سپریم کورٹ کے محترم جج جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی اپنی مدت ملازمت پوری کر کے عدالت عظمیٰ سے رخصت ہوگئے ہیں مگر جاتے جاتے ملک کے دینی حلقوں کو بے چین اور متحرک کر گئے ہیں۔ سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ نے رخصت ہوتے ہوئے قومی زبان اردو کے بارے میں تاریخی فیصلہ صادر کر کے ایک کریڈٹ اپنے نام تاریخ میں محفوظ کر لیا تھا، جبکہ جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی نے بھی جاتے ہوئے سودی نظام کے خلاف حافظ عاکف سعید کی رٹ مسترد کر کے اور متنازعہ ریمارکس دے کر ایک ’’کریڈٹ‘‘ اپنے نام ریکارڈ کرا دیا ہے۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے جج کے طور پر فرمایا کہ سودی نظام ختم کرانا سپریم کورٹ کا کام نہیں او رنہ ہی وہ سپریم کورٹ میں مدرسہ کھول کر کے سود کے حرام ہونے کی تعلیم دے سکتے ہیں۔ اور یہ کہ جو سود نہیں لینا چاہتے وہ نہ لیں اور جو لے رہے ہیں ان سے خود اللہ تعالیٰ پوچھ لے گا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
جسٹس عثمانی کے ان ریمارکس نے ملک بھر کے دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی فکرمند اور بے چین کر دیا ہے جو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ارشاد کے مطابق ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں پر استوار ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ اپنی اپنی قسمت کی بات ہے کہ کوئی شخص رخصت ہوتے ہوئے اپنے بارے میں کیا تاثر چھوڑ کر جاتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’العبرۃ بالخواتیم‘‘ کہ آخرت میں نجات کا دارومدار انسان کی دنیوی زندگی کی آخری کیفیات پر ہوتا ہے۔ جبکہ قومی شخصیات کی معاشرتی زندگی میں بھی یہی اصول کارفرما دکھائی دیتا ہے کہ اپنی سروس مکمل کر کے جس کیفیت میں وہ رخصت ہوتے ہیں وہ قوم کو ہمیشہ یاد رہتی ہے اور تاریخ بھی اسے اپنے ریکارڈ میں محفوظ کر لیتی ہے۔
تنظیم اسلامی کے امیر حافظ عاکف سعید نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی تھی کہ حکومت سے کہا جائے کہ وہ دستور کی واضح ہدایت کے مطابق ملک میں سودی نظام کے خاتمے کا وعدہ پورا کرے۔ مگر جسٹس (ر) سرمد جلال عثمانی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے دوسرے فریق کو طلب کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں فرمائی اور یہ کہہ کر رٹ سرسری سماعت میں ہی مسترد کر دی کہ یہ فیصلہ کرنا وفاقی شرعی عدالت کا کام ہے جو اس کے بارے میں کیس کی سماعت کر رہی ہے۔ بات یہاں تک رہتی تو کسی حد تک سمجھ میں آرہی تھی مگر جسٹس (ر) عثمانی کا یہ ارشاد سب کو حیران کر گیا کہ سودی نظام کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کی سرے سے کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ حالانکہ سودی نظام کے فوری خاتمہ کے لیے دستور پاکستان نے واضح طور پر حکومت کو پابند کر رکھا ہے اور حکومت کو دستوری احکامات کی تعمیل و تکمیل کی ہدایات دینا اور ان کی نگرانی کرنا عدالت عظمیٰ کی بنیادی ذمہ داری شمار ہوتا ہے۔
