میانمار (برما) کے 12 لاکھ آبادی پر مشتمل روہنجیا مسلمانوں کا قضیہ عرصہ دراز سے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آتا رہتا ہے۔ کبھی اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور کہیں یہ عدم توجہی کا شکار بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اور بہت سارے مسائل کی طرح اس مسئلے کو بھی سطحی اور جذباتی طریقے سے پیش کیا جاتا ہے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روہنجیا مسلمان میانمار (برما) میں بہت مشکل وقت گزار رہے ہیں اور میانمار کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک کی حکومتوں نے روہنجیا لوگوں کے مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس پورے قضیے کا پیچیدہ ترین پہلو یہ ہے کہ آغاز جس مسئلے کا خالصتاً نسلی بنیادوں پر ہوا، اب اس نے مذہبی شکل اختیار کرلی ہے۔ اب یہ معاملہ روہنجیا کمیونٹی کے لئے میانمار کی شہریت کے حق کے حصول سے زیادہ وہاں کی ایک مسلمان اقلیت اور اکثریتی مذہب (بدھ مت) کے پیروکاروں کے درمیان مذہبی تصادم کا رخ اختیار کر گیا ہے۔ اس پہلو کی وجہ سے عالمی تناظر میں بھی یہ قضیہ انسانی حقوق کی فہرست سے نکل کر مذاہب کے درمیان کشمکش کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال نے تنازع کے حل کی کوششوں کے پورے منظر نامے کو تبدیل کردیا ہے۔
روہنجیا مسلمان میانمار کے صوبے اراکان کے باشندے ہیں جس کی سرحد بنگلہ دیش کے ساتھ ملتی ہے۔ روہنجیا کے علاوہ یہاں راکھائن لوگ بھی رہتے ہیں جو بدھ مت کے پیروکار ہیں۔ تقریباً 20 لاکھ راکھائن اکثریتی آبادی ہے۔ بدقسمتی سے روہنجیا اور راکھائن کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ دونوں نسلی گروپوں کے درمیان تنازعے نے معاملے کو حد درجہ گھمبیر بنا دیا ہے۔ دونوں قبیلے غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا انحصار زراعت اور ماہی گیری پر ہے۔ ان کے درمیان معاشی رقابت بھی ہے جس کی وجہ سے مسئلے کی شدت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
روہنجیا مسلمانوں اور میانمار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلہ دیش) کا حصہ بنایا جائے۔ اس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔
بدھ مت میں ترکِ دنیا پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ چنانچہ میانمار میں ہر شہر میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے مرد اور خواتین نظر آتے ہیں جو ازدواجی بندھنوں سے الگ رہ کر اپنے آپ کو عبادت کے لئے مخصوص کرچکے ہوتے ہیں اور کشکول ہاتھ میں لے کر لوگوں کے گھروں سے خوراک کا سامان حاصل کرتے ہیں۔ بال ترشواکر مخصوص نارنجی لباس میں ملبوس مرد عبادت گزار (بھکشو/ مونک) اور خواتین (تیشالین) سڑکوں پر قطار بنائے نظر آتے ہیں یہ میانمار کے شہروں کے عمومی مناظر ہیں۔ ترکِ دنیا کرنے والے ایسے افراد کی تعداد اس وقت تقریباً دس لاکھ (ایک ملین) بتائی جاتی ہے۔ بدھ مت میں اس مذہبی رحجان کی وجہ سے ان کے پیروکاروں کی آبادی میں کمی ایک لازمی امر ہے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا کرنے کو باعث ثواب سمجھا جاتا ہے۔ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی مذہبی رعایت کی وجہ سے ان کی آبادی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
میانمار میں کچھ ہندسے بھی خاصے متنازعہ ہیں اور انہوں نے مسلم بدھ کشمکش میں حیران کن کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان عام طورپر اپنے گھروں یا دکانوں پر 786 لکھتے ہیں۔ کچھ نامعلوم وجوہات کی وجہ سے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ 786 میں الگ الگ ہندسوں کو جمع کرکے 21 بنتا ہے۔ بدھ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کا کوڈ لفظ ہے، جس کے اندر پیغام ہے کہ 21 ویں صدی میں میانمار کو مسلمانوں کا اکثریتی ملک بنانا ہے۔ چنانچہ اب 786 کا ہندسہ میانمار میں اس کی اکثریتی آبادی کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن گیا ہے۔ بدھ مت کے پیروکاروں نے اس کے مقابلے میں 969 کا ہندسہ عام کردیا، جو ان کے مطابق گوتم بدھ کے بتائے ہوئے اصولِ حیات کی تعداد اور ان کے ساتھ مذہبی وابستگی کا نمائندہ ہندسہ ہے۔
