لاہور میں بھاٹی چوک انتہائی پر رونق اور تاریخی جگہ ہے جہاں دلچسپ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ سامنے ہی حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مرقد ہے جہاں فاتحہ خوانی کے لیے ہر وقت عوام وخواص کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ سفید پوش، درویش اور بد اندیش ہر ایک نے یہاں اپنی حاضری لگانی ہوتی ہے۔ ایک دن میں جونہی بھاٹی چوک کے وسط میں پہنچا تو بیچ چوراہے کے ایک نوجوان نے مجھے روک لیا جیسے وہ برسوں سے مجھے جانتا ہو۔ کہنے لگا کہ یہ عورت میری بیوی ہے جس کے سہارے میں چل پھر رہا ہوں۔ اس کی حالت بتا رہی تھی کہ اس پر فالج کا دردناک حملہ ہو چکا ہے۔ بتانے لگاکہ میں ایک عرصہ سے عیسائیت سے تائب ہو کر مسلمان ہو چکا ہوں۔ میری کس مپرسی دیکھ کر ایک دردمند مسلمان نے کوٹھا پنڈ (ملحق ماڈل ٹاؤن) میں ایک فلیٹ میرے نام الاٹ کر دیا ہے۔ بعض دیگر مسلمان بھائیوں نے میرا وظیفہ بھی مقرر کیا ہے، مگر اللہ کی طرف سے آزمائش میں گرفتار ہو چکا ہوں۔ ہر طرح کے علاج معالجہ کے باوجود فالج کا اژدہا مجھے نگلتا جا رہا ہے۔ کسی صاحب نے آپ کی نشان دہی کی ہے۔ اگر آپ میرے حالات پر نظر کرم فرمائیں تو ممنون ہوں گا۔ میں نے عرض کیا کہ :
رومی نہیں، حافظ نہیں، اقبال نہیں ہیں
کچھ آپ سے بہتر تو بہرحال نہیں ہیں
کس نے میری نشان دہی کر دی؟ لیکن نومسلم کی لجاجت حد سے بڑھتی جا رہی تھی، جبکہ میرے پاس اس کی خواہش کی تکمیل کا کوئی حیلہ نہ تھا۔ اس کی نوجوان بیوی کہنے لگی کہ آپ اس وقت ہمارے آخری مسیحا اور وسیلہ ہیں، ہمیں مایوس نہ کریں۔ میں نے سوچا کہ بھیجنے والا یقیناًمجھے جانتا ہوگا۔ اس وقت میری جیب کے ساتھ ذہن بھی خالی تھا، لیکن اس نومسلم جوڑے کو خالی ہاتھ بھیجنا بھی مناسب نہ تھا۔ چند قدم کے فاصلے پر عبد اللہ جہانیاں والے رحمۃ اللہ علیہ کے ہر دلعزیز فرزند ارجمند جناب حکیم عبد الوحید سلیمانی کے دواخانہ پر نظر پڑی جن سے ایک عرصہ سے میری شناسائی تھی۔ میں نے حکیم صاحب کے کتب خانہ کی کوئی کتاب نہیں چھوڑی جس کا میں نے مفت مطالعہ نہ کیا ہو، لیکن انھوں نے میرے حالات دیکھ کر کبھی ماتھے پر شکن نہیں ڈالی۔ ان کی فیاضی کی انتہا تھی کہ ایک موقع پر مجھے پیشاب میں کالے رنگ کے لاتعداد چھلکے آنے لگے تو میری داستان سن کر وہ گھبرا گئے اور کہا کہ آپ کو پتہ نہیں کہ آپ کس مرض میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ فوراً بے قراری کے ساتھ انھوں نے ایک نہایت قیمتی نسخہ مرحمت فرمایا۔ اس قسم کی بے بہا خوبیاں جہانیاں کا خاندان اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔
خیر، حکیم صاحب کے دوا خانے پرنظر پڑتے ہی جان چھڑانے کی ایک ترکیب سوجھ گئی۔ میں نے کاغذ کے ایک پرزے پر لکھا کہ یہ نومسلم نوجوان آپ کی توجہ کا مستحق ہے۔ اگر آپ نے فیاضی کا مظاہرہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھوں اس نومسلم جوڑے کی دنیا سنوار جائے۔ نیچے میں نے اپنا نام لکھ دیا۔ چٹ اس نومسلم کو دی کہ یہ سامنے حکیم صاحب بیٹھے ہیں، جا کر ان کو دے دیں۔ ساتھ ہی میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ریٹھے کا نسخہ بھی بتا دیا۔ میری خواہش تھی کہ کسی بھی آبرومندانہ طریقے سے میری جان چھوٹ جائے اور کچھ نہ کچھ ان کے درد کا بھی مداوا ہو جائے۔ غالباً چار ماہ کے بعد اچانک اسی نوجوان مسلم جوڑے سے سر راہ ملاقات ہو گئی۔ میں نے حال احوال پوچھا تو کہنے لگا کہ ہاتھ ملائیں۔ میں نے ہاتھ ملایا تو کہنے لگا کہ اب ہاتھ چھڑائیں۔ میں واقعی اس کی گرفت سے اپنا پنجہ نہ چھڑا سکا۔ کہنے لگا کہ آپ کے ردی کے کاغذ پر لکھے گئے رقعے نے میری دنیا بدل دی۔ میں آپ کا رقعہ لے کر حکیم سلیمانی صاحب کے پاس گیا تو انھوں نے فوراً ایک چھوٹا سا لفافہ روپوں سے بھر کر کچھ ادویہ بھی مرحمت فرمائیں اور ساتھ ہی آپ کے نسخے کی تائید وتصدیق فرمائی اور کہا کہ میرے ساتھ رابطے میں رہیں۔ جب تک مرض ختم نہیں ہوتا، دوا برابر لیتے رہیں، مگر ایک ہی بار کے بعد پھر ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
حکیم صاحب نے میرے ایک معمولی کاغذ کے پرزے کو اتنی پذیرائی بخشی کہ میں شرم کے مارے آج تک ان کا شکریہ بھی ادا نہیں کر سکا۔