سیمینار: ’’ائمہ و خطبا کی مشکلات، مسائل اور ذمہ داریاں‘‘ (۱)

ادارہ

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سیمینار)


ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز 

(خطیب جامع مسجد ٹی بلاک، DHA، لاہور)

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد

محترم علماء کرام اورحاضرین محترم!

الشریعہ اکیڈمی اپنی روایات کو برقراررکھتے ہوئے اس اہم ترین مذہبی اورمعاشرتی مسئلہ پر سیمینار منعقد کرانے پرمبارکباد کی مستحق ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے منتظمین کو اور معاونین کو اجرعظیم سے نوازے۔

مجھ سے ایک ہفتہ قبل میرے بھائی محترم عمار خان ناصر نے ارشاد فرمایا کہ آپ جس جگہ پرخطابت کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں،وہ سوسائٹی اوروہ علاقہ باقی علاقوں سے کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ لامحالہ وہاں کے مذہبی مسائل یاوہاں کی مساجد کا ماحول،اس کا جو آپ تجربہ رکھتے ہیں، وہ ہمارے حاضرین کے ساتھ، امہ اورخطباکے ساتھ شیئر کریں تاکہ کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملے اور جو ائمہ کی ذمہ داریاں ہیں،عملی بنیادوں پر اس کا کوئی حل بھی ہمارے سامنے آئے۔ چنانچہ ا س حوالے سے میں اپنی معروضات کو دوحصوں میں تقسیم کرتاہوں۔ پہلایہ کہ جس ادارے میں، میں خطابت کی ذمہ داریاں سرانجام دے رہاہوں، اس کا نظم ونسق کیاہے ۔جب میں تفصیل سے بیان کروں گاتو یقینی طور پر بہت سی چیزیں عام سوسائٹی سے ہٹ کر وہاں نظر آئیں گی اور جوہمارے منتظمین حضرات ہیں، ان کے لیے بھی بہت سے اصول ان تفصیلات کے اندر موجود ہیں۔ دوسری چیز جوآج کی نشست کاعنوان ہے، وہ ہے ائمہ حضرات کی مشکلات۔ بہرحال ان مشکلات اور ان کے حل کی طرف بھی ہم کچھ توجہ دیں گے۔

حضرات محترم!

(DHA) لاہور (ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی) یہ پاکستان آرمی کے ماتحت ایک بااختیار ادارہ ہے۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد اپنے رہائشیوں کوعالمی سطح کی رہائشی سہولیات فراہم کرنا ہے،لیکن ظاہر بات ہے کہ مسلم سوسائٹی کے اندر کوئی بھی کالونی، کوئی بھی رہائشی ادارہ بنے گا تومساجد تومسلم معاشرے کاایک اہم حصہ ہیں چنانچہ اپنے قیام سے لے کرآج تک گزشتہ پچیس برسوں سے ہمارے ہاں ڈی ایچ اے (DHA) لاہور میں مساجد کا ایک منظم ااورمستحکم شعبہ ہے جو اپنے رہائشی خواتین وحضرات کی دینی اورروحانی ضروریات کوپوراکررہاہے۔ اس وقت ہمارے ہاں کل ستائیس مساجد تعمیر ہوچکی ہیں جن میں سے چار جامع یعنی بڑی مساجد ہیں اورباقی تئیس سیکٹر یعنی محلے کی مساجد ہیں۔ تفصیلات اور خصوصیات میں عرض کرتاہوں۔ 

ایک چیز جس کی بنیادپر (DHA) کا پورے کا پورامذہبی ماحول کھڑاہے اورشعبہ مساجد کام کررہاہے، وہ ایک جملہ ہے: ’’مسجد تمام مسلمانوں کے لیے ہے‘‘۔ ہمارے ہاں جو روایتی کلچر ہے مساجد کا، اس سے ذرا ہٹ کر ہمارے ہاں ہر مسجد ہرمسلمان کے لیے ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں مساجد کے نام متعین نہیں ہیں۔ جامع مسجد رضوی قادری نہیں ہے، جامع مسجد حنفی مدنی نہیں ہے، کسی مسجد کا کوئی نام نہیں ہے۔ہمارے ہاں مساجد منسوب ہیں محلے یاسیکٹر کے ساتھ، مثلاً جامع مسجد فیز ۱، جامع مسجد فیز ۲، جامع مسجد سیکٹر۔ یوں ہمارے ہاں کسی مسجد کا کوئی نام نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے لوگ پہلے سے ہی تقسیم شدہ ہیں۔ جونہی کسی علاقے میں کوئی نئی مسجد بنتی ہے، وہ لوگوں کے درمیان اجتماعیت کی بجائے ایک اور تقسیم کی بنیاد رکھتی ہے،چنانچہ یہ وحدت امت کا ایک عالمی تصور ہم نے وہاں رائج کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسجد تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ جن کو ہم مسلمان یعنی اہل سنت والجماعت کہتے ہیں، سب کو مسجد میں داخلہ کی اجازت ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں جو ائمہ اورخطبا کاتقرر ہوتا ہے، وہ بھی روایتی طرز سے ذراہٹ کر ہوتا ہے۔ عام طور پر ائمہ وخطبا کا تقرر کسی ذاتی تعلق یاکسی کی سفارش پر یاجو وہاں کی منتظمہ کمیٹی ہوتی ہے، اس کی صواب دید ہے کہ وہ جس مولوی کا چرچا سنیں یا اس کی خصوصیات ان کے سامنے ہوں، اس کو وہاں پر متعین کرتے ہیں۔ (DHA) لاہور میں ایک باقاعدہ پروسیجر ہے،پوراایک نظم ہے ائمہ اورخطبا کی بھرتی کے لیے۔ مثلاً ہمارے ہاں جتنی جگہیں خالی ہوتی ہیں یاجتنے افراد ہمیں مطلوب ہوتے ہیں، ان کے لیے مشہور اخبار میں اشتہار دیے جاتے ہیں۔ اشتہار دیکھ کر جودرخواستیں ہمارے پاس موصول ہوتی ہیں، ان درخواستوں کا جائزہ لیاجاتاہے، سندات چیک کی جاتی ہیں،ان کے وفاقوں اوران کی یونیورسٹیوں سے ان کی سندیں چیک ہوتی ہیں۔ پھر جو امیدوار اہل قرار پاتے ہیں،جوشخص مسلسل آٹھ سال کا درس نظامی پڑھ کر نہیں آیا، اس کے اندر وہ علمی پختگی ہوہی نہیں سکتی، اس کے مقابلہ میں جوآٹھ سال پڑھتا رہا، آٹھ سال کا درس نظامی اوراس کے علاوہ کسی بھی یونیورسٹی سے ایم اے کی سند ہونا کسی بھی مضمون میں ایم اے کاہونا ضروری ہے، جبکہ موذن اورخادم کے لیے میٹرک اورحفظ وتجوید، یہ اس کے لیے لازم ہے ،چنانچہ جب درخواستیں ہمارے پاس آجاتی ہیں توپھر ان امیدواران کوہم تحریری امتحان کے لیے لکھ دیتے ہیں کہ فلاں دن آپ کا تحریری امتحان ہوگا۔یہ تحریری امتحان دورۂ حدیث اورایم اے کو ملا کر بنایاجا تا ہے، وہ آسان نہیں ہوتا۔ جوقابل علماء کرام ہوتے ہیں، وہ ہی اس میں کچھ نمبر حاصل کرپا تے ہیں، ور نہ اکثریت علماء کرام کی جوگزر کرآئے ہوتے ہیں، وہ ہمارا ٹیسٹ پاس نہیں کر پاتے۔