روہنجیا مسلمانوں کا اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ان کو فرزندان وطن (Sons of the Soil) نہیں سمجھتی۔ یہ مسئلہ اس وقت زیادہ گہرا ہوگیا ہے جب آئین میں ان کو شہریت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ چنانچہ حکومت ان کو این آر سی (National Registration Card) دینے سے انکاری ہے اور اس کی بجائے ان کو ٹی آر سی (Temporary Registration Card) لینے پر مجبور کررہی ہے۔ این آر سی سے محرومی کا مطلب یہ ہے کہ روہنجیا کو مکمل شہری تسلیم نہیں کیا جاتا۔ علاوہ ازیں اس کے نتیجے میں یہ جائیداد اور ووٹ کے حق سے بھی محروم ہوں گے۔ حکومت ان سے کہتی ہے کہ وہ روہنجیا کے متبادل کے طورپر اپنے آپ کو چٹاگانگ کے بنگالیوں کے طورپر متعارف کرائیں۔
بلاشبہ روہنجیا ان سرکاری پابندیوں کی وجہ سے اپنے وجود کے حوالے سے ایک مشکل دوراہے پر کھڑے ہیں۔ موجودہ مسلم بدھ کشمکش سے بدھ مت کے پیروکاروں میں ان کے انتہا پسند مذہبی قائد موتک دیراتو کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ دیراتو کو بین الاقوامی جریدہ ٹائمز نے جولائی 2013 کے شمارہ میں اپنے ایک مضمون میں برما کے دہشت گرد کے نام سے موسوم کیا تھا (The Face of Buddhist Terror by Hannah Beech)اور سرورق پر اس کی تصویر شائع کی تھی۔ دیراتو کا مرکز میانمار کے ایک بڑے شہر منڈالے میں ہے، جہاں وہ بدھ مت کے ایک دینی ادارے میں استاد ہے۔ اس وقت اس کے ادارے میں 3000 سے زیادہ طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان کا ادارہ دماتیریا سجاسیہا دما سیریا کے نام سے ڈگری جاری کرتا ہے جسے سرکاری طورپر مذہبی علوم میں ایم اے کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2013 میں مونک ویراتو کے ساتھ ان کے مذہبی ادارے کے دفتر میں ہمارے ایک بین الاقوامی وفد کی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس وفد میں انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل انگیجمنٹ (واشنگٹن) کے سربراہ ڈاکٹر کریس سائیبل کے علاوہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (PIPS) کے ڈائریکٹر عامر رانا اور شیخ زاید اسلامک سنٹر کے پروفیسررشید احمد بھی شامل تھے۔ فلپائن اور سنگاپور کے مدنی معاشرے کے بعض مؤثر سربراہان بھی اس وفد کا حصہ تھے۔
موتک دیراتو کے دفترکے آس پاس دیواروں پر متعدد پوسٹر چسپاں تھے، جن پر مسلمانوں کے خلاف مقامی زبان میں اشتعال انگیز مواد تحریر تھا۔ ادارے کے ہزاروں نوجوان طالب علم بال ترشوائے نارنجی لباس میں ملبوس مصروف تعلیم تھے۔ ہمیں میانمار کے لوگوں پر بڑا افسوس ہو اکہ اگر نفرت اور باہمی کشمکش کے اس منظر نامے میں ان نوجوانوں کی اس طرح ذہنی تشکیل جاری رہی تو معلوم نہیں اس خوب صورت نسل کا کیا مستقبل بنے گا۔ مونگ ویراتو نے شکایت کی کہ مسلمانوں کے ایک عالم شعیب دین نے 1938 میں ایک کتاب میں لکھا کہ 21 ویں صدی میں میانمار میں مسلمان غالب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان آبادی بڑھا رہے ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ میانمار پر قابض ہوجائیں گے۔ اراکان کے تین شہر بوتی ٹانگ، میڈاؤ، اور پیتیڈ رنگ میں روہنجیا 98 فی صد ہیں اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ ان شہروں پر قبضہ کرکے اپنی اسلامی ریاست قائم کریں گے۔
ہمارے وفد نے انہیں بتایا کہ کسی کی خواہش کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کا عملی طورپر وقوع بھی یقینی ہو۔ میانمار بدھ اکثریت کا ملک ہے اور آپ کو اعتماد ہونا چاہئے کہ مفروضوں کی بنیاد پر ردعمل کے نتائج معکوس اور نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ مسلمان مذہبی معاملات میں ہجری تقویم استعمال کرتے ہیں، اس لئے یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے 21 ویں عیسوی صدی کے حوالے سے میانمار کے قبضے کی کوئی خفیہ منصوبہ بندی کی ہو۔ عملی حقائق بھی اس کے برعکس ہیں کیوں کہ اب تک مسلمانوں کی آبادی میں کوئی بڑا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 786 کا ہندسہ ابتدائی ادوار میں مسلمانوں نے اس لئے استعمال کرنا شروع کیا تھا تاکہ کھانے پینے کے اشیاء کے حلال و حرام کی نشان دہی ہو۔ مونگ ویراتو کے ساتھ تفصیلی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ مسلسل اور بامقصد مکالمے کے ذریعے ان کے ردعمل کو کم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے مذہبی اور معاشرتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے افراد کی ضرورت ہے۔
