قیامِ پاکستان کے بعد سے اس ملک میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد بجائے خود، ایک اجتماعی معاشرتی خواہش (collective social will) کی مظہر رہی ہے کہ اسلام نافذ کیا جائے اور مملکت کے تینوں دساتیر (۵۶، ۶۲، ۷۳) کے بنیادی ڈھانچے ایک حد تک اسی معاشرتی خواہش کے سیاسی نتائج (political output) دیتے چلے آئے ہیں۔ ۱۹۷۳ کے آئین میں تو خیر سے ریاست کو بھی کلمہ پڑھوا دیا گیا ہے کہ اسلام، مملکت کا سرکاری مذہب قرار پایا ہے۔ اس لیے جہاں تک آئین و قوانین کی بات ہے، معاشرتی خواہشات کے سیاسی ثمرات میں ڈھلنے کا تعلق ہے، حالات و واقعات بہت زیادہ سنگین اور تشویش انگیز نہیں ہیں۔ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ نفاذِ اسلام کی اجتماعی معاشرتی خواہش (collective social will) کی کسی نہ کسی حد تک صورت پذیری (actualization) کے باوجود، اس مملکت کی غالب اکثریت ان فوائد سے اب تک یک سر کیوں محروم ہے جو اس کے خیال میں نفاذِ اسلام کے بعد حاصل ہونے چاہییں تھے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بے اطمینانی، غربت، افلاس، پس ماندگی اور جہالت کا شکار ہے؟ ہر طرف افراتفری کا عالم کیوں برپا ہے؟........... کیا نفاذِ اسلام کی معاشرتی خواہش کی تھوڑی بہت سیاسی صورت پذیری کے (تھوڑے بہت) مثبت اثرات سامنے نہیں آنے چاہییں تھے؟ یقیناً ایسا ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں، اور نہ ہی سرِدست ایسا ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اندریں صورت سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرت۔سیاست کے وسیع میدان کے آخر کس کس گوشے میں ایسی کون سی بنیادی گڑ بڑ ہو رہی ہے جو مطلوب و مقصود تک راہ ہم وار نہیں ہونے دے رہی؟ اور اس گڑبڑ کی ’نوعیت‘ کیا ہے؟کیا اسلام کو نافذ کرنے کی معاشرتی خواہش بجائے خود غلط ہے؟ کیا اس اجتماعی خواہش کے سیاسی روپ میں کوئی بنیادی نقص رہ گیا ہے؟ اور اسی وجہ سے یہ سیاسی روپ، معاشرتی خواہش کی مطابقت میں نہیں ہے؟ یا پھر سرے سے نفاذِ اسلام کی اجتماعی عاشرتی خواہش (collective social will) کو سیاسی صورت پذیری (political actualization) کے پیچھے لگا دینا ہی ہماری بنیادی غلطی ہے؟
(۲)
واقعہ یہ ہے کہ ملکی آبادی کی غالب اکثریت کے عمومی رجحان کا لحاظ رکھا جائے تو نفاذِ اسلام کی اجتماعی۔معاشرتی خواہش (collective social will) برخود غلط معلوم نہیں ہوتی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ خواہش سادہ لوحی پر مبنی اور انتہائی خام صورت میں ہے۔ یہ خواہش، جذباتی نعرہ بازی کی شور شرابہ تکنیک کے ذریعے، ایک پریشر کی صورت میں جب بھی (خام شکل میں) سامنے آتی ہے تو مقتدر حلقے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ملکی آئین و قوانین میں معمولی سی تبدیلی، حفاظتی والو (safety valve) کا کام دے سکتی ہے۔ اس لیے اگر ملکی آئین اور قوانین میں موجود اسلامی شقوں کا (ان کے پس منظر سمیت) غیر جانب دارانہ تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو نفاذِ اسلام کی خواہشِ اجتماعی کی سیاسی صورت پذیری، حفاظتی والو کے سوا اور کچھ بھی نہیں معلوم ہوتی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کرنے والے اس حفاظتی والو کو اپنی کامیابی گردانتے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ یہ لوگ بزعمِ خود جس امر کو اسلام سمجھ رہے ہیں اس کا منتہٰی (the end) آئین و قانون ہے۔ اور آئین و قانون، منتہٰی اس لیے ہے کیونکہ وہ خود مثالی (حقیقی) مسلمان نہیں ہیں بلکہ اصلاً صرف اور صرف ’قانونی‘ مسلمان ہیں۔ مقتدر حلقے (بغیر تحفظات کے) ان قانونی مسلمانوں (کے دینی عزائم) کی مطابقت میں ملکی آئین و قوانین کو اسلام کا جامہ پہناتے جاتے ہیں۔ البتہ یہ مقتدر حلقے نہایت مکاری سے جان بوجھ کر کہیں کہیں روڑے بھی اٹکا دیتے ہیں جس کا مقصد قانونی مسلمانوں کی نظر میں کسی قانون کی اسلامیانے (Islamization) کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، جس کے پیچھے حقیقی مقصد یہ چھپا ہوتا ہے کہ وہ (قانونی مسلمان) قانون کی اسلامیانے کی حد پر قانع (content) ہو جائیں۔ ایسا ہو بھی جاتا ہے، ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔
(۳)
مقتدر حلقوں کے استحصالی ہتھکنڈوں کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ لیکن ملکی آبادی کے اکثریتی قانونی مسلمان بھی ایک کھلے تضاد کا شکار ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذات کی حد تک، دینِ اسلام کے تصورات ومقاصد کا نفاذ نہیں کر پائے، صرف کلمہ پڑھ کر مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ لوگ ایک کلمہ پڑھوائی ریاست سے اسلام کے تصورات و مقاصد کی ’’مثالی تنفیذ‘‘ کی امید اور توقع کیوں باندھے ہوئے ہیں؟ کہیں وہ اس غلط فہمی میں تو مبتلا نہیں کہ ریاست، افراد سے بالکل الگ تھلگ (isolated) کوئی مافوق الفطرت ہستی ہے؟ حالاں کہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست تو افراد کے مجموعہ کا نام ہے اور یہ افراد کے ایسے مجموعی منشا (collective will) کی نمائندگی کرتی ہے جو افردِ معاشرہ میں فرد فرد بکھری ہوتی ہے۔ اب اگر ریاست کے افراد، فرد فرد اپنے تئیں قانونی مسلمان ہونے پر قانع ہیں تو پھر ریاست کے قانونی مسلمان ہونے پر (کہ سرکاری مذہب اسلام ہے) قناعت کیوں نہیں کرلیتے؟
مذکورہ بحث دھیان میں رہے تو پتا چلتاہے کہ نفاذِ اسلام کی خواہشِ اجتماعی، جذباتی نعرہ بازی کے شور شرابہ میں آئین و قانون کو مطلوب و مقصود تو بنا لیتی ہے، لیکن اس مقصد کے حصول کے کچھ عرصہ بعد ہی اسے احساس ہو جاتا ہے کہ ’’حقیقی مقصد‘‘ ذرہ برابر بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اصل مسئلہ آئین و قانون کو مطلوب و مقصود بنا لینا ہے۔ اور آئین و قانون کو مطلوب و مقصود اس لیے بنا لیا جاتا ہے کیونکہ ملکی آبادی کی اکثریت، قانونی مسلمان ہونے کے ناتے آئین و قانون کے اسلامیانے کو ہی اسلامی تصورات و مقاصد کا عین حصول سمجھ رہی ہوتی ہے۔ یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایسا کیوں سمجھتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس کے اذہان میں پچھلی کئی صدیوں سے اسلام کی یہی تعریف نقش کر دی گئی ہے۔ لہذا معلوم ہوا کہ اس وقت اسلام کی تعریف پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ اسلام کی نئی تعریف ہے جو نفاذِ اسلام کی خواہشِ اجتماعی کو ایسے راستے پر گامزن کر سکتی ہے جس کی منزل، آئین و قانون کے بجائے اسلام کے حقیقی مقاصدسے ہم آہنگ ہو گی۔
(۴)
اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کا عمل خاصا گھمبیر (complex) ہے۔ نئی تعریف کی تلاش کی بنیادی شرط یہ ہے کہ مروجہ تعریف سے چھٹکارہ پایا جائے، کیونکہ فرسودہ قانونی تعریف کی موجودگی میں نئی تعریف کے لیے جگہ (space) نہیں بچ پاتی۔ لیکن اب ایسا بھی نہیں کہ مروج قانونی تعریف کے مکمل خاتمے کے بعد ہی نئی تعریف کی ترویج کا سوچاجائے۔ کیونکہ عملاً (تاریخی اعتبار سے) ایسا ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہو گا کہ نئی تعریف کی تلاش شروع کر دی جائے، جیسے جیسے نئی تعریف وقیع اور پختہ ہوتی جائے گی، ویسے ویسے فرسودہ قانونی تعریف پیچھے ہٹتی جائے گی اور نئی تعریف پیدا شدہ میسر خلا کو پُر کرتی جائے گی۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہوا کہ بے ثمرقانونی تعریف اور اس کی پیدا کردہ ابتری کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہے جتنا نئی تعریف کی عدم موجودگی ا ور عدم دستیابی کا ہے۔ اس لیے ادھر ادھر کی ہانکنے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بجائے کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ فی الفور نئی تعریف کی عدم موجودگی و عدم دستیابی کے اسباب تلاش کیے جائیں۔
تلاشِ اسباب کے دوران میں سب سے پہلی نظر اجتہاد کے بند دروازے کے افسانے پر پڑتی ہے۔ اسلام کی مروج بے ثمر قانونی تعریف کے متعلق تحفظات (reservations) رکھنے والے (متجددین) اجتہاد کے بند دروازے کی بابت چیخ و پکار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس چیخ و پکار اور غوغا آرائی سے متجددین یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ علمائے دین نے اجتہاد کا دروازہ مقفل کر کے چابی اپنے قبضے میں لے رکھی ہے۔ اب نہ تو وہ خود دروازہ کھولتے ہیں اور نہ ہی کسی اور کو دروازہ کھولنے کے لیے چابی دینے کو تیار ہیں۔ سچ یہ ہے کہ متجددین کا پیدا کردہ یہ تاثر اپنی اصالت میں، حقیقت کم اور افسانہ زیادہ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد کے بند دروازے کا افسانہ متجددین کا گھڑا ہوا ہے۔ اس افسانے کے پیچھے یہ حقیقت ان کا منہ چڑا رہی ہے کہ اصل میں ان کی اپنی نالائقی، کم ہمتی اور علمی بے بضاعتی نے اس دروازے کو مقفل کر رکھا ہے۔ رہے جمود پسند علمائے دین؟ وہ تو اسلام کی فرسودہ قانونی تعریف سے چمٹے ہوئے ہیں، انھیں نئی تعریف کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ یہ در اصل متجددین ہیں جو نئی تعریف کی بات کرتے ہیں ......... اور بس بات ہی کرتے ہیں۔ متجددین میں علمی و اخلاقی اعتبار سے اتنی پختگی نہیں پائی جاتی کہ مروجہ بے ثمر قانونی تعریف کو چیلنج کر کے ایک متبادل قابلِ قبول (alternatively acceptable) تعریف دے سکیں۔ اگر ان کی طرف سے کوئی نئی تعریف ’’پختگی‘‘ سموئے سامنے بھی آتی ہے تو وہ قابلِ فہم اور با معنی نہیں ہوتی۔
دوسری طرف جمود پسند علما، اجتہاد کادروازہ بند رکھنے کے لیے جو افسانہ گھڑتے ہیں وہ بھی بے سر و پا (absurd) ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ائمہ اربعہ کے بلند پایہ علمی کام کے بعد اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اور اگر خوامخواہ کی ذہنی عیاشیوں کے لیے یہ دروازہ کھولا گیا تو بکھری ہوئی امت مزید داخلی انتشار کا شکار ہو جائے گی جس کا دشمن بے اندازہ فائدہ اٹھائیں گے۔ علمائے دین کی سادہ لوحی (simpilicity) کا احترام اپنی جگہ! لیکن واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے کی بندش کا نہ تو ائمہ اربعہ کے بلند پایہ علمی کام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی امت کے تشتت و انتشار سے اس کا کوئی دور کا بھی واسطہ ہے۔ بلکہ کڑوہ سچ یہ ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلم معاشرہ اخلاقی اور فکری لحاظ سے زوال کی انتہائی پستیوں کو چُھو رہا ہے۔ اس معاشرے کی تخلیقی قوت (دیانت و صلاحیت) اب قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ورنہ فطرت تو یہی بتاتی ہے کہ جس بیج میں دم ہو وہ اپنا آپ ضرور دکھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اجتہاد اور اسلام کی نئی تعریف کے لیے جس درجے کے جمالیاتی شعور کی ضرورت ہے، اس معاشرے کا نام نہاد جمال دوست تخلیق کار اور فقیہ اس سے کوسوں دور ہے۔ دیانت اور صلاحیت، اب کتابوں میں ہیں یا پھر غیروں (دشمنوں) کے طور اطوار کا حصہ ہیں۔ اس لیے جمود پسند علمائے دین اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ان کی شب و روز کی محنتوں، مشقتوں اور کوششوں سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوا ہے۔ ہاں البتہ! اتناضرور ہوا ہے کہ اس بندش کے نتیجے میں وہ ’’عالی مقام‘‘ پر فائز ہو گئے ہیں اور اسلام کی ایک (فرسودہ) قانونی تعریف کے تسلسل کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔
(۵)
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ اجتہاد کے بند دروازے کے افسانے کو حقیقت کی دنیا میں کھولنے کے لیے، مسلم معاشرے کی کھوئی ہوئی تخلیقی قوت (دیانت۔صلاحیت) کی جمالیاتی بازیابی، ایک بنیادی شرط کا درجہ رکھتی ہے۔ اگر تخلیقی و حرکی قوت موجود ہو گی تو اپنے جمالیاتی اظہار کی خاطر اجتہاد کا راستہ ضرور اپنائے گی۔ تخلیقی قوت کے دو بڑے عناصرِ ترکیبی (دیانت و صلاحیت) کو ذرا تنقیدی نظر سے جانچئے اور غور کیجیے کہ ان کی عدم موجودگی میں کسی معاشرے کی اخلاقی و فکری حالت کیا ہوسکتی ہے؟وہی ناں، جو اس وقت ہمارے معاشرے کی ہے۔ جمود پسند علمائے دین اپنے تئیں تخلیقی و حرکی قوت کے نتیجے ’اجتہاد‘ کو ملی وحدت کے عنوان سے دابے بیٹھے ہیں، لیکن ان کی اکثریت اس سامنے کی بات سے بھی آگاہ نہیں ہے کہ اصلاً، عمومی سماجی رویے (general social behaviour) سے ’دیانت و صلاحیت‘ کی بے دخلی پر یہ لوگ مطمئن ہوئے بیٹھے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ علمائے دین اس امر پر خاصے حیران و پریشان رہتے ہیں کہ ان کی ان تھک شبانہ روز مخلصانہ کوششوں کے باوجود ملی وحدت حقیقت کی دنیا میں کیوں نہیں ڈھل پائی؟ اب انھیں یہ بتانے کی جرات کون کرے، بھلے لوگو! آخر دیانت و صلاحیت کے بغیر ملی وحدت کیسے اور کیونکر پروان چڑھ سکتی ہے؟ بہرحال! اس بحث سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ تخلیقی وقت (دیانت۔صلاحیت) کی بازیابی کے لیے بنیادی شرط (pre-requisite)، اس قوت کی عدم موجودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے شدید اخلاقی و فکری اور جمالیاتی نقصان کا احساس ہے۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ طبقہ علما کی بہت بڑی اکثریت اس نقصان کے احساس سے بالکل عاری ہے۔
(۶)
اگرچہ تخلیقی قوت کے عناصرِ ترکیبی کی بابت بحث کی جا سکتی ہے، لیکن ان میں سے دو عناصر (دیانت اورصلاحیت) کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان دو کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صلاحیت تو خدا داد (God gifted) ہوتی ہے جس میں انسان کی اپنی کاوشوں کا کوئی خاطر خواہ عمل دخل نہیں ہوتا۔ ایک فرد میں صلاحیت کم اور دوسرے میں زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ خدائی تقسیم ہے جس کے سامنے انسان بے اختیار اور بے بس ہے۔ لیکن اس خدا داد صلاحیت سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا انسان کے دائرہ اختیار میں شامل ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے ایک زیادہ صلاحیت کا حامل انسان اپنی خداداد صلاحیت سے فائدہ اٹھانے میں بخیل اور ناکام ثابت ہو، اور دوسرا کم صلاحیت رکھنے والا نسبتاً بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر کے سخاوت کا عملی نمونہ پیش کر دے۔
دیکھا جائے توخدا داد انسانی صلاحیت کا ایک داخلی لازمہ (a necessary corolla)، امانت ہے۔ صلاحیت اپنے حامل کے، امین ہونے کا تقاضا لیے ہوتی ہے۔ یعنی، انسان اپنی صلاحیت کو امانت کے طور پر لیے ہوتا ہے۔ کیونکہ صلاحیت، اختیاری نہیں بلکہ خدا داد ہے، اسی لیے اس کی حیثیت امانت کی ہوتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ انسان اصلاً امین ہے۔ اب اگر وہ صلاحیت کا اظہار نہیں کرتا تو امین ہونے کا حق ادا نہیں کرتا، بلکہ خائن (perfidious) شمار ہوتا ہے۔
یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں وہ کون سی چیز ہے جس کے ذریعے انسان اپنی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے اور امین ہونے کا حق ادا کر سکتا ہے؟ اور کس چیز کی کمی اس کی صلاحیت کو زنگ آلود کر کے اسے خائن بنا ڈالتی ہے؟ اس کا جواب ہے، دیانت۔ جی ہاں! وہ چیز صرف اور صرف دیانت ہے۔ اس لیے بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ ارضی احوال و ظروف میں انسان کی اصل جولاں گاہ ’دیانت‘ ہے۔
(۷)
مذکورہ نکتے سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ رب العزت نے انسان کوبے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پاکستانی معاشرہ نوازشاتِ الٰہیہ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی گڑبڑ ہے کوئی مسئلہ ہے تو ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے ’ذریعے‘ میں ہے اور وہ ذریعہ دیانت ہے۔ اب کیا یہ باقاعدہ بتانے والی بات ہے کہ (صلاحیت کی) امانت ادا کرنے میں اگر دیانت، دھیان میں نہ رہ پائے تو صلاحیت کی کیا درگت بنتی ہے؟ اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی عمومی اخلاقی و فکری حالت کیا ہوتی ہے؟ اور ان کے جمالیاتی شعور پر کیا بیتتی ہے؟(اگر بے چارہ کسی طور کچھ بچ رہا ہو) ۔
تنقیدی نظر سے پرکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے خود اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ تعلق میں، دیانت اور اس کے روبہ عمل ہونے کا ایک ناگزیر لازمہ جسے ہم ’حیا‘ سے موسوم کر سکتے ہیں، بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس حیا کے معانی وہ نہیں ہیں جو عموماً مراد لیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں حیا کو جنسی اور جسمانی تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جس کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس کے علاوہ حیا کی ایک جہت اور بھی ہے جس کا بنیادی تعلق معاشرے میں بسنے والے افراد کے تعامل (inter-action) سے ہے۔ یعنی یہ حیا اپنی ماہیت میں معاشرتی نوعیت کی حامل ہے۔ کسی بھی معاشرے میں، اصلاً یہ حیا ہوتی ہے جو افرادِ معاشرہ کو (انفرادی طور پر) باہمی معاملات میں بد دیانتی سے روکنے کا انتہائی اہم اور حساس فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اس حیائی روک کے بعد ہی افرادِ معاشرہ (انفردای طور پر) اس قابل ہو پاتے ہیں کہ باہمی معاملات میں دیانت کا اظہار کریں، بلکہ دیانت کا ’’خودکارانہ‘‘ اظہار کریں۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں دیانت، خودکار اظہار شروع کر دیتی ہے اس معاشرے کے افراد کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور ایسا معاشرہ جمالیاتی شعور کے تخلیقی اظہار پر قادر ہو جاتا ہے۔
(۸)
اب تک کی بحث سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ خدا داد صلاحیت کی امانت کو خیانت سے بچانے کی اولین شرط، حیا (modesty) ہے۔ اگر کوئی فرد یا معاشرہ خائن ہونے سے بچ جاتا ہے یا دوسروں لفظوں میں بے حیا نہیں ہونے پاتا، تو اس کا خودکار انداز میں دیانت کے توسط سے خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ اب اس اصول پر اپنے معاشرے کو پرکھ لیجیے۔ تھوڑی دیر کے لیے ذرا اپنے ارد گرد موجود عوام و خواص کے رویوں کا تنقیدی جائزہ لیجیے، بے حیائی غراتی نظر آئے گی اور بے چاری دیانت دبکی بیٹھی دکھائی دے گی .......... بلکہ دوسروں کوچھوڑیے، اپنے ہی رویے کو جانچ لیجیے...... لیکن مسئلہ تو وہی ہے اب اپنے رویے کو بے حیائی کے دامن سے چھڑانے کا دعوی بھلا کون کرے؟ البتہ دعوی کے بجائے ’عزم‘ کا ارادہ کر لیاجائے تو شاید بات کچھ بن جائے۔ ایسے عزم کی اچھی نیت کے بکھیڑوں میں الجھنے کے بجائے مناسب یہی ہے کہ زیر بحث نکتے کے حوالے سے چند کرداروں کا جائزہ لے لیاجائے۔ اپنے ہاں کے وزرا کو دیکھ لیجیے، کسی مسئلے پر (شرم کھا کر) مستعفی ہونے کی کتنی مثالیں موجود ہیں؟ اور (بے شرمی و ڈھٹائی سے) ڈٹے رہنے کے کتنے نظائر (precedents) ہماری قومی تاریخ کا حصہ ہیں؟ اب ذرا سچ سچ بتایے کہ شرم اور بے شرمی کی مثالوں کی تعداد میں کوئی پست درجے کی بھی نسبت ہے؟ ہماری پوری قومی تاریخ میں مستعفی ہونے کی ’جسارت‘ شاید ہی کسی وزیر نے کی ہو۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو لیجیے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو لیجیے۔ لاہور کے اس مقام کو لیجیے جہاں اس صوبے کے اعلیٰ ترین عہدے دار انتظام و انصرام سنبھالے بیٹھے ہیں۔ جی ہاں! پنجاب سیکریٹریٹ کی بات ہو رہی ہے۔ اب اس عمارت کے مرکزی دروازے پر کھڑے ہو جایے اور کروڑوں کی آبادی والے اس صوبے میں، لاکھ نہیں، ہزار نہیں، سو نہیں، پچاس نہیں، دس نہیں، بلکہ صرف اور صرف ’’ایک‘‘ ایسے سائل شہری کو ڈھونڈ نکالیے جو اس عمارت سے برآمد ہو کر آپ کو یہ بتائے کہ اس کا کام روٹین میں ہو گیا ہے۔ (ہمیں اس ’’ایک‘‘ کے عدد پر معاف کر دیجیے گا کیونکہ اس سے کم ممکن ہی نہیں ہے)۔ اس ’’مثالی انتظام و انصرام‘‘ والی عظیم عمارت میں داخل ہونے والا کوئی ایک ایسا شہری بھی تلاش کر دیجیے جو اپنے داخل ہونے سے پہلے پر اعتماد ہو کہ اس کا کام روٹین میں ہو جائے گا اور اس کی عزتِ نفس بھی محفوظ رہے گی۔ تجربہ کرنے پر آپ جان جائیں گے کہ ہماری نشاندہی مبالغے پر مبنی نہیں ہے۔ کیا اجتماعی بے حیائی کی اس سے بڑی مثال پیش کی جا سکتی ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ بات یہیں نہیں ختم ہو جاتی بلکہ انزالِ اثر (trickle down effect) کے تحت یہ انتظامی و انصرامی بے شرمی پورے صوبے میں پھیلی ہوئی ملتی ہے۔ اس معاملے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ پنجاب سیکریٹریٹ اور باقی کے تمام دفاتر میں ایک دو نہیں بلکہ ہر سائل کا کام بالآخرہو بھی جاتا ہے، کیونکہ بے حیائی کے اظہار سے دیانت دبک کر کسی کونے کھدرے میں چھپ جاتی ہے اور بد دیانتی کو خوب کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ بمشکل پانچ فی صد شہریوں کا کام کسی تگڑی سفارش سے ہو جاتا ہے اور باقی سائلین، بانی پاکستان قائد اعظم کی سفارش میں پناہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔
یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے دیگر ریاستی و معاشرتی کردار بھی بے حیائی اور بد دیانتی میں گندھے ہوئے ہیں۔ چاہے ڈاکٹرز، اساتذہ ہوں یا وکلا، ججز اور صحافت سے وابستہ افراد ہوں، چاہے ٹی وی چینلز و اخبارات کے مالکان اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مدارلمہام ہوں یا مسلح افواج کے اعلیٰ عہدے داران ہوں، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
(۹)
اب تک کے مباحث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی قوم یا معاشرے میں سے ’حیا‘ کا مکمل اٹھ جانا، اس کے اخلاقی و فکری زوال کا بنیادی سبب بن جاتا ہے۔ ایسی قوم یا معاشرے کا جمالیاتی شعور، بد دیانتی کے سرکنڈوں سے لہولہان ہو جاتا ہے۔ اپنے جمالیاتی شعور کی قیمت پر پلنے والی ایسی قوم کے تخلیقی سوتے بالکل خشک ہو جاتے ہیں اور ایک کریہہ منحوس منظر اسے ہر طرف سے گھیر لیتا ہے، اور ........ اجتہاد کا دروازہ خودبخود بند ہو جاتا ہے۔
یہاں علمائے دین کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد کے دروازے کی بندش کا ان کی ملتِ اسلامیہ کے لیے درد مندی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی اسلاف کے کارنامے کبھی بھی اتنے بڑے اور دیوہیکل ہو سکے ہیں کہ ان کے سامنے زندگی کا تخلیقی و حرکی پہلو ہتھیار ڈال دے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے تخلیقی و حرکی رویے کی عدم موجودگی نے ہی اسلاف کے کارناموں کو ابھی تک کارناموں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔ زندگی کا حرکی و تخلیقی رویہ پروان ہی تب چڑھتا ہے، جب صلاحیت کی امانت میں خیانت نہ کی جائے۔ خیانت سے صرف حیادار (modest) لوگ ہی بچ پاتے ہیں، پھر یہی لوگ دیانت کے سہارے خدا داد صلاحیتوں کے جمالیاتی اظہار میں زندگی کے حرکی و تخلیقی تسلسل کو دوام بخشتے ہیں۔
اس لیے علمائے دین کو اجتہاد کے دروازے کی بندش کے جواز (rationale) نہیں تلاشنے چاہییں بلکہ اس بندش کے اسباب پر نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنا چاہیے کہ یہ اسباب (خیانت،بے حیائی،بد دیانتی) بہت ہی سنگین نوعیت کے ہیں۔ علمائے دین اس حقیقت سے آنکھیں کیسے چرا سکتے ہیں کہ اجتہاد کے دروازے کی بندش کے پیچھے اصلاً، خیانت، بے حیائی اور بد دیانتی جیسے انتہائی مکروہ عناصر کارفرما ہیں۔ وہ بھلے اجتہاد کا دروازہ نہ کھولیں، اس مقفل دروازے کی چابی کو کہیں دور کوہ قاف میں پھینک دیں، اس سے ذرہ برابر فرق نہیں پڑتا۔ لیکن انھیں خیانت کو جڑ سے اکھاڑنے کی تدابیر کرنی چاہییں، بے حیائی کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہییں اور بد دیانتی کے خاتمے کے لیے موثر کوششیں کرنی چاہییں۔ اگر زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی طور پر یہ سب کچھ کر لیا جاتا ہے تو خاطر جمع رکھیے، اجتہاد کا بند دروازہ خودبخود کھل جائے گا(کھل جا سم سم)۔
(۱۰)
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا علمائے دین سے، مطلوب طرزِ عمل کی انجام دہی کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کا دیانت دارانہ جواب نہیں میں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علمائے کرام بجائے خود، خدا داد صلاحیت کی ا مانت میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو جتنی فراخ دلی سے بے کار فضول مباحث کی نذر علما نے کیا ہے شاید ہی کوئی دوسرا طبقہ ان کا ثانی ہو۔ ان میں مقبولِ عام فروعی مسائل کی نوعیت کا جائزہ لیجیے اور ان مسائل کو بیان کرنے کے اسالیب کو پرکھیے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ذرا سچ سچ بتائیے کہ بے حیا ہوئے بغیر کیا کسی مسجد پر ’’قبضہ‘‘ کیا جا سکتا ہے؟ کیا بے حیا ہوئے بغیر کسی علاقہ میں کئی مساجد کے موجود ہوتے ہوئے بھی ’’اپنی مسجد‘‘ کی تعمیر اٹھائی جا سکتی ہے؟ یہ بھی بتا ہی دیجیے کہ جب حیا نہ رہے تو اصلاحی موضوعات پر کتنی دیانت سے قلم اٹھایا جا سکتا ہے؟ اور کیا کسی دل جلے کو دینی خدمت کے نام پر شائع ہونے والے لٹریچر کے پس منظر میں حیا اور مواد میں دیانت، ڈھونڈے سے بھی مل پاتی ہے؟
اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا داد صلاحیت کی امانت کی سنبھال کی سب سے زیادہ ضرورت تو طبقہ علما کو ہے۔ اس امانت کو خیانت سے بچانے کا بنیادی تقاضا حیا ہے۔ علمائے کرام سے بہتر کون جانتا ہے کہ ہر دین کا ایک امتیازی وصف ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔ اس لیے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اپنی ذات اور دوسروں کے ساتھ تعلق میں حیا کے در آنے سے، طبقہ علما اپنی صلاحیتوں کا دیانت دارانہ اظہار بھی کر سکتا ہے۔
(۱۱)
اس ساری بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ ہم لوگ بغیر دیکھے بھالے بڑی آسانی سے اہلِ مغرب پر ’’بے حیائی‘‘ کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حیا کے مذکور معنوں میں وہ لوگ با حیا نہیں ہیں؟ اور نتیجتاً دیانت دار نہیں ہیں؟ کیا ان کے وزرا شرم کھا کر عموماً مستعفی نہیں ہو جاتے؟ کیا ان کے دفاتر میں ہر شہری کا کام روٹین میں نہیں ہوتا؟ وغیرہ وغیرہ۔ واقعہ یہ ہے کہ اسی حیا اور دیانت (modesty and honesty) کی وجہ سے ان کی اخلاقی و فکری حالت ہم سے بہت بہتر ہے۔ اسی اخلاقی و فکری برتری کے نتیجے میں جمالیاتی شعور کے ذریعے، وہ لوگ ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور دنیا کی قیادت کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہمارے پاس تو صرف نعرہ بازی کی شور شرابہ تکنیک ہے اور بے حیائی و بد دیانتی کا طوفانِ بد تمیزی ہے۔
(۱۲)