اس تحریری امتحان کوپاس کرلینے کے بعد وہیں پر اسی نشست کے بعد حفظ وتجوید کاامتحان ہوتا ہے۔ ہمارے ہی ڈیفنس کے جومستند علماء کرام ہیں، وہ تجوید اور حفظ کا امتحان لیتے ہیں۔ ان دومرحلوں میں جوحضرات پاس ہوتے ہیں، ان حضرات کی لسٹ عصر کے وقت دفتر کی طرف سے آویزاں کردی جاتی ہے اوراس سے اگلے روز ان دونوں مرحلوں سے پاس شدہ امیدواران کوہم انٹرویوکے لیے بلاتے ہیں ۔ اس انٹرویو پینل میں تین حاضر سروس فوجی آفیسر ہوتے ہیں اور د وعلماء کرام ۔ ان پانچ لوگوں کا بورڈ ہوتاہے جوایک ایک کرکے ان کا انٹرویو کرتاہے۔ ان کی علمی، فنی، شخصی قابلیت دیکھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے انٹرویوپینل یا ان حضرات کو مطمئن کردیں تواس کے بعد ان کا انتخاب ہوجاتا ہے، لیکن وہ انتخاب مشروط ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے کے جوایڈ منسٹریٹر جوبریگیڈیئر صاحب ہیں اور وہ بھی دینی ذہن والے ہوتے ہیں، آخری مرحلے پر وہ انٹرویو کرتے ہیں۔ کسی بھی مرحلے پر کوئی کمی محسوس کی جائے تواس امیدوار کاانتخاب منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اس پورے پروسیجر میں کہیں بھی کوئی رشوت نہیں لی جاتی، کہیں پر کوئی سفارش یا ذاتی تعلق کام نہیں آتا، حتیٰ کہ جو پیپر تحریری طور پر لیے جاتے ہیں، ان پر بھی رول نمبر لکھاجاتاہے، نام نہیں لکھا جاتا اوراس وقت جو تمام علماء کرام ڈیوٹی پرموجود ہوتے ہیں، ان کو اپنا موبائل فون اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ یوں اس پورے نظام اوراس پوری ترتیب کے بعد جو علماء کرام ہمارے پاس منتخب ہوکرآتے ہیں، وہ الحمد للہ ہرلحاظ سے قابل ہوتے ہیں۔ 

اب جب کسی کا انتخاب ہوجاتاہے توان ائمہ وخطبا کو ان کے فرائض منصبی تحریری طور پر لکھ کر دیے جاتے ہیں کہ امام صاحب! آپ نے یہ یہ کام کرنے ہیں۔ بائیس نکات ہیں جن کی پا بندی ہرامام وخطیب کے لیے لازمی ہے۔مثلاً اس کے اندر سب سے بنیادی چیز جس کو بہت حساسیت کامعاملہ قرار دیاجاتا ہے، وہ یہ ہے کہ مسجد میں غیر فرقہ وارانہ ماحول کو قائم کرنا، کسی بھی قسم کی جانبداری یاکسی بھی لحاظ سے مسلکی وابستگی کا اظہار، خاص قسم کا عمامہ یاخاص قسم کے کلمات جن سے فرقہ واریت یاجانبداری جھلکتی ہو، اس پر پابندی ہے۔ اس کے فوائد میں عرض کرتا ہوں۔ میں الحمد للہ نصرت العلوم سے فارغ ہوں، میری ساری تعلیم وہاں سے ہے ،مولانا زاہدالراشدی صاحب خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔ میرا ساراگھرانہ الحمدللہ علماء دیوبند سے وابستہ ہے اورانہی سے وابستگی کو ہم اپنی سعادت سمجھتے ہیں، لیکن حالا ت اورماحول کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں جوروایتی ہمارا ماحول ہے جہاں پر پہلے ہم رہے ہیں اورجودوسرا ماحول ہے جہاں پر جاکر ہم نے یہ دیکھا کہ کسی مسلکی وابستگی کوعوام الناس کے سامنے ظاہر نہ کیاجائے تو اس کے زیاد ہ فوائد ہوتے ہیں۔ اس کی مثال میں عرض کرتاہوں۔ ائمہ مساجد کو جوفرائض منصبی دیے جاتے ہیں، ان میں سب سے مقدم چیز یہ ہوتی ہے کہ آپ مسجد کے غیر فرقہ وارانہ ماحول کوبرقرار رکھیں، نماز پنجگانہ کی آپ امامت کرائیں ۔اسی طرح نماز عیدین، تراویح، جمعۃ المبارک کے خطبات آپ دیں گے اورمساجد کے انتظام، ان کی صفائی کی نگرانی اور نمازی حضرات کے ساتھ مثالی اخلاقی رویہ رکھیں اورصبر وتحمل کاہر وقت اظہار،پاک و صاف اورشرعی لباس ہر وقت زیب تن رکھنا، نکاح وغمی کی تقریبات جومحلے کے اندر ہوں، ان کے اندر شرکت کرنا ،یہ امام و خطیب کے فرائض منصبی تحریری طور پر ہمارے ہاں دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں (DHA)لاہور میں جوجمعہ کے خطبات ہوتے ہیں یاجوعیدین کے خطبات ہوتے ہیں، وہ بھی ایک باقاعدہ ترتیب کے بعد ایک نظم کے بعد Deliver ہوتے ہیں اور عوام الناس کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں جس کا انتظام شاید ہی کہیں ہوتاہو۔ مثلاً قمری سال کے آخری مہینے میں پانچ علماء کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے۔ وہ کمیٹی باقی تمام علماء کرام سے تجاویز لیتی ہے کہ اگر آپ کو خطبہ لکھنے کوکہاجائے توآپ کاتحقیقی دلچسپی کا عنوان کیاہے؟ان سے تجاویز لے کر ہر سال کے ۵۴ خطبات ،عیدین سمیت محرم شروع ہونے سے پہلے ترتیب دیے جاتے ہیں۔ ان کے عنوانات اوران کے مرتب کرنے والے حضرات ،اس کی ایک فہرست بنادی جاتی ہے اوروہ فہرست تمام ائمہ میں تقسیم کردی جاتی ہے۔ ہر خطیب صاحب سال میں تقریباً تین خطبے لکھتے ہیں، بعض کے حصے میں دوآتے ہیں۔ لکھنا خطیب صاحب نے ہے، وہ اپنی تحقیق کرنے لائبریری میں جائیں،کتابیں کھنگالیں، جہاں سے بھی تیار کریں۔ وہ خطبہ لکھنا کیسے ہے؟ اس کا بھی فارمیٹ یااس کا انداز وہ ائمہ کرام کوپہلے سے تقسیم کر دیا جاتا ہے ۔لکھائی کا اتنا سائز ہو،اتنی لائنیں ہوں،اتنے صفحے ہوں، وہ سب کے علم میں ہوتاہے۔

