سود کے حوالے سے سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا ہے۔ اخبارات میں آیا ہے کہ میری طرف سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی کہ ہمارے دستور کا آرٹیکل 38 کہتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں سود کا خاتمہ کرے۔ ہمارے دستور میں اسلامی شقیں موجود ہیں، لیکن کچھ چور دروازے بھی ہیں۔ دستور میں اسلام کا اچھا خاصا مواد موجود ہے، مگر جتنا کچھ ہے، افسوس یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہے۔ یہ المیہ ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ سود کتنا بڑا گناہ ہے۔ قرآن مجید میں جو الفاظ سود کی قباحت و شناعت کے بارے میں آئے ہیں، وہ کسی اور گناہ کے لیے نہیں آئے۔ یعنی تم سودی لین دین سے باز نہیں آتے تو اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اللہ اور رسولؐ سے جنگ ہو تو ہمارے لیے رتی بھر خیر کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ پھر ہماری دعائیں قبول کیسے ہو سکتی ہیں؟ اس سے زیادہ خطرناک کوئی شے نہیں۔
عملی گناہوں میں سود سب سے بڑا گناہ ہے۔ ایک ہے نظری یا عقیدے کا گناہ، جیسے شرک یا کفر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ سود کے ستر حصے ہیں جن میں سے سب سے ہلکا حصہ ایسا ہے گویا کوئی انسان اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔ یہ ذکر کرتے ہوئے زبان لڑکھڑا جاتی ہے، لیکن اس معاملے میں ہم اتنے ڈھیلے واقع ہوئے ہیں کہ گویا ہمیں کوئی سروکارہی نہیں۔ لاپروائی کی انتہا ہے۔
درحقیقت ہم نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جو بڑی مشکلوں سے سماعت کے لیے منظور ہوئی۔ اس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت یہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ملک سے سود کا خاتمہ کرے۔ ہم سود کی وجہ سے اللہ اور رسولؐ کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔ اس کا سپریم کورٹ نوٹس لے اور حکومت کو فوری طور پر متوجہ کرے۔ اس پر وہاں سے جواب آیا کہ یہ ہمارا کام نہیں ، یہ معاملہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس کا فیصلہ وہیں ہوگا۔ درخواست خارج کر دی گئی، لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس سرمد جلال عثمانی جن کی سربراہی میں یہ بنچ قائم ہوا تھا، کے ریمارکس عجیب و غریب تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو سود نہیں لیتانہ لے، اور جو لیتا ہے اس سے اللہ پوچھے گا۔ ان کی بات کو صحیح مان لیں تو پھر ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ حکومت اپنے فرائض منصبی ادا کرے تو اچھی بات ہے، اور اگر نہ کرے تو اللہ پوچھے گا۔ فوجی جرنیل آئین کی پاسداری کریں اچھی بات ہے، حلف توڑ کر اقتدار پر قابض ہو جائیں تو اللہ پوچھے گا۔ جج منصفانہ فیصلے کرے تو اچھی بات ہے، اور اگر انصاف کا خون کرے تو اللہ پوچھے گا۔
میں اوریا مقبول جان کے حالیہ مضمون کا وہ حصہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ سود کے معاملے میں ہم نے جو کیا ہے، وہ دردناک ہے۔ ہم ایک خوفناک انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے یکم جولائی 1948ء کو اسٹیٹ بینک کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’میں بینک کے تحقیقی کام کا خود باریک بینی سے جائزہ لوں گا کہ وہ ایک ایسا بینکنگ نظام وضع کرے جو اسلام کے معاشرتی اور معاشی نظام زندگی سے ہم آہنگ ہو۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے لا ینحل مسائل پیدا کیے ہیں۔ مغرب کا معاشی نظام سودی ہے۔‘‘ اس تقریر کے ڈھائی ماہ کے بعد قائد اعظم کا انتقال ہوگیا۔ ان کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد سترہ سال تک طویل خاموشی رہی۔ آئین میں نظریاتی کونسل ہر دور حکومت میں موجود رہی لیکن کسی کو سود کے بارے میں کبھی کوئی خیال نہیں آیا۔ ایوبی آمریت کے دوران 1964-66 کے عرصے میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بینکنگ کے نظام کا جائزہ لیا اور اسے خلاف اسلام قرار دیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل دستور کا حصہ ہے اور اسے اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ ملک میں قانون سازی قرآن و سنت کے دائرے میں ہوگی۔ یہ ادارہ اس لیے بنایا گیا تھا کہ وہ نشان دہی کرے گا کہ کون کون سے قوانین غیر اسلامی ہیں اور ایسے قوانین کے متبادل تجویز کرے گا۔ اس ادارے میں ملک کے بڑے بڑے اسکالرز اور مکاتب فکر کے علماء کو شامل کیا گیا۔ 700 سے زیادہ قوانین کے بارے میں کونسل نے رائے دی کہ یہ غیر اسلامی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے جمہوری دور میں آئین میں یہ شق شامل کی گئی جس کے ذریعے حکومت کو ذمہ داری دی گئی کہ سود کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔
افسوس آج تک بانی پاکستان کی خواہش کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے۔ اور ہم نے جب اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ کے الٹی میٹم کو قابل اعتناء نہیں سمجھا تو مسلسل عذاب کے کوڑے برس رہے ہیں۔ نا اہل حکمرانوں کا مسلط ہو جانا بھی اللہ کے عذاب کی ایک صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں درست راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
(بشکریہ روزنامہ ’’اسلام‘‘)