(۱)
محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم ڈاکٹر محمود احمدغازی مرحوم پر الشریعہ کا خصوصی شمارہ اوراپنی تالیف’’توہین رسالت کا مسئلہ۔چند اہم سوالات کا جائزہ‘‘ ارسال فرمانے کا شکریہ۔ثانی الذکر کے بالاستیعاب اوراول الذکر کے چنیدہ مقامات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ ان دنوں توہین رسالت کے مسئلہ کے زیر بحث آنے کے تناظر میں راقم کی رائے ہے کہ توہینِ رسالت پر سزائے موت ہی ہونی چاہیے اور سزائے موت کا قانون نہ صرف باقی رہنا چاہیے،بلکہ اس قانون پر کسی بھی دوسرے قانون پر عمل درآمد کے سلسلہ میں متصور مستعدی سے کہیں زیادہ مستعدی سے عمل کیا جانا چاہیے۔ وطنِ عزیز کے معروضی حالات اوراہلِ وطن کے احساسات کو پیش نگاہ رکھیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ لبرل اور سیکولر حضرات کا ’’فائدہ‘‘ اس قانون کے خلاف واویلا میں نہیں بلکہ اس پرموثراور بلا تاخیر عمل درآمد نہ ہونے پر واویلا کرنے میں ہے۔ معلوم نہیں یہ سیدھی سی بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ یہ قانون اور اس پر موثر عمل درآمد توہینِ رسالت کے ملزموں کا ماورائے عدالت قتل روکنے کا سب سے بہتر طریق کار ہے۔اس سلسلہ میں ذرا سی کمزوری بھی، جیسا کہ گورنر سلیمان تاثیر کے قتل سے واضح ہے، ’’تمھی قاتل،تمھی مخبر،تمھی منصف ٹھہرے‘‘ ہی کا نتیجہ پیدا کرے گی۔ بلا شبہ قانونِ توہینِ رسالت اور ملزمِ توہینِ ِ رسالت کے اقدامِ قتل کے بیک وقت دفاع میں کھلا تضاد ہے اور کسی بھی عقلی ومنطقی دلیل سے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (قانون کا تو مطلب ہی یہی ہے کہ ملزم انصاف کے کٹہرے میں آئے، اس کا ٹرائل ہو اور پھر اس کے معاملے کا فیصلہ ہو۔ اگر متاثر افراد نے خود سے ہی معاملات فیصل کرنا ہوں تو ظاہر ہے کہ قانون کی سرے سے ضرورت ہی نہیں) لیکن کیاکیجیے کہ یہ بھی قانون کے نفاذ میں کمزوری ہی کا کیا دھرا ہے۔ (وہ لوگ سخت بر خود غلط اور معروضی حالات کے ادراک سے یکسر قاصر ہیں جو قانونِ توہینِ رسالت پر عمل درآمد کو بھی دیگر قوانین پر عمل درآمد کا سا معاملہ خیال کرتے ہیں۔) یہاں چشم بینا کو کوئی حل اس کے سوا دکھائی نہیں دیتا کہ ادھر کسی شخص پر توہینِ رسالت کا الزام لگے اور ادھر وہ عدالت کے حصار میں ہو اور پھر انتہائی نیک نیتی سے اس کا ٹرائل یوں ہو کہ ہر آنکھ کو انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔اگر یہ نہیں تو کہانیاں ہی ہیں اور کہانیاں ہی رہیں گی۔
اور یہ سوال شاید کرنے کا نہیں کہ قانون کی کمزوری یا سست روی کا ردعمل زیر نظر معاملے ہی میں اس سرعت سے ’’تمھی قاتل، تمھی مخبر،تمھی منصف ٹھہرے‘‘ کی شکل میں سامنے آتاکیوں دکھائی دیتا ہے؟اس لیے کہ یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہاں کوئی Metaphysical involvement ہے اور اس لیے کہ خدا وندِ قدوس نے اگر ہر چیز بالحق پیدا فرمائی ہے اور دینی تناظر میں جنون ووارفتگی کا بھی کوئی مصرف ہے ،تو وہ ذات مصطفی علیہ التحےۃ والثنا اور آپؐ کی عزت و ناموس ہے۔یہاں اس کے سوا کچھ سوجھتا نہیں کہ:
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
جہاں تک آپ کی تالیف کے حوالے سے کسی خالص مبسوط علمی تنقید و تبصرہ کا تعلق ہے تو اس کی سر دست فرصت ہے نہ بساط۔ اس عاجزنے مذکورہ مسئلہ پر مختلف اہل فکر کے زاویہ نظر کے مالہ وماعلیہ کے مطالعہ کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ آپ کی تالیف کچھ مزید اہم پہلو سامنے لائی ہے۔ یہ بے شبہ نہایت مدلل اورمعلومات افزا ہے۔ میں نے کچھ چیزیں ترتیب دینے کی کوشش کی تھی، لیکن ہنوز کوئی قابل اشاعت چیز تیار نہیں کر سکا۔ شاید کبھی ہو جائے۔ سر دست صرف اس قدر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دلِ ناداں اس مسئلہ کو Rationalize کرنے پر مطمئن نہیں ہوا۔کوئی کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ:
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ڈاکٹر محمد شہباز منج
شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی آف سرگودھا
drshahbazuos@hotmail.com
(۲)
برادرم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم! الشریعہ مارچ کا شمارہ مطالعہ سے گزرا۔اس شمارہ میں مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان اور پروفیسر محمد مشتاق احمد صاحب کے مضامین خاص اہمیت کے حامل ہیں۔توہین رسالت کے مسئلہ پر دونوں مضامین بے حد معتدل اور متوازن محسوس ہوئے۔خاص طور پر پروفیسر مشتاق احمد صاحب کا مضمون اپنے عنوان کی وجہ سے محسوس ہوتا تھا کہ ایک رواجی ذہن کا مضمون ہوگا۔لیکن اس مضمون کے مندرجات نہ صرف سلیس زبان لیے ہوئے ہیں بلکہ فکری توازن سے بھی آراستہ ہیں۔ایک علمی اور تحقیقی مضمون کے لیے جس متوازن اور سنجیدہ زبان و بیان کا حامل ہونا ضروری ہے اس سے یہ مضمون بخوبی آراستہ محسوس ہوا۔ توہین رسالت کے مسئلہ پر معروف ایڈووکیٹ جناب اسماعیل قریشی صاحب کی ضخیم کتاب کے مطالعہ کے باوجود ایک پیاس اور کسک باقی رہ جاتی ہے۔محترم پروفیسر مشتاق احمد صاحب کے مضمون سے مجھے اپنی یہ پیاس بجھتی ہوئی محسوس ہوئی۔میرے خیال میں یہ مضمون اسلام کی رحمت اور عدل پر مبنی معتدل،متوازن اور معقول دعوت اور تعلیمات کی زیادہ صحیح ترجمانی کرتا ہے۔تاہم محترم پروفیسر صاحب کے مضمون کے اقتباس ’’اسی اصول پر طے کیاگیا ہے کہ اگر ملک کا سب سے برترحکمران حد کے جرم کا ارتکاب کرے تو اسے حد کی سزا نہیں دی جاسکے گی‘‘ میں جس بے بسی اور اسلامی قانون کی خامی کا اظہار ہوتا ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ اسلامی ضابطہ حیات ہی کی روشنی میں مختصرالفاظ میں اس کا حل بھی بتادیاجاتا۔جناب انعام الرحمن کا مضمون حسب روایت غیر علمی انداز کا حامل ہی محسوس ہوا۔موصوف اگر ’’نیم طنزونیم استہزا‘‘کی غیر علمی عادت سے گریز کرتے تو شاید موصوف کا یہ مضمون کسی درجے میں علمی کہلانے کا حقدار کہلاتااور قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان پیدا کرسکتا۔لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید موصوف علم اور تحقیق کے جذبے سے نہیں لکھتے بلکہ اپنی ’’طنز اور استہزا‘‘ کی عادت کی تسکین کے لیے لکھتے ہیں۔ہمارا عاجزانہ مشورہ ہے کہ جتنی جلد ہوسکے، وہ اپنی اس عادت سے جان چھڑا لیں، ورنہ شاید یہ عادت ان کی تمام اعلیٰ صلاحیتوں کو گھن کی طرح چاٹ جائے ۔
’’قومی و ملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت‘‘ کے عنوان کے تحت آپ کے والدمحترم مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جن خیالات کا اظہار فرمایا، اس میں بعض نکات کو ہضم کرنا خاصا مشکل محسوس ہوا۔ ان کے ارشادات کا معروضی خلاصہ یہ ہے کہ اہل تشیع کی تکفیر بالاجماع ہوچکی، لہٰذا اہل تشیع کو کافر سمجھنے کے باوجود ملت اسلامیہ کے اجتماعی مفاد اور کاز کے حصول کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں مسلمانوں کے ساتھ ان کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ تاہم جب ہم مسلم فقہا و اہل علم کے فتاویٰ کی طرف دیکھتے ہیں تو اہل تشیع کو ’’کافر‘‘ ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں، اور جب جمہورکے عملی طرز عمل کو دیکھتے ہیں تو پھر اہل تشیع کو مسلمانوں کا حصہ ماننا پڑتا ہے۔یہ صورتحال ایک عام آدمی کو اچھی خاصی کنفیوژن اور الجھن میں ڈال دیتی ہے۔اس الجھن میں اس وقت زبردست اضافہ ہوجاتا ہے جب مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم اپنے موقف کی حمایت کے لیے دور نبوی سے استشہاد واستدلال فرماتے ہیں۔
اس استدلال کا معروضی تجزیہ کیاجائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین سرداروں اور ان کے پیروکاروں کو کافر ڈکلیئر کر دیا تھااور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں ان کی شمولیت واشتراک بطور ’’کافر ملت‘‘ قبول کی تھی؟ سیرت و تاریخ اس کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔پھر یہیں سے ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی اجتماعی کازیا جدوجہد میں اہل تشیع کے اشتراک اور شمولیت سے پہلے کیا جمہورالمسلمین یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ پیش آمدہ ’’دینی و مذہبی جدوجہد‘‘ میں اہل تشیع کی شمولیت بطور ایک معاون’’کافر ملت‘‘ یا ’’غیر مسلم ‘‘ اقلیت کے طور پر قبول کی جارہی ہے۔اس سوال کا جواب بھی حالات و واقعات اور تاریخ سے یقیناًنفی ہی میں ملتا ہے۔سیرت رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور جمہور امت کے اس تعامل کو دیکھا جائے تواہل تشیع کی تکفیر پر مبنی مفتیان عظام اور اہل علم کے فتاویٰ پر بھی سوالیہ نشان کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر اہل تشیع میں چندخاص لوگوں کے کھلم کھلا اظہار کفراور باطل عقائد کی دعوت کی پاداش میں عام لوگوں کو اسلام سے خارج قرار دینے کی سزا کیوں دی جائے؟ بزرگوار محترم جناب راشدی صاحب کے موقف سے جہاں الجھن اور تناؤ میں اضافہ ہوا ،وہاں ان کے اقتباسات پر غور کرنے سے مسئلہ کا حل بھی مل گیا۔
میری عاجزانہ اور عامیانہ بساط اس الجھن کا یہ حل تجویز کرتی ہے کہ جناب زاہد الراشدی صاحب کے اقتباسات کی روشنی میں ہم اس معروضی نتیجہ تک رسائی حاصل کرتے ہیں کہ اہل تشیع کی اکثریت کا معاملہ دوررسالت کے منافقین سے ملتا جلتا ہے۔جیسا کہ گروہ منافقین کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’کافر ملت‘‘ ڈکلیئر نہیں کیاتھا، بالکل اسی طرح اہل تشیع کو بھی ’’ملت کافر‘‘ ڈکلیئر کرناخلاف سنت وحکمت ہے۔چونکہ منافقین کی اکثریت ’’وماہم بمومنین‘‘ کے قرآنی خطاب کے باوجود قانونی سطح پر قرآن انہیں ’’ملت کافر‘‘ قرار نہیں دیتا۔ بلکہ مسلم امت کا حصہ مانتے ہوئے انہیں خطاب کرتا ہے، قرآن ظاہری و باطنی اور فکری و نظری وعملی خرابیوں پر منافقین کی گرفت کرتا ہے۔انہیں اصلاح وتوبہ کی دعوت دیتا ہے۔ لہٰذا اس قرآنی دعوت کے نتیجہ میں دوررسالت میں جن لوگوں نے اپنی اصلاح کرلی اور نظری و عملی نفاق سے توبہ کرلی توقرآن اس پرانہیں قانونی سطح پر ’’کافر‘‘ سے ’’مسلم‘‘ ہونا قرار نہیں دیتا بلکہ اس داخلی فساد کی اصلاح کوتوبہ اور تزکیہ کا نام دیتا ہے۔ پھر منافقین چونکہ اپنے فکری فساد کو چھپایا کرتے تھے اور کافرانہ نظریات سے محبت رکھنے اور خفیہ طور پر ان کا اظہار کرنے کے باوجودعام مسلمانوں کے سامنے ان سے مکر جاتے تھے اور اصل اسلام کا اظہار کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں ’’ملت کافر‘‘ declare نہیں کیاگیابلکہ ان کے ظاہری اظہار اسلام کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں امت مسلمہ کا حصہ سمجھا گیا۔ اگرچہ ان کی اصلاح و تزکیہ کے لیے قرآن حکیم نے اپنی درجنوں بلکہ سینکڑوں آیات میں زوردیا ہے۔ بالکل اسی طرح اکیسویں صدی میں جو بھی گروہ کافرانہ نظریات و عقائد کا گرویدہ ہواور خفیہ طور پر ان کا اظہار بھی کرتا ہو، مگر عام مسلمانوں میں اسلام کے متفقہ علیہ عقائد ونظریات کی پیروی کا دعویٰ کرے تو ان کے اس دعویٰ کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ملت اسلامیہ کا حصہ مانا جائے گااور اصل زور سیرت وقرآن کی پیروی میں ایسے لوگوں کی باطنی اصلاح و تزکیہ پر صرف کیاجائے گا۔
رہ گیا سوال مفتیان عظام اور اہل علم کے ان فتاویٰ کا جن میں اہل تشیع کی تکفیرکی گئی ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی تعبیر یوں کی جانی چاہیے کہ ان فتاویٰ کا اطلاق کسی خاص فرقہ اورمعروف گروہ یا جماعت پر کرنے کی بجائے ملت اسلامیہ کے ہر فرقہ اور گروہ کے ان افراد پر ہوگا (چاہے وہ اپنے آپ کو اہل سنت ہی کیوں نہ کہلواتے ہوں) جو ان فتاویٰ میں بیان کیے گئے کفریہ عقائد و نظریات کے کھلم کھلامدعی اور دعویدار ہوں۔ اور جو لوگ عام مسلمانوں کے سامنے ان باطل نظریات و عقائد کو غلط مانیں انہیں ان فتاویٰ کی گرفت سے آزاد سمجھا جائے، چاہے وہ اہل تشیع کے فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی اور فرقہ سے۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب کے استدلال و استشہاد سے ہمیں اپنی اس سوچ کو پختہ کرنے کا موقع ملا ہے کہ باطل نظریات و عقائد کے ایسے پیروکارجو خود کو مسلمان کہلواتے ہوں اور عام مسلمانوں سے کفریہ عقائد کو چھپاتے ہوں اور عام مسلم عقائد کے مدعی ہوں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و ختم نبوت کوتسلیم کرتے ہوں تو ایسی صورت میں چاہے ایسا کو ئی ایک شخص ہویا کوئی گروہ یا فرقہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی بلکہ ان کی اصلاح اور تزکیہ پرپورا زور اور کوشش صرف کی جائے گی۔ہاں باطل نظریات اور کفریہ عقائدکا بطلان اور نکیرببانگ دہل کی جائے گی اور اس میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں کی جائے گی۔
اس بحث میں جہاں تک اہل تشیع کی بالاجماع تکفیر کے مسئلہ کا تعلق ہے تو بزرگوارم زاہدالراشدی دامت برکاتہم نے جو معروضی حقائق بیان فرمائے ہیں اس سے تو واضح ہوتا ہے کہ اہل تشیع کی تکفیر پر امت کا اجماع نہیں ہے۔ بلکہ اہل تشیع میں رائج بعض بدترین گمراہیوں اور خرابیوں کے باوجود امت کا اجتماعی ذہن انہیں بالعموم ملت اسلامیہ کا حصہ ہی سمجھتا رہا ہے اور اسی حیثیت سے ان کے تعامل واشتراک کو بھی قبول کیاجاتا رہا ہے۔تاہم اس کے باوجود ہمیں اپنے نتائج فکر پر اصرار نہیں ہے۔اوپر بیان کیے گئے معروضی حقائق سے اگرکوئی دلائل سے ہمارے نتائج فکر کا غلط ہوناثابت کردے تو ہم دل کی پوری آمادگی سے اپنی فکر کی اصلاح کرلیں گے۔اس ساری بحث میں جناب راشدی صاحب مدظلہ کا یہ موقف طالبان علم کے لیے کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ:
’’میرے والد محترم اور حضرت صوفی صاحب کا زندگی بھر یہ معمول رہا ہے کہ وہ بہت سے معاملات پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے تھے اور رائے بھی دیتے تھے، لیکن جب کوئی اجتماعی فیصلہ ہوجاتا تھا تو اسے نہ صرف قبول کرلیتے تھے بلکہ اس کا بھرپور ساتھ دیتے تھے۔خود میرا معمول بھی بحمداللہ تعالیٰ یہی ہے کہ بعض معاملات پر اپنی مستقل رائے رکھتا ہوں، اس کا اظہار بھی کرتا ہوں اور کوئی مناسب موقع ہوتو اس پر بحث و مباحثہ سے بھی گریز نہیں کرتا، لیکن عملاً وہی کرتا ہوں جو اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے اور جمہور اہل علم کا موقف ہوتا ہے، رائے کے حق سے میں کبھی دست بردار نہیں ہوا لیکن اپنی رائے کو حتمی قرار دے کر جمہور اہل علم کے موقف کے سامنے اڑنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے اور اسے کبھی حق اور صواب کا راستہ نہیں سمجھا۔‘‘
محمد رشید
مکان نمبر336/50،گلی نمبر3
شاہ فیصل کالونی رجوانہ روڈ، ملتان
(۳)
محترمی ومکرمی!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ........ مزاج گرامی!
آج کی ڈاک سے الشریعہ کا ڈاکٹر محمود احمد غازی نمبر موصول ہوا جسے دیکھ کر آپ کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ اللہ تعالیٰ اس کار خیر پر آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شخصیت اور ان کے افکار وخیالات پر ’’الشریعہ‘‘ نے خصوصی نمبر شائع کر کے اس میدان میں سبقت تو حاصل کر لی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس نمبر کی پیشکش (خوب صورت بائنڈنگ، عمدہ کاغذ، عمدہ طباعت اور معیاری مقالات) کی صورت میں اپنی اعلیٰ اہلیت اور مہارت کا لوہا بھی منوا لیا ہے۔
آج کے نفسا نفسی کے دور میں ہمارے دینی حلقے اس بنا پر دوسروں کی تعریف اور ان کے لیے کلمات خیر کہنے سے بچتے ہیں کہ مبادا اس سے کہنے والے کا مقام فروتر شمار نہ ہو۔ اسی بنا پر دینی حلقوں میں بڑی بڑی قد آور شخصیات انتقال کر جاتی ہیں اور ان پر مقتدر دینی حلقوں کو دو لفظ کہنا بھی نصیب نہیں ہوتا، حالانکہ برسوں پہلے شیخ سعدی فرما گئے تھے:
نام نیک رفتگاں ضائع مکن
تا بماند نیک نیکت برقرار
آپ اور آپ کے والد محترم (اللہ تعالیٰ انھیں سلامت رکھے، اللہ رب العزت نے انھیں حالات حاضرہ کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے کا خصوصی فہم اور سلیقہ عطا کیا ہے) جو شمع جلائے بیٹھے ہیں اور جس کی روشنی سے اپنے اور بیگانے سبھی مستفید ہو رہے ہیں، ہمارے دینی حلقوں میں ایک منفرد مثال ہے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں اس بزم میں شرکت نہیں کر سکا، لیکن چونکہ ’’قافلہ ادب اسلامی‘‘ بھی اس عنوان پر خصوصی نمبر شائع کر رہا ہے، اس لیے امید ہے، اس کے ذریعہ اس کی تلافی ہو جائے گی۔
اس نمبر کی اشاعت پر میری طرف سے دلی مبارک باد قبول فرمائیے۔ والد محترم مولانا زاہد الراشدی دامت برکاتہم کی خدمت میں تسلیمات۔
ڈاکٹر محمود الحسن عارف
اردو دائرۂ معارف اسلامیہ
پنجاب یونیورسٹی، لاہور
(۴)
محترم ومکرم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماہنامہ الشریعہ کا خصوصی شمارہ بیاد مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب موصول ہوا۔ میں آپ کو اور آپ کی پوری ٹیم کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ آپ نے مختصر عرصہ میں چھ سو ضخیم صفحات پر مشتمل خصوصی اشاعت شائع کر کے عصر حاضر کے ایک عظیم محقق کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
یقیناًڈاکٹر محمود احمد غازی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اس قابل تھی کہ ان کی وفات پر ان کے حالات زندگی، ان کے علمی وفکری رجحانات اور سب سے بڑھ کر ان کی وسعت نظری پر، جس پر کسی خاص مسلک کی چھاپ نہ تھی اور خاص گروہی دائرے سے نکل کر پوری امت مسلمہ کے مسائل کو دیکھنے اور اسے حل کرنے کی صلاحیت تھی، خصوصی اشاعت کا اہتمام ہو۔ یہ سعادت الشریعہ کے حصے میں آئی ہے اور الشریعہ نے اسے خوب نبھایا ہے اور ڈاکٹر صاحب کی پوری زندگی کھلی کتاب کی طرح ہمارے سامنے آ گئی ہے۔
بدقسمتی سے برصغیر میں دینی ومذہبی رہنماؤں اور قیادتوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اپنے خاص گروہی دائرے سے باہر نہ نکلنا ہے جس کی وجہ سے سیکولر طبقہ ہمیشہ سے عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب نظر آتا ہے کہ جو مولوی ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، وہ پاکستان میں کیا اسلام لائیں گے؟ اور اگر یہ اسلامی نظام لانے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو کون سی فقہ نافذ کریں گے یا کس گروہ کے اسلام کو نافذ کیا جائے گا؟ اگرچہ علماء کرام نے مل کر اس کا جواب دے دیا تھا، مگر وہ صرف دستاویزات کی حد تک ہی محدود رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے مذہبی گروہوں کے درمیان ابھی تک فاصلے باقی ہیں اور یہ فاصلے جلد ختم ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آتی، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے کہ کل حزب بما لدیہم فرحون۔ ہر گروہ اپنے پاس جو کچھ ہے، اسی پر خوش ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اغیار کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ مذہبی لوگوں کے درمیان مزید اختلافات پیدا کریں اور ان کو تقسیم در تقسیم کریں۔ گورنمنٹ کی جانب سے ناموس رسالت ایکٹ پر ترمیم کے خلاف اگرچہ تمام دینی وسیاسی جماعتوں اور دینی رہنماؤں کی یک جہتی نظر آتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ اتحاد بھی جلد ختم ہوجائے گا۔ ان پریشان کن حالات میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی شخصیت ہم سب کے لیے اور پوری امت مسلمہ کے لیے ایک آئیڈیل ہے کہ ہم بھی ان کی طرح گروہی ومسلکی تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچیں اور عالم کفر کی اسلام کے خلاف زہریلی مہم کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اپنائیں۔ اتحاد بین المسلمین کے لیے پرزور جدوجہد کریں اور اسلام کو اس دور میں بھی قابل عمل بنانے کی سعی پیہم کریں۔
سعید احمد الحسینی
مرکز تعلیم وتحقیق، قرآن اکیڈمی
یاسین آباد، کراچی
(۵)
محترمی ومکرمی مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپریل ۲۰۱۱ء کے شمارے میں برادرم عبد المنان معاویہ کا خط اور آنجناب کا جواب پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اسی سلسلے میں کچھ جذبات وتاثرات عرض کرنا چاہتا ہوں اور آپ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’جذبات وتاثرات کو سینے میں گھٹے نہیں رہنا چاہیے، بلکہ ان کا اظہار ہونا چاہیے اور ان پر ایک جائز حد تک کھلا مباحثہ بھی ہونا چاہیے۔‘‘
۱۔ آپ نے فرمایا کہ آپ قادیانیوں سے بھی قومی ومعاشرتی تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس میں خود قادیانی رکاوٹ ہیں۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ محقق اہل سنت، شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید ؒ نے تحفہ قادیانیت ص ۵۹۱ میں فرمایا ہے کہ ’’پاکستان کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے، لیکن قادیانیوں سے اپنے آپ کو غیر مسلم شہری (ذمی) تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس طرح وہ غیر مسلم ذمی نہیں، بلکہ ’’محارب کافر‘‘ ہیں اور ’’محاربین‘‘ سے کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنا شرعاً جائز نہیں۔‘‘
۲۔ قادیانی اور اہل تشیع دونوں اسلام کے نام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور تبلیغ بھی ایسی کہ جو ملک کی صورت حال میں گڑبڑ پیدا کرتی ہے۔ قادیانی اور اہل تشیع دونوں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دیتے ہیں اور آپ پھر توقع رکھتے ہیں کہ معاشرے کا امن قائم رہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ اصل فساد کی جڑ تو یہ ہے جس کو ختم ہونا چاہیے۔ ہماری تو ایمانی ودینی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ ہم ان کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں، کھائیں پئیں، ان کو اپنی مجالس میں شامل کریں یا ان کی مجالس میں شریک ہوں۔ آپ کی ایمانی غیرت کیسے گوارا کرتی ہے؟
۳۔ اپ اپنے ساتھ اہل تشیع کو ملا کر خوش ہیں کہ ہم سب ایک ہیں، ہم میں اتحاد ہے تو آپ اس اتحاد کو کیا نام دیں گے؟ ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ یا ’’اتحاد بین المسلمین والکافرین والکاذبین‘‘؟ آپ نے اپنے ساتھ اہل تشیع کو ملایا ہوا ہے اور قادیانیوں کو بھی ساتھ ملانا چاہتے ہیں، مگر اپنے مسلک کی جماعت سپاہ صحابہ کو آپ نے اپنے سے دور کر رکھا ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
۴۔ آپ نے فرمایا کہ اگر اہل تشیع کا معاملہ حل کرنا ہے تو اس کا آغاز حرمین شریفین سے ہونا چاہیے۔ عرض ہے کہ جب قادیانیوں کا مسئلہ حل ہوا تھا تو کیا وہ حرمین شریفین سے حل ہوا تھا؟ مودبانہ عرض ہے کہ جب اپنا پیٹ بھوکا ہو تو پہلے اپنے پیٹ کو بھرتے ہیں، اس لیے تمام اکابر علماء کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مسئلے کا جلد اجتماعی فیصلہ کریں۔ محقق اہل سنت مولانا علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان سید سجاد علی شاہ کے سامنے شیعوں کی کتابیں اور آڈیو کیسٹیں پیش کی تھیں۔ سید سجاد علی شاہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’مجھے ہٹایا اس وجہ سے گیا تھا کہ میں دلائل کے سامنے جھک گیا تھا۔ یہ فیصلہ کر رہا تھا۔‘‘ مگر یہ فیصلہ ہونے سے پہلے ہی ان کو ہٹا دیا گیا، ورنہ آج شیعہ یہاں غیر مسلم ہوتا۔ ہم حکومت پاکستان سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس کیس کو ری اوپن کرے تاکہ اس مسئلے کا حل نکل سکے۔
۵۔ ہم سپاہ صحابہ والے کہتے ہیں کہ اپنو ں کو اپنے ساتھ ملائیں۔ اپنوں میں لاکھ غلطیاں کوتاہیاں سہی، مگر مسلمان کے ساتھ مسلمان اچھا لگتا ہے۔ مسلمان کے ساتھ کافر اچھا نہیں لگتا۔ جب آپ کافروں کو ساتھ بٹھائیں گے تو مغالطہ پیدا ہوگا اور عام آدمی یہ سمجھے گا کہ یہ بھی مسلمان ہیں۔ آپ ہمارے بزرگ ہیں، مگر اکابرین امت فرما گئے ہیں کہ اہل تشیع کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق رکھنا جائز نہیں۔ ہم کس کی بات مانیں؟ آپ کی یا پہلے والے اکابرین امت کی؟ اگر ہم ان کی بات کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں تو آپ جیسے بزرگ ہی ہمارے اوپر یہ لیبل لگا دیتے ہیں کہ ہم سپاہ صحابہ والے اکابر کے گستاخ ہیں۔ آخر ہم کریں تو کیا کریں؟ کس کو اپنا دکھ درد بتائیں؟ اگر آپ جیسے بزرگ ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے، ہمیں اپنے ساتھ نہیں ملا سکتے تو پھرہمارے زخموں پر نمک چھڑکنے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں۔ خدارا! آپ کا جو مقام بنتا ہے، آپ اپنے اس مقام کو پہچانیں۔ جب آپ جیسے بزرگ ایسی تحریرات لکھیں گے تو پھر ہم جذبات میں نہ آئیں تو اور کیا کریں؟
۶۔ ہم مانتے ہیں کہ اکابر نے اہل تشیع کا ساتھ دیا ہے، مگر اکابر سے ہٹ کر آپ سے یہ پوچھنا ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں اہل تشیع کیا ہیں؟ مسلمان یا کافر؟ اگر کافر ہیں تو پھر ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات رکھنا کیسا ہے؟ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، ان کو اپنی مجالس میں شامل کرنا یا ان کی مجالس میں شریک ہونا شرعاً کیسا ہے؟ ان دو سوالوں کے شرعی حوالے سے جوابات دے کر اپنا ایمانی فریضہ ادا کریں۔ خصوصاً مفتیان کرام سے گزارش ہے کہ ان سوالوں کے جوابات قرآن وسنت کی روشنی میں دے کر امت مسلمہ کو کفریہ عقائد سے بچائیں۔
حافظ محمد حسن الحسینی
(۶)
محترمی ومکرمی محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
ماہنامہ الشریعہ، اپریل ۲۰۱۱ء میں جناب چودھری محمد یوسف اور شفقت رضا منہاس ایڈووکیٹ صاحبان کا مضمون ’’کورٹ میرج: چند قانونی اور معاشرتی پہلو‘‘ نظر سے گزرا۔ چار مرتبہ عرق ریزی اور جاں فشانی سے پڑھنے کے باوجود میں مضمون کی اساس تک پہنچنے سے مکمل طورپر قاصر رہا، کیونکہ حسب روایت عنوان اور مضمون میں کوئی تال میل نظر نہ آیا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بقول محترم مضمون نگار صاحبان ’’وکلا ذہین لوگوں کا پیشہ ہے‘‘، جبکہ میں ذہانت کی اس معراج پر ابھی نہیں پہنچ پایا جہاں حقائق اور موز واسرار مجھ پر یوں منکشف ہوں جیسے وکلا حضرات پر ہوتے ہیں۔
دونوں حضرات بات کورٹ میرج سے شروع کرتے ہیں۔ اس کے بعد پروفیسر حضرات کو رگڑتے ہوئے قاری کو گھسیٹ کر عدالت کے کٹہرے میں لے جاتے ہیں۔ پھر بطور اتھارٹی ’’مارننگ ود فرح‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے آخر میں بڑے پروفیشنل انداز میں ’’میں باغی ہوں‘‘ کہہ کر اپنی جان خلاصی کروانا چاہتے ہیں۔ جناب ایڈووکیٹ صاحبان! پہلے تو قانونی تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر یہ بتایا جائے کہ کیا پاکستان میں ’’کورٹ میرج‘‘ کے عنوان سے شادیاں نہیں ہو رہیں؟ (قانون اس کی اجازت دیتا ہے یا نہیں، یہ ایک علیحدہ بحث ہے)۔ اگر ہو رہی ہیں تو پھر آپ کے دوست کی بیٹی کا thesis بھی درست ہے۔ آپ کی ذمہ داری تھی کہ اس کی راہنمائی کرتے، نہ کہ اس پر اپنی رائے ٹھونستے۔ مضمون نگار صاحبان خود ہی کورٹ میرج کے تصورکی نفی کرتے ہیں، پھر خود ہی اس سلسلے میں عدالت میں پیش بھی ہوتے ہیں۔ کیا یہ ذہین پیشے سے وابستہ افراد کے نظریہ اور عمل میں کھلا تضاد نہیں؟
محترم مضمون نگار صاحبان رانی توپ کا رخ پروفیسر حضرات کی جانب کرتے ہوئے چند ثانیوں کے لیے یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ان کے مضمون کا عنوان کورٹ میرج ہے نہ کہ تعلیمی اداروں میں بورڈ آف گورنرز کے خلاف طلبہ اور اساتذہ کا رد عمل۔ ان کو یقین ہے کہ گورنمنٹ کالجز میں تعلیم، نام کی حد تک رہ گئی ہے اور پروفیسر صاحبان صرف تنخواہ وصول کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میں ان کی خدمت میں عرض کروں گاکہ آج بھی سفید پوش عوام الناس کے بچوں کی کثیر تعداد انھی سرکاری کالجز میں زیر تعلیم ہے اور یہی کالجز ان کے لیے تعلیم کی آخری کرن ہیں۔ یہ بات کہ پروفیسر حضرات کی ایک تعداد صرف تنخواہ وصول کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، بڑی حد تک درست ہے، لیکن وہ یہ بتائیں کہ ان چند مفاد پرست لوگوں کی بدولت تمام محنتی اساتذہ کی کردار کشی کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
کیا آپ کے ’’ذہین افراد‘‘ پر مشتمل شعبے میں کالی بھیڑیں نہیں ہیں؟ کیا چند وکلا پیسوں کی خاطر اپنی مخالف پارٹیوں سے نہیں مل جاتے؟ کیا چند وکلا ججز اور سائلوں کے درمیان ’’پل صراط‘‘ کا کام نہیں کرتے؟ قانون کو تو آپ نے اپنے گھر کی باندی بنا رکھا ہے۔ قانون کے رکھوالے بھی آپ اور میرٹ کے بغیر ایم بی بی ایس میں داخلہ دلوانے والے بھی آپ۔ نظریہ ضرورت کے تخلیق کار بھی آپ اور اس کے تخریب کار بھی آپ۔ گویا قانون ساز بھی آپ اور قانون شکن بھی آپ۔ سو جس طرح ان چند ذہین مگر لالچی وکلا کے کردار کی بنیاد پر پورے شعبہ وکالت کو برا نہیں کہا جا سکتا، اسی طرح چند خودغرض پروفیسرز کی وجہ سے آپ کو شعبہ تدریس سے منسلک تمام اساتذہ کرام کی کردار کشی کا بھی قطعاً کوئی حق نہیں رکھتے۔
پروفیسر محمد اویس چوہدری
شعبہ انگریزی، گورنمنٹ اسلامیہ کالج، گوجرانوالہ