دین کے مختلف شعبوں میں تقسیم کار کی اہمیت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تبلیغی جماعت ہمارے اس دور میں دین کی دعوت، عام مسلمان کو دین کی طرف واپس لانے اور اصلاح وارشاد کی تجدیدی تحریک ہے جس کا آغاز شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن دیوبندی کے ماےۂ ناز شاگرد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کے ہاتھوں ہوا اور یہ ان کے خلوص وللہیت کا ثمرہ ہے کہ کم وبیش دنیا کا کوئی حصہ بھی دعوت وتبلیغ کی اس مبارک جدوجہد کی تگ وتاز سے خالی نہیں ہے۔ اس جدوجہد کا بنیادی ہدف عام مسلمان کو مسجد کے ساتھ جوڑنا اور عمومی سطح پر دینی ماحول کو زندہ کرنا ہے جس کے اثرات وثمرات دن بدن پھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی گزشتہ صدی کی ان تجدیدی شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے دین کے مختلف شعبوں کو اپنی جدوجہد کا میدان بنایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وعنایات سے اپنی پرخلوص محنت کے ساتھ پورے ماحول کو بدل دیا۔ کچھ عرصہ پہلے ایک مجلس میں تبلیغی جماعت کی خصوصیات وامتیازات پر گفتگو ہورہی تھی۔ میں نے عرض کیا کہ میرے نزدیک حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کام کو ایک شعبے میں محصور رکھا اور دوسرے شعبوں میں کام کرنے والوں سے تعرض نہیں کیا۔ گزشتہ دوصدیوں میں بہت سے مفکرین سامنے آئے اور کسی نہ کسی کام کی دعوت کو لے کر اٹھے۔ اگر وہ اسی کام کی دعوت اور اس کے فروغ تک خودکو محدود رکھتے تو شاید انہیں مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا، مگر انہوں نے بیک وقت داعی، متکلم، مناظر اور مفتی بننا بھی ضروری سمجھا جس سے ان کا کام نہ صرف خلفشار کا شکار ہوا، بلکہ وہ خود بھی متنازع حیثیت اختیار کرتے چلے گئے، لیکن یہ حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی بصیرت وفراست تھی کہ انہوں نے دعوت وتبلیغ اور اصلاح وارشاد کے اس کام کو چھ نکات میں سمویا اور اپنی جدوجہد کو اسی دائرے میں محدود کردیا، جبکہ عقائد کی تعبیرات اور احکام ومسائل کے بارے میں وہ یہی کہتے رہے کہ ’’محلے کے مولوی صاحب سے دریافت کریں‘‘۔ میری طالب علمانہ رائے میں یہ بہت بڑی حکمت کی بات تھی۔

دین کے کاموں کی، مختلف شعبوں میں تقسیم فطری ہے اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے چلی آرہی ہے۔ حدیث کی روایت کا اہتمام کرنے والے صحابہ کرام اپنا الگ امتیاز رکھتے تھے، قرآن کریم کی تفسیر وتاویل میں امتیازی شخصیات الگ نظر آتی ہیں، فقہ واستنباط کا ذوق رکھنے والی شخصیات دوسروں سے ممتاز دکھائی دیتی ہیں، کچھ صحابہ کرام فتنوں سے آگاہی اور ان کی نشان دہی کے میدان میں جداگانہ ذوق کے حامل رہے ہیں، بعض ممتاز صحابہ کرام کا قرآن کریم کے حفظ وقرأت میں الگ سے نام لیا جاتا ہے، جرنیل صحابہ کرام کا امتیاز بھی موجود ہے اور سیاست وانتظام میں معروف صحابہ کرام کو بھی الگ سے گنا جاسکتا ہے، البتہ اس دور میں یہ بات نمایاں تھی کہ کسی شعبہ میں دین کے کام نے ’’حزبیت‘‘ کا رنگ اختیار نہیں کیا تھا اور اپنے اپنے شعبہ میں کام کرتے ہوئے دوسرے شعبوں میں تعاون واشتراک کا بھرپور جذبہ ہر سطح پر کارفرما تھا اور اس لیے یہ تقسیم کار اپنے فطری دائرہ میں محدود تھا اور اس کے ثمرات سے امت نے بڑے عرصہ تک استفادہ کیا۔

بعض دوستوں کو یہ اعتراض ہے کہ دین کے فلاں فلاں کام تبلیغی جماعت والے نہیں کرتے اور انہوں نے دین کو ایک محدود دائرے میں بند کردیا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ تبلیغی جماعت نے دین کو محدود نہیں کیا، بلکہ اپنی جدوجہد کے دائرے کو محدود کیا ہے جو تقسیم کار کے فطری اصول کے مطابق ہے اور حکمت ودانش کا تقاضا ہے۔ تبلیغی جماعت والے بنیادی طور پر دوتین کام کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایک عام مسلمان کو جس کا مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، گھیرگھار کے مسجد کے ماحول میں لے آتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ جس شخص کا مولوی صاحب کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے، اسے بہلاپھسلاکر مولوی صاحب کے پیچھے نماز میں کھڑا کردیتے ہیں اور تیسرا یہ کہ چند روز کے لیے اسے اپنے ساتھ چلاکر دین کی بنیادی باتیں، جن میں عقائد، احکام اور اخلاقیات شامل ہیں، سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تینوں کام وہ کررہے ہیں اور جس عمومی سطح پر وہ کام کرتے ہیں، کوئی اورادارہ نہیں کررہا۔ ہمارے پاس مساجد ومدارس میں جو لوگ چل کر آتے ہیں، ہماری محنت انہی تک محدود رہتی ہے، مگر تبلیغی جماعت والے چل کر لوگوں کے پاس جاتے ہیں اور انہیں دین کے ماحول میں آنے کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ مسجد ومدرسہ کی آبادی بڑھانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ہم اگر ان دوستوں کے کام کو اسی سطح پر محدود رکھتے ہوئے اس سے اگلا کام خود کریں کہ ان کے بھرتی کیے ہوئے لوگوں کی دین کے دیگر شعبوں میں تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں اور یہ طے کرلیں کہ بھرتی کا کام ان کا ہے اور اس سے اگلا کام ہمارا ہے تو میرے خیال میں کوئی شکایت باقی نہیں رہے گی، مگر بدقسمتی سے ہماری اس طرف اجتماعی طور پر توجہ نہیں ہے جس سے دھیرے دھیرے ’’حزبیت‘‘ کا ماحول پیدا ہورہا ہے۔

دین کے مختلف شعبوں میں ہونے والا کام جب تک حزبیت (جماعتی گروہ بندی)سے بچتے ہوئے باہمی تعاون واشتراک کے ماحول میں ہوتا رہے گا، اس کے ثمرات ونتائج مثبت رہیں گے، لیکن جب اس میں تقسیم کار کی بجائے حزبیت کا رجحان غالب ہوگا تو وہ شکایات ضرور پیدا ہوں گی جن کا مختلف حلقوں کی طرف سے اظہار شروع ہوگیا ہے، اس لیے کہ حزبیت کا خاصہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ: ’’کل حزب بما لدیہم فرحون‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی گروہ ’’حزب‘‘ بن جائے گا تو صرف اپنا کام ہی اسے اچھا لگے گا اور دوسرے کسی گروہ کے کام کو اچھا کہنا اس کے لیے مشکل ہوگا۔ ہمارے آج کے دور کی سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ دین کے مختلف شعبوں میں کی جانے والی محنت تقسیم کار کی بجائے حزبیت کا رنگ اختیار کرتی جارہی ہے اور یہ صرف تبلیغی جماعت کے حوالے سے نہیں، بلکہ دوسرے بہت سے دینی شعبوں میں کام کرنے والے گروہوں کے جذباتی کارکنوں کی نفسیات بھی یہی ہے کہ انہیں صرف اپنا کام اچھا لگتا ہے، وہ اسی کام کے تقاضوں کو دین کے مجموعی ماحول کا تقاضا قرار دینے لگتے ہیں اور دوسرے کسی شعبے کے دینی کام کی اگر وہ نفی نہ بھی کریں تو اس کا تذکرہ ایسے انداز میں کریں گے، جیسے اس کام کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔

تبلیغی جماعت کے کام میں ایک اور بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ جہاں علمائے کرام اس کام میں شریک ہیں اور ان کی راہ نمائی میں کام ہورہا ہے، وہاں کی صورت حال اور ہے اور جہاں علمائے کرام اس کام سے الگ تھلگ ہیں، وہاں کی صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سارے علمائے کرام اس کام کے لیے وقف ہوجائیں اور اپنے اصل کام کو حرج میں ڈال دیں، بلکہ تعلیم وتدریس اور امامت وخطابت کا حرج کرکے کسی بھی دوسرے دینی کام کے ساتھ خود کو مختص کرلینا ویسے بھی دین کے مفاد کے خلاف بات ہوگی۔ دین کے کسی شعبے میں اس شعبہ کے دوستوں سے تعاون کرنے کا مطلب اپنے دینی کام کو کمزور کرنا نہیں، بلکہ باہمی تعاون کی ایسی فضا پید اکرنا ہے جس سے دونوں ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنیں، اس لیے میری علمائے کرام سے ہمیشہ یہ گزارش رہتی ہے کہ اپنے کام کو پوری طرح سرانجام دیتے ہوئے اس میں کوئی کمزوری لائے بغیر تبلیغی جماعت کے ساتھ اس درجہ کا تعلق ضرور قائم رکھیں کہ وقتاً فوقتاً اس میں تھوڑا بہت وقت لگاتے رہیں تاکہ باہمی ربط وتعلق موجود رہے اور ہم سب ایک دوسرے کو کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے باہمی خوبیوں سے استفادہ کر سکیں۔ خود میرا معمول سالہاسال سے یہ ہے کہ سال میں ایک سہ روزہ پابندی کے ساتھ تبلیغی جماعت میں ان کے نظم کے مطابق لگاتا ہوں جو عام طورپر عیدالاضحی کی تعطیلات میں ہوتا ہے اور یہ دکھاوے کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ تبلیغی جماعت کا علمائے کرام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی نیت کے علاوہ خود بھی اس ماحول سے بحمداﷲ استفادہ کرتا ہوں اور دینی فوائد محسوس کرتا ہوں۔ 

والدگرامی حضرت مولانا محمد سرفرازخان صفدر کا ذوق ومعمول بھی یہی تھا کہ وہ تبلیغی جماعت کے کام کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اسے بنیادی طور پر دین کا کام سمجھتے ہوئے سراہتے بھی تھے، البتہ کچھ تحفظات بھی رکھتے تھے جن کا اظہار انہوں نے کبھی عمومی ماحول میں نہیں کیا، بلکہ تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے ان تحفظات پر بوقت ضرورت بات کی اور اسے اسی سطح پر رکھا ہے۔ حضرت والدگرامی کے ساتھ میں بھی ایک خادم کے طور پر اکابر علمائے کرام کے اس وفد میں شریک تھا جس میں مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ ، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ، مولانا حسن جان شہید، مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید، مولانا سعیداحمدجلال پوری شہید، مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید اور غالباً مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم بھی شامل تھے۔ ان بزرگوں نے رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بھارت سے تشریف لانے والے سرکردہ تبلیغی بزرگوں سے ملاقات کرکے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا اور ان بزرگوں نے ان تحفظات کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاح احوال کی کوشش کا وعدہ کیا تھا۔ اس واقعہ کے تذکرہ کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کا طریق کار یہ تھا کہ کسی بھی دینی کام میں اگر کام کرنے والوں سے کچھ شکایات ہیں تو انہیں شکایات کے درجہ میں ہی رکھا جائے۔ ہمارے اکابر کی احتیاط کا اس سے اندازہ کرلیا جائے کہ اپنی گفتگو میں انہوں نے پاکستان کے تبلیغی بزرگوں کو بھی شامل نہیں کیا تھا کہ بات محدود سے محدود رہے، مگر اس سب کچھ کے باوجود تبلیغی جماعت کا کام دین کا کام ہے، ہمارا اپنا کام ہے اور دین کی دعوت وتبلیغ کے ساتھ عام مسلمان کی اصلاح وارشاد کا کام ہے جس کے ساتھ تعاون دین کے تقاضوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

دین و حکمت

(مئی ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter