’’حیات سدید‘‘ کے ناسدید پہلو (۲)

چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

مجموعی تاثر

کتاب پر تفصیلی اظہار سے پہلے اپنے تاسف کا اظہار کرنا پڑتا ہے کہ کتاب کی ترتیب میں جناب اعظم صاحب کی محنت و ریاضت اور جناب مجید نظامی کی پیش لفظی سطور نے جو مجموعی تاثر، کم از کم میرے ذہن پر چھوڑا ہے، وہ یہ ہے کہ کتاب کی ترتیب کا منشا سید مودودی کی شخصیت کو مجروح کرنا ہے۔ اس غرض کے لیے جنابِ مولف نے پوری فنی مہارت سے کام لیا ہے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے بنیادی مواد (خطوط) کی مکمل فائل کا جماعت کے مرکز میں پہنچنے کا سراغ لگا یا ہے اور پھر اس کی عدم دستیابی کا تاثر دیا۔ ساتھ ہی جماعت کے ایک دوسری سطح کے مگر نہایت بلند قامت و پختہ کردار کے بزرگ جناب محمد یوسف خان سے اس فائل کے، پانچ ہزار روپے کے عوض حاصل ہونے کا تذکرہ کیا مگر اس کی مزید پستی کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ یہ بہت ناقص فوٹو کاپیاں تھیں جن سے استفادہ بہت مشکل تھا۔ (صفحہ نمبر ۳۴۲) اس کے باوجود وہ اس میں سے کافی خطوط پڑھنے اور پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کامیابی میں، کہاں کہاں وہ انحراف کی حدوں سے بچے رہے اور کہاں کہاں ان حدود کو پار کر گئے، اس کا تعین کیسے ہوگا؟ خطوط کی اصل فائل بقول مولف دستیاب نہیں۔ دستیاب فوٹو کاپی قابل خواندگی نہیں۔ ناقابل خواندہ تحریروں کو پڑھنے کے لیے شاید برآمد شدہ جدید آلات سے مدد لی گئی ہو۔ اس کا مولف نے ذکر نہیں کیا۔ اگر کرتے تو ہم بھی جدید آلات کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے مگر اس کے لیے بھی فائل کا مولف سے دستیاب ہونا شرط ہو گا۔

یہ بھی صاف ہے کہ خطوط کی ناقص نقول سے بہتر نقول کی صحت مندانہ تیاری کے عمل سے جناب مجید نظامی کو کوئی دلچسپی ہے نہ ہی ارباب جماعت کو۔ یہ در دِ سر جناب سلیم منصور کے بعد، ادارہ معارف اسلامی کے لائبریرین جناب پروفیسرِ ظفر حجازی صاحب کا ہو سکتا ہے۔ جناب لیاقت بلوچ اور جناب حافظ محمد ادریس تو پہلے ہی کتاب کا قصیدہ کتاب کی وصولی کی رسید لکھتے ہوئے لکھ چکے ہیں۔ وہ اس سے رجوع کریں گے یا نہیں، کچھ انتظار کے بعد واضح ہو گا۔ اس پڑتول میں میری مشکل ریسورس ریفرینس ((resource references تک رسائی مسئلہ ہو گی۔

اس پس منظر میں، حیات سدید کے مولف کے پیرایے میں جو تضادات پائے جاتے ہیں، وہ گہرے اور تعداد میں وافر ہیں۔ ہم ان کا موقع بموقع ذکر کریں گے، البتہ کتاب کی ترتیب میں پائی جانب والی چابک دستی کو سامنے لانے کو اولیت دیں گے۔ یہ واضح ہے کہ کتاب میں پیش کردہ تاریخی حقائق پر، آج قریب قریب ایک صدی کے بعد، قطعیت کے ساتھ کچھ کہنے کی پوزیشن میں کوئی بھی نہیں۔ جناب کے ایم اعظم صاحب نے اپنے والد محترم چوہدری نیاز علی خان، علامہ اقبال، ابوالحسن علی ندوی،سید نذیر نیازی کی روایات کو الگ رکھ کر جناب چودھری غلام احمد پرویز، ان کے ہمدم دیرینہ جناب شیخ سراج الحق اور اسی طرح کے بعض دوسرے اصحاب کی روایات کو ترجیح دینے میں صریحاً زیادتی فرمائی ہے۔ مسئلہ تو صرف اتنا ہے کہ چوہدری نیاز علی خان صاحب نے مولانا مودودی کو دارالاسلام پٹھانکوٹ میں مدعو کیا تھا یا علامہ اقبال نے۔ مجید نظامی تو پہلے ہی مولانا کے اقبال کے ساتھ قرب کے قصے گڑھنے کا کہہ چکے تھے۔ اس تنازع کا فیصلہ کرنے کے لیے خود حیاتِ سدید میں مذکورہ اصحاب کے شواہد کافی سے زیادہ تھے۔ جناب پرویز کو میدان میں لا کر بات مجید نظامی سے آگے نکل گئی۔ مولانا مودودی کی پٹھان کوٹ منتقلی کی تجویز کے ایک تیسرے دعوے دار جناب غلام احمد پرویز بن گئے۔پون صدی بعد تیسرا دعوے دار کہاں سے آ گیا۔ اس الجھاؤ آفرینی سے جناب کے ایم اعظم کا کیا مقصود ہے؟ پوری کتاب سے گزر جائیے تو بھی واضح نہیں ہو گا۔ الجھاؤ فزونی کے فن کا وکالت میں ہمیں کئی بار تجربہ ہوتا ہے۔ ہم جب اپنے کیس کو کمزور دیکھتے ہیں تو اس کو اس طرح پیش کرنا شروع کرتے ہیں کہ جج صاحب کا دماغ ایک سے نکل کر دوسری الجھن کا شکار ہو جائے۔ اس طرح مقصود یہ ہوتا ہے کہ جج لگا تار الجھاؤ سے عاجز آ کر عارضی سا ریلیف دے کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے جناب کے ایم صاحب اسی طرح کی فنی تکنیک کو قارئین پر آزما رہے ہیں۔ پوری کتاب اس طرح کی الجھنوں سے بھری ہوئی ہے۔ بہر حال مصنف کی فنکاری کی داد دینا پڑتی ہے۔

مسئلہ کی نوعیت ہم نے اوپر واضح کر دی ہے۔ ہم جناب پرویز کے دعوے کو یکسر نظر انداز کر دینا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حیات سدید میں پرویز صاحب کے حوالے سے کہانی تین مرحلوں میں بیان ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو جناب پرویز دارالاسلام کے قیام کے موقع پر، ادارے کا تعارفی مضمون طلوع اسلام میں شائع کرتے ہیں۔ یہ مضمون اگست ۱۹۳۹ء میں چھپا۔ کہانی کے دوسرے حصے میں پہلی بار وہ دارالاسلام کے لیے اقبال کی جانب سے اپنانام تجویز کرنے اور قائد اعظم کی جانب سے ان کو اس کام کے لیے پٹھانکوٹ جانے کی اجازت دینے سے انکار کی بات کی گئی ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے مولانا کا نام تجویز کر کے اقبال کو منظوری کے لیے لکھ بھیجا۔ کہانی کے دوسرے مرحلے کے بیان میں وہ بعض خطوط کا ذکر کرتے ہیں۔ حیات سدید کے صفحہ ۱۹۵ میں ان خطوط کا ذکر دیکھا جاسکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کہانی کے اس حصے کو ادھورا چھوڑنے کے بجائے حیات سدید کے صفحہ نمبر ۱۹۵ پر مذکورہ تحریروں کو حاصل کر کے شامل کتاب کیا جانا چاہیے تھا۔ کتاب میں پرویز صاحب کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ 

’’چوہدری نیاز علی خان کے اصرار و تقاضا نے علامہ صاحب کو مجبور کر دیا تو لا چار انہوں نے پرویز صاحب کو دہلی میں لکھا کہ آپ دارالاسلام چلے جائیں۔‘‘

قائد اعظم کی جانب سے اس تجویز پر انکار کے بعد پرویز صاحب نے حضرت علامہ اقبال کو عریضہ ارسال کیا کہ مجھے تو کوئی عذر نہ تھا لیکن قائد اعظم کی طرف سے No ہے۔‘‘

پرویز صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :

’’پرویز صاحب نے حضرت علامہ کو لکھا کہ آپ نے مولانا مودودی صاحب کا ’’دو قومی نظریہ‘‘تو پڑھا ہوگا، اگر وہ دارالاسلام چلے جائیں تو بہتر ہو گا۔علامہ نے جواباً لکھوایا کہ ہاں ایسا ہو جائے تو موزوں ہے۔چنانچہ یہاں سے دارالاسلام کے لیے مولانا مودودی صاحب کے متعلق بات چلی۔‘‘

اوپر درج اقتباسات میں جن خطوط کا ذکر آیا، ہے ان کی تفصیل اس طرح ہے۔

۱۔ علامہ اقبال کا خط بنام غلام احمد پرویز جس میں علامہ نے جناب پرویز کو دارالاسلام جانے کے لیے کہا۔

۲۔ جواب کے طور پر قائد اعظم کا خط بنام علامہ اقبال جس میں قائد نے تجویز سے اختلاف کیا۔

۳۔ پرویز کا خط علامہ اقبال کے نام جس میں پرویز صاحب نے دارالاسلام کے لیے اپنے بجائے مولانا کا نام تجویز کیا۔

۴۔ پرویز کے جواب میں علامہ اقبال کا خط جس میں مولانا مودودی کے نام کی تائید کی گئی۔

مولف کتاب جناب کے ایم اعظم صاحب نے ان چار خطوط کی جستجو نہیں کی۔ پوری کتاب میں کہیں اس جستجو کا ذکر نہیں۔ خط ایسے اہم لوگوں کے نام بتائے گئے ہیں کہ ان کے محفوظ ہونے کا قوی امکان ہے۔ یہ خطوط تحریری شہادت کے درجے کی چیز ہیں۔ جب تک یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ یہ خطوط دستیاب نہیں، اس وقت تک ان واقعات پر زبانی شہادت کسی طرح بھی قابل لحاظ نہیں ہو سکتی۔ ہم جناب مجید نظامی کی حد تک نہیں جا کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ قصے گڑھے گئے۔ البتہ واقعات کے اثبات میں یہ معمول کے قواعد ہیں۔ان کو نظر انداز کر کے کوئی نتیجہ اخذ کرنا درست نظر نہیں آتا۔

