اہل علم وادب کے پیغامات اور تبصروں کا ایک انتخاب
’’میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔‘‘
(ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ، سابق صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
’’آپ نے ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ باعث دلچسپی ہے۔ خدا کرے رفتہ رفتہ یہ تجربہ ایسے نہج میں ڈھل جائے کہ سوچ کی مثبت اور مفید تبدیلی کو راہ ملے۔ آپ کو ما شاء اللہ رفقائے قلم اچھے میسر آگئے ہیں۔ شاید نئی نہج ہی کی برکت ہے۔‘‘
(مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، سرپرست ماہنامہ الفرقان، لکھنو)
’’آپ کا رسالہ ’الشریعہ‘ ایک مدت تک میری نظر سے گزرتا رہا۔ مسائل حاضرہ کو ان کے صحیح تناظر میں دیکھنے پر آپ کو مبارک باد دیتا ہوں۔‘‘
(ڈاکٹر رشید احمد جالندھری، سابق ڈائریکٹر ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور)
’’اپنے علمی اور دینی معیار کے اعتبار سے اور موضوعات کے تنوع کے لحاظ سے بلاشبہ ’الشریعہ‘ صف اول کا جریدہ ہے۔ .... ’الشریعہ‘ وہ واحد اردو جریدہ ہے جسے اول تا آخر پڑھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے۔ ۔۔۔ اختلاف رائے کو رواداری کے ساتھ قبول کرنا، دوسرے کی رائے کو احترام کے ساتھ سننا، اگر اس سے اتفاق نہ ہو تو نہایت ہی احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کا اظہار کرنا۔ یہ ایک ایسی خوشگوار اور ایسی حیرت انگیز روایت اس ادارے نے قائم کی ہے کہ آپ کو پورے پاکستان میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔‘‘
(ڈاکٹر ممتاز احمد، صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)
’’الشریعہ شکریے اور مبارک باد کا مستحق ہے کہ اس نے اس لوٹ کھسوٹ کے دور میں بھی علمی مباحثے کا فورم مہیا کیا ہوا ہے جس کے نتیجے میں گراں قدر علمی تحقیقات سے استفادے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ ۔۔۔ ماہنامہ الشریعہ جس قدر اہم، وقیع، علمی اور تحقیقی مجلہ ہے، اس کے معیار، مقام، اثرات اور محبوبیت کا کارپردازان الشریعہ کو کماحقہ علم یا احساس نہیں‘‘
(ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی، سابق ڈین فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد)
’’الشریعہ‘‘ اتنا بڑا ماڈل ہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام (مدیر ملی گزٹ، دہلی) نے مجھ سے کہا کہ ہمیں ’الشریعہ‘ جیسا فکری پرچہ انڈیا سے بھی نکالنا چاہیے۔‘‘
(مولانا محمد وارث مظہری، مدیر ’’ترجمان دار العلوم‘‘ دہلی)
’’میں الشریعہ کی تحریروں کا خاص توجہ سے مطالعہ کرتا ہوں۔ ایسا فکری جریدہ ہمارے ہاں انڈیا سے شائع نہیں ہوتا۔‘‘
(مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی، مدیر سہ ماہی ’’احوال وآثار‘‘ کاندھلہ، انڈیا)
’’الشریعہ کی پاکستان کے علمی حلقوں میں اپنے مخصوص اسلوب اور سنجیدہ تحریروں کے باعث امتیازی پہچان ہے۔ الشریعہ قدیم علمی مباحث کے بجائے امت کو درپیش زندہ مسائل میں راہنمائی کو فوقیت دیتا ہے۔ ...... ہماری دانست میں سنجیدہ علمی تحریروں سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے ’الشریعہ‘ کا انتخاب بالکل بجا ہے۔‘‘
(مولانا محمد ازہر، مدیر ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان)
’’الشریعہ کسی دوسرے درجے کے رسالے کا نام نہیں، بلکہ مبالغہ نہ ہو تو میں اسے پاکستان کے چند نمایاں ترین علمی جرائد میں شمار کروں گا۔‘‘
(آصف محمود ایڈووکیٹ، کالم نگار روزنامہ ’’آج کل‘‘)
’’میں ہر طرح کا لٹریچر اور ہر مکتبہ فکر کی کتابیں یکساں دلچسپی سے پڑھنے کا عادی ہوں، لیکن سچ پوچھیے تو میں آہستہ آہستہ ’’الشریعہ‘‘ کا مستقل قاری بن گیا۔ اس کی وجہ اس مجلے کا متوازن مزاج بھی تھا اور اس کا جواں سال ایڈیٹر محمد عمار ناصر خان بھی۔ اس مجلے میں مجھے پروفیسر شاہدہ قاضی کے عالمانہ مگر تلخ حقائق پر مبنی تحقیقی مضامین بھی پڑھنے کو ملے اوران پر پروفیسر انعام ورک کی تنقید بھی۔‘‘
(راجہ انور، دانش ور وصحافی)
’’الشریعہ میں ان کا تحریر کردہ اداریہ فکر ونظر کی بالیدگی کا بھی ذریعہ تھا اور عصر حاضر کی ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھنے اور ان کے لیے راہ عمل کی طرف راہنمائی بھی کرتا تھا۔‘‘
(مولانا صلاح الدین یوسف، دار السلام، لاہور)
’’ہر مہینے ’’الشریعہ‘‘ میں آپ کی نگارشات پڑھتا ہوں جو ہمیشہ فکر انگیز اور بصیرت آموز ہوتی ہیں۔ علمی گہرائی کے ساتھ ساتھ نقطہ نظر کی اعتدال پسندی اور تجزیے کی معروضیت ان نگارشات کو ہمارے دینی اور ذہنی ادب کا شاہکار بنا دیتی ہے۔‘‘
(قاضی جاوید، ڈائریکٹر ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور)
’’الشریعہ‘ ایک ایسا پرچہ ہے جس کا انتظار رہتا ہے اور اس انتظار کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں سلگتے ہوئے دینی واجتماعی مسائل پر ’’سود وزیاں‘‘ سے بالاتر رہتے ہوئے بحث کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔‘‘
(پروفیسر سلیم منصور خالد، ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘)
’’یہ محض زبانی الفاظ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ دینی رسالوں کے ایک جم غفیر میں مجھے یہ ہی رسالہ ایسا لگا کہ جسے میں اپنے پڑھے لکھے دوستوں میں پیش کر سکتا ہوں۔ ....انگریزی میں ایک محاورہ ہے: Food for thought۔ .....آپ کا رسالہ دراصل یہی ’ذہنی غذا‘ فراہم کر رہا ہے، اور واللہ یہ آج کی بہت ہی نایاب جنس ہے۔‘‘
(ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان)
’’آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار فرمایا ہے جو انتہائی قابل قدر ہے اور اس سے ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کا بہت اچھا فائدہ حاصل ہوا ہے۔‘‘
(محمد یونس قاسمی، ایڈیٹر ’’خلافت راشدہ‘‘)
’الشریعہ‘کا ہر صاحب دل ونظر قاری محسوس کر سکتا ہے کہ آپ جیسے صاحبانِ علم کا قلم نفرتوں کی بھسم کرتی ہوئی آگ پر محبتوں کی برکھا برسانے اور قومی وجود پر جگہ جگہ موجود زخموں پر پھاہے رکھنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہے۔‘‘
(ڈاکٹر محمد شہباز منج، شعبہ اسلامیات، سرگودھا یونیورسٹی)
’’روایتی مذہبی میگزین یا رسالوں کے لیے تو کوئی گنجائش نہیں نکلتی، لیکن آپ کا ’الشریعہ‘ جب ہاتھوں میں آتا ہے تو نہ نہ کرتے ہوئے بھی محض ورق گردانی کے دوران اس کے بیشتر حصے پڑھتا چلا جاتا ہوں۔ یہ آپ کے میگزین کی خوبی یا دلچسپی ہے کہ چھٹتی نہیںیہ کافر منہ کو لگی ہوئی۔‘‘
(افضال ریحان، کالم نگار روزنامہ پاکستان، لاہور)
’’حالات حاضرہ اور بعض علمی نکات کے حل میں الشریعہ کا شاید ہی کوئی ثانی ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس سعی کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین‘‘
(مولانا محمد فاروق کشمیری)
’’ماہنامہ الشریعہ ہر مہینے وصول ہو کر ہوا کا ایک تازہ جھونکا مہیا کرتا رہتا ہے۔ ..... الشریعہ جیسے جریدے میں اپنے نقطہ نظر کی اشاعت میں ایک فائدہ یہ بھی متوقع ہے کہ اسے تنقید اور بحث کی چھلنی سے گزرنے کا موقع مل جائے گا اور اس سے مختلف کوئی رائے ہوگی تو وہ بھی سامنے آ جائے گی۔ دیگر دینی جرائد میں یہ بات تقریباً ناپید ہے۔‘‘
(مولانا مفتی محمد زاہد، شیخ الحدیث جامعہ امدادیہ، فیصل آباد)
’’ماہنامہ ’الشریعہ‘ باقاعدگی سے فکر ونظر کی تازگی کے لیے موصول ہو رہا ہے۔ بظاہر مجلہ پچاس کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن ان صفحات میں جو مواد ہوتا ہے، وہ نہایت قیمتی اور فکر انگیز ہوتا ہے۔ مجلہ کو جب تک اول تا آخر پڑھ نہ لیا جائے، چین نہیں آتا۔‘‘
(ڈاکٹر محمد عبد اللہ، شعبہ اسلامیات، جامعہ پنجاب)
’’ادارہ میں آنے والے جرائد ورسائل میں ایک ’الشریعہ‘ بھی ہے جسے بالاستیعاب پڑھتا ہوں اور اس کے مضامین سے استفادہ کرتا ہوں۔‘‘
(مولانا ارشاد الحق اثری، ادارۂ علوم اثریہ، فیصل آباد)
’’ماہنامہ الشریعہ ایک معیاری رسالہ ہے جس میں عصر حاضر کے اہم موضوعات، حالات وواقعات پر خوبصورت مواد پڑھنے کو ملتا ہے جو کہ ہمارے طلبا وطالبات، ریسرچرز اور اساتذہ کرام کے لیے دلچسپی کا باعث ہے۔ ‘‘
(رفعت رفیق، لائبریرین، شعبہ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب)
’’دیگر اسلامی جرائد بھی موصول ہوتے ہیں، لیکن الشریعہ کا فکری رنگ ہی منفرد اور جداگانہ ہے۔ میں ہرشمارہ بڑی توجہ سے پڑھتاہوں اور کئی مرتبہ اس کے روشن خیالی اور شعور انسانیت پر مبنی فکر انگیز مضامین اپنے ہم خیال مسلم دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں۔‘‘
(ڈاکٹر کنول فیروز، مسیحی راہنما)
’’یہ مختصر سا رسالہ علمی وادبی جرائد میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ مباحثہ ومکالمہ کے مضامین نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ..... ماشاء اللہ دیکھا جائے تو الشریعہ میں سب کچھ ہی پڑھنے کے قابل ہے۔ ‘‘
(جاوید اختر بھٹی، ادیب ونقاد، ملتان)
’’ماہنامہ الشریعہ ۔۔۔ ملک کا نامور ماہنامہ ہے ۔۔۔ بحث و مباحثہ کے پلیٹ فارم پر اس رسالہ نے اہل علم اور عوام الناس میں غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے۔‘‘
(مولانا محمد فیاض خان سواتی، ماہنامہ ’’نصرۃ العلوم‘‘، گوجرانوالہ)
’’اس علمی جریدے نے روز اول سے عمومی گروہ بندی اور فرقہ بندی سے اٹھ کر فکری حوالے سے ایسی ساکھ بنا لی ہے کہ یہ جریدہ ’’پڑھے جانے والے جرائد‘‘ میں سرفہرست ہے۔ اس کے مضامین میں تنوع کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا رنگ نمایاں ہے جو گہرائی اور گیرائی کے ساتھ لکھے جاتے ہیں ۔۔۔ اس علمی جریدہ نے مختلف حوالوں سے اپنی خصوصی اشاعتوں میں فکری رہنما کاکردار ادا کیا ہے۔‘‘
(مولانا عبد القیوم حقانی، ماہنامہ ’’القاسم‘‘ نوشہرہ)
’’جس علمی اور فکری تحریک کی ہمیں اس وقت ضرورت ہے، اس کے لیے ہمیں ایسی ہی کاوشیں درکار ہیں جو ذہنوں میں سوال اٹھائیں، سوچنے پر مجبور کریں اور منجمد ذہنوں کو جنبش دیں۔ یہ بات میں الشریعہ میں چھپنے والے مضامین میں موضوعات کے انتخاب، زاویہ ہائے بحث اور موجودہ حالات میں ان کے انطباق کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
(صفدر سیال، ماہنامہ ’’تجزیات‘‘ اسلام آباد)