(انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی یاد میں منعقد کردہ ’’سالانہ قرآنی محاضرات‘‘ (۲۰۱۱ء) میں پڑھا گیا۔)
بیسویں صدی میں مسلم قومی ریاستوں کے ظہور نے حیات اجتماعی کے دائرے میں مسلمان معاشروں کی تشکیل نو اور بالخصوص مذہب کے کردار کو اہل دانش کے ہاں غور وفکر اور بحث ومباحثہ کا ایک زندہ موضوع بنا دیا۔ اسلام چونکہ محض پوجا اور پرستش کا مذہب نہیں، بلکہ انسانی زندگی میں مخصوص اعتقادی واخلاقی اقدار اور متعین احکام وقوانین کی عمل داری کو بھی اپنا مقصد قرار دیتا ہے، اس لیے مذہب کے اجتماعی کردار کا سوال اپنے متنوع پہلوؤں کے ساتھ ان مفکرین کے غور وفکر اور مطالعہ وتحقیق کا موضوع بنا جو جدید تہذیبی رجحانات کے علی الرغم ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو نہ صرف مضبوط دیکھنا چاہتے تھے، بلکہ ریاست کو خالص مذہبی ونظریاتی اساسات پر استوار کرنا چاہتے تھے۔ اس نوع کے اہل فکر کی جدوجہد اور خدمات کو درست تناظر میں دیکھنے کے لیے یہ نکتہ سامنے رہنا چاہیے کہ یہ سب حضرات بنیادی طور پر امت مسلمہ کے زوال کو موضوع بناتے ہیں جو مغرب کے تہذیبی اور سیاسی استیلا کے نتیجے میں عالم اسلام پر مسلط ہوا ہے اور جس نے بحیثیت مجموعی مسلمانوں کے انداز فکر، ترجیحات اور طرز زندگی کو ان خطوط سے بالکل مختلف خطوط پر استوار کر دیا ہے جس کی تعلیم ان کے دین نے دی ہے۔ کسی اجنبی تہذیب کے سامنے فکر واعتقاد اور تہذیب ومعاشرت کی سطح پر سر تسلیم خم کر دینا چونکہ خود داخلی سطح پر ایمان واعتقاد کی کمزوری اور فکری وعملی ترجیحات کی کجی کے بغیر ممکن نہیں، اس لیے ان تمام اہل فکر کی توجہ فطری طور پر خود امت مسلمہ کے فکر وعمل کی اصلاح کی طرف مبذول ہوئی۔ اگرچہ ان سب کی فکری کاوشوں میں مغربی فکر وتہذیب کا حوالہ مسلسل پایا جاتا ہے اور اس کی فکری ونظریاتی اساسات کے تجزیہ وتنقید پر بھی انھوں نے بھرپور فکری توانائیاں صرف کی ہیں، تاہم اس ساری گفتگو کا مخاطب اصلاً مغربی ذہن نہیں، بلکہ مغربی انداز نظر کے اثرات کو قبول کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست دکھائی دیتا ہے کہ ماضی قریب اور حال کی تمام احیائی تحریکیں، اپنے انداز نظر اور حکمت عملی کے تمام تر تنوع کے باوجود، امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بازیابی کی کلید خود مسلمانوں کے فکر ونظر میں تبدیلی کو قرار دیتی ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا شمار ہمارے دور کے ان نامور اہل فکر میں ہوتا ہے جنھوں نے امت مسلمہ کو درپیش صورت حال، اس کے اسباب وعوامل اور اصلاح احوال کی حکمت عملی پر پوری آزادی، گہرائی اور originality کے ساتھ غور وفکر کیا اور ان کے غور وفکر نے جن نتائج تک انھیں پہنچایا، انھوں نے قدیم یا جدید او رروایتی یا غیر روایتی طبقات کی پسند یا ناپسند کا لحاظ کیے بغیر بلاخوف لومۃ لائم پوری جرات کے ساتھ ان کا اظہار بھی کیا۔ ان کے نتائج فکر سے یقیناًاختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اپنی حریت فکر اور آزادانہ انداز نظر کے لحاظ سے وہ بلاشبہ اقبال کے اس مصرعے کا مصداق تھے کہ: ’نے ابلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند‘۔ چنانچہ جہاں انھوں نے تہذیب مغرب کی فکری ونفسیاتی اساسات اور اس کے تباہ کن نتائج اور خاص طور پر مسلمان معاشروں میں اس تہذیب کے فکری وعملی اثرات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے طبقات کو اپنے ناقدانہ تجزیوں کا موضوع بنایا، وہاں خود ان طبقات کے انداز فکر کی تنقید میں بھی انھوں نے کوئی رعایت نہیں برتی جو مغرب زدہ طبقے کے بالمقابل اسلام اور امت مسلمہ کی سربلندی کا جذبہ اور مسلمانوں کے قومی مفاد سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ ایک صاحب فکر خود جس حلقہ فکر سے تعلق رکھتا ہو اور بحیثیت مجموعی اس طبقے کے احساسات وجذبات کی ترجمانی کرتا ہو، اس کے لیے خودتنقیدی کا یہ عمل بہت مشکل ہوتا ہے، چنانچہ سطحی سیاست کاروں کے برعکس جو عوامی جذبات واحساسات کو محض سیاسی کھیل تماشے کے لیے استعمال کرنا جانتے ہیں، خود تنقیدی کی یہ ذمہ داری سنجیدہ، دیانت دار اور حقیقی طور پر امت کے خیر خواہ اہل دانش ہی انجام دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک اس نوع کے اصحاب فکر کا سب سے بڑا کنٹری بیوشن جس کا تسلسل ان کے حلقہ فکر اور متوسلین کو ہر حال میں قائم رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے، یہی ہے، کیونکہ ان کے انداز فکر کے اس حرکی پہلو کو نظر انداز کر کے اگر مخصوص نتائج فکر تک اپنے آپ کو محدود کر لیا جائے تو اسی سے وہ تقلیدی جمود وجود میں آتا ہے جس سے خود یہ اصحاب فکر زندگی بھر نبرد آزما رہے۔
