سنجیدہ اور ہوش مندانہ حکمت عملی کی ضرورت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

محترم مولانا زاہد حسین رشیدی کا مضمون ’’الشریعہ‘‘ کے اسی شمارہ میں ماہنامہ ’’فقاہت‘‘ لاہور کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے جو انہوں نے راقم الحروف کے ساتھ ایک ملاقات اور گفتگو کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے۔ اس میں انہوں نے جن اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:

  • علمی و فکری مباحثہ کو فروغ دینے اور علمی مسائل پر علمی انداز میں بات چیت کی ضرورت کا احساس دلانے کے لیے ’’الشریعہ‘‘ گزشتہ دو عشروں سے جو محنت کر رہا ہے، وہ چونکہ علماء کے حلقہ کی بات ہے، اس لیے میرا معمول ہے کہ عمومی مجالس میں اس پر گفتگو نہیں کرتا بلکہ اسے مفید بھی نہیں سمجھتا۔ البتہ اپنے اسباق کے دوران اور اہل علم کی مجالس میں حسبِ ضرورت اس کا تذکرہ کرتا ہوں اور متعلقہ سوالات کا جواب بھی دیتا ہوں۔ میری کوشش علماء، طلبہ، مدرسین اور اصحابِ فکر کو ان مسائل کی طرف توجہ دلانے کی ہوتی ہے جو امت مسلمہ کو کسی نہ کسی سطح پر درپیش ہیں مگر ہماری عدم توجہ کی وجہ سے دوسرے علمی حلقوں میں وہ پہلے زیر بحث آجاتے ہیں جن کے نتائجِ فکر سے ہمیں اختلاف ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اس کے بعد مسئلہ کو زیر بحث بنانے سے بہتر ہے کہ ہم آغاز میں ہی اس مسئلہ کی طرف توجہ دیں اور اس کے بارے میں علمی اور سنجیدہ انداز میں اپنی رائے کا مناسب اظہار کردیں۔ اس کے بعد جس طرف سے جو رائے بھی آئے گی، اس کی حیثیت بہرحال ثانوی اور دفاعی ہوگی، جبکہ موجودہ طرز عمل میں ہماری رائے رد عمل تصور کی جاتی ہے اور ثانوی و دفاعی درجہ اختیار کرنے کے باعث پوری طرح موثر نہیں ہو پاتی۔ 
  • خلافتِ راشدہ کے بارے میں میرا مشاہدہ اور تاثر یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس کے صرف اعتقادی پہلو پر کسی حد تک بات کی جاتی ہے اور وہ اس جزوی دائرہ تک محدود رہتی ہے جس کا تعلق اہل تشیع کے ساتھ اختلاف و تنازع کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس سے ہٹ کر ہم خلافت اور خلافتِ راشدہ کے موضوع پر سرے سے بات ہی نہیں کرتے، حالانکہ ہماری عمومی دینی ضرورت یہ ہے جو آج کے عالمی سیاسی و تہذیبی تناظر میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے نظام کی سیاسی بنیادوں، خلافتِ راشدہ کے معاشرتی ماحول، خلافتِ راشدہ کے معاشی اصولوں اور طریق کار، بیت المال، رفاہی ریاست، خلافتِ راشدہ کے دور میں معاشرہ کے مختلف طبقات کو حاصل ہونے والے مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور معاشی حقوق، خلفائے راشدینؓ کے طرزِ حکومت اور ان کے طرزِ زندگی اور آج کے عالمی سیاسی، معاشرتی اور معاشی نظاموں کے ساتھ خلافتِ راشدہ کے نظام کے تقابل و تجزیہ پر کھل کر بات کی جائے۔
    مجھے ذاتی طور پر جہاں مناسب محسوس ہوتا ہے، ان میں سے بعض امور پر گفتگو کرتا ہوں اور اس سلسلہ کے چند بیانات تحریری صورت میں شائع بھی ہو چکے ہیں لیکن جس سطح پر اور جن دائروں میں اس کام کی ضرورت ہے، ان میں کام کرنے کا حوصلہ، وسائل اور مصروفیات دونوں حوالوں سے اپنے اندر نہیں پاتا۔ اگر خلافت کے موضوع پر کام کرنے والی جماعتیں، بالخصوص اہل سنت کے عقائد و مفادات کے تحفظ کا دعویٰ رکھنے والے حلقے اس سلسلے میں کسی علمی و فکری محنت کے لیے سنجیدہ ہوں تو مجھے تعاون کر کے خوشی ہوگی اور میں اسے اپنے لیے باعث سعادت و نجات تصور کروں گا۔ 
  • پاکستان میں اور اس سے بڑھ کر مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ تنازع جو صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور کشمکش کے جو دائرے تیزی کے ساتھ ابھرتے دکھائی دے رہے ہیں، وہ انتہائی پریشان کن ہیں اور مستقبل کاا نتہائی افسوسناک منظر پیش کر رہے ہیں۔ گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی کے دوران مشرقِ وسطیٰ کے بہت سے حصوں میں فاطمی حکومت تاریخ کا اہم حصہ رہی ہے اور سولہویں صدی عیسوی کے آغاز میں مصر کے مملوک حکمرانوں کے خلاف عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اولؒ کی جنگ کا تناظر بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری شیخ الاسلام مصطفی صیری رحمہ اللہ تعالیٰ نے مملوکوں کے خلاف سلطان سلیمؒ کی جنگ اور مصر پر ترکوں کے قبضہ کا پس منظر یہ بیان کیا ہے کہ مصر کے مملوک حکمرانوں کا رجحان ایران کی صفوی حکومت کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور صفوی حکمرانوں کی کوشش تھی کہ شیعی مذہب و عقائد کو قوت کے زور پر مصر کے ذریعے خلافت عثمانیہ کے علاقوں میں پھیلایا جائے۔ سلطان سلیمؒ نے اس کا راستہ روکنے کے لیے مصر پر قبضہ کر لیا اور مملوکوں کو راہ سے ہٹا دیا۔ اس دوران سلطان سلیمؒ اور صفویوں کے درمیان جو معاہدات ہوئے، ان کے بارے میں شیخ الاسلام مصطفی صیریؒ کا کہنا ہے کہ ان میں سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ، سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدتنا حضرت عائشہؓ کی توہین سے باز رہنے کی شقیں بھی موجود تھیں۔ 
مجھے مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ کے بہت سے علاقوں میں یہ کشمکش پھر سے شروع ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ اور سلطان سلیمؒ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ ان خدشات و خطرات کے سدِّباب کے لیے اگر کوئی کردار ادا کرنا ہے تو اس خطہ کی دینی قیادت نے کرنا ہے جسے سرے سے ان مسائل اور اس صورت حال کا ادراک ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت و اہمیت کا کوئی احساس پایا جاتا ہے۔ اس محاذ پر ہماری جدوجہد اور محنت عوامی جذبات کو بھڑکانے، نعرے لگوانے، جلسوں میں دھواں دار تقریریں کرنے اور قیمتی کارکنوں کو قربان کرتے چلے جانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے اور اسی طرزِ عمل کو ہم نے اپنی کامیابی اور نجات دونوں کا مدار قرار دے لیا ہے۔ معاملہ فہمی، مسائل کا ادراک، تدبر، حکمت اور حوصلہ کے ساتھ مسائل کو حل کرنے اور اپنی قوت کو محفوظ رکھتے ہوئے اس کے صحیح اور بر وقت استعمال کا ذوق اور صلاحیت ہم نے فریق ثانی کے لیے مختص کر دیے ہیں۔ 

میں سالہا سال سے متعلقہ حضرات سے گزارش کر رہا ہوں کہ اہلِ فکر و دانش کے باہم مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، اس طرزِ عمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، پورے خطے کی مجموعی صورتحال کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں مختلف ممالک میں کام کرنے والوں کے ساتھ رابطہ و مشاورت کی ضرورت ہے، عالمی استعماری قوتیں اس کشمکش کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے لیے جس طرح مستعد و متحرک ہیں، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور جذباتیت و سطحیت سے ہٹ کر مضبوط علمی و فکری اساس پر جدوجہد کی نئی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، مگر جہاں خود اپنی ہی طے کردہ حکمت عملی اور پالیسیوں پر نظر ثانی کو کفر کا درجہ دیا جانے لگا ہو ، وہاں ان باتوں کو کون سنتا ہے اور ان پر کون توجہ دیتا ہے؟

بہرحال اگر کچھ ’’اصحابِ فکر و دانش‘‘ اس مقصد کے لیے مل بیٹھنے کو تیار ہوں تو علمی و فکری مشاورت کے دائرہ میں میری خدمات ہر وقت حاضر ہیں۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو صورت حال کا صحیح ادراک نصیب فرمائیں اور خلوص، حوصلہ اور حکمت کے ساتھ دینی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

حالات و واقعات

(اگست ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter