مذکورہ بالا عنوان پر مولانا محمد یونس قاسمی، حافظ عبد المنان معاویہ اور راقم الحروف کی گزارشات ’الشریعہ‘ کے مارچ اور اپریل کے شماروں میں قارئین کی نظر سے گزر چکی ہیں۔ میرا خیال تھا کہ دونوں طرف سے ضروری باتیں سامنے آچکی ہیں اور اب کسی مزید بحث کی ضرورت باقی نہیں رہی، مگر مولانا محمد یونس قاسمی نے اپنے تازہ مضمون میں ایک دو باتیں ایسی فرمائی ہیں جن کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
انھوں نے راقم الحروف کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں نے قرآن کریم کی کسی منسوخ آیت سے استدلال کیا ہے۔ حیرت کے ساتھ یہ بات پڑھنے کے بعد میں نے اس سلسلے کے اپنے مضامین پر پھر ایک نظر ڈالی ہے، اس لیے کہ میں نے تو اپنے مضامین میں قرآن کریم کی صرف ایک ہی آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’وماہم بمومنین‘‘، وہ مومن نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ کسی اور آیت کریمہ کا حوالہ میرے مضامین میں استدلال کے طور پر موجود نہیں ہے اور اس آیت کے منسوخ ہو جانے کا مجھے علم نہیں ہے۔ اگر اس کے منسوخ ہو جانے پر کوئی حوالہ موجود ہو تو میں اس سے باخبر ہونا چاہوں گا، خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ قرآن کریم کے اس جملے میں ان منافقین کے مومن نہ ہونے کی ’خبر‘‘ دی گئی ہے جبکہ نسخ صرف احکام میں ہوتا ہے۔ ایمانیات اور اخبار نسخ کے دائرے کے امور نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے قرآن کریم کے حوالے سے ’’مسجد ضرار‘‘ کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے نسخ کی کوئی صورت بھی کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں نے اپنے سارے استدلال کی بنیاد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی طرز عمل اور معاشرتی رویے پر رکھی ہے کہ ان منافقین کے مومن نہ ہونے کے باوجود معاشرتی معاملات میں یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلسل شریک رہے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نہ صرف معاشرتی امور بلکہ مذہبی معاملات میں بھی اپنے ساتھ شریک رکھنے میں ہی مصلحت سمجھی ہے اور یہ سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں آخر تک رہا ہے۔ ’اخرج فانک منافق‘ قسم کا کوئی واقعہ اگر ہوا بھی ہے تو وہ شخصی واقعہ ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمومی رویے اور پالیسی کا آئینہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ طرز استدلال اہل حدیث حضرات کا ہے کہ کسی جزوی واقعہ یا ایک آدھ روایت کو بنیاد بنا کر پورے موقف کی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں۔ احناف کا طرز استدلال اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے ہاں مجموعی صورت حال کو سامنے رکھا جاتا ہے، صحابہ کرام کے اجماعی تعامل کو دیکھا جاتا ہے اور تمام متعلقہ روایات جو میسر ہوں، ان کا جائزہ لے کر موقف طے کیا جاتا ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل ان منافقین کے بارے میں یہ تھاکہ چند معر وف منافقین کے علاوہ صحابہ کرام کی صفوں میں موجود ان منافقین کی نشان دہی تک نہیں کی گئی۔ انھیں الگ کرنے اور معاشرتی طور پر انھیں علیحدہ قرار دینا تو بعدکی بات ہے۔ اس سے قبل ان کی جو نشان دہی ضروری قرار پاتی ہے، اس کا مرحلہ بھی نہیں آیا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف چودہ منافقین کے نام بتائے اور وہ بھی صرف حضرت حذیفہ بن الیمان کو، اس شرط کے ساتھ کہ وہ ان میں سے کسی کا نام اور کسی کو نہیں بتائیں گے، حتیٰ کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے انھیں کئی بار کرید کر پوچھنا چاہا مگرحضرت حذیفہؓ نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کو بھی ان میں سے کسی منافق کا نام بتانے سے انکار کر دیا جس پر حضرت عمرؓ نے یہ طرز عمل اختیار کیا کہ کسی عام شخص کے جنازے پر اگر حضرت حذیفہؓ موجود ہوتے تو حضرت عمرؓ جنازہ پڑھتے تھے، ورنہ یہ سوچ کر جنازہ پڑھنے سے گریز کرتے تھے کہ یہ میت کہیں ان چودہ منافقین میں سے کسی کی نہ ہو۔ جہاں منافقین کے ناموں تک کو خفیہ رکھنے کا اس قدر اہتمام موجود تھا، وہاں معاشرتی طور پر انھیں الگ کر دینے اور ان کا بائیکاٹ کر دینے کی بات عملی طور پر کس طرح ممکن ہے؟
