ہیپا ٹائٹس کا اژدہا منہ کھولے اور پھن پھیلائے سارے ملک میں تباہی پھیلا رہا ہے، حتیٰ کہ سرسبز مقامات کے علاوہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر رہائش پذیر آبادی بھی اس کے چنگل سے محفوظ نہیں۔ مریضوں کی بدپرہیز اور معالجوں کی ناسمجھی نے نوبت جگر کی پیوند کاری تک پہنچا دی ہے۔ خدا نخواستہ اتنا مہنگا علاج بھی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکا تو کیا ہوگا؟ اطباء عظام نے فرمایا ہے کہ جگر سے کتنا بھی خلاف فطرت کام لیا جائے، یہ کام کرتا رہے گا اور ایک عرصہ تک خراب نہیں ہوگا، لیکن جتنا وقت خراب ہونے میں لے گا، اتنا ہی ٹھیک ہونے میں بھی لے گا۔ ایک بار جگر خراب ہو جائے تو بارہ سال تک اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
تین تین ماہ کے کورس اور درجنوں انجکشن لگوانے کے باوجود فائدہ نہ ہونے کے مقابلے میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ اطباء نے فقط تین چار دن میں جگر کے مریض کو گھوڑے کے ساتھ دوڑایا ہے۔ شرط یہ ہے کہ پڑھانے والوں نے طب مشرق صحیح معنوں میں پڑھائی اور پڑھنے والوں نے پڑھی ہو۔ ہیپا ٹائٹس سی کی ایک مریضہ،جو دو بچوں کی ماں تھی، کھانے پینے اور چلنے پھرنے اور بولنے سے قاصر ہو چکی تھی۔ لاہور کے نامور معالجین کے علاج کے باوجود حالت ناگفتہ بہ تھی۔ اس کے میاں ہنڈا کمپنی، جاپانی برانچ، ملتان روڈ لاہور میں مکینک ہیں۔ سبزہ زار پارک میں، میں بھی ان کے گھر کے قریب ایک مدرسہ میں رہائش پذیر تھا۔ ایک دن مریضہ کے شوہر انور صاحب نے روتے ہوئے مدرسہ کے قاری صاحب سے کہا کہ اہلیہ کے علاج میں جائیداد، گاڑی، قیمتی برتن اور گھر کا اثاثہ بیچ چکا ہوں۔ اب خالی ہاتھ ہوں۔ معالجین نے میری بیوی کے ہیپا ٹائٹس سی کو ناقابل علاج قرار دیا ہے۔ قاری صاحب انھیں میرے پاس لے آئے۔ میں نے مریضہ کا باقی علاج جو کچھ کیا، وہ تو اپنے موقع پر عرض کروں گا، انوکھی بات یہ تھی کہ جون جولائی کی گرمی میں اسے کمرے سے باہر نہ لانے کی ہدایت تھی۔ طب مشرق کا اپنا اصول علاج ہے، جیسے کینسر کے مریض کو روزانہ دس بارہ پاخانے آنے چاہییں۔ اسی طرح دیگر امراض میں بخار، کھانسی، نزلہ، زکام، پیچش کا ہونا صحت کے لیے لازمی ہے۔ میرے علاج سے صرف دو ماہ میں مریضہ بارہ سال کی بچی کی طرح اچھلنا کودنا اور کھانا پینا شروع کر دیا۔ اب اس کی دیکھی ہوئی صورت پہچانی نہیں جاتی تھی۔
ان شاء اللہ اس مرض پر مزید تفصیل نسخہ جات کے ساتھ عرض کروں گا۔ یہ یاد رکھیں کہ ہیپا ٹائٹس سی طب مشرق میں قطعی طور پر قابل علاج ہے۔ کسی آپریشن کی قطعاً ضرورت نہیں۔