روہنگیا مظلوموں پر ظلم کے خلاف سوشل میڈیا پر بہت کچھ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ امر خوش آئند ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے سوشل میڈیا کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔ تاہم کئی پہلووں سے تشنگی محسوس ہورہی ہے اور بعض پہلووں سے اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے ہی چند امور یہاں سنجیدہ غور و فکر کے لیے پیش کیے جاتے ہیں :
سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ روہنگیا کے بارے میں حقائق کا علم بہت کم لوگوں کو ہے۔ بالعموم ایک جذباتی فضا نظر آتی ہے جس کے زیر اثر ایک عمومی اتفاقِ رائے تو پایا جاتا ہے کہ ان پر شدید ترین مظالم ڈھائے جارہے ہیں لیکن حقائق اور اعداد و شمار کی بات کریں تو شاید ہی کہیں ان کا ذکر ہو۔
اس کا ایک نتیجہ مایوسی کی صورت میں نکلا ہے۔ اکثر پوسٹس میں اس طرح کے گلے شکوے نظر آتے ہیں کہ فلاں جگہ ظلم ہو تو پوری دنیا اٹھتی ہے لیکن مسلمانوں پر ہو تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ شاید یہ مایوسی بے جا بھی نہیں ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس 'کیوں' کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ سے سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے۔ جذباتی ردعمل اور نعروں سے اس مسئلے کا کوئی حل نہ پہلے نکلا ہے، نہ اب نکلنے کا کوئی امکان ہے۔
حقائق معلوم کیے بغیر جذباتی نعرے بلند کرنے کا ایک دوسرا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے سے موجود سازشی نظریات کو مزید تقویت ملی ہے۔ کوئی عالمی استعمار، یا عالمی اسٹیبلشمنٹ کی بات کرتا ہے ، کوئی الکفر ملۃ واحدۃ کا استدلال پیش کررہا ہے ، کوئی میانمار کے ساتھ چین اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلق کی بنیاد پر ملکی اسٹیبلشمنٹ پر تبرا کررہا ہے ، لیکن مسئلے کا حل کوئی نہیں بتارہا۔
ان سازشی نظریات کو مزید تقویت بعض ایسی تصاویر اور ویڈیوز سے مل رہی ہے جن کی صحت مشتبہ ہے۔ فوٹو شاپ اور دیگر سوفٹ ویئرز کے ذریعے جو کرشمے پیش کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں تو اب سکول جانے والے بچے بھی جانتے ہیں۔ نتیجتاً کئی لوگ ان تصاویر اور ویڈیوز کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں جن صحت مسلم ہے اور جن سے بجا طور پر ان مظالم کی شدت کا علم ہوتا ہے۔ ایسے میں پھر یہی ہوتا ہے کہ لوگ ان تصاویر اور ویڈیوز کے متعلق ایک طرح کی بے حسی یا لاتعلقی کا رویہ اپنا لیتے ہیں۔ اس لیے ایک گزارش یہ ہے کہ کسی بھی تصویر یا ویڈیو کو شیئر کرنے سے قبل اس کی صحت کے بارے میں ذرا تحقیق ضرور کیجیے تاکہ مظلوم کی مدد کرنے کے بجاے کہیں اس کے خلاف مزید ظلم کا باعث نہ بن جائیں۔
مایوسی اور سازشی نظریات کے ملغوبے سے ہی وہ ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو انسان کو انتہاپسندی اور عسکریت کی طرف دھکیلتی ہے۔ جب مفروضہ یہ ہو ہک نہ صرف یہ کہ سسٹم کام ہی نہیں کررہا بلکہ سسٹم ظالم کی مدد کررہا ہے اور اس کے ساتھ سازش میں شریک ہے تو پھر مظلوم کی مدد کے لیے سسٹم سے باہر ہی کوئی راستہ ڈھونڈا جاتا ہے اور اگر ہمت زیادہ ہو ، یا جذبہ شدید ہو ، تو پھر سسٹم کو ہی جڑ سے اکھاڑنے کا عزم کیا جاتا ہے۔
دوسری گزارش سوچنے سمجھنے والے دوستوں سے یہ ہے کہ روہنگیا کے مسئلے پر حقائق اکٹھے کرکے لوگوں کو آگاہ کریں کہ یہ مسئلہ ہے کیااور اس کا ممکن حل کیا ہے ؟ انھیں سمجھائیے کہ اس مسئلے کا پس منظر کیا ہے؟ اس وقت کیا ہورہا ہے؟ کیوں ہورہا ہے؟ اسے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ مسئلے کے فریق کون ہیں؟ ان کا الگ الگ موقف کیا ہے؟ ان مختلف فریقوں کے مختلف مواقف میں کم سے کم بنیادی انسانی سطح پر قدر مشترک کیا ہے جس کو بنیاد بنا کر مسئلے کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے؟ یہ ضرور سوچیے کہ "منصفانہ حل" کیا ہے؟ اس منصفانہ حل کو حاصل کرنے کی کوشش بھی ضرور کیجیے لیکن اس دوران میں "ممکن حل" کو نظرانداز نہ کریں۔ ایسا ممکن حل جسے وقتی طور پر ہی سہی قبول کرنے سے صورتِ حال کسی حد تک بہتر ہوسکتی ہے۔ یاد رکھیے کہ محض جذباتی نعرے بلند کرنے سے آپ مظلوم کی مدد نہیں کررہے بلکہ مزید ظلم کا باعث بن رہے ہیں۔
تیسری گزارش یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کی اس کشمکش میں مہاتما گوتم بدھ اور بدھ مت کو بخش دیجیے۔ کئی لوگوں کی وال پر اس طرح کے کمنٹس دیکھے کہ بدھ مت کو ہم امن کا مذہب سمجھتے تھے لیکن اب معلوم ہوا کہ بدھ مت کے پیروکار کتنے ظالم ہیں! اسی طرح کے استدلال کے ذریعے جب دہشت گردی کا تعلق اسلام کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو ہمارا رد عمل کیا ہوتا ہے اور ہم اس استدلال کا کیا جواب دیتے ہیں؟
چوتھی گزارش یہ ہے کہ عالمی استعمار یا سازشی عناصر کے خلاف نعرے بلند کرنے کے بجاے یہ سوچیے کہ ہم کیا ایسا کریں کہ ہماری حکومت اس معاملے میں مناسب اور مؤثر کردار ادا کرسکے؟ اس بات کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ پیش کرنا مناسب ہوگا۔
میں ایل ایل بی کا طالب علم تھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اس وقت واقعی بین الاقوامی بھی تھی اور اسلامی بھی۔ چنانچہ دنیا کے جس خطے میں بھی مسلمانوں پر تکلیف ہوتی تو یونی ورسٹی میں، بالخصوص کویت ہاسٹل میں، ضرور احتجاج ہوتا۔ کویت ہاسٹل کے رہائشی دنیا کے کونے کونے ہونے والے واقعات (حادثات زیادہ مناسب لفظ ہے) سے واقف ہوتے۔ انھی دنوں (1996ء کے لگ بھگ) ایک دن میں اپنے کمرے سے نکلا تو میرے کمرے کے باہر دیوار پر بڑا اسٹکر لگا ہوا تھا جس پر سرخ رنگ کا غلبہ تھا اور جلی حروف میں اس پر لکھا ہوا تھا: "امریکیو! جزیرۂ عرب سے نکل جاؤ۔"
مجھے تھوڑی حیرت تو ہوئی کہ میرا کمرہ تو جزیرۂ عرب نہیں ہے، نہ ہی میں امریکی ہوں، نہ ہی میرا کوئی روم میٹ امریکی ہے؛ ہاں ایک جنوبی افریقہ کا تھا اور ایک چین کا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے بہ آواز بلند کہا: "آپ کا کہنا مانتے ہوئے ہم نکل جاتے ہیں۔" اور اپنے کمرے سے نکل آیا!