اس تناظر میں، آج کی اس نشست میں، میں نے گفتگو کے لیے ڈاکٹر اسرار احمد صاحب رحمہ اللہ کے فکر ونظر کے متنوع اور گوناگوں پہلووں میں سے اسی خاص پہلو کو منتخب کیا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کی کی مختلف تحریروں اور خطابات سے جمع کیے گئے کچھ منتخب اقتباسات پیش کروں گا جن میں مذہبی یا نیم مذہبی انداز فکر کے چند مخصوص پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ ان اقتباسات کا انتخاب اتفاق رائے یا تائید کے اصول پر نہیں کیا گیا، بلکہ اصل مقصد ڈاکٹر صاحب کے ناقدانہ زاویہ نظر کو واضح کرنا ہے جو میرے نزدیک اختلاف کی گنجائش کے باوجود فی نفسہ ایک نہایت قابل قدر اور قابل تقلید چیز ہے۔ یہ کام مختصر وقت میں بالکل سرسری انداز میں ہی کیا جا سکا ہے، تاہم امید ہے کہ پیش نظر نکتے کو واضح کرنے کے لیے کسی حد تک مفید ہوگا۔
اسلام میں عدل اجتماعی کا تصور اور روایتی فقہی انداز نظر
نفاذ اسلام کے ضمن میں قائد اعظم وعلامہ اقبال کے تصورات کے بالمقابل مذہبی طبقات کے تصور اسلام کی محدودیت کو واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے:
’’موسسین پاکستان اقبال اور جناح کے افکار میں تو زیادہ زور اسلام کے نظام اجتماعی پر تھا، یعنی اسلام کا سیاسی، اقتصادی اور سماجی نظام (System of Social Justice as given by Quran) لیکن تحریک پاکستان کی، علما ومشائخ نے جو حمایت کی تھی، ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اس خطے میں اسلامی قوانین اور اسلامی شریعت نافذ کی جائے۔ ..... یہ دونوں پہلو سامنے رکھیے جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف، لیکن درحقیقت لازم وملزوم ہیں۔ قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں کے نزدیک اسلام کا نظام اجتماعی تھا جو انسان کو عدل دیتا ہے، جبکہ علما ومشائخ کے نزدیک اسلامی قوانین وشریعت خصوصاً حدود وتعزیرات کا نفاذ تھا جو اس نظام کو سہارا دیتے ہیں۔‘‘ (پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات وخدشات، ص ۱۸)
ڈاکٹرصاحب نے روایتی فقہی ذخیرے کے بعض مخصوص تصورات کو بھی اسی تناظر میں نقد وجرح کا موضوع بنایا ہے۔ مثال کے طو رپر مزارعت کو جائز قرار دیے جانے سے اسلام کے معاشی مقاصد پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جیسے جیسے ملوکیت اور جاگیرداری کی جڑیں زمین میں گہری اترتی گئیں، حالات کے جبر اور ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے عمل دخل کا ظہور ہوا اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد رشید قاضی ابو یوسف نے ..... امام صاحب کے دوسرے شاگرد امام محمد کے اتفاق رائے کے ساتھ مزارعت پر کچھ شرائط عائد کر کے اس کے جائز ہونے کا فتویٰ بھی دے دیا۔ بعد میں وہ شرائط تو طاق نسیاں کے حوالے ہو گئیں اور پورے عالم اسلام میں ’’مزارعت‘‘ شیر مادر کی مانند حلال وطیب ہو گئی اور اس طرح شہنشاہیت اور جاگیرداری کو دوام واستحکام حاصل ہو گیا۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۴۲، ۴۳)
’’سو ڈیڑھ سو برس بعد جبکہ ملوکیت بھی اپنی پوری شان اور کروفر کے ساتھ جلوہ گر ہو چکی تھی اور ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ (یعنی وہ ادوار جن کے خیر کے حامل ہونے کی گواہی خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے) کا زمانہ بھی بیت چکا تھا، علماے اسلام اور فقہاے کرام کا حالات کے جبر سے متاثر ہو جانا ہرگز نہ بعید از قیاس ہے نہ ان کے لیے موجب توہین۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۴۶)