خطیب صاحب نے جب خطبہ ترتیب دے دیا تووہ اپنی مرکزی مسجد کے خطیب اعلیٰ کے پاس جائیں گے۔ مثلاً ہمارے ڈیفنس کے اندرآبادپانچ فیز ہیں اورہر فیز کے اندر کئی سیکٹر، کئی محلے ہیں۔ میں فیز ٹو کانگران ہوں اورمیرے ماتحت آٹھ مساجد ہیں۔ ان آٹھ مساجد کے خطیب صاحب اپناخطبہ تیار کر کے میرے پاس آتے ہیں۔ میں اس کو اپنی نظرسے یعنی اصلاح سے بھرپور تنقیدی نظر سے دیکھوں گا اورجہاں پر کوئی کمی دیکھوں یا کوئی قابل اصلاح چیز دیکھوں، وہیں پر لکھ دیا۔اگر زیاد ہ تبدیلی ہے توخطیب صاحب سے کہاجائے گا کہ اس کویوں کر کے لائیں۔ اگرگزارا ہے تو پھر میں اپنے تاثرات لکھ کر جوڈائریکٹر دینی امور ہیں، ان کے پاس بھیج دوں گا۔ہمارے جوڈائریکٹر دینی امور ہیں، وہ الحمدللہ جامعہ بنوری ٹاؤن سے فارغ ہیں اورساتھ ساتھ آرمی سے بریگیڈیئر فارغ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دونوں شانیں دی ہیں۔ انتہائی علمی شخصیت ہیں۔ وہ ا س کو دیکھیں گے اورپھر اس پورے نظم سے گزرنے کے بعد ستائیس مساجد کے علماء کرام کے پاس اس کی فوٹوکاپی پہنچ جائے گی۔ خطبہ deliver ہونے سے ،اس جمعہ سے تقریباً ایک ہفتہ پہلے خطیب صاحب اس کو اپنے طور پر پڑھیں گے ۔ہمارے ہاں ہرہفتے تمام خطباء کرام کے تقریباً دواجلاس ہوتے ہیں اورہراجلاس کے اندر شعبہ مساجد کا تمام عملہ موجود ہوتا ہے۔ خطیب صاحب (تمام خطبا) ہفتے میں سوموار کے روز آتے ہیں۔ نوسے لے کر ساڑھے دس تک ہماری میٹنگ ہوتی ہے۔اس میں ہر خطبہ لفظ بلفظ پڑھاجاتا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد تمام علماء کرام جہاں بھی مناسب سمجھیں، تجویز دے سکتے ہیں کہ یہاں پر یہ ہوناچاہیے یا ا س فقہی مسئلے کے اندر یہ تفصیلات ہیں، اس کو یوں ہوناچاہیے۔ ڈائریکٹر دینی امور تمام علماء کرام کی موجودگی میں اگروہ رائے درست ہوتواس کو بھی ساتھ درج کردیاجاتاہے۔ یوں سوموارکے دن اس خطبے کاصحیح طورپر تنقیدی جائزہ ہوتا ہے۔

جمعرات کے دن نوسے لے کے ساڑھے دس تک دوسری بار تمام علماء کرام اسی جگہ اکٹھے ہوتے ہیں اورایک خطیب صاحب اورایک مؤذن صاحب اس خطبہ کو اسی طرح بیان کرتے ہیں جس طرح انہوں نے کل جمعہ کولوگوں کے سامنے بیان کرنا ہوتا ہے۔ہمارے ہاں پچیس سے تیس منٹ کا جمعہ کاخطبہ ہوتا ہے اور وہ پورا وقت ان کو دیاجاتاہے۔ وہ بیان کرتے ہیں، اس کے بعد جوسامعین علماء کرام بیٹھے ہیں، ان کو کہاجاتا ہے کہ آپ ان کے خطبہ پر تبصر ہ کیجیے۔انہوں نے کہاں پر تلفظ کی غلطی کی ہے، کہاں پر ان کے بیان میں زور نہیں رہااورکس چیز کو کیسے بیان ہوناچاہیے تھا۔ تمام علماء کرام کوفری ہینڈ ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا تبصرہ دے سکیں اور الحمدللہ ہمارے علماء کرام اسے وسعت قلبی کے ساتھ سنتے ہیں۔ یوں جہاں پر ہمارے جمعہ کاخطبہ پورے ہفتہ کے دوران تیار ہورہاہے، وہیں پر تمام خطباء کرام ستائیس خطبا، پانچ نائب خطبا ہمارے ہاں تقریباً ۶۵افرادکے قریب مساجد کا عملہ ہے، ان لوگوں نے جہاں ہفتے میں دوبار ایک دوسرے کو ملنا ہے، جہاں پر خطبہ کی تیاری ہورہی ہے، وہیں پر ان کا آپس کاجو ربط وتعلق ہے، وہ پروان چڑھ رہاہے۔ 

ہمارے ہاں ڈیفنس کے اندر چار سال کے اندر چار بڑے اجتماع ہوتے ہیں۔جمعہ اورعیدین کے علاوہ ،مثلاً ہرمہینے ایک اصلاحی بیان ہوتاہے۔اس اصلاحی بیان میں جواصلاحی عنوانات ہوتے ہیں عوام کے فائدے کے لیے ان کو منتخب کیاجاتاہے کہ ایک عام آدمی کامسئلہ کیاہے۔ ایک عام آدمی کو مسجد کے آداب کاپتہ ہوناچاہیے ،ایک عام آدمی کو اپنی دکان،اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے اپنی تجارت میں کن اسلامی اصولوں کاخیال رکھناچاہیے،یعنی ہمارے جو معاشرتی مسائل ہیں، ہم ان کو فوکس کرتے ہیں اورہر مہینے میں ایسی مجلس قائم ہوتی ہے اوراس کی ترتیب بھی سال کے شروع میں طے کردی جاتی ہے کہ یہ علماء کرام ان عنوانات پر فلاں مسجد میں خطاب فرمائیں گے اورہمارا یہ دورانیہ مغرب سے عشا تک ہوتا ہے ۔یہ کچھ خصوصیات ہیں جومیں نے آپ حضرات کے سامنے عرض کیں۔ ہمارے ہاں جونظم ونسق چل رہا ہے، اس کی وجہ سے لاہور کی اکثر رہائشی کالونیوں نے ہم سے رابطہ کیا،مثلاً گرین سٹی ،بحریہ ٹاؤن ،پیراگاؤن سٹی ، لیک سٹی وغیرہ یہ بڑے بڑے رہائشی منصوبے ہیں جنہوں نے ہمارا پورے کا پورا مساجد کا نظام اٹھاکر اپنی مساجد میں نافذ کر دیا ہے۔ میں آپ سے یہ عرض کرر ہاہوں کہ ہم جو دینی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں،ہمیں فرقہ واریت اوراس تقسیم کی سنگینی کا شاید اتنا احساس نہ ہو جتنا کہ ایک عام آدمی کو ہے یاجوخصوصی طورپر شہروں میں آباد ہیں یاجواچھی کالونیوں کے اندررہنے والے ہیں وہ جس قدر حساس ہوتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ ہم مولوی کی لڑائی میں نہ پڑیں۔ چنانچہ وہ شروع سے ہی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا نظام یہاں پر نافذکریں کہ جوکسی بھی قسم کی فرقہ واریت اور مسلکی تعصب سے پاک ہو۔ 

یہ تفصیل تومیں نے عمار ناصر صاحب کے حکم پر عرض کردی کہ شاید بہت ساری قابل تقلید چیزیں اوراصول ہیں، وہ علما اخذ کرسکیں۔اب جو ہماری آج کی نشست کا عنوان ہے اورمیری گفتگو کا جودوسرا حصہ ہے، وہ یہ ہے کہ جوہمارے دیگر علاقے یادیگر شہر ہیں، وہاں جوموجود مساجد ہیں، ان کے ائمہ کے کون کون سے مسائل اورمشکلات ہیں اور ان کا حل کیاہے جس کے لیے ہماری یہ آج کی نشست منعقد کی گئی ہے۔ ائمہ اورخطبا کے چھوٹے بڑے تمام مسائل کوتقسیم کیاجائے تووہ تین طرح کے ہیں۔

