُس کی شریک نہیں ہو سکتی۔ میں آگے وضاحت کروں گا کہ یہ لامحدود اور واجب رحمت ہی اصل میں تمام وجود کا سرچشمہ ہے۔ اسلام کے معروف فقیہ، متکلم و مفکر امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی ۱۱۱۱ء) اللہ کی صفات کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ رحمان اللہ کا مترادف ہے(20)۔ انہوں نے رحمان کی تشریح میں رحمت کی دو قسمیں کی ہیں: رحمت تامہ، اس میں اللہ تعالیٰ صالحین کی ضرورتوں کی دست گیری کرتے ہیں اور رحمت عامہ جو ساری مخلوقات (قطع نظر صالح و غیر صالح کے) کو عام ہے۔جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔(21) غزالی اِس میں مزید اضافہ کرتے ہیں:
”یوں تو الرحمان رحم سے مشتق ہے لیکن اُس کی یہ رحمت بندوں کی پہنچ سے باہر ہے، یہ رحمت اخروی سعادت سے متعلق ہے۔ تو الرحمان اولاً تو وہ ہے جس نے تمام بندوں کو پیدا کر کے ان پر رحمت کی، دوسرے وہ جس نے ایمان کی راہ دکھائی، تیسرے آخری سعادت بخشی، چوتھے آخر میں خدا کا جلوہ دیکھنے کی عزت انہیں بخشی“۔(22)ِ
عبد الکریم الجیلی (متوفی 1408) ایک اہم صوفی مصنف ہیں۔ ان کی رائے میں رحمت وجود کے ہر ذرہ سے مترشح ہوتی ہے۔ اور جتنی بھی مخلوقات ہیں سب میں جاری و ساری ہے۔(23) دوسرے لفظوں میں تخلیق اور رحمت الٰہی لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام میں علم الاسماء والصفات یہ بتاتا ہے کہ رحمت ہی تمام تخلیق کی مقتضی ہوئی۔
امام محیی الدین ابن عربیؒ (متوفی 1240) تصوف کے نہایت دقیق النظر شارح ہیں وہ لکھتے ہیں:
”رحمت میں مبالغہ ہوتا ہے تو رحمت واجبہ اور رحمت امتنانیہ دو قسموں کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن فرماتاہے: ورحمتی وسعت کل شیئی (قرآن،7:156) کائنات کا وجود اسی رحمت امتننانیہ کا مظاہرہ ہے۔ جو لوگ عذاب کا شکار ہوں گے یہی رحمت ان کے ابدی مستقر میں سامان ِراحت بنے گی۔ فرائض کے بجا لانے سے رحمتِ واجبہ کا حصول ہوتا ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام سے کہا: خدا کی رحمت کی وجہ سے ہی تم اِن کے لیے نرم و مہربان ہو (3:159) اور فرمایا: ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے (قرآن:22:107) یہ سب رحمتِ امتنانیہ کی مثالیں ہیں۔ ساری کائنات اسی سے قائم ہے اور پھر یہ رحمت وسیع ہو گئی۔…………جو جانتے ہیں کہ دنیا کے وجود کا سبب کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے یہ چاہا کہ وہ جانا جائے تو اُس نے خلق کو پیدا کیا اور اپنے آپ کو اُن سے پہچنوایا انہوں نے اُسے پہچان لیا۔ اِس لیے ہر چیز اس کی حمد کرتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رحمت کا تعلق سب سے پہلے کس چیز سے ہوا“(24)
یہاں نوٹ کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں محبت کو نہیں بلکہ رحمت کو وہ صفتِ حاکمہ بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ظہور فرمایا۔
(جاری)
حواشی و تعلیقات
(1) http://www.acommonword.com
(2) Pope Benedict XVI, "Faith, Reason and the University: Memories and Reflections", 706. https://familyofsites. bishopsconference.org.uk/wp-content/uploads/sites/8/2019/07/BXVI-2006-Regensburg-address.pdf
(3) Ibid.
(4) See Heydarpoor, "Love in Christianity and Islam: A Contribution to Religious Ethics".
(5) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge: Selected Interviews and Other Writings", 194; Giorgio Agamben, "What Is an Apparatus?".
(6) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge", 194.
(7) طلال،کتا ب کے مقدمہ میں ممتاز اسکالر ایس ایچ نصر دعوا کرتے ہیں کہ خدا نے اپنے آپ سے محبت کی: احببت۔ جبکہ روایت میں اصل بات یوں ہے: احببت ان اعبد (میں نے چاہا کہ میری عبادت کی جائے) (احببت ان اعرف کے الفاظ بھی بعض روایات میں آئے ہیں (مترجم)۔ اس کے علاوہ جہاں بھی رحمت کی اصطلاح آئی ہے مقدمہ نگار اس کو محبت سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔حالانکہ تصوف کے سب سے بڑے محقق شارحین مثلاً ابن عربی بتاتے ہیں کہ خدا کی رحمت عامہ (رحمانیہ) ہی ہر وجود کا سبب ہے۔ نصر استدلال کرتے ہیں کہ رحمت و مہربانی میں محبت بھی شامل ہے۔ لیکن خدا کی صفات کو اس طرح ایک دوسرے سے بدلا جا سکتا ہو تو پھر اتنی ساری صفات کا ہونا بے معنی ہو جائے گا۔ ابن عربی کی تحریروں میں رحمت پر بحث کے لیے ملاحظہ کریں:
Shaikh, SaÊdiyya, Sufi Narratives of Intimacy, 75-81
(8) کامن ورڈ کی زبان اور غازی بن محمد بن طلال کی کتاب میں بہت مشابہت ہے جس میں تجزیہ کی بڑی کمی ہے وہ بس مختلف ذرائع سے لیے گئے حوالوں کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔
(9) Agamben, "What Is an Apparatus?", 13.
(10) Nygren, "Agape and Eros", pt. 1. A study of the Christian idea of love.--pt. 2. The history of the Christian idea of love.
(11) Gandolfo, "The Power and Vulnerability of Love a Theological Anthropology", 178, 82. Gandolfo establishes how the theological anthropology of redemption is a product of original sin that creates vulnerability. Original sin as a doctrine is absent in Islam.
(12) Quijano, Coloniality of Power, Eurocentrism, and Latin America, 533-580; Mignolo, Decoloniality and Phenomenology, 360-387; "Foreword: On Pluriversality and Multipolarity".
(13)
(14) Wells, The Outline of History: Being a Plain History of Life and Mankind, 529.
(15) Kant, Critique of Pure Reason, 584.
(16) Hamza, Rizvi, and Mayer, An Anthology of Qur'anic Commentaries, 299-302.
(17) Asad, The Message of the Quran, 27.
(18) See these various translations from which I have benefited. Ibid; Khalidi, The Qur'an.
(19) al-Azmeh, The Emergence of Islam in Late Antiquity: Allah and His People, 67, 89. Al-Azmeh observes the universalizing perspectives of monotheism and notes that Rhmnn was the proper name of the montheistic deity of Christians as well as of henotheistic and monolatric deities.
(20) al-Ghazali, المقصدالاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنیٰ 63; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنی Translated with Notes, 53.
(21) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 62; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God, 54.
(22) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 63.
(23) 1:88.عبدالکریم الجیلی، الانسان الکامل فی معرفۃ الاوائل والاواخر۔
(24) ابن العربی، الفتوحات المکیہ، 7:294-295 ، باب 558- معرفۃ معانی اسماء اللہ الحسنی۔
مصنف ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کیوغ اسکول آف گلوبل افیئرز اینڈ ہسٹری ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں مرزا فیملی پروفیسر آف اسلامک تھاٹ اینڈمسلم سوسائٹیز ہیں۔
مترجم ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ادارہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ mohammad.ghitreef@gmail.com