کہانی کے دوسرے حصے میں پرویز صاحب نے اپنے متعلقہ حصے کی تمام تر تفصیلات پہلی بار بیان کی ہیں۔ اپنے اولین مضمون میں ان کا کہیں کسی حد تک بھی ذکر نہیں کیا۔ تیسرا حصہ ان کے غیر نشر شدہ ٹی وی انٹرویو کی صورت میں ہے۔ یہاں کہانی بیان کرتے ہوئے تمام خطوط کا ذکر غائب کر دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی کہانی مرحلہ وار مرتب ہوئی ہے۔ اس میں ارتقا پایا جاتا ہے۔ جب تک دوسرے بیان میں مذکورہ خطوط سامنے نہ ہوں، ان پر کلام تقاضائے احتیاط کے خلاف ہو گا۔ بیان میں اس طرح کی امپرومنٹ کسی طور پر قابل اعتماد نہیں ہوتی۔ فن وکالت میں تو اسے after thought کہا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں یہ امر بھی اہم ہے کہ پرویز صاحب کے صورت حال میں پیش کردہ مشاہدات کو دیکھنے پر قارئین ایک موقع پر سخت حیرانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پرویزی حلقے اور مودودی صاحب کے ما بین حدیث کی شرعی حیثیت کے بارے میں طویل مناقشے سے ہر کوئی واقف ہے۔ مولانا مودودی نے اپنی طویل حیات میں ایک ہی مناظرہ کیا ہے۔ وہ مناظرہ سے گریز کی روش پر قائم رہے۔ اس میں ایک ہی استثنا ہے۔ یہ پرویزی فکر حدیث پر ہے۔ اس مناظرے میں انہوں نے خوب جم کر حدیث کا دفاع کیا ہے۔ اس مناظرے کے پس منظر کا بیان کر دیا جائے تو یہ واضح ہو سکتا ہے کہ مولانا نے یہ مناظرہ کرنے کا یہ استثنا کیوں اختیار کیا۔دراصل اس دور میں مولانا کی تحریروں میں قرآن پر تکرار سے زور پایا جاتا ہے۔ حدیث پر زور شاید ہی کہیں نظر آئے۔ یہی کیفیت پرویز کی تحریروں میں بڑی نمایاں تھی۔ اس سے پڑھے لکھے طبقے میں یہ تاثر یا اشتباہ پایا جاتا تھا کہ شاید مولانا مودودی اور پرویز کا حدیث کی حجیت کے بارے میں نقطہ نظر ملتا جلتا ہے۔ اس اشتباہ کے تحت ہی جناب پرویز کے دست راست ڈاکٹر عبدالودود نے مولا نا مودودی سے خط و کتابت کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا۔ یہی تحریری مباحثہ ترجمان القرآن میں باقاعدگی سے چھپا اور پھر اسے ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ کے عنوان کے تحت کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔اس طرح طلوع اسلام اور ترجمان القرآن میں اتنا واضح اختلاف اور بعد واضح طور پر معروف ہوا کہ جب حیاتِ سدید سے یہ بات سامنے آئی کہ مولانا مودودی کا ایک زمانے میں طلوع اسلام کی ادارت کے لیے نام تجویز ہوا۔ قاری کے لیے یہ معلوم کر کے حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ پوری کتاب میں کہیں بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ قاری کو اس طرح حیرانی میں مبتلاکرنے سے مصنف کا کیا منشا ہے۔

حیرانی میں مبتلا قاری یہ پوچھتا ہے کہ اگر اس روایت کو درست بھی مان لیا جائے تو آج پون صدی بعد، طلوع اسلام کی ادارت کے بارے میں پرانی تجویز کے ذکر سے مولانا مرحوم کے بعد کے نقطہ نظر اور طرز عمل کو فرو تر کرنے کی کوشش کے سوا کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کہ کیا اس کے ذکر سے مولانا کو کوئی ایوارڈ دیا جانا مقصود ہے؟ کیا ان کے معنوی جانشینوں کو آج بھی طلوعِ اسلام کی ادارت میں حصہ لینے کو کوئی موقع دیا جاسکتا ہے؟ یقیناًایسا ممکن نہیں تو پھر یہ ذکر کسی طور موقع ومحل کے مطابق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مولانا کوثر نیازی کا جماعت اور مولا نا سے اولین وابستگی کا ذکر کیا جائے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے زندگی بھر مولانا کوثر نیازی کے سوا کسی شخص سے ملنے سے انکار نہیں کیا، یہاں تک کہ جنرل اعظم اور مصطفی کھر تک کو بھی ملنے سے گریز نہیں کیا۔ مگر وہ اس جہاں سے مولانا کوثر نیازی سے اتنا دکھی گئے ہیں کہ اپنی حیاتِ مستعار کے آخری لمحات میں بھی کوثر نیازی کو ملنے کی اجازت نہ دی۔

فیصلہ کن مواد .....خطوط

ویسے بھی کتاب میں سید نذیر نیازی کا خط، مولانا مودودی اور چوہدری نیاز علی کے (چالیس) باہمی( خطوط صورت حال میں متنازعہ امورطے کرنے کے لیے کافی ہیں۔ البتہ مولانا مودودی کی جانب سے نذیر نیازی کے نام دو خطوط کو شامل کر لیں تو صورت حال طے کرنے میں کافی سہولت ہو جاتی ہے۔ مولانا کے یہ خطوط ہم آخر پر بطور ضمیمہ شامل کر رہے ہیں۔ بہر حال جناب پرویز کی کہانی یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اولاً غلام احمد پرویز کو دارالاسلام میں منتقل ہونے کے لیے تجویز کیا۔ جناب پرویز اس پر آمادہ تھے مگر قائد اعظم نے پرویز صاحب کو دہلی چھوڑنے کی اجازت نہ دی۔ پھر مولانا مودودی کا نام علامہ اقبال کو پرویز نے تجویز کیا جسے علامہ نے مان لیااور مزید پیش رفت ہوئی۔

کتاب میں یہ بھی کہا گیا کہ اقبال کے بارے میں مولانا مودودی کے خیالات دھوپ چھاؤں کی طرح بدلتے رہے۔ علامہ کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ وہ مولانا مودودی کو دارالاسلام کے پروجیکٹ کے لیے اہل نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ کے نزدیک مولانا مودودی ملا تھے اور بادشاہی مسجد کے خطیب سے زیادہ کے مقام کے مستحق نہیں تھے۔ نتیجہ یہ اخذ کیا گیا کہ مولانا کو پٹھان کوٹ لانے میں اقبال پر معروضی حالات کے علاوہ نیاز علی خان کا ’’اصرار‘‘ ہی اصل ہے، وگرنہ علامہ تو مولانا کو دارالاسلام پروجیکٹ کے لیے کسی طرح راہ دینے پر آمادہ نہیں تھے۔ نیاز علی خان کا بر صغیر کے دیگر علما کی طرح مولانا سے بھی دیرینہ رابطہ تھا۔ علما کے ساتھ چوہدری نیاز علی خان کے خط و کتابت کو دیکھنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ علما میں سے مولانا مودودی سے زیادہ کسی اور نے چوہدری صاحب کے خطوط کو اہمیت نہیں دی۔ دارالاسلام کی ہیئت طے کرنے میں چوہدری نیاز علی خان نے بہت سے لوگوں سے مشورہ طلب کیا۔ کتاب کے صفحہ نمبر ۳۴۵ پر ابوالکلام آزاد کا خط بنام چوہدری نیاز علی خان موجود ہے۔ خط میں مطلوب مشورہ سے گریز کیا گیا ہے یا مشورہ دیا گیا ہے، ہم کچھ کہے بغیر خط کے اہم حصے درج کر رہے ہیں۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں:

’’خط پہنچا۔ مجھے خیال ہوتا ہے کہ آپ کا خط آیا تھا جس میں آپ نے بعض انتظامات کی اطلاع دی تھی اور میں نے اس کے جواب میں لکھ دیا تھا کہ یہ انتظامات بہتر ہیں۔ اللہ آپ کی مساعی مشکور فرمائے۔
قرآنی ادارے کا معاملہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس کے لیے کسی مضمون کا لکھ دینا یا کسی نقشہِ نصاب کا بنا دینا مفید ہو سکے۔ قرآن کے لیے نصاب تعلیم بجز قرآن کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ اصل سوال اشخاص کا ہے، اور اس روئے تربیت کا جو کسی حلقہ میں پیدا ہو جائے۔ اگر اس بارے میں آپ بر وقت میر ے مشورے کے طالب ہوں گے تو جو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں، اس میں حتی الوسع کوتاہی نہیں ہو گی۔
اس قسم کے ارادوں کا مجھ سے بڑھ کر استقبال کرنے والا کوئی نہ ہو گا۔ لیکن زمانے کی حالت ایسی ہو رہی ہے کہ میں خود اپنی جانب سے پیش قدمی کا قصد نہیں کر سکتا۔ کوئی طلب و امتیاز کے ساتھ آگے بڑھتا ہے تو خود بھی بڑھنا ضروری سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی مشکور فرمائے۔کام کیے جائیے اور جب نفاذ کا وقت آئے، تعین کے ساتھ مرتب کار کی نسبت اطلاع دیجیے۔ میں جو کچھ مشورہ دے سکتا ہوں، ضرور دوں گا۔ ‘‘

کتاب کے صفحات ۳۷۹ سے ۳۹۵ تک مولانا ابوالحسن ندوی اور چوہدری نیاز علی کے چودہ خطوط شامل ہیں۔ ان سب کو پڑھ جائیے۔ رسمی دعا و حوصلہ افزائی کے سوا کم ہی لکھنے کا کچھ تکلف نظر آتا ہے۔ علامہ اقبال کا صرف ایک خط شامل کتاب ہے۔ خط بہت مختصرہے مگر علامہ نے کھل کر لکھا ہے۔ خط اس لائق ہے کہ یہاں نقل کر دیا جائے۔ ویسے بھی تبرک کی حیثیت رکھتا ہے۔ خط کتاب کے صفحہ نمبر۳۴۴پر شیخ عطا ء اللہ کے اقبال نامہ کے حوالہ سے دیا گیا ہے۔

’’لاہور
۲۰۔جولائی ۱۹۳۷ء 
جناب چوہدری صاحب!
آپ کا خط ابھی ملا ہے۔ آم اس سے پہلے مل گئے تھے جو نہایت شیریں ہیں۔ نیازی صاحب کے ہاتھ سے رسید لکھوا کر ارسال کر چکا ہوں۔ مہربانی کر کے اگر ممکن ہو تو اور آم اسی قسم کے ارسال کیجیے۔
آپ ضرور تشریف لائیں، میں آپ سے ادارہ کے متعلق گفتگو کروں گا۔ اسلام کے لیے ملک میں نازک زمانہ آ رہا ہے۔ جن لوگوں کو احساس ہے، ان کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش اس ملک میں کریں۔ انشاء اللہ آپ کا ادارہ اس مقصد کو باحسن وجوہ پورا کرے گا۔علما میں مداہنت آگئی ہے۔ یہ گروہ حق کہنے سے ڈرتا ہے۔ صوفیہ اسلام سے بے پروا اور حکام کے تصرف میں ہیں۔ اخبار نویس اور آج کل کے تعلیم یافتہ لیڈر خود غرض ہیں اور ذاتی منفعت و عزت کے سوا کوئی مقصد ان کی زندگی کا نہیں۔ عوام میں جذبہ موجود ہے مگر ان کا کوئی بے غرض رہنما نہیں ہے۔ زیادہ کیا عرض کروں۔ امید ہے آپ کا مزاج بخیر ہو گا۔‘‘

کتاب میں شامل خطوط کی کل تعداد ۱۵۰ ہے۔ ان میں ۴۰ خطوط چوہدری نیاز علی خان اور مولانا مودودی کے ما بین ہیں۔ اس طرح ہر دو بزرگوں کے درمیان خطوط کا سلسلہ کسی دیگر بزرگ کے مقابلے پر کہیں زیادہ وسیع ہے۔ ان خطوط میں دو طرفہ دلجمعی کی جو کیفیت پائی جاتی ہے، وہ دیگر خطوط میں کہیں کہیں ہی نظر آتی ہے۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دو حضرات کو زیر بحث موضوع (دارالاسلام) سے کس قدر گہری دلچسپی ہے۔ اس سلسلہ کلام کی ابتدا ۲۰ ستمبر۱۹۳۵ ہے۔ آخری خط ۶ جنوری ۱۹۳۸ء کا ہے۔ ۲۳ خطوط چوہدری نیاز علی نے مولانا مودودی کے نام لکھے، جب کہ مولانا مودودی نے ۱۶ خط لکھے ہیں۔ یہ خطوط کتاب کے صفحات ۴۸۲ سے ۵۵۲ پر ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب میں صفحہ ۱۲۶ پر دارالاسلام پر چھبیس صفحے کا وہ خاکہ شامل ہے جو ادارہ دارالاسلام کی بنیاد بنا۔ یہ مولانا مودودی کا مرتب کردہ ہے۔