مولانا محمد یونس قاسمی کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ منافقین کے معاشرتی بائیکاٹ کی بات خود قرآن کریم نے ایک جگہ کی ہے جس کا ذکر سورۃ الفتح کی آیت ۱۵ میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جو منافقین جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں آئے تھے، ان سے کہا گیا کہ اگلی جنگ میں تم مسلمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہو سکو گے، چنانچہ غزوۂ خیبر میں وہ لوگ خواہش کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ نہیں جا سکے تھے، لیکن یہ مقاطعہ وقتی اور عارضی تھا، اس لیے کہ سورۃ الفتح کی اس سے اگلی آیت ۱۶ میں ان منافقین سے کہا گیا ہے کہ:
’’تمھیں عنقریب ایک اور قوم کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دی جائے گی جو بڑی سخت پکڑ والی قوم ہے۔ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہو جائیں گے۔ اگر تم اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمھیں اچھا اجر عطا کریں گے اور اگر تم پھر گئے جیسے تم اس سے پہلے پھر جاتے رہے ہو تو اللہ تعالیٰ تمھیں سخت عذاب سے دوچار کر دے گا۔‘‘
مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں کہ یہ سخت پکڑ والی قوم (اولی باس شدید) جس کے مقابلے کے لیے منافقین کو مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے کی قرآن کریم خود دعوت دے رہا ہے، مسیلمہ کذاب کی قوم تھی اور وہ قبیلے تھے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مرتد ہو گئے تھے، اس لیے یہ کہنا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری دور میں منافقین کو مسجدوں سے نکال دیا تھا اور انھیں اپنی صفوں سے الگ کر دیا تھا، ایک خواہش تو ہو سکتی ہے مگر امر واقعہ نہیں ہے، حتیٰ کہ جب منافقین نے اپنی الگ مسجد بنا کر جداگانہ تشخص قائم کرنا چاہا تو قرآن کریم نے اسے ’’مسجد ضرار‘‘ قرار دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں جانے سے منع کر دیا تھا اورجناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ’’مسجد ضرار‘‘ کو گرا کر بلکہ نذر آتش کر کے ان کے علیحدہ تشخص کے امکان کو ہی ختم کر دیا تھا۔
میری طالب علمانہ رائے کے مطابق وہ منافقین جنھیں قرآن کریم نے صراحتاً ’وما ہم بمومنین‘ قرار دیا ہے اور وہ متذبذب اعرابی مسلمان جن کا قرآن کریم نے ’لم تومنوا ولکن قولوا اسلمنا‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے، ان کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی یہ رہی ہے کہ انھیں الگ تشخص قائم نہ کرنے دیا جائے، بلکہ انھیں اپنے ساتھ رکھ کر ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی سرگرمیوں پر پوری نظر رکھتے ہوئے ان کے شر سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی حکیمانہ پالیسی کا نتیجہ تھا کہ وہ منافقین جن کی تعداد غزوۂ احد کے موقع پر ایک ہزار میں سے تین سو بتائی جاتی ہے، اپنا الگ تشخص اور مورچہ قائم نہ کر سکنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ مسلم سوسائٹی میں تحلیل ہوتے چلے گئے اور جنگ یمامہ اور مرتدین کے خلاف جہاد کے بعد ان کا کوئی اکا دکا نشان بھی تاریخ کے تذکرے میں موجود نہیں ملتا۔
مولانا محمد یونس قاسمی نے ایک بار پھر فتووں کی بات چھیڑی ہے، جبکہ میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ معاملہ فتاویٰ کے دائرے کا نہیں بلکہ معاشرتی اور قومی ضروریات کے دائرے کا ہے۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند کے فتویٰ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ہمیں اس فتوے سے پوری طرح اتفاق ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خاندانی شرعی قوانین کے تحفظ کے لیے ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کے عنوان سے جو مشترکہ فورم کام کر رہا ہے اور اہل تشیع بھی اس کا حصہ ہیں، کیا دار العلوم دیوبند اس سے الگ تھلگ ہے؟ ا س بورڈ کی تو بنیاد ہی حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب قدس اللہ سرہ العزیز کی صدارت میں رکھی گئی تھی اور وہ تاحیات اس کے صدر رہے ہیں۔ اور کیا حرمین شریفین میں اہل تشیع کو مسلمانوں کے ساتھ نمازوں، روزوں، حج، تراویح اور دیگر عبادات میں شریک ہونے سے روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے؟ جن چند بزرگوں نے مقاطعہ کی بات کی ہے، وہ بھی ہمارے بزرگ ہیں، اکابر ہیں اور قابل احترام ہیں، لیکن آج بھی علماء امت کا اجماعی تعامل کیا ہے؟ اور ہمارے مراکز کی عملی پالیسی کیا ہے؟ اگر ہم شخصی آرا اور اجماعی تعامل میں فرق محسوس کرتے ہوئے اپنے اندر معروضی حقائق اور ملی ضروریات کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کر سکیں تو اکابر کے عملی فیصلوں کی حکمتوں کو سمجھنا آج بھی مشکل نہیں ہے۔