۱۔سب سے پہلے مولوی صاحب کا انتظامی مسئلہ ہے۔

۲۔دوسرے امام صاحب معاشی طور پر پریشان ہیں۔

۳۔تیسرے جو ائمہ اور خطباکومسائل درپیش ہیں، وہ علمی مسئلے ہیں۔

ائمہ اور خطباکے جتنے مسائل ہیں، وہ ان تین اقسام کے اندر آجاتے ہیں۔

اب میںآپ کو جہاں کی بات سنا رہاہوں، وہاں ایک بااختیار اتھارٹی ہے ،ایک ادارہ ہے جوفوجیوں کے تحت چلتاہے اورفوجی اپنی بات منوانا جانتے ہیں۔ ان کے پاس ایک ایسا نظم ہے کہ ہر ایک کو اس کے اندر چلنا پڑتاہے۔ میں یہاں پر یہ عرض کروں گا کہ انتظامی طور پر سب سے بڑی ضرورت ہے خود احتسابی کی۔ امام نے خود کو ٹھیک رکھناہے۔ عام آبادیوں میں تقرر جیسا کہ میں عرض کیاکہ کسی ذاتی تعلق کی وجہ سے ہوتاہے، کسی کمیٹی کو کوئی صاحب پسند ہوتے ہیں یاکسی کی شہرت سنی ہوتی ہے، ان کو بلالیتے ہیں کہ آپ ہمارے ہاں خدمت سرانجام دیںیااس طرح کے ذرائع سے کسی کا تقرر کسی کی مسجد میں ہوتاہے اوردیکھنے میں یہ آیاہے کہ اکثر ائمہ حضرات اپنی کمیٹی سے یامنتظم فرد سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ہرچند کہ تمام کمیٹیاں ایسی نہیں ہیں، کچھ لوگ ہیں، لیکن بہرحال یہ شکایات موجود ہیں۔ اب کمیٹی کو امام صاحب سے یہ شکایت ہے کہ امام صاحب اپنے فرائض منصبی سے غفلت برت رہے ہیں۔ امام صاحب کو کمیٹی سے شکایت ہے کہ ان کو جواختیارات ہیں، وہ ان کا ناجائز استعمال کررہے ہیں۔ یوں دونوں کی شکایت ایک دوسرے سے ہے اورمیں یہ عر ض کروں کہ دونوں کی شکایت ایک دوسرے سے بجا ہے۔امام صاحب بھی اپنے فرائض منصبی سے غفلت برتتے ہیں، الاماشاء اللہ اورکمیٹی والے بھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں، الا ماشاء اللہ۔ اس کامناسب حل جو میں سمجھتاہوں، وہ یہ ہے کہ جب بھی کسی امام اورخطیب صاحب کا تقرر ہونے لگے تو کمیٹی کے ذمہ دار افراد کے ساتھ بیٹھ کر اپنے فرائض منصبی اوران کے اختیارات ان دونوں چیزوں کو تحریری صورت میں لایاجائے۔امام صاحب اپنے فرائض منصبی بھی ان سے لکھوا لیں اور ان کے اختیارات بھی ان سے لکھوا ئیں۔ پھر اس کے بعد اپنے فرائض منصبی کی پاسداری کی جائے اوراس کے بعد جن کو اختیارات ہیں، ان کو بھی پتہ ہوگا کہ ان کے اختیارات کہاں تک ہیں اورکہاں تک نہیں ہیں۔ یہ ہوتاہے کہ کچھ عرصہ بعد امام صاحب سے شکایات بڑھتی ہیں توکمیٹی کی طرف سے کہاجاتاہے کہ آپ یہ نہیں کرتے، آپ یہ نہیں کرتے ۔جب ایک چیز لکھی ہوئی ہوگی کہ امام صاحب کو یہ کرناہے اوریہ نہیں کرناتو امام اسی پابندی کے اندر رہ کر اپنی مصروفیات ترتیب دیں گے۔اپنے فرائض منصبی کے علاوہ وہ اسکول میں جاکربھی پڑھائیں، اپنی دکان میں بھی جاکر بیٹھیں، کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا، اس لیے کہ امام صاحب اپنے فرائض منصبی کو پورا کر رہے ہیں۔ 

دوسرے قسم کے معاشی مسائل، یہ انتہائی سنگین مسائل ہیں۔ اب تنخواہ کاکم ہوناہرمولوی صاحب کویہ شکایت ہے۔ اس تنخواہ کی کمی کو پوراکرنے کے لیے کسی اسکول یااکیڈمی کوجوائن کرنا، بھئی بچوں کاپیٹ بھی پالناہے، گھر کاسرکل بھی چلانا ہے، پانچ چھ ہزار جومسجد والے دے رہے ہیں، اس میں خرچ پورانہیں ہورہا۔ لامحالہ طورپر وہ دوسری سرگرمیوں کومنتخب کرے گا اوران میں مشغول ہوگا۔ اب ان معاشی مصروفیات کی وجہ سے اس کے فرائض منصبی میں سستی آتی ہے توپھر کمیٹی کے ساتھ اختلافات اورنتیجہ امام صاحب کی رخصتی۔

میرے محترم علماء کرام!اگر ہم معاشیات کے اصول کو دیکھیں تومعاشیات میں کسی چیز کی ویلیو بڑھانے کے لیے دو کام کیے جاتے ہیں۔ پہلاکام یہ طلب اوررسد یعنی ڈیمانڈ اورسپلائی کے اندر قدرتی ایک ربط ہوتا ہے۔ اس میں آپ بہت زیادہ فرق ڈال دیں تو قیمت گر جاتی ہے۔سادہ مثال ہے کہ چینی مارکیٹ میں نہ ہوتو وہ بہت زیادہ مہنگی ہوگی اورجب مارکیٹ میں بہتات ہوگی توچینی سستی ہوگی۔ اب یاتو علماء کرام مارکیٹ میں آنا یامسجدوں میں آنا بند ہوجائیں یا شارٹ ہو جائیں کہ مدارس سے کوئی ایسی کھیپ نہیں کہ مسجدیں خالی پڑی ہیں توپھر علماکی مانگ میں اضافہ ہوگا۔ یہ ہونہیں سکتا۔ الحمدللہ ہمارے ہاں علماء کرام کی بہتات ہے اوریہ ہمارے معاشر ے پر اللہ کا فضل ہے۔اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم علماء کرام کی سپلائی روک دیں ۔دوسرا اصول مارکیٹ کا یہ ہے کہ جوچیز ہم مارکیٹ میں دے رہے ہیں، اس کا معیار اور کوالٹی ہم بہتر کردیں کہ خریدنے والا کہے کہ یہ چیزاگر مجھے دس ہزارروپے میں بھی لینی پڑے گی تو میں لوں گا۔ جوامام اورخطیب معاشرے کے اندر عملی میدان میں آرہے ہیں، ان کا معیار اورکوالٹی اتنی اعلیٰ ہو کہ کمیٹی والے افراد اور دوسرے لوگ یہ کہیں کہ اگر یہ امام صاحب بیس ہزار بھی مانگیں تو ہم ان کی علمی،شخصی اورذاتی قابلیت کی وجہ سے ان کو تیس ہزار دینے کو بھی تیار ہیں۔ یہ دوہی راستے ہیں اپنی مانگ بڑھانے کے۔ پہلاحرام ہے اوردوسرا شریعت نے ہمارے لیے جائز کیاہے کہ ہم علماء کرام اور خطباء کرام اپنی مانگ میں خود اضافہ کریں۔ اپنی علمی، شخصی، اخلاقی قابلیت لوگوں کو مجبور کردے کہ وہ ہم کو منہ مانگے دام دیں۔ پھر ہی ہمارے معاشی مسائل حل ہوں گے۔ اس کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ہاں تقریباً سترفیصد علماء کرام جو ائمہ اورخطبا کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، میں معذرت کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ وہ حادثاتی طور پر امام یاخطیب بنتے ہیں۔ حالات ان کو امام یا خطیب بنادیتے ہیں، اس لیے کہ وہ کہیں جانہیں سکتے ،کہیں وہ پڑھا نہیں سکتے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ساری زندگی دین پڑھا ہے، اب ظا ہر ہے کہ دین کی ہی خدمت کریں گے۰ ان ائمہ وخطبا کوچاہیے کہ جیسے ہمارے اکابر نے ہماری رہنمائی کے لیے لٹریچر لکھ دیاہے جیسے حضرت تھانوی کا مکمل لٹریچر، اسی طرح حکیم الاسلام مولاناقاری محمد طیب قاسمی کے خطبات، ہمارے بزرگ مولانا عبدالرؤف چشتی صاحب، انہوں نے بڑی پیاری کتاب لکھی ہے ’’خطیب اورخطابت‘‘، وہ اپنے مطالعے میں رکھیں۔ اس طرح کے لٹریچر جو فنی طور پر ہماری مدد کرسکتے ہیں، وہ اپنے مطالعے میں رکھیں۔ یوں ہماری مانگ اورہماری قدر میں اضافہ ہوگا۔

تیسرے نمبر پر ہمارے علمی مسائل ہیں۔ ہمارے اکثر علما اور خطبا فارغ التحصیل علماکرام جن میں، میں بھی شامل ہوں، ہم جب مدارس سے نکلتے ہیں تو اپنے مطالعہ اورعلمی ترقی کووہیں پر روک دیتے ہیں اور روایتی طرز کے چند خطبات، کتابیں اور کیسٹیں جو ہماری مرکز نظر ہوتی ہیں، ان کو دیکھ کر ہم اپنے جمعہ کے خطبات تیار کر لیتے ہیں اور اس وقت ہم جہاں پر رہ رہے ہیں، اس دور کے کیامسائل ہیں؟عام آدمی کو کون کون سا مسئلہ درپیش ہے؟ وبائیں پھیل رہی ہیں، ڈینگی آرہاہے، یہ تو حقائق ہیں۔ ہمارے ہاں مساجد میں عبادات پر توبہت بات ہوتی ہے، ہونی بھی چاہیے، لیکن معاملات، عقائد، شخصی تعمیر، اخلاقی کردار سازی، نکاح، طلاق، بیوع فاسدہ، خلع اور دیگر فقہی مسائل یہ شاید علماء کرام کے خطبات میں یہ چیزیں شامل نہیں ہوتیں جو ایک المیہ ہے اورشاید یہی وجہ ہے کہ عوام الناس کو وہ رہنمائی بھی نہیں ملتی جس کے وہ خواہش مند ہوتے ہیں۔ 

میں یہ سمجھتاہوں کہ ان تینوں مسائل کے حوالے سے جو میں نے تجاویز پیش کی ہیں اپنے علم کی روشنی میں،اگر ہم اپنے انتظامی مسائل کودور کرنے کے لیے کمیٹی کے ساتھ باتیں تحریر کرلیں تووہ تجاویز ہم کو یقینی طور پر فائدہ دے سکتی ہیں۔ معاشی حوالے سے اپنی قابلیت میں اضافہ کریں اورعلمی حوالے سے اپنے خطبات کے اندر اپنے دروس کے اندر جدت لے کرآئیں اورجوایک عام آدمی کے مسائل ہیں، ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ اس کے علاوہ ایک آخری بات جو علماکرام کو تجویز ہے کہ ہمارے ہاں وسائل کم ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک علاقے کے علماء کرام کا آپس میں ربط ہو، ہفتہ میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار کھانے کے بہانے یا کسی اورمجلس کے بہانے علماء کرام ایک دوسرے کو ملیں، اپنے مقامی مسائل دوسرے بااعتماد ہم خیال لوگوں کے ساتھ شیئر کریں کہ میری انتظامیہ میرے لیے یہ مسئلے پیداکرتی ہے ،جب علماکرام سے رابطہ ہوگا اور مشورے میں برکت ہوگی توبہت سارے مسائل کا حل آپ کو اپنے گھر سے ملے گا۔ممکن ہے کہ دوسرے صاحب ان مسائل سے گزر چکے ہوں،اس لیے ضروری ہے کہ علماء کرام کاآپس کاربط وتعلق ہی مضبوط بنیادوں پرہو ، ٹانگیں کھینچنے یاحسد کی بنیاد پر نہ ہو،بلکہ اصلاحی ہمارے تعلقات ہونے چاہییں۔امید ہے کہ میری ان گزارشات کو آپ نے برداشت بھی کیاہوگا اورکچھ ان میں یقینی طور پر ہمیں رہنمائی کی باتیں بھی ملی ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ و ہ پوری زندگی دین مبین کے لیے دین کی استقامت اورتمام مسائل کے حل کے لیے ہمیں وسائل عطافرمائیں۔واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

مولانا مفتی فخرالدین عثمانی

(مدرس مدرسہ اشرف العلوم، گوجرانوالہ)

نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم، امابعد!

میرے بھائیواورمیرے دوستو !

آپ نے بڑا علمی، تفصیلی اور معلوماتی بیان سنا ہے۔ چونکہ ہم لوگ یہاں پر جمع ہیں، اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں تذکرہ کرناہے۔ کوئی مسجد کا امام ہے اور کوئی خطیب ہے، مسجد کے ساتھ تعلق ہے، مسائل ہیں اورکچھ کوتاہیاں ہیں۔ بڑی مفید باتیں سامنے آئی ہیں۔ میں اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ کرآیاتھا، ان کا تذکرہ کروں گا۔ چونکہ انتظامیہ یہاں موجود نہیں ہے، ائمہ وخطباموجود ہیں، اس لحاظ سے میں اسی پہلوپر تھوڑے وقت کے اندر اپنی گزارشات پیش کروں گا۔

سب سے پہلی بات جس کے بارے میں، میں عرض کرناچاہ رہا ہوں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ائمہ وخطبا جو ہیں، وہ نبیوں کے وارث ہی ہیں۔ انبیاکی کیاذمہ داریاں ہوتی تھیں؟ انبیاء کرام کن کن شعبوں میں کام کرتے تھے؟ آج ہم نے ایک شعبہ لے لیا، نماز کا، عبادت کا شعبہ لے لیا۔ ائمہ وخطبا کی ایک بڑی کوتاہی کی بات یہ ہے کہ جن کا کسی کالج، اسکول، مدرسے کے ساتھ تعلق نہیں ہے، نماز فجر کے بعد بہت دیر تک سوتے رہتے ہیں۔ گیارہ بارہ بجے سے پہلے ان کو اٹھنا نہیں ہے۔ وہاں لکھاہے کہ آپ نماز کے وقت خطیب صاحب سے مل سکتے ہیں، یعنی نمازسے پہلے ملنے کا کوئی ٹائم نہیں ہے۔ میرے بھائی!یہ بڑی کوتاہی کی بات ہے۔ علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں اورانبیاء کے ہاں اس طرح کا سسٹم نہیں تھا کہ فلاں وقت ملاقات ہے اور فلاں وقت نہیں ہے۔ اپنے اوقات کے بارے میں محاسبہ کریں۔ اوقات ایک بڑاسرمایہ ہیں اوراس وقت کو برباد کردینا سمجھداری کی بات نہیں ہے۔ سونے جاگنے کے بارے میں ایک نظم بنایا جائے۔