اکتوبر 2013 میں دورۂ میانمار کے دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صالح کے نام سے ایک روہنجیا مسلمان بنگلہ دیش سے اسلامی امارت اراکان کے خود ساختہ سربراہ کے طورپر کام کرتا ہے۔ علاوہ ازیں بدھ مت کے ایک فاضل عالم جو آکسفورڈ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے تھے، نے یہ بھی بتایا کہ طالبان کے دور میں بامیان میں گوتم بدھ کے مجسمے کے ساتھ جو اہانت آمیز سلوک کیا گیا تھا، اس کی وجہ سے بدھ مت کے پیروکاروں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ میانمر کی صورت حال میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ ان متعدد عوامل نے میانمار میں اسلامو فوبیا (اسلام اور مسلمانوں سے خوف) کی کیفیت پیدا کی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ تنازعہ مزید سنجیدگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حل کی کوئی صورت فی الحال سامنے نہیں آرہی۔
خدشات و امکانات
میانمار کے روہنجیا مسلمانوں کی مشکلات کا مستقبل قریب میں کوئی آسان حل نظر نہیں آرہا۔ بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے ہاں تعلیم کی سخت کمی ہے اور وسیع النظر اور مستقبل بین قیادت کا فقدان ہے۔ چنانچہ جذباتی تقریروں اور نعروں کے ذریعے ان کو اشتعال دلایا جاتا ہے اور نتیجتاًراکھائن مخالفین اور ریاستی جبر کے اشتراک سے ان کے مصائب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ روہنجیا بین الاقوامی طورپر مسلمہ لابنگ کے اصولوں سے استفادہ کریں اور اپنے ہمدردوں کی تعداد میں اضافہ کریں۔ اس وقت تو صورتِ حال یہ ہے کہ میانمار کے اندر خود غیر روہنجیامسلمان بھی ان کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے۔ منڈالے میں مسلمانوں کا ایک گروپ پنتھے (Panthay) کے نام سے موجود ہے۔ ان کی آبادی 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں تعلیم بھی ہے اور یہ تجارت بھی کرتے ہیں۔ یہ چینی نسل کے مسلمان ہیں۔ ان کے پاس میانمار کی مکمل شہریت موجود ہے۔ ان کی مسجد کے ساتھ کانفرنس ہال بھی ہے۔ ان کے نمائندوں کے ساتھ ہمارا تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ روہنجیا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شہریت کے حصول کے لئے اپنی جدوجہد کے طریقہ کار کو تبدیل کریں۔
میانمار میں موجودہ حکمرانوں کے متبادل کے طورپر عوام آنگ سانگ سوچی کی طرف دیکھ رہے ہیں اور وہ خاصی مقبول ہیں، لیکن وہ بھی روہنجیا کی حمایت میں ایک لفظ کہنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ایسا کرکے وہ اپنی عوامی حمایت میں کمی کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ تبت کے بدھ رہنما (دلائی لامہ) نے حال ہی میں ان سے ملاقات کی ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ روہنجیا لوگوں کی مشکلات کم کرنے میں تعاون کریں۔
میانمار میں مونک ویراتو کے حامیوں اور پیروکاروں کی تعداد میں اضافے سے انکار ممکن نہیں، لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ میانمار کے عام لوگ بے حد نرم خو، پرامن اور تحمل مزاجی کی صفات سے مالا مال ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسے بدھ مونک موجود ہیں جو ویراتو سے اتفاق نہیں کرتے اور میانمار کو ایک پرامن کثیرالنسلی اور کثیر المذہبی ملک کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی قیادت ڈاکٹر آشین سیتاگو سیاگو کے ہاتھوں میں ہے۔ ڈاکٹر آشین کے پیروکاروں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے اور ان کے تعلیمی ادارے ملک کے کونے کونے میں موجود ہیں۔ روہنجیا کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹر آشین سیتاگو سیاگو کے ساتھ بہتر تعلقات کار قائم کریں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔
میانمار کے صدر مقام ینگون میں ایک غیرروہنجیا مسلمان یو یے یی لوین (UA Ye Lwin)مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان بہتر تعلقات کار کے لئے بہت مفید کام کر رہے ہیں۔ وہ بین المذاہب مکالمے کے پلیٹ فارم سے خاصے فعال ہیں۔ ان کی کوششوں کی حمایت کی جانی چاہئے۔ ینگون کے بدھ حلقوں اور پالیسی سازوں میں ان کو بہت احترام حاصل ہے۔
میانمار میں 88 Generation Group ایک بہت مضبوط گروپ ہے۔ یہ ان سیاسی کارکنوں پر مشتمل ہے جنہوں نے 1988 میں فوجی حکمرانوں کے خلاف تحریک چلائی اور بے انتہا مظالم کا نشانہ بنے۔ اس گروپ کے قائدین کی جوانیاں میانمار میں قانون کی حکمرانی کی بحالی کی تحریک میں صرف ہوئیں اور وہ اب بھی ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ روہنجیا لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس گروپ کا حصہ بنیں اور ان کی جدوجہد میں تعاون کرکے اپنے لئے مقام (space) پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
میانمار میں اکثریتی گروپ (برمن) کے رویّے سے غیرمطمئن گروپوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ان میں مونگ، کوکن، شان، چن، کائن اور کیچن خاص طورپر نمایاں ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ برمن اکثریتی گروپ دوسرے گروپوں کی ثقافت، تاریخ اور سیاسی جدوجہد کو نظر انداز کررہا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں صرف برمن ہیروز کا ذکر کیا جاتا ہے جب کہ دوسرے نسلی گروہوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ ان گروپوں میں مسلمان اور مسیحی شامل ہیں۔ روہنجیا کو چاہیے کہ وہ ان گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات کار قائم کریں اور اپنے لئے سیاسی و معاشرتی ہمدردی کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کریں۔
میانمار کے سیاسی نظام میں فوج کو فیصلہ کن بالادستی حاصل ہے۔ فوج فی الحال اندرونی اور بیرونی دباؤ کے بارے میں بڑی حدتک غیر حساس ہے اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ تاہم چین واحد ملک ہے جو میانمار کی پالیسیوں پر صحیح معنوں میں اثرانداز ہوسکتا ہے۔ سفارتی کوششوں میں اس پہلو کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ چین کی کاشغر گوادر راہداری کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں، لیکن چین کی ایک اور راہداری چین، برما، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان بھی ہے۔ یہ راہداریاں مکمل ہوں تو یہ پورا خطہ ایک تجارتی زنجیر میں بندھ جائے گا۔ ان بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لئے علاقائی امن کی شدید ضرورت ہے۔ چین کی خاموش سفارت کاری میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روہنجیا کی قیادت کو اس صورتِ حال کا بہتر ادراک کرنا ہوگا۔ روہنجیا کی مکمل شہریت کا حق ہمیشہ کے لئے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سینکڑوں سال سے میانمار میں آباد ہیں اور عالمی قوانین کے تحت ان کو شہریت کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان کو مؤثر اور صحیح لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔ اشتعال کے نتیجے میں تشدد اور ردّعمل کے ذریعے ان کے جائز مطالبے کو فائدہ کی بجائے نقصان ہوگا۔ حال ہی میں ہزاروں روہنجیا انسانی سمگلروں کے مکروہ کارروبار کا نشانہ بنے، جن میں کچھ مجبور اور بے کس بنگالی بھی شامل تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں روہنجیا اور بنگالی سمندر کی بے رحم موجوں کی نذر ہوگئے۔ روہنجیا کو اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ملک اب غیرقانونی مہاجرین کو پناہ دینے کے لئے تیار نہیں۔ سوشل میڈیا میں روہنجیا پر غیرانسانی مظالم کی جو تفصیلات سامنے آئیں، تحقیق پر معلوم ہوا کہ وہ مبالغہ آمیز اور غیر حقیقی تھیں۔ ینگون میں مسلمان سفارت خانوں نے ان کی تصدیق نہیں کی۔
روہنجیا کو ان کا حق مل کر رہے گا، لیکن اس کے لئے صحیح راستے کا انتخاب ضروری ہے کیوں کہ غلط راستے پر چل کر سینکڑوں سال کے سفر سے بھی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔
(بشکریہ مجلہ ’’تجزیات‘‘، اسلام آباد)