طب مشرق میں جہاں اور بہت سی خوبیاں ہیں، وہاں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ کسی دواکی مقدار کو کئی گرام تک دیتے ہیں تو ایک خشخاش کے برابر مقدار بھی، جسے عرف عام میں ’’ککھ‘‘ کہا جاتا ہے۱ اثر کر جاتی ہے۔ یہ ’’ککھ‘‘ اصل میں کشتہ سازی کا فن ہے۔ ا س کا مطلب ہے کہ دوا کو حکمت کی رو سے اتنا لطیف اور باریک کیا جائے کہ ایک خشخاش کے برابر آپ کے خون میں شامل ہو کر آپ کو ہلا کر رکھ دے۔ اطبا نے دوا کے زہریلے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اور دودھ پیتے بچے کو بھی کھلانے کے لیے نہایت عقل مندی کا مظاہرہ کیا ہے اور ایسا طریقہ اختیار کیا ہے کہ تمام پیچیدہ امراض کو انسانی جسم کے کے نزدیک بھی نہ آنے دیا جائے اور گود سے گور تک ایک ہی نسخہ استعمال کیا جائے، جو مجرب بھی ہو اور سستا بھی۔ یہ عمل اختیار کرنے سے شوگر، گردوں کا فیل ہونا، کینسر، دل کا اٹیک، تھکاوٹ ، ہڈیوں کے امراض، وقت سے پہلے بڑھاپا، جگر کی خرابی، بلڈ پریشر، الغرض آج کے دور کے وہ تمام امراض جن سے ایک دنیا تڑپ رہی ہے اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہی ہے، یہ امراض انسان کے نزدیک بھی نہیں آئیں گے۔ ان شاء اللہ
آپ اب تک اس راز سے واقف نہ ہوں تو کسی بزرگ معالج سے دریافت فرما لیں کہ جونہی کسی کو گردے کے درد سے تکلیف ہوتی، پرانے اطباء اسے تانبے کا ایک ٹکڑا دیتے تھے کہ اسے منہ میں رکھ کر چوسو۔ تھوڑی دیر میں گردے کا درد آناً فاناً ختم ہو جاتا، اس لیے کہ گردے میں سارا تانبہ ہوتا ہے۔ اس عمل سے اولاد کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
تانبے کے برتنوں کو ہفتہ وار قلعی کروائیں۔ پکاتے وقت چمچے یا کھونچہ خوب رگڑیں کہ قلعی کے ساتھ تانبہ بھی رگڑ کھا کر پکنے والی خوراک میں شامل ہوتا جائے ۔ کسی زمانے میں کانسی کے برتن یا تانبے کے برتن اسی لیے بنائے جاتے تھے کہ چمچے کی رگڑ سے تانبہ اور قلعی کھانے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس سے ساری زندگی گردوں کا فیل ہونا اور شوگر جیسی بیماری نہیں لگتی تھی۔ بھرت بھی انھی اشیا کے مجموعے سے بنتی تھی۔ آج یہ طریقہ ناپید کر دیا گیا ہے اور بلڈ پریشر اور دل کا دورہ عام ہو چکا ہے۔ پلاسٹک اور سلور کے برتن مذکورہ امراض کو جنم دے رہے ہیں۔
اگر گھر میں تانبے کے برتن نہ ہوں تو مٹی کے برتن استعمال کریں۔ اس سے بھی مذکورہ امراض سے ان شاء اللہ حفاظت رہے گی۔