بہرحال ہم اس بحث میں سردست نہیں پڑنا چاہتے۔ حافظ عاکف سعید اگر اس فیصلہ اور ریمارکس کے خلاف اپنا دستوری حق استعمال کرتے ہوئے نظر ثانی کے لیے عدالت عظمیٰ میں گئے اور اس پر فریقین کو بلا کر دونوں کا موقف سنا گیا تو سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ البتہ ملک بھر میں اس پر جس پریشانی اور بے چینی کا اظہار ہو رہا ہے، اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ متعدد دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کے اخباری بیانات قومی پریس کی زینت بن چکے ہیں جبکہ مختلف مکاتب فکر کا ایک مشترکہ فورم ’’تحریک انسداد سود پاکستان‘‘ موجود ہے جس کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر کی حیثیت سے ذمہ داری دوستوں نے مجھے سونپ رکھی ہے۔ اس لیے جہاں جاتا ہوں دوست پوچھتے ہیں، رد عمل معلوم کرنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میں آئندہ لائحہ عمل کی بات کرتے ہیں۔
11 اکتوبر کو سیالکوٹ گیا تو وہاں کے معروف دینی و سماجی راہ نما پیر سید شبیر احمد گیلانی نے علماء کرام کی ایک محفل اسی حوالہ سے سجا رکھی تھی جس میں اس مسئلہ پر باہمی مشاورت ہوئی اور دوستوں نے مختلف تجاویز و تاثرات سے نوازا۔
13 اکتوبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں مختلف دینی جماعتوں کے راہ نماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس مولانا خالد حسن مجددی کی صدارت میں ہوا جس میں طے پایا کہ شہر کے بڑے مراکز میں سودی نظام کے خلاف بیداری پیدا کرنے کے لیے کنونشن منعقد کیے جائیں گے۔ جبکہ چیمبر آف کامرس کے راہ نما میاں فضل الرحمن چغتائی نے بتایا کہ چیمبر میں بھی اس سلسلہ میں کنونشن کا انعقاد عمل میں لایا جائے گا۔
15 اکتوبر کو لاہور میں متحدہ علماء کونسل پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الرؤف ملک کی رہائش گاہ پر ان کی صدارت میں دینی جماعتوں کے سرکردہ حضرات کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں مولانا محمد امجد خان، حافظ عاکف سعید، مولانا محمد رمضان، مولانا قاری جمیل الرحمن اختر، جناب امیر العظیم، ڈاکٹر حافظ حسن مدنی، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، مولانا حافظ محمد سلیم، مولانا یونس حسن، جناب عابد محمود قریشی اور دیگر حضرات شریک ہوئے۔ راقم الحروف بھی حاضر تھا اور باہمی مشاورت سے طے پایا کہ دینی حلقوں اور رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کے لیے تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ اور تمام طبقات بالخصوص تاجر برادری، صحافی حضرات اور اساتذہ و طلبہ کو توجہ دلائی جائے گی کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ شرعی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ دستوری تقاضہ بھی ہے اور اس سلسلہ میں حکومت اور دیگر ریاستی اداروں کی بے پرواہی افسوس ناک ہے۔
اجلاس میں حافظ عاکف سعید، جناب اوریا مقبول جان اور راقم الحروف کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ سودی نظام کے خاتمہ کے لیے قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل جاری تحریک اور اس کے تقاضوں کے حوالہ سے ایک جامع ’’بریفنگ رپورٹ‘‘ مرتب کر کے تمام طبقات اور اداروں کو بھجوائی جائے اور اس سلسلہ میں مختلف مقامات پر ’’علماء کنونشنوں‘‘ کا اہتمام کیا جائے۔ اس بات پر بطور خاص زور دیا گیا کہ سب سے زیادہ علماء کرام کو اس کے لیے متحرک ہونا چاہیے جبکہ علماء کرام کو سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد کے پس منظر اور پیش رفت سے آگاہ رکھنے کے لیے منظم محنت کرنا ہوگی۔ کیونکہ علماء کرام سود کی حرمت اور نحوست سے تو بخوبی واقف ہیں مگر ان کی اکثریت سودی نظام کے خلاف جدوجہد کی صورت حال سے آگاہ نہیں ہے۔