اس تحریر کے آغاز میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے ثمرات کے متعلق بات ہوئی تھی کہ ہمارے معاشرے کی اکثریتی آبادی، آئین و قوانین کی اسلام کاری (Islamization) کی صورت میں اپنی خواہش کی تکمیل کے بعد، حیران و پریشان کھڑی منہ تکتی رہ جاتی ہے کہ اسے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لا حاصلی یا نامرادی کی حالت کاذمہ وار اس کا وہ فہمِ اسلام ہے جس کے مطابق قانون بنا دینے سے مقصد پورا ہو جاتا ہے(law is an end in itself)۔ ہمارے معاشرے کی اکثریتی آبادی کے ذہن میں، اسلام کے اس قانونی ایڈیشن کو نقش کرنے میں، ہمارے مذہبی طبقے نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اس طبقے کا ذہن اس لیے قانونی ہے کیونکہ اسے اسلاف کے کارناموں میں سے ائمہ اربعہ کے صرف وکیلانہ کارنامے بھلے لگتے ہیں۔ پاکستان کے مذہبی طبقے کو تو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور ان کے نام ور شاگردوں کے علاوہ دیگر اماموں کے کارہائے نمایاں بھی نظر نہیں آتے۔ بات یہ ہے کہ صدیوں پہلے جس وقت اسلام کے قانونی ایڈیشن کا ظہور ہوا، ہو سکتا ہے یہ اس وقت کے تقاضوں کی مطابقت میں ہو۔ عین ممکن ہے اس وقت ضرورت ہی اسلام کے فقط قانونی دوائر کے تعینات کی رہی ہو۔ لیکن اب صورتِ حال بدل چکی ہے۔ اگر پاکستان کا مذہبی طبقہ دین اسلام کی ترویج میں واقعی سنجیدہ اور مخلص ہے تو اسے ان قانونی دوائر کی حد بندیوں کو لازماً پھلانگنا ہو گا۔ اس طبقے کو اب احساس ہو جانا چاہیے کہ اسلام کے قانونی ایڈیشن کی پرستش نے (انفرادی اور معاشرتی سطح پر) ، خیانت، بے حیائی اور بد دیانتی کو خوب فروغ دیا ہے۔
اس وقت رائج اسلام کی قانونی تعریف کا (داخلی لحاظ سے) اصلی مسئلہ یہ ہے کہ یہ روایتی فقہ کی بھی مطابقت میں نہیں ہے۔ کیونکہ ائمہ اربعہ کی وضع کردہ قانونی تعریف، ہمارے معروف معنوں کے قانون (law) جیسی نہیں ہے۔ ان ائمہ کے استنباطات، قانونِ محض (pure law)کے دائرے میں نہیں آتے، بلکہ فقہ کی وسعتوں (law in broader sense) سے ہم کنار ہیں۔ اس لیے ان جلیل القدر ہستیوں کی وضع کردہ فقہ میں اصولِ قانون، فلسفہ قانون اور مقاصدِ قانون کے اطراف و اکناف اکھٹے ہو گئے ہیں۔ ہمارے زمانے کے علما تک پہنچتے پہنچتے اس فقہی روایت کی داخلی روح کہیں کھو گئی ہے اور خالی خولی ظاہری قانونی ڈھانچہ باقی رہ گیا ہے۔
فقہ کے سمندر سے قانون کے چھپڑ تک، صدیوں پر محیط اس سفر کے دوران میں مختلف تاریخی عوامل کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں یورپ کی نوآبادیاتی یلغار کے منفی اثرات کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اگر روایتی فقہ، تاریخی جبر کا شکار نہ ہوتی، اور اپنے ظاہری قانونی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اپنی داخلی روح اور حقیقی جوہر کو بھی ہمارے زمانے کے علما تک پہنچا پاتی، تو اسی روایت کے تسلسل سے اسلام کی نئی تعریف لازمی طور پر خود بخود برآمد ہوتی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکا۔ اور ایسا نہ ہونے سے ، داخلی روح کے یکسر غائب ہونے سے، علما نے معذرت خواہانہ دفاعی پوزیشن لیتے ہوئے روایتی فقہ کے ظاہری قانونی ڈھانچے کو سنبھالنے میں ہی عافیت جانی۔
(۱۳)
اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں، اب جب کہ روایتی فقہ اپنی داخلی روح اور حقیقی جوہر سے محروم ہو چکی ہے، اس کے ظاہری ڈھانچے سے پیچھا چھڑائے بغیر، نفاذِ اسلام سے حاصل ہونے والے حقیقی مقاصد تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ جو مذہبی حلقے اس بے جان ڈھانچے میں فکرِنو کے گلوکوز لگا کر بہتری کی آس لگائے ہوئے ہیں، ان کے خلوص پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی اور نہ ہی ان کے جذبات و احساسات قابلِ گرفت سمجھے جا سکتے ہیں۔ ایسے احباب کے اخلاص کو چیلنج کیے بغیر ہم گزارش کریں گے کہ داخلی روح اور حقیقی جوہر سے محروم بے جان ڈھانچہ اب بہت بوسیدہ ہو چکا ہے، فکرِ نو کا گلوکوز جس خاص وقت میں کارآمد ہو سکتا تھا وہ وقت کب کا گز رگیا ہے۔ اس لیے خوامخواہ کی پیوند کاری (patch-work) میں الجھنے کے بجائے اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کی کوشش کرنی چاہیے۔
ہمیں نئی تعریف کی تلاش کے لیے اسلام کے دورِ اول کی طرف دیکھنا ہو گا کہ اس وقت کی سماجی صورتِ حال میں دین کی ترویج کن اصولوں کے تحت ہوئی، جس کے نتیجے میں مقصود حاصل ہو گیا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو نزولِ قرآن مجید کو لیجیے، اور بتایے کہ کیا اس کی آیاتِ مبارکہ، بالکل مجرد روپ میں (in purely abstract form) نازل ہوتی رہیں اور اسی طرح ان کا نفاذ بھی سماجی صورتِ حال سے کٹ کر (in isolation from social condition) ہوتا رہا؟ یا یہ کہ تقریباً ہر آیت کسی صورتِ حال کے جواب میں (in response to a given situation) نازل ہوئی؟ واقعہ یہ ہے کہ شانِ نزول کی مستند روایات کے علاوہ خود قرآن مجید میں ایسے داخلی شواہد موجود ہیں جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ تقریباً ہر آیت کسی نہ کسی صورتِ حال کا جواب تھی۔
اب ذرا توقف کر کے غور کیجیے کہ اصلاً کوئی نہ کوئی ’’صورتِ حال‘‘ ہی آیات کے نزول کا سبب بنتی رہی۔ اس لیے اس سارے عمل میں سے صورتِ حال کو خارج کر دیا جائے تو نزولِ آیات کا جواز (rationale) ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صورتِ حال موجود نہ ہوتی تو قرآن مجید کا بھی نزول نہ ہوتا۔ اگر بات کو غلط رنگ نہ دیا جائے تو ہمیں کہنے دیجیے کہ اس تناظر میں متنِ قرآن (text of Quran) سے کہیں بڑھ کر صورتِ حال (the given situation) اہم ہو جاتی ہے۔ متن قرآن تو ’’لوح محفوظ‘‘ میں پہلے سے موجود تھا، اس کے بتدریج نزول کی اہمیت یہی ہے کہ اسے اس صورتِ حال کی مطابقت میں نازل کیا گیا۔ صورتِ حال نے اسے مجرد شکل میں اپنے سر نہیں لیا۔ یہاں نکتے کی بات یہ ہے کہ متنِ قرآن اور صورتِ حال میں مطابقت کی بنیادی شرط، اس صورتِ حال کی صداقت پر مبنی غیر جانب دارانہ بالائے تعصب، کلی تفہیم تھی۔ اس لیے متنِ قرآن نہیں بلکہ حقیقت میں صورتِ حال کی اس مبنی بر صداقت تفہیم نے، اس سماج کو قرآن پاک کی وہ معنویت عطا کی جس نے بعد ازاں اس صورتِ حال کو اپنے قابو میں کر لیا،........ اور اسے بدل کر رکھ دیا۔
(۱۴)
