مولانا قاضی حمیداللہ خان بھی رخصت ہوگئے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا قاضی حمیداللہ خانؒ کو آج (۱۹؍ اپریل، جمعرات کی) صبح شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد ان کے آبائی وطن چارسدہ کے لیے رخصت کیا تو کم وبیش گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی۔ قاضی صاحب شوگر کے مریض خاصے عرصے سے تھے۔ کچھ دنوں سے گردوں کا عارضہ بھی ہوگیا اور وہ گردوں کی مشینی صفائی کے مرحلہ سے گزار رہے تھے جس کے بعد جگر نے بھی متاثر ہونا شرو ع کردیا اور آج وہ ان تمام مراحل سے گزرکر اپنے خالق ومالک کے حضور پیش ہونے جارہے ہیں ۔ ان للہ مااخذ ولہ مااعطی ولکل شئی عندہ اجل مسمّیٰ، انا للہ واناالیہ راجعون۔

مولانا قاضی حمیداللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میری رفاقت کا عرصہ چارعشروں سے متجاوز ہے۔ میں ۱۹۷۰ء میں مرکزی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبدالواحد قدس سرہ العزیز کی نیابت وخدمت کے لیے آیا تو مولانا حمیداللہ خان کو یہاں آئے ایک سال ہوچکا تھا۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ میں مدرس رہے اور پھر ۱۹۶۸ء میں مرکزی جامع مسجد کے مدرسہ انوارالعلوم میں آگئے اور سال رواں کے آغاز تک کم وبیش پینتالیس برس تک مسلسل تدریسی خدمات سرانجام دیتے رہے۔وہ معقولات ومنقولات پر یکساں دسترس رکھتے تھے، مگر معقولات میں ان کی تدریس کی شدت زیادہ تھی اور دوردراز سے طلبہ ان سے درسی استفادہ کے لیے ذوق وشوق کے ساتھ جمع ہوتے تھے۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے جو پاکستان کے علاوہ بھارت، افغانستان، ایران، بنگلہ دیش اور وسطی ایشیا کے ممالک تک پھیلے ہوئے ہیں۔ وہ ان تھک مدرس تھے۔ ایک زمانہ میں وہ صبح کی نما زکے بعد پڑھانے بیٹھتے اور عشاء کے بعد تک مسلسل پڑھاتے رہتے۔ بیک وقت روزانہ بیس سے زائد اسباق پڑھاکر بھی وہ تازہ دم اور چاق وچوبند دکھائی دیتے۔ لیکن گوجرانوالہ اور گردونواح میں ان کی زیادہ مقبولیت وشہرت ان کے اس عوامی درس کی وجہ سے ہوئی جو وہ مغرب کی نماز کے بعد مرکزی جامع مسجد میں عوام الناس کے لیے دیتے تھے اور وہ اپنے دور میں شہر کا مقبول ترین عوامی درس شمار ہوتا تھا۔ مرکزی جامع مسجد میں ایک عرصہ تک یہ سلسلہ رہا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد میرا درس ہوتا تھا جو نماز فجر کے معمول کے نمازیوں کے لیے ہوتا ہے اور اب تک بحمداﷲتعالیٰ جاری ہے، جبکہ مغرب کے بعد مولانا قاضی حمیداللہ خانؒ درس دیتے تھے جس کے لیے شہر اور گردنواح سے لوگ جوق درجوق آتے تھے اور بڑی محبت وعقیدت کے ساتھ ان کا درس سنتے تھے۔ اس درس کے ذریعے بہت سے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے، لوگ دین سے جڑے ہوئے ہیں، ان میں نماز کی پابندی اور سنت نبوی کی پیروی کا ذوق پیدا ہوا ہے اور خیر کے کاموں کی رغبت بڑھی ہے۔قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ امام رازیؒ اور امام غزالیؒ کے ارشادات بھی ان کے مطالعہ کے دائرے میں رہتے تھے تو ان کی بات سامعین کے دلوں میں اترتی چلی جاتی تھی۔

میری ان کے ساتھ تدریسی رفاقت کم وبیش اٹھارہ بیس برس رہی ہے، مگرمیں صبح نماز کے بعد دو تین اسباق پڑھاکر فارغ ہوجاتا تھا اور وہ سارا دن پڑھاتے رہتے تھے اور ہر فن اور موضوع کی کتاب بلاتکان پڑھالیتے تھے۔ انہوں نے مدرسہ مظاہرالعلوم کے نام سے ایک الگ مدرسہ بھی بنایا اور دونوں مدرسوں میں ان کی تدریس کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رہا۔ ۱۹۸۲ء تک جب تک حضرت مولانا مفتی عبدالواحدؒ حیات تھے، ہم دونوں کی حیثیت ان کے نائب ومعاون کی تھی۔ حضرت مفتی صاحب مہتمم اور خطیب تھے۔ قاضی صاحب مرحوم مدرسہ کے معاملات میں اور راقم الحروف مسجد کے معاملات میں ان کی نیابت کی خدمت سرانجام دیتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب کی وفات کے بعد ہم دونوں نے باہمی مشورہ کے ساتھ اس تقسیم کار کو مستقل شکل دے دی اور پھر اس کے مطابق اب تک ہمارے معاملات چلتے آرہے ہیں۔ بہت سے مواقع پر اختلافات پیدا ہوتے رہے جو فطری بات ہے، لیکن اس انڈراسٹینڈنگ کا انہوں نے بھی پوری طرح احترام کیا، میں نے بھی حتی الوسع اس کی کوشش جاری رکھی اور ہمارے معاملات کا بھرم بحمداللہ قائم رہا۔ 

۱۹۷۵ء کے دوران جامع مسجد نور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والے جمعیت علمائے اسلام کے ملک گیر ’’نظام شریعت کنونشن‘‘ میں حضرت مولانا مفتی محمود قدس سرہ العزیز نے پرائیویٹ شرعی عدالتوں کے قیام کا اعلان کیا اور اس کے لیے مختلف سطحوں پر ملک کے بہت سے حصوں میں قاضی مقرر کیے گئے تو مولانا قاضی حمیداللہ خان کو گوجرانوالہ کے لیے ضلعی قاضی مقرر کیا گیا جس کے بعد قاضی کا خطاب ان کے نام کا لازمی حصہ بن گیا ۔ورنہ اس سے قبل وہ مولانا حمیداللہ خان کے نام سے پکارے جاتے تھے، اس موقع پر بعض مقدمات بھی فیصلے کے لیے ان کے پاس آتے پھر قضاء کا یہ سلسلہ تو نہ چل سکا لیکن مولانا حمیداللہ خان کو مستقل طور پر قاضی حمیداللہ خانؒ کا مقام حاصل ہوگیا۔

قاضی صاحب مرحوم مزاجاً سیاسی نہیں تھے، لیکن جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ ہمیشہ وابستہ رہے، حتیٰ کہ جس زمانے میں جمعیت علمائے اسلام درخواستی گروپ اور فضل الرحمن گروپ کے نام سے دو دھڑوں میں تقسیم تھی، میں درخواستی گروپ میں سرگرم تھا، مگر قاضی صاحب فضل الرحمن گروپ کے سرکردہ حضرات میں شمار ہوتے تھے۔ اس طرح مرکزی جامع مسجد اور مدرسہ انوارالعلوم ،ان دونوں گروپوں کی باہمی کشمکش کا میدان تھا۔ ہماری کشمکش بھی چلتی تھی اور رفاقت بھی جاری تھی جبکہ مشترکہ کاموں میں اکٹھے کام بھی ہم کرلیتے تھے۔

متحدہ مجلس عمل کے قیام کے بعد جب جمعیت علمائے اسلام نے قاضی حمیداللہ خانؒ کو قومی اسمبلی کی شہری سیٹ کے لیے متحدہ مجلس عمل کا امیدوار بنانے کا اعلان کیا تو عوامی حلقوں نے انہیں خاصی پذیرائی بخشی اور وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے، اس میں مختلف مذہبی مکاتب فکر کے اتحاد کے ساتھ ساتھ قاضی صاحب کی شخصیت اور ان کے ان عوامی درسوں کا بھی بہت بڑا حصہ تھا جو وہ مرکزی جامع مسجد اور شہر کی دیگر بہت سی مساجد میں دیا کرتے تھے اور جن کی مقبولیت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔

قومی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے انہوں نے گوجرانوالہ میں ’’میراتھن ریس‘‘ کو روکنے کے لیے جو جرأت مندانہ کردار ادا کیا ،وہ ان کی دینی وقومی حمیت کے اظہار کے علاوہ گوجرانوالہ کے مذہبی ماحول اور دینی حلقوں کے جذبات کی ترجمانی بھی تھی جس پر ان حلقوں نے اطمینان کا سانس لیا اور قاضی صاحب موصوف کو خراج تحسین پیش کیا جو اسلامی روایات اور مشرقی ثقافت کے تحفظ میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مغربی وہندوثقافت کے مسلسل فروغ سے پریشان ہیں۔ آج مولانا قاضی حمیداللہ خان رحمہ اللہ تعالیٰ ہم سے رخصت ہوگئے ہیں مگر ان کی یادیں باقی ہیں اور گوجرانوالہ میں ان کی دینی وتعلیمی خدمات کے اثرات ایک عرصہ تک لوگوں کے دلوں میں ان کی یاد کو تازہ رکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جواررحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرجمیل کی توفیق سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔

اخبار و آثار

(مئی ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter