انسانی حقوق، اقوام متحدہ اور عالم اسلام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مذکورہ بالا عنوان پر الشریعہ کے رئیس التحریر کے زیر طبع تفصیلی مقالہ کا ایک حصہ۔)


مغرب میں انسانی حقوق کے حوالہ سے جو تاریخ بیان کی جاتی ہے، اس کا آغاز ’’میگنا کارٹا‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ ۱۲۱۵ء میں برطانیہ کے کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ اس عنوان سے ہوا تھا جس کا اصل مقصد تو بادشاہ اور جاگیرداروں کے مابین اختیارات اور حدودکار کی تقسیم تھا لیکن اس میں عام لوگوں کا بھی کسی حد تک تذکرہ موجود تھا، اس لیے اسے انسانی حقوق کا آغاز تصور قرار دیا جاتا ہے۔ 

مغربی ممالک میں ایک عرصہ تک حکمرانی کا حق اور اس کے تمام تر اختیارات تین طبقوں کے درمیان دائر رہے ہیں: 

(۱) بادشاہ (۲) جاگیردار اور (۳) مذہبی قیادت۔

ان میں مختلف مراحل میں آپس میں کشمکش بھی رہی ہے لیکن عام شہری اس تکون کے درمیان جو دراصل جبر اور ظالمانہ حاکمیت کی تکون تھی صدیوں تک پستے رہے ہیں، مغرب خود اس دور کو جبر و ظلم اور تاریکی و جاہلیت کا دور کہتا ہے اور اس تکون سے نجات حاصل کرنے کے لیے مغربی دنیا کے عوام کو طویل جدوجہد اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ بہرحال ان حکمران طبقات کی باہمی کشمکش کے پس منظر میں کنگ جان اور جاگیرداروں کے درمیان اختیارات کی باہمی تقسیم کے معاہدہ کو ’’میگناکارٹا‘‘ کہا جاتا ہے اور مغربی دنیا اسے انسانی حقوق کی ابتدائی دستاویز قرار دیتی ہے جو ۱۲۱۶ء میں ۱۵ جون کو طے پایا تھا۔ 

اس کے بعد ۱۶۸۴ء میں عوامی بغاوت کے نتیجے میں انقلابی فوج نے پارلیمنٹ کے اقتدار اعلیٰ کا قانون پیش کیا اور ۱۶۸۹ء  میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’’بل آف رائٹس‘‘ (حقوق کے قانون) کی منظوری دی جو اس سمت پیش رفت کا اہم مرحلہ تھا۔ 

ادھر امریکہ میں تھامس جیفرسن نے ۱۲ جولائی ۱۷۷۶ء کو برطانوی استعمار کے تسلط سے امریکہ کی مکمل آزادی کا اعلان کیا اور ۱۷۸۹ء  میں امریکی کانگریس نے دستور میں ترامیم کے ذریعہ عوامی حقوق کو دستور کا حصہ بنایا۔ 

فرانس میں زبردست عوامی جدوجہد اور بغاوت کے ذریعہ ۱۷۸۹ء کو جاگیرداری، بادشاہت اور ریاستی معاملات میں چرچ کی مداخلت کو مسترد کر کے قومی اسمبلی سے شہری حقوق کا قانون ’’ڈیکلریشن آف رائٹس آف مین‘‘ منظور کرایا اور پورے سیاسی اور معاشرتی نظام کی کایا پلٹ دی، اسے ’’انقلابِ فرانس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور مغرب میں ظلم و جبر اور حقوق کے درمیان حد فاصل قرار دیا جاتا ہے، اسی انقلاب فرانس کے ذریعہ نہ صرف بادشاہت اور جاگیرداری کا مکمل خاتمہ ہوگیا بلکہ اقتدار میں مذہبی قیادت کی شرکت کی بھی نفی کر دی گئی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ چرچ، پوپ اور مذہبی قیادت نے عوام پر بادشاہ اور جاگیرداروں کی طرف سے ہونے والے دوہرے مظالم اور شدید جبر و تشدد میں عوام کا ساتھ دینے کی بجائے بادشاہ اور جاگیردار کا ساتھ دیا تھا اور مذہب عملاً بادشاہت اور جاگیرداری کا پشت پناہ بن کر رہ گیا تھا۔ اس لیے بادشاہ اور جاگیردار کے ساتھ ساتھ پوپ کی سیاسی قیادت کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا تھا اور نئے نظام میں ہمیشہ کے لیے طے کر دیا گیا کہ مذہب اور چرچ کا تعلق انسان کے عقیدہ، عبادت اور اخلاقیات کے ساتھ رہے گا جبکہ سیاسی و معاشرتی معاملات میں رائے دینے، راہ نمائی کرنے اور مداخلت کرنے کا مذہب، پادری اور چرچ کو کوئی حق نہیں ہوگا، اسی کو آگے چل کر ’’سیکولرازم‘‘ سے تعبیر کیا گیا اور اسی کو معیاری نظام قرار دے کر پوری دنیا سے اسے اختیار کرنے اور اس کی پابندی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 

بیسویں صدی عیسوی کے دوسرے عشرہ میں یورپی ممالک یعنی برطانیہ اور جرمنی وغیرہ کے درمیان جنگ ہوئی جس میں پوری دنیا بالواسطہ یا بلا واسطہ لپیٹ میں آگئی، اس لیے اسے ’’جنگ عظیم اول‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں عالم اسلام کی نمائندہ حکومت ’’خلافت عثمانیہ‘‘ نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اور جرمنی کے ساتھ ساتھ وہ بھی شکست سے دوچار ہوگئی تھی اور اسی کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ بھی ہوگیا تھا۔ اس جنگ میں لاکھوں انسانوں کے قتل ہو جانے کے بعد اقوام و ممالک کی ایک بین الاقوامی تنظیم ’’لیگ آف نیشنز‘‘ قائم کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اقوام و ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو جنگ کی صورت اختیار نہ کرنے دی جائے اور اس بین الاقوامی فورم کے ذریعہ ان تنازعات کا حل نکال کر قوموں اور ملکوں کی باہمی جنگ کو روکا جائے، لیکن ’’لیگ آف نیشنز‘‘ اپنے اس مقصد میں ناکام ہوگئی اور بیسویں صدی کے چوتھے اور پانچویں عشرے کے درمیان پھر عالمی جنگ بپا ہوئی جس میں جرمنی اور جاپان ایک طرف اور برطانیہ، فرانس اور روس وغیرہ دوسری طرف تھے۔ اس جنگ نے پہلی جنگ سے زیادہ تباہی مچائی اور اس کے آخری مراحل میں امریکہ نے اتحادیوں کی حمایت میں جنگ میں شریک ہو کر جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جس پر جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ 

اس کے بعد ۱۹۴۵ء میں ایک اور بین الاقوامی تنظیم ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ (اقوام متحدہ) کے نام سے وجود میں آئی جو ابھی تک نہ صرف قائم ہے بلکہ بین الاقوامی معاملات کا کنٹرول اسی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقوام متحدہ کے تنظیمی اور پالیسی سازی کے اختیارات اور معاملات پر اجاری داری کی وجہ سے اقوام متحدہ پر مغربی ممالک کی بالادستی قائم ہے اور اسے عام طور پر انہی کے حق میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی تنظیمی صورت حال یہ ہے کہ اس کی ایک ’’جنرل اسمبلی‘‘ ہے جس میں تمام ممبر ممالک برابر کے رکن ہیں اور سال میں ایک بار تمام ممالک کے حکمران یا ان کے نمائندے جمع ہو کر عالمی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں قراردادیں پاس ہوتی ہیں۔ لیکن ان قراردادوں کی حیثیت صرف سفارش کی ہوتی ہے، ان کا نفاذ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ چنانچہ جنرل اسمبلی کی سینکڑوں سفارشی قراردادیں اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ کی فائلوں میں دبی پڑی ہیں۔ 

اقوام متحدہ میں پالیسی سازی، فیصلوں اور ان کے نفاذ کی اصل قوت ’’سلامتی کونسل‘‘ ہے جس کے گیارہ ارکان میں سے پانچ ارکان (۱) امریکہ (۲) برطانیہ (۳) فرانس (۴) روس اور (۵) چین مستقل ممبر کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ چھ ارکان دنیا کے مختلف ممالک میں سے باری باری دو دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ گیارہ رکنی سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی اصل قوت اور اتھارٹی ہے لیکن ان میں سے پانچ مستقل ارکان کو ویٹو پاور یعنی حق استرداد حاصل ہے کہ امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس میں سے کوئی ایک ملک بھی سلامتی کونسل کے کسی فیصلے کو مسترد کر دے تو وہ کالعدم ہو جاتا ہے۔ اس طرح پوری دنیا کے نظام پر اقوام متحدہ کے نام سے اصل حکمرانی اور کنٹرول ان پانچ ممالک کا ہے اور یہ پانچ ممالک جس بات پر متفق ہو جائیں پوری دنیا کو وہ فیصلہ بہرحال تسلیم کرنا ہوتا ہے۔ 

اقوام متحدہ کا اصل مقصد تو قوموں اور ملکوں کے درمیان ہونے والے تنازعات کا حل تلاش کرنا اور جنگ کو روکنا ہے، لیکن ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ ؁ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمگیر چارٹر منظور کر کے اور اس کی پابندی کو تمام ممالک و اقوام کے لیے لازمی قرار دے کر دنیا کے سیاسی اور معاشرتی نظام میں راہ نمائی اور مداخلت کو بھی اپنے دائرہ کار میں شامل کر لیا اور اس کے بعد سے ممالک و اقوام کے درمیان جنگ کو روکنے کے ساتھ دنیا بھر کے ممالک کے سیاسی اور معاشرتی نظاموں کو کنٹرول کرنا بھی اقوام متحدہ کی ذمہ داری سمجھا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ اس سلسلہ میں مسلسل کردار ادا کر رہی ہے۔ 

کہا یہ جاتا ہے کہ اقوام متحدہ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے اور اس کے تحت متفقہ طور پر یا اکثریت کے ساتھ طے ہونے والے فیصلے ’’بین الاقوامی معاہدات‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن تاریخ اور معاشرت کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنے جن فیصلوں کو دنیا پر نافذ کرنا چاہتی ہے وہ عملاً نافذ ہوتے ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنے والے ملکوں کو سزا دی جاتی ہے حتیٰ کہ خلاف ورزی کرنے والے ملکوں پر فوج کشی بھی کی جاتی ہے اور انہیں اقوام متحدہ کا فیصلہ تسلیم کرنے پر بزور مجبور کیا جاتا ہے، اس لیے انسانی حقوق کا چارٹر اور اقوام متحدہ کے دیگر فیصلے صرف ’’معاہدات‘‘ نہیں بلکہ عملاً ’’بین الاقوامی قانون‘‘ بن چکے ہیں اور خود اقوام متحدہ صرف بین الاقوامی تنظیم نہیں بلکہ عملاً ایک عالمی حکومت کا درجہ رکھتی ہے جس کے ذریعہ سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھنے والے پانچ ممالک عملاً پوری دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اس عملی کردار کو سامنے رکھنا بالخصوص عالم اسلام کے ان حلقوں کے لیے انتہائی ضروری ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ، اسلامی معاشرہ کے قیام اور خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لیے دنیا کے کسی بھی حصہ میں محنت کر رہے ہیں تاکہ انہیں یہ معلوم ہو کہ اس سلسلہ میں ان کا مقابلہ اصل میں کس قوت سے ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی جدوجہد کرنے والے حلقے اور طبقے اس غلط فہمی کا کا شکار رہتے ہیں کہ ہم اپنے ملک میں اپنے مقتدر حلقوں سے نفاذِ اسلام کا مطالبہ کر رہے ہیں یا ان سے نفاذِ اسلام کے لیے لڑ رہے ہیں جبکہ حقیقی صورت حال یہ نہیں ہے بلکہ دنیا کے کسی بھی حصے میں نفاذِ اسلام یا شریعت کے قوانین کی ترویج کی جدوجہد ہو اس کا سامنا اصل میں ایک بین الاقوامی نظام سے ہے اور ایک مضبوط عالمی نیٹ ورک سے ہے جو ساری دنیا میں ’’انسانی حقوق کے چارٹر‘‘ کے عنوان سے مغرب کا طے کردہ سیاسی اور معاشرتی نظام نافذ کرنے کے لیے پوری طرح مستعد ہے۔ 

عالم اسلام اور مغرب

(ستمبر ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter