ماہنامہ الشریعہ ستمبر 2015ء کے شمارے میں مولانا حافظ محمد رشید کا لکھا ہوا ایک مضمون ’’سید احمد شہیدؒ کی خدمات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا احوال‘‘ پڑھنے کا موقع ملا۔ یہ مضمون ہزارہ یونیورسٹی میں قائم ’’ہزارہ چیئر’’ کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والے سید احمد شہیدؒ کی تحریک اور خدمات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار کی رپورٹ ہے۔ مضمون پڑھ کر دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا کہ ہمارے اصلی قومی و ملی محسنین کو یاد رکھنے والے الحمد اللہ آج بھی زندہ ہیں۔ آج جب ہمارا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اسلاف کے کارناموں سے قوم کو آگاہ کرنے کے حوالے سے مسلسل چشم پوشی کے جرم کا ارتکاب کر رہا ہے، ایسے دور میں اس نوعیت کے سیمینار منعقد کرنا نہ صرف یہ کہ پوری قوم پر احسان ہے بلکہ آخرت میں سر خروئی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ سیمینار کے منتظمین کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین
راقم امیر المومنین مجاہد کبیر سید احمد شہیدؒ کی شخصیت اور ان کی بپا کردہ تحریک سے خصوصی دلچسپی رکھتا ہے۔ امسال 6 مئی 2015ء کو تحریک شہدائے بالاکوٹ کے 127 سال مکمل ہونے پر راقم نے اپنی قائم کردہ الشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اکادمی کے زیرِ اہتمام اٹک میں ’’برصغیر میں احیاء اسلام کی جدوجہد سید احمد شہیدؒ کے افکار کی روشنی میں‘‘ کے عنوان پر ایک فکری و نظریاتی مجلس مذاکرہ کا انعقاد کروایا تھا۔ اور جس سکول میں راقم تدریس کے فرائض سر انجام دے رہا ہے، وہاں اسی روز سید احمد شہیدؒ کی تحریک کے حوالے سے ایک کوئز مقابلہ (Quiz Competition) طلبہ کے مابین منعقد کروایا۔ یہ بھی اسی سلسلے کی ایک مختصر سی کاوش تھی۔ بہر صورت، اللہ تعالیٰ ہم سب کی ان کاوشوں کو اپنی بارگاہ عالی میں قبول و منظور فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
فی الوقت میں اپنے معزز قارئین کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ اس مسئلے پر بحث شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اکادمی کے زیرِ اہتمام ہونے والے مجلس مذاکرہ میں بھی کی گئی تھی۔ یعنی کیا تحریک سید احمد شہیدؒ اور تحریک طالبان پاکستان میں کسی قسم کی فکری مماثلت پائی جاتی ہے؟ یہی بحث ہزارہ یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار میں بھی ہوئی۔ بقول مولانا حافظ محمد رشید، ’’سید صاحبؒ کی تحریک کے عصر حاضر کے ساتھ تعلق پر جو سوال بار بار زیرِ بحث آیا، وہ ان کی تحریک اور طالبان تحریک خصوصاً پاکستانی طالبان کے نظریات کے درمیان مماثلت کا سوال تھا۔ یعنی سید صاحبؒ اگر ہتھیار اٹھا کر ایک خطہ لینا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں مسلح کوشش کرتے ہیں تو وہ جہاد کہلاتا ہے اور طالبان اگر یہی کام کرتے ہیں تو وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ گویا طالبان تحریک سید صاحبؒ کی جدوجہد ہی کا ایک تسلسل ہے۔ (’’الشریعہ: ستمبر2015ء ص 55)