فقہ اسلامی کی تشکیل میں اس دور کے جو مخصوص تمدنی حالات اور ضروریات کارفرما رہی ہیں، اس کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب نے فقہاے اسلام کے اخذ کردہ مخصوص نتائج فکر کی پابندی کے بجائے قرآن وسنت سے براہ راست اخذ واستنباط کی ضرورت واہمیت کو بھی بڑی تاکید سے واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’ایسے اصحاب علم ودانش آگے بڑھیں جو کتاب وسنت کے نصوص کی پابندی کے عزم مصمم کے ساتھ ساتھ صرف سلف کی اجتہادی آرا کے مقلد جامد بن کر نہ رہ جائیں، بلکہ شریعت کے اصل مقاصد واہداف کو بھی پیش نظر رکھ سکیں اور جہد وجہاد کے جذبے سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ قیاس واجتہاد اور اس کے ضمن میں مصالح مرسلہ اور مفاد عامہ کو بھی ملحوظ رکھ سکیں۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۲۹)
’’ایک مجلس کی تین یا تین سے بھی زائد طلاقوں کے ضمن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک رعایت اور نرمی فرمایا کرتے تھے، اسے حضرت عمر نے مصلحت امت کے پیش نظر اپنے ایک اجتہادی فیصلہ سے ختم کر دیا تو اس پر تو اہل سنت کے چاروں مکاتب فقہ کا اس درجہ عزم بالجزم کے ساتھ اصرار ہے کہ کسی بھی صورت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رعایت کو دوبارہ جاری کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔‘‘ (اسلام میں عدل اجتماعی کی اہمیت، ص ۴۵)
احیائی تحریکوں کی یک رخی فکری ترجیحات
بیسویں صدی کی مسلم احیائی تحریکوں کے ہاں اسلام کو بطور ایک اجتماعی نظام کے نمایاں کرنے کی کوشش اس انداز سے ہوئی ہے کہ دین کا روحانی اور باطنی پہلو مقدم الذکر پہلو کا خادم اور تابع قرار پا کر بڑی حد تک دب گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس پہلو کی بجا طو رپر نشان دہی کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’ذرا دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کا مطالعہ اسلام اسی مغربی نقطہ نظر پر مبنی ہے جس میں روح پر مادے اور حیات اخروی پر حیات دنیوی کو فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ اسلام کے ان ماوراء الطبیعاتی اعتقادات کا اقرار تو ان کے یہاں موجود ہے جن کے مجموعے کا نام ایمان ہے، لیکن انھیں کچھ زیادہ درخور اعتنا اور لائق التفات نہیں سمجھا گیا اور نگاہیں کلیۃً اس ہدایت ورہنمائی پر مرکوز ہیں جو حیات دنیوی کے مختلف شعبوں کے لیے اسلام نے دی ہیں اور جن کے مجموعے کا نام ’اسلامی نظام زندگی‘ رکھا گیا ہے۔ ..... اسی نقطہ نظر کا کرشمہ ہے کہ دین اسٹیٹ (State) کا ہم معنی قرار پایا ہے اور عبادت، اطاعت کے مترادف ہو کر رہ گئی ہے۔ نماز کا یہ مقام کہ وہ معراج المومنین ہے، نگاہوں سے بالکل اوجھل ہے اور نفس انسانی کا اس سے ایسا انس کہ ’قرۃ عینی فی الصلوۃ‘ کی کیفیت پیدا ہو سکے، ناپید ہے۔ ..... زکوٰۃ کا یہ پہلو کہ یہ روح کی بالیدگی اور تزکیے کا ذریعہ ہے، اس قدر معروف نہیں جتنی اس کی یہ حیثیت کہ یہ اسلامی نظام معیشت کا اہم ستون ہے۔ روزہ کے بارے میں یہ تو خوب بیان کیا جاتا ہے کہ یہ ضبط نفس (Self control) کی مشق وریاضت ہے، لیکن اس کی اس حقیقت کا یا تو سرے سے ادراک ہی نہیں ہے یا اس کے بیان میں ’حجاب‘ محسوس ہوتا ہے کہ یہ روح کی تقویت کا سامان اور جسد حیوانی کی اس پر گرفت کو کمزور کرنے کا ذریعہ ہے۔ ....اسی طرح حج کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے ذریعے ’’خدا پرستی کے محور پر ایک عالمگیر برادری‘‘ کی تنظیم ہوتی ہے، لیکن اس سے آگے اس کی روحانی برکات کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا! ..... کہنے میں تو اگرچہ یہ آیا کہ اسلام فلاح انسانی کا جامع پروگرام ہے جس میں فلاح اخروی اور فلاح دنیوی دونوں شامل ہیں، لیکن نگاہیں چونکہ فی الواقع صرف حیات دنیوی پر مرکوز ہیں، لہٰذا آخری تجزیے میں اسلام ایک ’‘سیاسی وعمرانی نظام‘‘ (Politico-Social System) بن کر رہ گیا۔ ..... اس اعتبار سے غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں فی الواقع ’مذہبی‘ سے زیادہ ’سیاسی وعمرانی‘ اور ’دینی‘ سے زیادہ ’دنیوی‘ ہیں اور آخری تجزیے میں دوسری سیاسی ومعاشرتی تحریکوں سے صرف اس اعتبار سے مختلف ہیں کہ ان کے نزدیک سرمایہ دارانہ جمہوریت یا اشتراکیت بہتر نظام ہائے حیات ہیں اور ان کے نزدیک اسلام انسانی زندگی کے جملہ مسائل کو بہتر طور پر حل کرتا ہے۔ .... یہی سبب ہے کہ یہ تحریکیں بے لنگر کے جہازوں کے مانند ادھر ادھر بھٹک رہی ہیں اور ان کا حال اکثر وبیشتر اس مسافر کا سا ہے جسے نہ تو منزل ہی کا پتہ رہا اور نہ ہی یہ یاد رہا کہ سفر شروع کہاں سے کیا تھا۔‘‘ (نشاۃ ثانیہ ص ۱۱ تا ۱۷)
ڈاکٹر صاحب نے غلبہ دین کا مقصد حاصل کرنے کے لیے ان احیائی تحریکوں کی عجلت پسندانہ حکمت عملی پر بھی تنقید کی ہے۔ لکھتے ہیں:
’’بیسویں صدی عیسوی کی یہ اسلامی تحریکیں جو انڈونیشیا سے مصر تک متعددمسلمان مماک میں تقریباً ایک ہی وقت میں شروع ہوئیں، بہت سے پہلووں سے ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں اور یہ کہنا بہت حد تک صحیح ہے کہ تقریباً ایک ہی تصور دین ان کی پشت پر کام کر رہا ہے اور ایک ہی جذبہ ان میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ ..... یہ تحریکیں تقریباً ثلث صدی سے مختلف مسلمان ملکوں میں برسر عمل ہیں اور ملت اسلامی کی نوجوان نسل کا ایک خاصا قابل ذکر حصہ ان کے زیر اثر آیا ہے، لیکن عملاً ان میں سے کسی کو کوئی نمایاں کامیابی کہیں حاصل نہیں ہو سکی، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تحریکیں اپنا وقت پورا کر چکی ہیں اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے خواب کی تعبیر کا وقت ابھی نہیں آیا۔ چنانچہ مصر میں اخوان المسلمون کا اندرون ملک تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے باقیات الصالحات جلاوطنی کے عالم میں دول عرب کی باہمی آویزش کے سہارے جی رہے ہیں۔ رہی برصغیر کی تحریک اسلامی تو اس کا جزو اعظم پاکستانی سیاست کے نذر ہو چکا ہے اور اب اس کا مقام تحریک جمہوریت کی حاشیہ برداری سے زیادہ کچھ نہیں رہا۔
ان تحریکوں کی ناکامی کا سبب بظاہر تو یہ ہے کہ انھوں نے بے صبری سے کام لیا اور اپنے اپنے ملکوں میں سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی معتد بہ تعداد کے ذہنوں کو بدلے بغیر سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا جس کے نتیجے میں قومی قیادتوں اور ’ترقی پسند‘ عناصر سے قبل ازوقت تصادم کی نوبت آ گئی، لیکن درحقیقت ان کی ناکامی براہ راست نتیجہ ہے ان کے تصور دین کی خامی اور مطالعہ اسلام کے نقص کا۔‘‘ (نشاۃ ثانیہ ص ۱۱ تا ۱۷)
ہندو مسلم منافرت کی تاریخی بنیادیں
برصغیر میں ہندو مسلم منافرت کا جو مسئلہ اس وقت اس پورے خطے کے امن واستحکام کے لیے ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے، تاریخی بنیادوں پر اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے یک طرفہ طور پر ہندوؤں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خود مسلمانوں کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت دی ہے، چنانچہ مسلمان بادشاہوں کے طرز حکومت کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’بدقسمتی سے ہمارے ملک کے بعض دانش وروں نے ہندوستان کے ہندووں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کے ’’چلتے ہوئے جھکڑ‘‘ اور بد اعتمادی کی ’’اٹھتی ہوئی آندھی‘‘ کے ایک سبب کو اس درجہ اچھالا ہے اور اس شدت کے ساتھ تحریر وتقریر کا موضوع بنایا ہے کہ دوسرے جملہ عوامل نگاہوں سے بالکل اوجھل ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ عوام کے اذہان میں اس پوری صورت حال کے واحد سبب کی حیثیت صرف ہندووں کی عمومی چھوت چھات، برہمنوں کے سامراجی مزاج اور بنیوں کی چاپلوسانہ عیاری کی ذہنیت کو حاصل ہو گئی ہے۔ چنانچہ ایک جانب یہ پہاڑ جیسی عظیم حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہو گئی کہ ہندو معاشرہ صرف برہمنوں اور بنیوں ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں راجپوت اور شودر بھی موجود ہیں جو اپنا اپنا جداگانہ مزاج رکھتے ہیں۔ مزید برآں خود برہمنوں اور بنیوں میں بھی ’’نہ ہر زن زن است ونہ ہر مرد مرد -- خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد‘‘ کے مصداق ہر مزاج اور کردار کے لوگ موجود ہیں اور دوسری جانب ان دو اہم عوامل سے تو کامل ذہول ہو گیا جن میں سے ایک کا تعلق ماضی بعید اور خود مسلمانوں کے اپنے کردار سے ہے اور دوسرے کا ماضی قریب اور انگریزوں کے کردار سے!
ان میں سے مقدم الذکر سے صرف نظر اور غض بصر کا معاملہ تو
’’وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں
اچھا کیا جو مجھ کو فراموش کر دیا‘‘
کے عین مطابق ہے، اس لیے کہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف بہت مشکل ہے کہ خود ہم مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی ’’ہزار سالہ‘‘ حکومت کے دوران اکثر وبیشتر وہی ’’اقوام غالب‘‘ والا کردار اختیار کیا تھا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور نہ صرف یہ کہ اپنے ان فرائض کو تو سرے سے ادا ہی نہیں کیا تھا جو امت مسلمہ اور امت محمد (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے تھے ، یعنی اللہ کے پیغام کی دعوت وتبلیغ اور اسلام کے عادلانہ نظام زندگی اور دین حق کے نظام عدل وقسط کے قیام کے ذریعے خلق خدا پر اللہ کی رحمانیت ورحیمیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی کا عملی مظاہرہ اور اس طرح اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہندوستان میں بسنے والوں پر اتمام حجت، بلکہ بہت سے حکمرانوں نے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ قائم رکھنے کے علاوہ ذاتی عیاشی اور بو الہوسی کے وہ جملہ انداز اختیار کیے جو ہمیشہ سے ملوکیت اور بادشاہی کے لوازم میں سے رہے ہیں اور ان سب کی بنا پر ہندوؤں میں عمومی طو رپر وہ انتقامی جذبہ موجود تھا جو سقوط ڈھاکہ کے حادثہ فاجعہ کے موقع پر ع ’’نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں‘‘ کے مطابق فتح مندی کی سرمستی میں پنڈت موتی لال نہرو جیسے وسیع المشرب انسان کی پوتی اور جواہر لال نہرو جیسے سیکولر اور سوشلسٹ مزاج کے حامل شخص کی بیٹی مسز اندرا گاندھی کے منہ سے نکلنے والے ان الفاظ سے ظاہر ہو گیا کہ ’’ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ چکا لیا ہے!‘‘ (پاک بھارت تعلقات، ص ۱۲،۱۴۳)
پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات کی آئیڈیل صورت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے دونوں سب سے بڑے علم برداروں، یعنی مصور ومفکر پاکستان علامہ اقبال اور معمار وموسس پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیم کے بعد کے حالات کے ضمن میں جو خواب دیکھے تھے، وہ اس صورت حال کے بالکل برعکس تھے۔ چنانچہ اس ضمن میں قائد اعظم نے تو صرف یہ کہنے پر اکتفا کی تھی کہ ’’بھارت اور پاکستان کے تعلقات ایسے ہی ہوں گے جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے مابین ہیں‘‘، لیکن علامہ اقبال نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے خطبہ الٰہ آباد (دسمبر ۱۹۳۰ء) میں یہاں تک فرما دیا تھا کہ ’’ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع مسلم ریاست ہر نوع کی جارحیت کے مقابلے میں ہندوستان کے دفاع کا فریضہ بہترین طو رپر سرانجام دے گی، خواہ وہ جارحیت نظریات کی ہو خواہ ہتھیاروں کی۔‘‘ (پاک بھارت تعلقات، ص ۲۸)
پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر
ڈاکٹرصاحب نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اختیار کی جانے والی حکمت عملی پر بھی تنقید کی اور ہمارے ہاں پائے جانے والے غالب لیکن جذباتی طرز فکر کے برعکس مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جنگ کے راستہ کو عملاً غیر موثر اور غیر نتیجہ خیز قرار دیا۔ فرماتے ہیں:
’’سب سے پہلے جنگ کو لیجیے جس کی آج کل بار بار دہائی دی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ فی الواقع اور خصوصاً بحالات موجودہ کوئی قابل عمل حل ہے؟ کیا ہم جنگی صلاحیت کے اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں آج کی نسبت ۱۹۶۵ء میں کہیں زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھے؟ پھر اگر اس وقت کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی تو آج اس کی کتنی امید کی جا سکتی ہے؟
مسلمانان کشمیر پر بھارت کی ننگی جارحیت اور بے پناہ ظلم وبربریت کے خلاف پاکستان کی جانب سے کھلم کھلا اعلان جنگ صرف اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ ہمیں اپنے موقف کے مبنی برحق وانصاف ہونے کے ساتھ ساتھ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۰ کے ان الفاظ مبارکہ کے مطابق کہ: ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم یعنی ’’اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا!‘‘ اللہ تعالیٰ کی نصرت وتائید کا یقین بھی حاصل ہوتا، جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم سودی معیشت کے نظام کو جاری رکھنے کے باعث خود ہی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ برسر جنگ ہیں، لہٰذا فرمان نبوی ’فانی یستجاب لذالک‘ یعنی ’’ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟‘‘ کے مطابق ہمیں اللہ کی نصرت وتائید کی امید کیسے ہو سکتی ہے!بنا بریں لے دے کر سارا معاملہ صرف مادی اسباب ووسائل کی کمیت اورکیفیت کا رہ جاتا ہے جس کا تقابلی جائزہ اور موازنہ آئے دن اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے۔‘‘
’’رہا مسلمانان کشمیر کا سرفروشانہ اور بے مثال جہاد حریت تو اس کے ضمن میں بھی جذبات سے ہٹ کر عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کسی کھلم کھلا اور ٹھوس بیرونی امداد کے بغیر آخر وہ اسے حکومت پاکستان کی صرف اخلاقی اور سفارتی مدد اور بعض نجی اداروں کی جانب سے چوری چھپے اور وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے بقدر، امداد کے بل پر کب تک جاری رکھ سکیں گے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس معاملے میں بھی بہت سے حلقوں، بالخصوص مذہبی گروہوں کی جانب سے عوام کو بہت بڑے بڑے مغالطے دیے جا رہے ہیں۔ چنانچہ اولاً جہاد افغانستان کا حوالہ دیا جاتا ہے، حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اس معاملے میں ایک سپر پاور کی کھلم کھلا، اعلانیہ اور فیصلہ کن مالی اور جنگی مدد حاصل تھی (جس کی بہتی گنگا میں خود پاکستان کے بہت سے مقتدر افراد اور مذہبی جماعتوں نے خوب خوب ہاتھ دھوئے) لہٰذا کشمیر کے معاملے میں افغانستان کا حوالہ قیاس مع الفارق کی حیثیت رکھتا ہے۔ ‘‘ (پاک بھارت تعلقات، ص ۳۶، ۳۷، ۳۸)
جنرل ضیاء الحق صاحب کے دور میں کشمیر میں خفیہ دراندازی کی جو پالیسی شروع کی گئی اور جسے بعد میں حالات کے جبر کے تحت بڑی حد تک ترک کر دینا پڑا، ا س کے نتائج ومضمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے:
’’جس جہاد کو ہم چودہ سال سے سپانسر کر رہے تھے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ قرار دے رہے تھے، اس سے بھی ہم نے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس کا رد عمل کشمیریوں میں یہ ہوا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ہم سے دھوکہ کیا ہے، اس نے ہم کو مروایا ہے۔ میں جہاد کے نام پر کشمیر میں خفیہ مداخلت کا ہمیشہ سے مخالف تھا۔ اب میں بڑی تلخ بات کہہ رہا ہوں کہ پاکستان نے کشمیریوں سے ۱۹۶۵ء کا بدلہ لیا ہے۔ پاکستان نے ۱۹۶۵ء میں اپنے بہترین کمانڈوز کو اس توقع پر کشمیر میں داخل کر دیا تھاکہ کشمیری مسلمان مدد کریں گے، لیکن کشمیریوں نے کوئی حمایت نہیں کی اور وہ تقریباً سارے کے سارے شہید ہو گئے۔ اس کے برعکس یہ ہواکہ بھارت پلٹ کر لاہور پر حملہ آور ہو گیا اور ہماری ساری کوشش ناکام ہو گئی۔ کشمیریوں کے جہاد حریت میں اگرچہ پاکستان سے بھی بہت سوں نے وہاں جا کر جانیں دی ہیں، لیکن مصائب کا اصل پہاڑ تو کشمیریوں پر ٹوٹتا رہا ہے۔ عصمت دری تو ان کی عورتوں اور بیٹیوں کی ہوئی ہے، انھی کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے، انھی کی آبادیاں تھیں جو تھوک کے حساب سے جلا دی گئیں اور انھی کی دکانیں ختم ہوئی ہیں۔ میرے نزدیک پاکستان نے کشمیریوں سے گویا ۱۹۶۵ء کا بدلہ لیا ہے، جبکہ انھوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی۔‘‘ (پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات وخدشات، ص ۳۳)
جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کا غلط استعمال
عالم اسلام کے طول وعرض میں مغرب اور مغرب زدہ حکمران طبقات کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے ’جہاد‘ کی اصطلاح اپنی اثر انگیزی اور عملی افادیت کی وجہ سے بڑے پیمانے پر استعمال کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے بھی اختلاف کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ایک دوسری چیز جس نے میرے نزدیک جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور پھر اس کی وجہ سے اصل بدنامی مسلمانوں کے حصے میں آئی ہے، یہ مغالطہ ہے کہ مسلمان جب بھی جنگ کرے، وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اس غلط فہمی کے بدترین نتائج نکلے اور اس نے جہاد فی سبیل اللہ کی اصطلاح کو بری طرح بدنام کیا۔ ظاہر بات ہے کہ ہمارے دور ملوکیت میں بادشاہ جو جنگیں کرتے تھے، ان کا محرک ان کی ہوس ملک گیری ہوتی تھی تاکہ بڑے سے بڑے محل بنا سکیں اور زیادہ سے زیادہ محصولات (Revenues) اکٹھے ہو سکیں، لیکن ان جنگوں کو بھی جہاد فی سبیل اللہ کہا گیا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں اس مقدس اصطلاح کو تو بدنام ہونا ہی تھا۔
اس ضمن میں تازہ ترین مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔ اسی (بیسویں) صدی کے وسط یعنی پچاس کی دہائی میں الجزائر میں فرانس سے آزادی کی جنگ لڑی جا رہی تھی۔ حصول آزادی کے لیے مسلمانوں کی جنگ ایک جائز جنگ ہے، مگر آزادی کی ہر جنگ جہاد فی سبیل اللہ نہیں ہے، لیکن الجزائر کی اس جنگ آزادی کو جہاد فی سبیل اللہ کا نام دے دیا گیا۔ .....اس ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب وہ جہاد کامیاب ہو گیا تو وہاں ایک سوشلسٹ ریاست وجود میں آ گئی۔ عجیب بات ہے کہ جو درخت آم کا تھا، اس پر برگ وبار کسی اور شے کے آ گئے۔ درحقیقت وہ جنگ آزادی تھی، جہاد حریت تھا، جہاد فی سبیل اللہ نہیں تھا۔ چنانچہ کامیابی کی صورت میں وہاں کے ایلیٹ طبقہ کے اذہان، فکر اور نظریات کے مطابق نظام بن گیا۔
یہی حال ہمارے پڑوسی ملک افغانستان میں ہوا۔ افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی، وہ بھی بنیادی طور پر جہاد حریت یعنی آزادی کی جنگ تھی۔ اس میں اصل زور اس وقت آیا جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ اس موقع پر تمام علماء بھی اٹھ کھڑے ہوئے، اس لیے کہ ہمارے فقہی تصورات کی رو سے بھی کسی مسلمان ملک پر کسی غیر مسلم حکومت کی فوجیں حملہ آور ہو جائیں تو پھر دفاع فرض عین ہو جاتا ہے، لہٰذا اس جذبے سے سرشار ہو کر پوری قوم اپنی آزادی کے تحفظ کے لیے کھڑی ہو گئی۔ ہم نے اس پر بھی جہاد فی سبیل اللہ کا لیبل دے دیا اور دنیا بھر میں اس کا ایسا ڈنکا بجا کہ جذبہ شہادت سے سرشار نوجوان پوری دنیا سے کھنچ کر چلے آئے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے دل میں وہی جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ تھا، لیکن اس کی اصل کیفیت اور نوعیت تو جہاد حریت کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ روسی افواج افغانستان سے نکل گئیں اور آپس میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ جہاد فی سبیل اللہ کا یہ نتیجہ کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘ (جہاد فی سبیل اللہ، ص ۶، ۷)
پر تشدد حکمت عملی کے مضرات
یہ بات نہیں کہ ڈاکٹر صاحب دینی مقاصد کے لیے قوت، زور بازو اور مسلح جدوجہد کے جواز کے قائل نہیں۔ وہ نہ صرف اس کے قائل بلکہ داعی ہیں، یہاں تک کہ انھوں نے اہل سنت کے ہاں پائے جانے والے اس عمومی تصور سے بھی اختلاف کیا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے خلاف مسلح بغاوت کسی حال میں جائز نہیں، تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلح جدوجہد کی کامیابی کے لیے مطلوبہ شرائط اور خاص طور پر ایسے کسی بھی اقدام کے عملی نتائج کو ملحوظ رکھنے کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں اور اسی تناظر میں انھوں نے موجودہ حالات میں اس طریقے کو اختیار کرنے والے عناصر کی تائید نہیں کی۔ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کے ایک خاص طبقے میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ہمارا بھی تو ایک نظام ہے۔ یہ انگریز کا لایا ہوا بھی ایک نظام تھا، فرانسیسیوں کا دیا ہوا نظام بھی ایک نظام تھا اور ہمارا بھی ایک نظام ہے، ہم کیوں نہ اس کو نافذ کر دیں۔ یہ اصل میں اس آزادی کا ایک ثمرہ تھا کہ مسلمانوں میں ایک خود آگاہی پیدا ہوئی اور انھوں نے اسلام کو بطور ایک دن کے سمجھا، لہٰذا احیائی تحریکیں ابھریں۔ انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی، انڈوپاک میں جماعت اسلامی، ایران میں فدائین، عرب دنیا میں الاخوان المسلمون جیسی تحریکیں ابھریں۔ یہ ساری تحریکیں اس لیے اٹھیں کہ اسلام دین ہے اور دین اپنا غلبہ چاہتا ہے، ہمیں دین کو غالب کرنا ہے۔
لیکن بعض عوامل کی وجہ سے ان تحریکوں کو آج تک کہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ .... ان مسلمان تحریکوں نے طریق کار غلط اختیار کیا۔ دنیا میں اسلام ایک نظام کی حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برپا کیا تھا اور یہ دوبارہ برپا ہو سکتا ہے تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہو سکتا ہے۔ انھوں نے سمجھا وہ تو آؤٹ آف ڈیٹ ہے، پرانا ہے، لہٰذا الیکشن میں حصہ لے کر اس سے اسلام نافذ کریں گے۔ اس میں ناکامی ہوئی تو گولی چلانی شروع کر دی کہ فلاں فلاں کو مار دو۔ چنانچہ سادات کو قتل کر دیا گیا، سادات گیا تو حسنی مبارک آ کر براجمان ہو گیا (چند روز قبل میرے پاس ایک نوجوان آیا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے، میں چاہتا ہوں کہ پرویز مشرف کو قتل کر دوں۔ میں نے کہا تمہارا دماغ خراب ہے؟ تم ایک پرویز کو قتل کرو گے، کوئی اور پرویز آ کر بیٹھ جائے گا، فائدہ کیا ہوگا؟) تو کہاں تبدیلی ہوئی ہے؟ فوجی حکومت کے ذریعے سے کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟ اس اعتبار سے اس غلط طریق کار نے ان تحریکوں کو کہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ ..... دینی تحریکوں کا طریق کار غلط ہے۔ انھوں نے ballot یا bullet کا راستہ اختیار کیا۔ یہ دونوں راستے غلط ہیں اور یکساں غلط ہیں۔‘‘ (موجودہ حالات میں اسلام کا مستقبل، ص ۳۳، ۳۴، ۳۵)
’’آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ طریق انقلاب واضح ہو جائے۔ آج مسلمانوں میں جذبے کی کمی نہیں ہے۔ ہزاروں لوگ جانیں دے رہے ہیں۔ اپنے جسموں سے بم باندھ کر اپنے جسموں کو اڑا رہے ہیں۔ کشمیر کے اندر جو جذبہ ابھرا، اسے پوری دنیا نے دیکھ لیا۔ کشمیریوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ تو لڑنے والی قوم ہے ہی نہیں، اب اس کے اندر جان پیدا ہو چکی ہے۔ پاکستان سے جا کر کتنے لوگوں نے وہاں پر جام شہادت نوش کر لیا۔ لیکن اسلامی انقلاب کا طریق کار یہ نہیں ہے۔ اس سے کہیں کامیابی نہیں ہوگی۔ اس طریقے سے آپ صرف اپنا غصہ نکال سکتے ہیں۔ آپ نے جا کر افریقہ میں امریکہ کے دو سفارت خانوں کو بم سے اڑا دیا، اس سے امریکی تو دس پندرہ مرے، جبکہ ۲۰۰ وہاں کے لوکل افریقی مر گئے۔ فائدہ کیا ہوا؟ بس یہی کہ آپ نے اپنا غصہ نکال لیا۔ تو ان طریقوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔‘‘ (ص ۳۱)
’’اگر ہم مشتعل ہو کر اسلحہ اٹھائیں تو کس کے خلاف اٹھائیں گے؟ بری افواج یا ایئر فورس کے خلاف؟ کیا ہماری ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان میں دو مرتبہ ایئر فورس استعمال نہیں کی؟ کیا ایئر فورس کے ذریعے سے حافظ الاسد نے ایک دن میں ہزاروں اخوان ختم نہیں کر دیے تھے اور ان کا مرکز بمباری کر کے تباہ وبرباد نہیں کر دیا تھا؟ تو آج مقابلہ بہت غیر مساوی (unequal) ہے۔ .... جنگ اگرچہ جائز ہے، لیکن موجودہ حالات میں عملاً ممکن نہیں ہے۔ آج کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف یک طرفہ جنگ ہی موزوں لائحہ عمل ہے۔‘‘(ص ۲۹، ۳۰)
ان چند اقتباسات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم غلبہ اسلام کے مقصد کے ساتھ ایک والہانہ وابستگی رکھنے کے باوجود اس ضمن میں کی جانے والی جدوجہد پر نقد ونظر کی ضرورت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس پورے عمل پر مسلسل ناقدانہ نظر رکھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں احیاے اسلام صرف ایک جذباتی خواہش کا عنوان نہیں جو ان تحریکوں کی غیر حکیمانہ ترجیحات سے صرف نظر کرنے پر آمادہ کر دے، بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے احیا اور امت مسلمہ میں فکری انقلاب کی دعوت لے کر اٹھنے والی یہ تمام تحریکیں بہرحال انسانی بصیرت اور اجتہاد ہی کی مرہون منت ہیں اور نتیجتاً ان تمام کمزوریوں اور نقائص کی زد میں ہیں جن سے انسانی فکر کبھی کلی طور پر مبرا نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کی تحریکوں کے ہاں فکری وعملی ترجیحات کے لحاظ سے Trial and error کے انداز کا ایک ارتقا پایا جاتا ہے اور شاید یہ کہنا درست ہوگا کہ منزل تو دور کی بات ہے، ابھی تک ان کے ہاں جادۂ منزل کی تعیین کے حوالے بھی مجموعی اعتبار سے کوئی یکسوئی نہیں پائی جاتی۔ کہیں ہدف کی تعیین میں غلطی ہو گئی ہے، کہیں موثر حکمت عملی وضع کرنے میں کوتاہی فکر مانع ہو گئی ہے، کہیں طول مسافت نے صبر وحوصلہ کا دامن ہاتھ سے چھڑوا دیا ہے اور کہیں پڑاؤ کے مقامات کو منزل یا منزل کا متبادل سمجھ کر وہیں ڈیرہ ڈال لیا گیا ہے۔ اس صورت حال کا ایک لازمی تقاضا یہ بنتا ہے کہ خود ان احیائی تحریکوں کے انداز فکر، ترجیحات، حکمت عملی اور کارکردگی کو کڑی تنقید کی کسوٹی پر مسلسل پرکھا جاتا رہے اور اس قافلے کو سوے منزل رواں دواں رکھنے کے لیے فکر تازہ کی حدی کسی انقطاع کے بغیر سنائی جاتی رہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کر کے دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں۔ اب یہ ان کے قائم کردہ حلقہ فکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ پورے شعور، بصیرت اور استقامت کے ساتھ اس روایت کے تسلسل کو قائم رکھے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعض دوسری اصلاحی واحیائی تحریکوں کی طرح ایک فکری کیمپ کے ساتھ وابستگی کا احساس رفتہ رفتہ اتنا غالب آ جائے کہ حریت فکر اور خود تنقیدی کی جگہ سکوت واغماض لے لیں اور نقائص اور کمزوریوں کی جرات مندانہ نشان دہی کی جگہ پردہ پوشی بلکہ بعض صورتوں میں حمیت جاہلیہ کا رویہ پروان چڑھنے لگے۔ اللہم انصر من نصر دینک واجعلنا منہم واخذل من خذل دینک ولا تجعلنا معہم۔ آمین