مذکورہ بحث کے بین السطور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت کے ’’اسوہ کامل‘‘ ہونے کا ایک درخشندہ پہلو، اپنے دور کی سماجی صورتِ حال اور اس سے منسلک مطالبوں کے مکمل ادراک پر محیط ہے۔ نبوت عطا ہونے کے بعد سے وصال تک کے ۲۳ برس کے عرصہ میں کتاب اور صاحبِ کتاب، قرابتِ مسلسل (intimacy) میں رہے۔ اس لیے اسوہ کامل کے اس خاص پہلو (کتاب اور صاحبِ کتاب کی قرابتِ مسلسل) سے فیض یاب ہونے کے لیے قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی اور ترتیبِ نزولی کی تفہیم کی اساس، (آیات مبارکہ کا شانِ نزول)اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اندریں صورت شانِ نزول سے متعلق احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر مستند تاریخی آثار کا تنقیدی مطالعہ، اس زمانے کی عمرانی صورتِ حال سے واقفیت کا ایک مطالبہ اور لازمہ (prerequisite) بن جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اب نہ تو قرآن مجید ترتیبِ نزولی کی صورت میں موجود ہے اور نہ ہی ایسی مستند احادیث و روایات پائی جاتی ہیں جو پورے قرآن مجید یا اس کے کثیر حصے کے نزول کے اسباب واضح کرتی ہوں۔ اس لیے یہاں یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ اللہ رب العزت نے ترتیبِ نزولی کی بدلی صورت (قرآن مجید کی حتمی ترتیب) کو تشریعی کیوں قرار دیا ہے؟ اور پھر اس بدلی ترتیب کی تشریعیت (divine status) کے تحفظ کے لیے، تکوینی ذریعے سے شانِ نزول سے متعلق آثار و احادیث کی بہت ہی کم تعداد کیوں باقی رہنے دی ہے؟
ہماری رائے میں ان سوالات کا تعلق قرآن مجید کے نظریہ تاریخ سے ہے۔ قرآن مجید نے انبیائے کرام ؑ کے واقعات بیان کرتے ہوئے، ایک تو تمام انبیاعلیہم السلام کا ذکر نہیں کیا، دوسرا یہ کہ جن انبیا ئے کرامؑ کے قصے بیان کیے ہیں ان کی زندگیوں کا بھی مکمل احاطہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے مطابق تاریخ کی تمام تر تفصیلات (چاہے ان کا تعلق انبیاؑ سے ہو) کا جاننا بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہے۔ بلکہ ضروری امر تو یہ ہے کہ تاریخی تفصیلات و جزئیات کا لازمی طور پر نچوڑ (gist) لیا جائے (نچوڑنے کے کیا اصول ہیں؟یہ الگ بحث ہے)۔ تہذیبِ اسلامی میں تاریخ کے حاصل و نچوڑ (gist of history) کے اس اصول کا بجائے خود اطلاق، شانِ نزول جیسی روایات و احادیث کی تکوینی چھانٹی میں نظر آتا ہے۔ جس کے نتیجے میں قرآنی نظریہ تاریخ کا ایک تشریعی مطالبہ پورا ہوجاتا ہے۔
دیکھا جائے تو اس خاص حوالے سے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج نازل ہونے والا قرآن پاک نہ صرف ماقبل ضروری تاریخ کا احاطہ کیے ہوئے ہے بلکہ ما قبل تاریخ کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعثت کی عمرانی صورتِ حال کے ساتھ نامیاتی طور پر جوڑ بھی دیتا ہے۔ اس لیے ترتیبِ نزولی کا حامل قرآن تاریخ کے نچوڑ کے جلو میں، عصری مطالبات کی تکمیل کرتا دکھائی دیتا ہے۔ یعنی ایک لحاظ سے نزولِ قرآن کا یہ خاص پہلو صراحت کرتا ہے کہ تاریخ نہیں بلکہ چھانٹی شدہ تاریخ (selected history) سے ایک حد تک مدد لے کر عصری مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ (اسبابِ نزول کی روایات چونکہ بنیادی طور پر تاریخ ہیں اس لیے تاریخ سے ایک حد تک مدد کے قرآنی ضابطے کی مطابقت میں (تکوینی ذریعے سے) انھیں ایک حد تک ہی باقی رہنے دیا گیا ہے)۔ قرآن مجید، تاریخ کی چھانٹی یا نچوڑ کس اصول کے تحت کرتا ہے، تفصیلی تجزیے سے بچتے ہوئے قصص القرآن کے اجمالی جائزے سے ہی کم از کم ایک اساسی اصول دریافت ہو جاتا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ تاریخی تفصیلات کی چھانٹی کے عمل میں، کسی ایسی عمرانی صورتِ حال اور اس کے مطالبات کو قرآن مجید میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی، جو کسی بھی لحاظ سے کسی عمومی عمرانی صورتِ حال سے میل نہ کھاتے ہوں۔ اس لیے قصص القرآن میں مذکورواقعات کے مجمل اور مفصل ہونے کا تعین، کسی بھی عمومی عمرانی صورتِ حال سے ان کی مطابقت سے ہوتا ہے۔
(۱۵)
اسلام کے دورِ اول کے مذکورہ علائق و قرائن، اسلام کی نئی تعریف کے لیے ایک واضح راہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ قرآن مجید خالی خولی مجرد حالت میں نازل نہیں ہوا تھا بلکہ تاریخ کے نچوڑ کے عمل کی ہم راہی میں، معاصر عمرانی صورتِ حال سے جڑا ہوا تھا۔ اس تناظر میں اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کا باہمی تعلق (co-relation) جہاں اہم ہو جاتا ہے، وہیں اس تعلق کے مطالعے کی افادیت، کسی بھی عمرانی صورتِ حال میں قرآن و سنت کے نفاذ کے لیے رول ماڈل بن جاتی ہے۔ اس مطالعے کے دوران میں ایک اساسی نکتہ دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ کتاب اور صاحبِ کتاب کی اس نوع کی تفصیلات، قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں کھنگال لینی چاہییں۔ یعنی ان تفصیلات میں سے ترجیحی طور پر ان امور کو زیرِ بحث لانا چاہیے جو کسی بھی عمومی عمرانی صورتِ حال سے مطابقت رکھے ہوئے ہوں۔ ایک لحاظ سے یہ وہی کام ہے جو شارع نے خود نزولِ قرآن کے وقت، ماقبل تاریخ کی چھانٹی اور نچوڑ کی صورت میں کیا تھا، اب اس کام کی ذمہ داری امتِ مسلمہ کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیھم نے کتاب اور صاحبِ کتاب کی تفصیلات جمع کرنے میں اگرچہ تساہل نہیں برتا، لیکن ابھی تک ان تفصیلات کی چھانٹی، قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں قابلِ اطمینان حد تک نہیں ہونے پائی۔
(۱۶)
اس بحث کا ایک قابلِ اعتنا پہلو یہ ہے کہ قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کے بدل دیے جانے پر صورتِ حال بدل جاتی ہے۔ اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی ترتیبِ نزولی کے باہمی تعلق کی حیثیت ’’تاریخ‘‘ کی ہو جاتی ہے۔ اب اس مخصوص عمرانی صورتِ حال کی حامل تاریخ میں سے نچوڑی عمل کے ذریعے سے حاصل شدہ تاریخ (gist of history)، جو کسی بھی عمرانی صورتِ حال کے موافق ہو سکے، اصولاً (قرآن کے داخل میں) محفوظ کر لی جانی چاہیے تھی۔ اور اسے محفوظ کر بھی لیا جاتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ جب تاریخی چھانٹی کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں قرآن مجید کی نزولی ترتیب (مخصوص تاریخی تفصیلات اور علائق و قرائن سے اوپر اٹھ کر) بجائے خود چھانٹی شدہ تاریخ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ جس سے قرآن کی دو حیثیتیں سامنے آتی ہیں:
۱۔ قرآن مجید کی حتمی ترتیب اس کے چھانٹی شدہ تاریخ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
۲۔ یہی حتمی ترتیب کا حامل قرآن لوحِ محفوظ کی زینت ہے۔
قرآن مجید کی پہلی حیثیت ایک اعتبارسے اس امر کی علامت بن جاتی ہے کہ شارع نے تاریخ کی چھانٹی کا عمل قرآن کے داخل میں کر دکھایا ہے، اس لیے قرآن سے باہر خارج (روایات و احادیث وغیرہ) میں بھی تاریخی چھانٹی کا اطلاق، خود انسانوں کو کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی یہی پہلی حیثیت، قرآن مجید کے چھانٹی شدہ تاریخ ہونے کی بنا پر ایک مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اسے ہر وقت کسی نہ کسی عمرانی صورتِ حال سے جوڑ (relate) کر رکھا جائے تا کہ وہ اپنے داخل میں پنہاں معنویت آشکارا کر سکے(جیسے نزول کے وقت قصص القرآن ایک طرف چھانٹی شدہ تاریخ تھے تو دوسری طرف انھیں اس کی وقت کی عمرانی صورتِ حال کے موافق کیا گیا)۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو قرآن مجید ایک مجرد صورت (abstract form) اختیار کر جاتا ہے(جیسے قصص القرآن کو عمرانی صورتِ حال سے جوڑا نہ جاتا تو وہ مجردِ محض (pure abstract) کے درجے میں رہتے)۔ اس لیے قرآن مجید کو گوشہ تنہائی سے نکالنے کے لیے از بس ضروری ہے کہ اسے عمرانی صورتِ حال سے لازمی تطبیق دی جائے، اور یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیں کہ صورتِ حال کا مکمل ادراک، اس مطابقت و موافقت کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اس نکتے کا ایک مطلب یہ ہوا کہ آج بھی قرآن کے متن کے بجائے، موجود صورتِ حال کے مکمل ادراک کی اہمیت اسی طرح بہت زیادہ ہے جیسے نزولِ قرآن کے وقت تھی، ...... کہ نزولِ قرآن کے دوران میں شارع نے، اس وقت کے انسانی اور عمرانی مطالبات کو پوری طرح دھیان میں رکھتے ہوئے، حسبِ منشا آیات کو (پردہ غیب میں موجود) لوحِ محفوظ سے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی تک پہنچایاتھا۔
نزولِ قرآن کی تکمیل کے بعد لوحِ محفوظ پردہ غیب میں نہیں رہی، بلکہ ایک لحاظ سے قرآن مجید کی حتمی ترتیب کی صورت میں منکشف ہو چکی ہے۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں بیان کیا گیا کہ تاریخی چھانٹی کے بعد قرآن کی دو حیثیتیں سامنے آتی ہیں، ان میں سے دوسری یہی ہے کہ لوحِ محفوظ کی زینت، حتمی ترتیب کا حامل قرآن ہے۔ لوحِ محفوظ میں ہونے کے ناتے سے یہ قرآن، زماں و مکاں (time and space) سے ماورا ہے۔ قرآن کی یہ ماورائی حیثیت اسے ما بعد کی تاریخ پر بھی حاوی کر دیتی ہے۔ اس لیے اگر کسی کو قرآن پاک کے باطن میں جھانکنے کی توفیق مل جائے تو وہ شخص حال میں رہتے ہوئے بھی مستقبل کے ہفت خواں بآسانی طے کر سکتا ہے۔
(۱۷)
ہماری نظر میں اسلام کی نئی تعریف کابنیادی تعلق، شارع کے اس مطالبے سے ہے کہ (منکشف) لوحِ محفوظ میں سے حسبِ منشا آیات، عمرانی صورتِ حال کے موافق تلاش کی جائیں، ...... یعنی، قرآن کوپھر سے نازل ۔وحی کیا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب نہ تو خدا نازل کرے گا اور نہ ہی کوئی نبی ہو گا جس پر نازل کرنا خدا کا منشا ہو۔ لیکن قرآن اپنی اس حیثیت میں، کہ یہ نچوڑی ہوئی چھانٹی شدہ تاریخ ہے، اپنے جواز کے لیے کسی عمرانی صورتِ حال سے مطابقت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور اپنی دوسری حیثیت میں، کہ یہ زماں و مکاں سے ماورا (منکشف) لوحِ محفوظ ہے، اپنے میں سے انزال (اطلاق و انطباق) کی سہولت بھی دیتا ہے۔ اور یہ وہ کام ہے جو شارع نے ایک خاص زمانے کی عمرانی صورتِ حال کے موافق اسے نازل کر کے ’’رول ماڈل‘‘ کے طور پر کر دکھایا ہے، اور اب ہم سے وہی کچھ کرنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ بہرحال! اس نکتے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک طرف قرآن مجید، چھانٹی شدہ تاریخ ہونے کے ناتے عمرانی صورتِ حال سمجھنے کا مطالبہ کرتا ہے تو دوسری طرف، لوحِ محفوظ سے انزال (اطلاق و انطباق) کی سہولت میں عمرانی صورتِ حال پر قابو پانے میں معاون بھی ثابت ہوتا ہے۔اس کا ایک سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ ہم مطالبہ پورا کریں گے تو صرف اسی صورت میں تعاون ملے گا۔
اس بحث کے تناظر میں اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کے دو بنیادی تقاضے سامنے آتے ہیں:
۱۔ موجود واقعی صورتِ حال کا مکمل ادراک حاصل کیا جائے۔
۲۔ قرآن کے باہر خارج میں پائی جانے والی تاریخی تفصیلات کی قرآنی نظریہ تاریخ کی روشنی میں چھان پھٹک کی جائے۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کی تفصیلات میں سے صرف معاصر صورتِ حال کے موافق مواد لینے پر اکتفا کیا جائے۔ تاریخ کے نچوڑ کے اس عمل کے نتیجے میں، ہو سکتا ہے کہ بعض ایسے افراد کے نام تک سامنے نہ آنے پائیں، جنھیں ہم اکابرین میں شمار کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اس سے ان کابرین کی ذرہ برابر تحقیر نہیں ہوتی، کہ خود قرآن نے تاریخی نچوڑ کے عمل میں کئی انبیا علیھم السلام کے نام تک نہیں لیے۔
اہم بات یہ ہے کہ یہ دونوں تقاضے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صورتِ حال کے مکمل ادراک سے، تاریخی جزئیات کی چھان پھٹک کے بعد معاصر صورتِ حال کے موافق تاریخی مواد الگ کرنے میں سہولت ہوتی ہے، اسی طرح تاریخی تفصیلات کی چھانٹی کے عمل سے معاصر صورتِ حال کا ادراک نہ صرف تاریخی شعور سے بہرہ مند ہوتا ہے بلکہ درست سمت میں بھی گامزن رہتا ہے۔
بہرحال! ان دو مطالبوں کی تکمیل کے بعد (منکشف) لوحِ محفوظ(حتمی ترتیب کے حامل قرآن) سے حسبِ منشا آیات لینے کامرحلہ آتا ہے۔ یہ مرحلہ اس اعتبار سے بہت حساس ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی مرضی کی آیت لے کر اس کا اطلاق کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے عملی طور پر ایسا کرنا ممکن نہیں ہو گا کیونکہ مذکورہ دو مطالبوں کی تکمیل بجائے خود، اس کی من چاہی مرضی میں رکاوٹ ثابت ہو گی،....... اس لیے اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کے اس مرحلے پر موضوعیت (subjectivity) کو در آنے کا کم سے کم موقع ملے گا۔
(۱۸)
اہلِ علم کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ نزولی ترتیب کا حامل قرآن خدا نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا، لیکن چونکہ یہ ایک خاص عمرانی صورتِ حال میں نازل ہوا، اور اس کے مخاطبین اسی صورتِ حال کے پروردہ تھے، اسی لیے اس پورے نزولی قرآن کو مخصوص صورتِ حال اور مخصوص مخاطبین تک محدود کرنے کے لیے، اور آنے والے زمانوں کو اس نزولی قرآن کے علائق و قرائن سے محفوظ رکھنے کے لیے پورے نزولی قرآن کی پوری ترتیب کو بدل دیا گیا۔ اب اہلِ علم کے غور کرنے کا مقام ہے کہ کیا ائمہ اربعہ یا دیگر فقہاو اصولیین کی اختراعات، (جو کہ مخصوص عمرانی صورتِ حال کی پیداوار اور اس کی مطابقت میں تھیں)اس نزولی قرآن سے بہت بڑھ کر ہیں کہ ہم انھیں ہمیشہ کے لیے ساتھ لیے پھریں؟
فی زمانہ ایک ایسا ٹھیٹھ مذہبی حلقہ بھی پایا جاتا ہے جس کے افراد جسمانی طور پر معاصر عمرانی صورتِ حال سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن ذہنی طور پر ابتدائے اسلام کے دور میں رہتے ہیں۔ انھیں بھی اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ ابتدائے اسلام کے علائق و قرائن ایک خاص حکمت کے تحت ہی صرف اسی دور کے لیے مخصوص کیے گئے تھے(جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح ہو چکا)۔ اگر یہ لوگ اپنے موقف پر بضد قائم ہیں تو انھیں چاہیے کہ اولاً، ویسی ہی عمرانی صورتِ حال پیدا کریں، دوم ، اسی نبوی نزولی ترتیب کا دوبارہ اطلاق کرکے صورتِ حال کی اصلاح کریں۔ ہماری نظر میں یہ دونوں کام محال (impossible) ہیں۔
(۱۹)
خلاصہ بحث یہ ہے کہ اسلام کی نئی تعریف کی تلاش کے لیے سب سے پہلے واقعی صورتِ حال کا ادراک درکار ہے۔ انسانی مسائل کی نشاندہی، مسائل کی نشاندہی میں ترجیحات وغیرہ۔ اس کے بعد ہمیں حتمی ترتیب کو (بتدریج) اپنے مخصوص احوال کے تناظر میں (نئی) نزولی ترتیب میں ڈھالناہے، جو عہدِنبوی ﷺ کی نزولی ترتیب سے کافی مختلف ہوسکتی ہے، اور ضروری نہیں یہ ترتیب مکمل بھی ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں پورا قرآن مجید ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا، یعنی نبوی نزولی ترتیب میں پورے کا پورے قرآن یک دم سامنے نہیں آیا۔ لیکن اب پورا قرآن موجود ہے اور ہم اسے پور ا ہی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ حالاں کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی مکمل قرآن لوح محفوظ میں (مستور) موجود تھا، اب وہی مستور لوح محفوظ ، حتمی ترتیب کی صورت میں ہمارے سامنے افشا ومنکشف ہے۔ حتمی ترتیب کا حامل یہ قرآن پاک اسی طرح پورا ہے جیسے نبوی عہد میں نزول کے دوران میں (مستور) لوحِ محفوظ میں پورا اور مکمل موجود تھا۔ پھر اسی پورے اور مکمل قرآن میں سے بتدریج اور صورتِ حال کے موافق آیات نازل ہوتی رہیں۔اب ہمیں بھی نزولِ قرآن کی حکمت کے اتباع میں، افشا لوحِ محفوظ(حتمی ترتیب کے حامل موجودہ قرآن) سے نئی نزولی ترتیب بنانی ہے۔ اب ہمیں بھی لوح محفوظ (حتمی ترتیب) سے نزولی ترتیب کی طرف آنا ہے،اب لوح محفوظ سے حسبِ منشا آیات لینے میں خدا اور جبریل ؑ کا کوئی کردار نہیں ہے کہ مشیتِ ایزدی کے تحت اہلِ علم کو یہ کام خود کرنا ہے۔ البتہ اس دوران میں نبوی نزولی ترتیب اور اس کے حاصلات کو ’’ماڈل‘‘ کے طور پر لینا ہے، کہ کہیں صورتِ حال پر غالب آنے کے بجائے الٹا اس کا شکار نہ ہو جائیں۔
(۲۰)
بحث کے اختتام کی طرف بڑھتے ہوئے ہم گزارش کریں گے کہ عصرِ حاضر میں (پاکستان جیسے ممالک میں) اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کرنے والے، کسی نہ کسی درجے میں اپنے نام نہادمقاصد پا لینے کے باوجود، حقیقی مقاصد اس لیے حاصل نہیں کر پاتے، کیونکہ وہ اسلام کی ایک فرسودہ (out dated) قانونی تعریف سے چمٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ انھوں نے اپنی کوششوں کے بل بوتے پر اجتہاد کا دروازہ بند رکھا ہوا ہے اور امت کو بہت بڑے انتشار سے بچایا ہوا ہے۔ ہم اوپر کے مباحث میں دیکھ آئے ہیں کہ اجتہاد کے بند دروازے کے افسانے کے پیچھے ، اصلاً اخلاقی اقدار (امانت،حیا،دیانت) کے جنازے کا سانحہ، امت مسلمہ پر قیامتِ صغریٰ بن کر ڈھ چکا ہے۔ یہ سانحہ، اسلام کی نئی تعریف کی دریافت (اجتہاد) میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اہلِ علم کو یہ نکتہ دھیان میں رکھنا چاہیے کہ نبوت ملنے سے پہلے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفاتِ مبارکہ میں سے ’’امانت اور دیانت‘‘ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین مخالفین بھی قائل اور معترف تھے۔ یہ دونوں صفات اگرچہ ذاتی ہیں، لیکن اپنے دائرہ کار کے لحاظ سے معاشرتی ہیں۔ مذکورہ مباحث کے تناظر میں ہم یہ اخذ کر سکتے ہیں کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ’’امانت و دیانت کی معراج‘‘ پر تھے، اسی لیے (پردہ غیب میں موجود) لوحِ محفوظ سے قرآن پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔ یعنی بنیادی طور پر صفاتِ امانت و دیانت کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کا حق دار ٹھہرایا گیا، اور قرآن کو پردہ غیب سے ظہور میں لایا گیا۔ عام انسانوں کے لیے امانت و دیانت کی اس سطح تک پہنچنا محال ہے۔ اس لیے عام انسان اپنی دیانت کے بل بوتے پر پردہ غیب سے تو قرآن کو ظہور میں نہیں لا سکتے(اسی لیے اللہ رب العزت نے اپنی خاص رحمت (رحمت للعالمین ﷺ) کے ذریعے انسانوں کی یہ مشکل آسان کر دی ہے)، لیکن عام انسان دیانت کے خالصاً انسانی درجے کے ذریعے، پہلے سے ظہور میں آئے ہوئے قرآن کا(دوبارہ) انزال تو کر سکتے ہیں۔ مشیتِ الٰہی، انسانی دیانت سے اسی انزال کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس لیے یہ توقع رکھنا غلط نہیں ہو گا کہ اسلام کی فرسودہ قانونی تعریف سے چمٹے رہنے کے بجائے اگر مسلمان قرآن کے تاریخی نظریے کی روشنی میں تاریخی شعور سے بہرہ مند ہو جائیں تو باحیا (modest) ہونے کے ناتے خداد داد صلاحیتوں کی امانت میں خیانت کے مرتکب نہیں ہوں گے، جس کے نتیجے میں ان کے لیے معاصر عمرانی صورتِ حال کے بھر پور ادراک کے بعد دیانت کے بل بوتے پر قرآن مجید کو زندہ مسائل کی مطابقت و موافقت میں لینا مشکل نہ رہے گا۔ آخر میں ہم گزارش کریں گے کہ نفاذِ اسلام کی جدوجہد کرنے والوں کو اس حقیقت سے واقف ہو جانا چاہیے کہ عصرِ حاضر میں اسلام کی تنفیذ کوئی قانونی قسم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں اخلاقی اور فکری نوعیت کا مسئلہ ہے۔ مسئلے کی اخلاقی و فکری اور جمالیاتی نوعیت، نفاذ (implementation) کی نہیں بلکہ نفوذ (penetration) کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے اسلام کی قانونی تنفیذ کے پیچھے اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کے بجائے ان حضرات کو ’’تفقہ فی الدین‘‘ کی بلاغت پر اپنی عمریں کھپانی چاہییں۔
استدراک
پاکستان میں ریاستی اور معاشرتی سطح پر جس درجے کی بے حیائی بے ایمانی اور بددیانتی رواج پا چکی ہے، اسے دیکھتے ہوئے اصلاحِ احوال کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ہم نے یہ مضمون رمضان المبارک میں تحریر کیا ہے۔ رمضان کے مبارک مہینے میں پاکستان کی مسلم اکثریتی آبادی کا ایک ایساطرزِ عمل مشاہدے میں آتا ہے جس سے بہتری کی آس لگ جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت روزہ رکھتی ہے اور ہم سمیت تقریباً سبھی لوگ بھوکاپیاسا رہنے ہی کو روزہ سمجھتے ہوئے کھانا پینا ترک دیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم لوگ روزہ دار ہوتے ہوئے بھی باہمی معاملات میں اگرچہ بڑی ڈھٹائی سے ایک دوسرے کو ہاتھ کراتے ہیں لیکن خدا سے شرم کھاتے ہیں اور کثرتِ مواقع کے باوجود کھانے پینے سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے اندر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی درجے میں خدا سے ایسے تعلق کی خوبو موجود ہے جو ہمیں باور کراتی رہتی ہے کہ خدا دیکھ رہا ہے۔ اگر ہم سماجی و ریاستی فریضے کی انجام دہی میں بھی خدا پر ایمان اور اس کے دیکھنے کا یہ تصور لے آئیں تو نہ صرف باحیا ہو سکتے ہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں کے دیانت دارانہ اظہار سے انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