درج بالا شذرہ میں پاکستانی تحریک طالبان کو تحریک سید احمد شہیدؒ کا تسلسل قرار دیا گیا ہے اور دلیل یہ دی گئی ہے کہ سید صاحبؒ بھی مسلح جدوجہد کے ذریعے ایک خطہ زمین حاصل کرنا چاہتے تھے اور طالبان بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہمیں اس دعویٰ سے مکمل اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک سید احمد شہیدؒ اہل سنت ہیں اور پاکستانی طالبان خوارج ہیں۔ پاکستانی طالبان اور تحریک سید احمد شہیدؒ میں فکری مماثلت کی یہ ہر گز دلیل نہیں بنتی کہ دونوں ایک خطہ زمین مسلح جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں تحریکات میں فکری مماثلت کے وجود و عدم وجود کے لیے ان کے افکار و نظریات سے آگاہی ضروری ہے۔ دنیا میں ہمیں اور بھی بہت سی ایسی تحریکات مل جائیں گی جو مسلح جدوجہد کے ذریعے ایک خطہ زمین حاصل کرنا چاہتی تھیں یا ہیں، لیکن کوئی ذی شعور انسان ان تحریکات اور سید صاحبؒ کی تحریک کو ایک تسلسل نہیں قرار دے گا کیوں کہ سید صاحبؒ کی تحریک اور ان تحریکات کے افکار و نظریات میں بہت زیادہ بعد ہے۔ تحریکات کا تسلسل افکارونظریات کی ہم آہنگی سے ثابت ہوتا ہے نہ کہ کسی خاص طرز عمل کی یکسانیت کی بنیاد پر۔
سید احمد شہیدؒ کے تحریکی نظریات اور پاکستانی طالبان کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں درج ذیل تین سوالات کے جوابات چاہییں:
i۔ کیا سید احمد شہیدؒ فاسق و فاجر کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر کرتے تھے؟
ii۔ کیا سید احمد شہیدؒ عامۃ المسلمین کو مباح الدم قرار دیتے تھے؟
iii۔ کیا سید احمد شہیدؒ بچوں، عورتوں اوربوڑھوں کے قتل کو جائز سمجھتے تھے؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے، سید احمد شہیدؒ اور آپ کی تحریک پر قلمبند کی گئی تمام کتب کا مطالعہ اس بات کا گواہ ہے کہ سید صاحبؒ فاسق و فاجر کلمہ گو مسلمانوں کو مسلمان ہی سمجھتے تھے نہ کہ کافر ۔سرحد کے خوانین کی سید صاحبؒ سے بے وفائی اور غداری کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جن کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں کہ ’’پشاور کے پٹھان امرا اگر وفاداری سے کام لیتے تو آج ہندوستان کا نقشہ ہی دوسرا ہوتا۔ ‘‘ (سیرت سید احمد شہیدؒ حصہ اول ، ص 41)۔ اِن پٹھان خوانین نے بارہا سید صاحبؒ کو دھوکہ دیا۔ بیعت کر کے بیعت توڑ دی جاتی، وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتے اور بالآخر انہی خوانین کی مسلسل بے وفائیوں کے نتیجے میں مجاہدین کو شکست ہوئی۔ لیکن کیا تاریخی طور پر کوئی شخص یہ ثابت کر سکتا ہے کہ سید صاحبؒ یا آپ کے متعلقین نے اُن بے وفا اور غدار خوانین کی تکفیر کی ہو؟ حالانکہ حضرتؒ کے اکثر مریدین و متعلقین ان پٹھان امرا کے منفی رویوں اور سوچ سے سید صاحبؒ کو آگاہ کرتے رہتے تھے اور ان خوانین پر اعتماد نہ کرنے کا کہا کرتے تھے۔ سلطان نجف علی خان جو کہ شہادت سے کچھ دن قبل سید صاحبؒ کے پاس آیا اور اپنی حمایت کا یقین دلایا تو سید صاحبؒ نے اس کو معاف کر دیا۔ تو آپؒ کے مریدین نے کہا کہ یہ بے اعتماد آدمی ہے، اس پر اعتماد نہ کیا جائے۔ تو سید صاحبؒ نے فرمایا کہ دل کا حال اللہ کو معلوم ہے، ہم صرف ظاہر کے مکلف ہیں۔ اگر سید صاحبؒ کی جگہ پاکستانی طالبان کا کوئی لیڈر مثلاً فضل اللہ عرف ریڈیو ہو تا تو ان تمام فاسق و فاجر خوانین پر کفر کے فتوؤں کی توپ چلائی جاتی۔ لیکن تاریخ تحریک شہدائے بالاکوٹ کا تمام لٹریچر اس بات کا گواہ ہے کہ سید صاحبؒ اور آپ کے متعلقین نے کبھی فساق و فجار مسلمانوں کی تکفیر نہیں کی۔
بالکل اسی طرح سید صاحبؒ عامۃ المسلمین کو مباح الدم نہیں قرار دیتے تھے۔ سید صاحبؒ یا آپ کے متعلقین نے کبھی بے گناہ انسانیت کا قتل نہیں کیا جس طرح آج پاکستانی طالبان بم دھماکوں اور خوش کش حملوں کے ذریعے بے گناہ انسانیت کے خون سے ہاتھ رنگین کر رہے ہیں، اور نہ ہی سید صاحبؒ یا آپ کے متوسلین و متعلقین نے کبھی بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے قتل کو جائز سمجھا۔ تاریخ اس حوالے سے مکمل خاموش ہے اور سید صاحبؒ کی پاک دامنی ثابت کرتی ہے۔
آج جو لوگ پاکستانی طالبان کو سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا تسلسل قرار دے رہے ہیں، انہوں نے کبھی سوچا ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور کا انسانیت سوز واقعہ ، اور ماضی میں ہونے والے ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات، جن میں سینکڑوں بے گناہ انسان قتل ہوئے، سید احمد شہیدؒ کی مقدس تحریک جہاد کا تسلسل ہیں؟یہ ایک بہت بڑا تاریخی ظلم اور زیادتی ہے کہ سید احمد شہیدؒ کی تحریک کو تحریک طالبان پاکستان کا فکری ہم نوا قرار دیا جائے۔
تاریخی حوالے سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سید احمد شہیدؒ نے کبھی اپنے مخالف خوانین سرحد کی تکفیر کی ہو، جہاد کے نام پر بے گناہ اور نہتے عوام الناس کا قتل عام کیا ہو یا بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا قتل کیا ہو۔ اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو پیش کرے۔ جبکہ طالبان کی جانب سے فاسق و فاجر کلمہ گو مسلمانوں کی تکفیر کی گئی ہے جس پر طالبان لٹریچر ’’نوائے افغان جہاد‘‘ ’’حطین‘‘ اور almawahideen.com ویب سائٹ پر موجود کتب گواہ ہیں جن میں مسلمان ریاستوں کے حکمرانوں، سیکورٹی اداروں، پولیس، فوج اور سرکاری اداروں کے ملازمین کی تکفیر کی گئی ہے، آرمی پبلک سکول پشاور، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور ملک کے بیشتر پبلک مقامات پر طالبان کی جانب سے خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں بے گناہ انسانیت کا قتل اور بچوں عورتوں کا قتل، پھر طالبان (پاکستانی) کی جانب سے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرنا، جس کے تمام ثبوت موجود ہیں، اس بات کی دلیل ہیں کہ طالبان کی فکر اور سید احمد شہیدؒ کی فکر میں زمین و آسمان کا بعد ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ پاکستانی طالبان اور سید صاحبؒ کی فکر میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو پھر تحریک طالبان پاکستان کو تحریک سید احمد شہیدؒ کا تسلسل قرار دینے کا دعویٰ اپنے اندر کوئی وزن نہیں رکھتا۔
نوٹ:۔ ہم نے جو طالبان پر تنقید کی ہے اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم افغان طالبان کے بھی مخالف ہیں بلکہ ہم افغان طالبان کے حامی اور پاکستانی طالبان کے مخالف ہیں۔
محمد یاسر اعوان
مدیر الشاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اکادمی ، اٹک