جس طرح میرے بھائی نے کہا کہ ریٹ بڑھاناہے تو اپنامعیار بڑھاؤ، معیار بڑھے گا توریٹ بڑھے گا۔ سونے سے معیار نہیں بڑھتا۔ جومعیار بڑھاتے ہیں، وہ راتوں کو جاگتے ہیں اورمحنت کرتے ہیں، اس لیے میں آپ سے گزارش کروں گا اوراپنے آپ سے بھی کہوں گا کہ لمبا سونا دن کے وقت یہ شایان شان نہیں ہے، کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ خطبااور ائمہ حضرات کااپنے ساتھیوں کے ساتھ خلط ملط ہو جانا، دکھ درد کا ساتھی بن جانا، وہ مقتدی حضرات ائمہ اورخطبا کے بارے میں یہ سمجھیں کہ ہمارے خیر خواہ ہیں، یہ ہمیں بہتر رائے دینے والے مشیر ہیں۔اس طرح ان کے ساتھ خلط ملط ہوجانا ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرز زندگی سے کیاپتہ چلتا ہے؟ حضرات صحابہ کرام اسی طرح آپ کے ساتھ خلط ملط تھے، اپنے گھریلو مسائل اسی طرح آپ کے ساتھ شیئر کرتے تھے، اپنے مسائل گھر میں حل کرنے کی کوشش کرتے تھے اورجب وہ گھر میں حل نہیں ہوتے تووہ آپ کے سامنے ان کو پیش کرتے تھے۔

مجھے واقعہ یاد ہے کہ ایک صاحب نے آپ کے سامنے اپنے بیٹے کی شکایت کی کہ بیٹے کی شادی کی ہے، وہ رات بھر نفل پڑھتاہے اوردن میں روزے رکھتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا۔ مسلم شریف میں تفصیل ہے۔ آپ نے اس سے کہا کہ بہترین روزہ وہ ہے جوحضرت داؤد علیہ السلام رکھتے تھے اورپھر آپ کا یہ فرماناکہ ان لنفسک علیک حقا وان لزوجک علیک حقا۔ تفصیل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔آج ہمارے پاس کسی مقتدی کی بات آجائے گی، وہ تذکرہ کردے گا اور پھر ہم نے چوراہے میں محلے میں اس کا اشتہار لگا دینا ہے۔ آج ہمارے مقتدی کو اعتماد نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتاہے کہ اگر میں نے اپنے گھر کی بات خطیب صاحب سے کردی تووہ دوسری محفل میں جولوگ ہوں گے، ان کے سامنے تذکرہ کردیں گے کہ فلاں صاحب ایسے ہیں اور ان کے گھر کامسئلہ یا ان کے گھر کی بات ایسے ہے۔ 

امامت کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں نے ایک جگہ حدیث پڑھی ہے، حوالہ مجھے ابھی یاد نہیں ہے کہ آپ کا ارشاد ہے کہ جتنے مقتدی نماز پڑھیں گے، ان ساروں کاثواب امام کو ملے گا ۔مقتدی کو اپنی اپنی نماز کا ثواب ملے گا۔بڑا درجہ ہے، جیسے بھائی نے حدیث پڑھی ہے: الامام ضامن کہ امام ذمہ دارہے اور ذمہ داری کا تقاضایہ ہے کہ جو ذمہ داری ہے، اس کو پوراکرے ۔میری اورآپ کی کوتاہی یہ ہے کہ اگر نماز کا وقت دوبجے ہے توامام صاحب دوبجے پہنچ جائیں گے۔ کسی کی کیا جرات کہ پوچھ لے کہ امام صاحب، ظہر کی سنتیں بھی ادا کی ہیں یانہیں کیں؟ اور پھر اس کے بعد مقتدی ابھی سنتوں میں مگن ہیں تو امام صاحب نے چھلانگ لگانی ہے، سائیکل پکڑنی ہے اور ٹیوشن سنٹر پہنچ جاناہے۔ میرے بھائی! یہ بھاگ دوڑ کی نماز، اس کے اندر وہ خشوع وخضوع نہیں رہتا۔ مجھے اپنے استاد کی بات یاد ہے کہ وہ زمانہ تھا کہ جب نفلوں کے لیے بہترین جگہ گھر تھی۔ آج جو پرفتن دور ہے، اس کے لیے بہترین جگہ مسجد ہے۔ امام صاحب کوچاہیے کہ پہلے کے نوافل بھی اور بعد کے نوافل بھی بلکہ سنت مؤکدہ سمیت پوری نماز مسجد کے اندر پڑھے۔ عام ائمہ کے بارے میں مقتدیوں کا یہ خیال ہے کہ یہ سنتیں اور نوافل ادا نہیں کرتے۔غلط فہمیوں سے اپنے مقتدیوں کو بچانا یہ بھی ذمہ داری ہے۔

پھر حلال اورحرام کے مسائل ہیں، ان کے بارے میں معلومات لینااور ان معلومات کو اپنے مقتدیوں کے ساتھ شیئر کرنایہ ذمہ داری ہے۔ ہمارے مقتدیوں کا ان کے بارے میں ذہن نہیں ہے کہ یہ حلال ہے یاحرام ہے۔ جہاں میں امامت کراتاہوں، وہاں ہمارے ایک دوست ہیں اور سرکاری محکمے میں ہیں اورایسے محکمے میں جہاں پر بڑا مال جمع کیا جا سکتا ہے، لیکن ایک پائی انہوں نے حرام کی نہیں لی ہے۔بڑا صاف زمانہ اور بڑی حلال کمائی کو انہوں نے جمع کیاہے۔

دوسرا یہ ہے کہ امام حضرات کے لیے چاہیے کہ اذان ہو تو وہ مسجد میں ہوں۔ میں رمضان المبارک میں چند نمازیں پڑھاتا ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب امام مقتدیوں سے پہلے جاتا ہے، خشو ع وخضوع سے سنتیں ونوافل پہلے ادا کرتاہے تو اس نماز کا لطف اورمزہ ہی کچھ اورہے۔ مجھے خود بھی اور مقتدیوں کو الگ مزہ آتاہے ۔جب بھاگ دوڑ کے ساتھ آدمی پہنچتاہے اور نماز اداکرتاہے اورپھر بھاگ دوڑ میں لگا رہتاہے تو اس میں نماز کا مزہ بھی نہیں آتا، نہ امام کو آتاہے اورنہ مقتدیوں کو آتاہے۔میراخیال ہے اور میں اس میں اپنی کوتاہی سمجھتاہوں اور یہ سمجھتاہوں کہ مجھے اس بارے میں کوشش کرنی چاہیے کہ جب نماز پڑھانی ہے اور اذان ہوتواذان کے قریب قریب آدمی مسجد میں چلا جائے۔ اب ہوتا کیاہے کہ خادم صاحب کہیں مسجد میں نہیں ہیں۔ امام کہتاہے کہ میں نے نماز پڑھانی ہے۔ پنکھے چلتے ہیں، نہیں چلتے، صفیں سیدھی ہیں، نہیں سیدھی، مسجد کی موٹر چلی ہے نہیں چلی، وہ کہتاہے کہ یہ کام خادم کا ہے۔ نہیں، میرے بھائی! مسجد میں جتنے لوگ ہیں، سب خادم ہیں۔ خطیب ہو، امام ہو، خادم ہو، یہ سارے خادم ہیں۔ جو منصب کے لحاظ سے بڑا ہے، اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ جو لوگوں کے کہنے سے پہلے جومسجد کی ضرورت ہے، اس کا خیال رکھے۔ پنکھا چلانا ہے، موٹر چلانی ہے یا صفیں درست کرنی ہیں، ان سب چیزوں کا خیال رکھے اورجوبعد والے نوافل ہیں، ان کا بھی اہتمام کرے۔ اگر کوئی مقتدی کسی وقت کوئی کڑوی بات کہہ دے تو یہ مزاج کاجیسا بھی ہو، اس کی بات کو بردباری کے ساتھ برداشت کرے، اس لیے کہ یہ امام کی ذمہ داریوں کے اندر ہے۔ اگر لوگوں کا معاملہ یارویہ اس کے ساتھ اچھا نہ بھی ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنے مقتدیوں کے معاملہ اچھے طریقے کے ساتھ اخلاقی پہلوؤں کو اوراخلاقی قدروں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے ساتھ معاملہ کرے۔

جس طر ح کہ مولاناصاحب نے کہا کہ غمی، خوشی کے جومعاملات ہیں، ان کے اندر شرکت کرنی چاہیے، لیکن خوشی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسٹیج کے ایک طرف مرد بیٹھے ہیں اور ایک طرف عورتیں بیٹھی ہیں ۔ معاف فرمانا، لاہور کینٹ میں ایک ہی جگہ عورتیں بھی موجود ہیں اور مرد بھی۔ ہمارے خطیب صاحب نے کہا تھا لاہور سے آئے تھے کہ خوشی میں شامل ہونا۔امامت اور خطابت کے کچھ تقاضے ایسے بھی ہیں کہ ایسے خوشیوں کے موقع پر ہم کو اپنے آپ کو بچانا ہوگا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے بھی اور سب کو بھی جو ضامن کی ذمہ داری بنتی ہے، وہ احسن طریقے سے پوری کرنے کی توفیق عطافرمائے۔

جوامام صاحب ہیں، و ہ تو نماز میں پہنچ جائیں گے ۔اب جس جگہ پر ایک امام اور ایک خطیب ہے، آپ دیکھیں گے کہ خطیب صاحب سب سے آخر والی صف کے اندر ہوں گے، کیونکہ انہوں نے نماز نہیں پڑھانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر اوربھی ذمہ داریاں ہیں۔ سب سے آخری صف میں خطیب صاحب اورمفتی صاحب ہو ں گے، اس لیے کہ انہوں نے امامت نہیں کرانی۔ یہ ہماری کوتاہیاں ہیں اورہمیں ا ن کوتاہیوں کا محاسبہ کرناچاہیے۔ ہمارے معاشرتی معاملات بڑے غلط ہیں۔ کہیں عزیزداری ہے اور کہیں رشتہ داری ہے، اگر کہیں کسی کے ساتھ اختلاف ہے تو ایسے اڑ گئے کہ کوئی لچک نہیں ہے۔ کسی کو سمجھانایاسمجھنا تو اپنے دنیاوی لحاظ سے معاملات ہیں۔ ایک مولوی کو سمجھانااورایک مولوی کو سمجھنا بڑامشکل مرحلہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علماء نبیوں کے وارث ہیں۔ آپ بہترین معلم تھے، آپ بڑے مہربان اور رحیم تھے۔ آپ نے وہ واقعہ توسنا ہوگا کہ مسجد میں کسی نے پیشاب کر دیا تو آپ نے نہ مارا نہ پیٹااورنہ ہی اس کو ڈانٹا اور نہ ہی سختی کی، بلکہ پیار اور محبت کے ساتھ اسے سمجھا دیا اورمسجد کی صفائی کرا دی۔ اسی طرح جو مسجد کے مسائل ہیں، ان کو احسن طریقے سے پوراکریں۔مختلف مزاج کے لوگ ہیں۔ جن کی کہیں نہیں چلتی، وہ مسجد میں اپنی چلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔احسن طریقے کے ساتھ ان کی جنگ اوران کے فتنے سے اپنے دامن کوبچاکراپنے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اس کو بڑ ی عبادت سمجھ کر اور بڑی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کوتاہیوں کی اصلاح کرنے کی توفیق عطافرمائے اوران ذمہ داریوں کو قبول ومنظور فرمائے۔ 

(جاری)

الشریعہ اکادمی

(مئی ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter