حضرت مولانا بشیر احمد پسروریؒ کے پوتے مولانا حافظ محمد عثمان نے پسرور ڈسکہ روڈ پر دارالعلوم رشیدیہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ وہاں مسجد اقصیٰ کی طرز پر اسی عنوان سے ایک وسیع مسجد کی تعمیر کا پروگرام ہے۔ مولانا محمد عثمان کی خواہش تھی کہ مسجد کے سنگ بنیاد کی اینٹ رکھنے کی سعادت میں حاصل کروں جو میرے لیے اعزاز کی بات تھی اور میں اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔ جبکہ اس سے چند میل کے فاصلہ پر بَن باجوہ میں معہد الرشید الاسلامی کے نام سے ایک دینی مرکز قائم ہے۔ ہمارے محترم دوست بھائی ذوالفقار صاحب اپنے دوستوں کے ہمراہ اس کا نظام چلا رہے ہیں۔ مڈل کے ساتھ حفظ القرآن کریم کا امتزاج قائم کر رکھا ہے اور مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں۔ شہر کے محلہ امید پورہ میں بھی اس کی ایک شاخ مسجد بلال میں کام کر رہی ہے۔ وہاں تقسیم اسناد کا جلسہ تھا، معہد الرشید الاسلامی میں تعلیم حاصل کرنے والے چار حفاظ کی دستار بندی تھی، مجھے اس میں حفظ قرآن کریم کی اہمیت اور دینی مدارس کی خدمات پر گفتگو کرنا تھی۔ لیکن جب مسجد میں داخل ہوا تو کلاس کے لڑکے کھڑے ہو کر اجتماعی صورت میں علامہ محمد اقبالؒ کا مشہور ترانہ پڑھ رہے تھے جس کا ایک معروف شعر یہ ہے کہ
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بچوں سے یہ ترانہ سن کر میرے ذہن کا رخ بھی اقبالؒ کی طرف مڑ گیا اور میں نے گفتگو اقبالؒ اور قرآن کریم کے عنوان سے شروع کی جو چلتے چلتے ’’اقبالؒ کا پاکستان‘‘ کے موضوع میں تبدیل ہوگئی۔
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نوجوانوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ وہ قرآن کریم کا مطالعہ ضرور کریں، اگر سید احمد شہیدؒ کی طرح نہیں کر سکتے تو اقبالؒ کی طرح ہی مطالعہ کرلیں۔ اس کا حوالہ دے کر میں نے گزارش کی کہ آج کل ہمیں تلقین کی جا رہی ہے کہ اقبالؒ کے پاکستان کی بات کریں اور اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کرتے ہوئے پاکستان کا جو ذہنی نقشہ پیش کیا تھا، اسے سامنے رکھیں۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ اقبالؒ کا پاکستان کیا تھا اور مفکر پاکستان نے ایک نئی اسلامی ریاست کی تجویز پیش کر کے اس ریاست کے جو خدو خال بیان کیے تھے ان کو کس نے سامنے رکھا ہے اور کون ان سے منحرف ہوگیا ہے۔ ذرا ترتیب سے میری بات نوٹ کر لیں، تاکہ آپ اندازہ کر سکیں کہ اقبالؒ اور اقبالؒ کا پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے اقبالؒ کے افکار و تعلیمات کا کیا حشر کر رکھا ہے۔ اور کون لوگ اقبالؒ کے تصورات کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
- اقبالؒ نے پنجاب اسمبلی میں سب سے پہلے یہ بل پیش کیا تھا کہ توہین رسالتؐ جرم ہے جس کی سزا مقرر ہونی چاہیے۔ توہین رسالتؐ پر سزا کی بات ہماری قانونی دنیا میں وہیں سے شروع ہوئی تھی جو 295-C تک پہنچی۔ مگر آج اقبالؒ کے نام پر توہین رسالتؐ پر سزا کے قانون کی مخالفت کی جا رہی ہے اور اقبال اقبال کا ورد کرنے والے بہت سے دانش ور اس قانون کو ختم کرانے کے درپے ہیں۔
- اقبالؒ نے کہا تھا کہ پاکستان کے نام سے قائم ہونے والی نئی ریاست میں نفاذِ اسلام پارلیمنٹ کے ذریعہ ہونا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے منتخب پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کی حدود میں قانون سازی کرنی چاہیے۔ ملک کے دینی حلقوں نے اجتماعی طور پر اقبالؒ کے اس تصور کو قبول کر لیا مگر اقبالؒ کے پاکستان کا نعرہ لگانے والے بہت سے لوگ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دینے کو پارلیمنٹ کی خود مختاری کے منافی کہہ کر پاکستان کے دستور کی اس نظریاتی اساس کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
- اقبالؒ نے کہا تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور انہیں مسلم معاشرہ کا حصہ سمجھنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کیا جائے۔ پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے اقبالؒ کی اسی تجویز کے مطابق قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا، مگر اس دستوری فیصلے کے خلاف مہم چلانے والے عناصر میں بعض اقبال اقبال پکارنے والے لوگ بھی نمایاں ہیں۔
- اقبالؒ نے کہا تھا کہ چونکہ پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کے دائرہ اور روشنی میں قانون سازی کرنی ہے جس کے لیے قرآن و سنت کا علم ضروری ہے۔ جبکہ عوامی نمائندوں کے لیے قرآن و سنت کا اس درجے کا عالم ہونے کی شرط موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیے جید علماء کرام اور ماہرین قانون پر مشتمل ایک کونسل ہونی چاہیے جو اس سلسلہ میں پارلیمنٹ کی راہ نمائی کرے۔ دستور میں اقبالؒ کی اسی تجویز پر ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ مگر بہت سے اقبالی اسلامی نظریاتی کونسل کو غیر ضروری قرار دے کر اس کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔
- اقبالؒ نے اسپین کے دورے سے واپسی پر کہا تھا کہ یہ دینی مدارس جس حالت میں کام کر رہے ہیں، انہیں اسی طرح کام کرنے دو۔ یہ اگر اس طرح کام نہ کرتے تو ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو اسپین پر عیسائیوں کے قبضے کے بعد وہاں کے مسلمانوں کا ہوا تھا کہ آج وہاں مسلمانوں کی تعداد برائے نام ہے۔ مگر آج اقبالؒ کے کچھ نام لیوا دینی مدارس کے اس کردار اور محنت کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش اور کوشش ہے کہ انہیں قومی دھارے میں لانے کی آڑ میں ان کے آزادانہ تعلیمی و دینی کردار سے محروم کر دیا جائے۔
حضرات گرامی قدر! ان باتوں سے آپ خود فیصلہ کریں کہ کون اقبالؒ کے پاکستان کی بات کر رہا ہے اور کون اقبالؒ سے منحرف ہوگیا ہے؟
میں ان لوگوں سے امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ہی کی زبان میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مولویوں کی بات تم نہیں سنتے، تمہاری مرضی۔ لیکن اقبالؒ سے دست بردار کیوں ہو رہے ہو؟ اس کی تو سنو کہ اسی کی فکر پر تمہیں پاکستان کی یہ عظیم نعمت ملی ہے۔ اور اسی کے نام کے نعرے لگا کر تم اپنا قد بڑھاتے ہو۔
بچوں کی زبان سے اقبالؒ کا ترانہ سن کر میرا ذہن اس طرف گھوم گیا اور میں نے یہ باتیں عرض کر دی ہیں۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمت پر دین، قوم اور ملک کی خدمت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