اس خط و کتابت سے اندازہ ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی نوعیت کی خدمت کا ذہن میں آتے ہی چوہدری نیاز علی خان نے مولانا مودودی سے رابطہ استور کیا۔ کتاب میں شامل خطوط کی رو سے قدیم ترین خط مولانا مودودی سے متعلق ہی ہے۔ اولین خط ۲۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کاہے۔ جنابِ چوہدری نیاز علی خان اسی سال ریٹائر ہوئے۔ ریٹائر ہوتے ہی دارالاسلام کا غم شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی اولین رابطوں میں مولانا مودودی کوفوقیت حاصل ہے۔ دارالاسلام کے قیام اور اس کی عملی تشکیل میں علامہ اقبال اور مولانا مودودی نے سب سے زیادہ موثر حصہ لیا۔ دارالاسلام ٹرسٹ کی رجسٹریشن ۴ مارچ ۱۹۳۶ء کو ہوئی۔ مولانا مودودی ساتویں ٹرسٹی تھے۔ اقبال ٹرسٹیوں میں بوجوہ شامل نہ ہوئے، مگر ہمیشہ شریک مشورہ رہے۔ دارالاسلام میں قیام کے جامعہ ازہر مصر کو جو مکتوب علامہ کے دستخطوں سے ارسال کیا گیا، اس کا عربی متن مولانا مودودی کا مرتب کردہ تھا۔ حیدرآباد دکن سے دارالاسلام منتقلی تو بہت بعد کی بات ہے، مگر ادارے کے جملہ عملی تنظیمی کام، مولانا ہی انجام دیتے تھے۔ تمام ڈرافٹ حیدرآباد دکن ہی سے تیار ہو کر آتے تھے۔ چوہدری نیاز علی ان ڈرافٹوں کو خود قبول بھی کرتے اور دوسرے لوگوں کو بھی دکھاتے۔ چوہدری نیاز علی اور مولانا مودودی کی باہمی خط و کتابت مولانا مودودی کی روز اول سے ایکٹو مشاورت کا واضح ثبوت ہیں۔ دارالاسلام ٹرسٹ کے معاملات میں اتنی دور رہتے ہوئے شرکت کے ثبوت میں چوہدری نیاز کے مکتوب نمبر ۲۲ بنام مولانا مودودی مورخہ ۸۔اگست ۱۹۳۷ء قابل توجہ ہے۔ حیات سدید کے صفحہ نمبر ۵۲۲ پر چوہدری نیاز علی خط میں لکھتے ہیں،

’’۳  تاریخ کو حضرت سر علامہ محمد اقبال صاحب کے مکان پر ان کی صدارت میں یہاں ادارہ کے متعلق مجلس مشاورت منعقد ہوئی۔ جرمن نو مسلم علامہ اسد اور سید محمد شاہ کے علاوہ تین چار اور احباب بھی موجود تھے۔ مفصل کارروائی سید محمد شاہ صاحب نے نوٹ کر لی تھی۔ جامعہ ازہر کی چٹھی بعد مناسب ترمیم لکھوا کر بھیج دی گئی ہے اور مولانا اسد، سید محمد شاہ اور جناب (مولانا مودودی) کو ادارہ کا پراسپیکٹس تحریر کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے اور در اصل سارا کام جناب کی تشریف آوری پر ہی ملتوی ہو رہا ہے۔‘‘

ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ’’حیات سدید‘‘ میں شامل خطوط (جن کی تعداد ڈیڑھ سو ہے) اور چوہدری نیاز علی کے سوانحی حالات کتاب کا اصل ہیں۔ ان کی حیثیت مستند دستاویزات کی ہے۔ بلا شبہہ بہت سے خطوط رسمی نوعیت کے ہیں۔ مکتوب الیہم میں ایسے بھی تھے جو لمبے چوڑے غور فکر کی فرصت نہیں پاتے تھے اور رسمی جملوں پر مشتمل ہیں، مگر بہت سے خطوط زبردست فکری اور علمی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جناب کے ایم اعظم اس مواد پر ریاضت کرتے۔ اس کی روشنی میں مزید مواد جمع کرتے اور اس پر اپنا ذہن apply کرتے تو اپنے والد محترم کی شخصیت کو کہیں بہتر طور پر پیش کرتے بلکہ ان کے مشن کے تسلسل کی کئی صورتین اختیار کر لیتے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک عرش نشین دانشورہیں جو اپنے والد کے دوست اور مہمان، اپنی والدہ اپنے بڑے بھائی، کسی کو معاف نہیں کرتے۔ وہ سب کچھ ادھیڑ دینے میں اپنی دانشوری کی معراج سمجھتے ہیں۔ اس طرح حیات سدید میں بلا شبہہ انتہائی قابل قدر سوانحی مواد موجود ہے، مگر اس مواد کی مدد سے سوانح کی ترتیب کے لیے جو مشقت اور ریاضت ضروری تھی، معلوم ہوتا ہے کہ جناب مصنف نے اس سے جی چرایا ہے۔ اس سے کتاب کی سوانحی حیثیت سخت مجروح ہوئی ہے۔ 

لگتا ہے کہ مولانا مودودی اور چوہدری نیاز علی، ہر دو بزرگوں کی اولاد کو اپنے والد کے مشن اور اس کے تسلسل میں کوئی خاص دلچسپی نہیں۔ چھیانوے سال کی طویل عمر پانے والے بزرگ کی طویل خدمات کو مرتب کرنے والے صاحب پٹڑی سے اتر جائیں تو نقصان کس کا، مصنف کا یاقارئین کا؟ ان کو پٹڑی سے اترنے کے لیے مجید نظامی کے علاوہ اور کئی لوگوں نے خوب تھپکیاں دی ہوں گی۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ کتاب میں غیر متعلقہ مواد کی پوری چھانٹ کی جائے۔ مزید مواد جمع کیا جائے۔ چوہدری نیاز علی کی شخصیت اپنے حقیقی اور دلکش روپ میں پیش کرنے کے لیے اپنی پوری صلاحیت صرف کروں، مگر ایسے ستم رسیدگان میں ایک چوہدری نیاز علی ہی تو نہیں۔ آج مولوی تمیز الدین خان کو کون جانتا ہے؟ اگر وہ دستوریہ توڑنے کے حکم کو چیلنج نہ کرتے تو کتب ہاے قانون میں ان کا حوالہ بھی نہ آتا۔ قائد اعظم کے بعد دوسری حیثیت رکھنے والا شخص اپنی تمام تر خدمات اور عظمتوں کے باوجود تاریخ کے صفحات سے بھی غائب رہتا۔ ان کی ایک خود نوشت انگریزی زبان میں چھپی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا اردو ترجمہ فرنٹئیر پوسٹ نے چھاپا تھا جو اب نایاب ہو چکا ہے۔ کیا مجلس کارکنان پاکستان کے روح رواں، مولوی صاحب کی یاد باقی رکھنے کے لیے اسے چھاپنے کی زحمت فرمائیں گے؟ محکمہ آثار قدیمہ کی طرح کوئی ایسا ادارہ قائم ہوسکتا ہے جو تاریخ کے ملبے تلے دبے ہوئے ایسے ہیروں کو دریافت کر کے نئی نسل کے لیے محفوظ کر سکے؟

چوہدری نیاز علی خان واقعتا ہیرے سے کم نہ، تھے مگر جناب کے ایم اعظم صاحب نے ان کی شخصیت کو پیش کرنے میں اگر غیر ذمہ داری نہ بھی کہا جائے تو قلمی نا پختگی کا مظاہرہ کیا ہے وہ بڑی زیادتی ہے۔ mania کسی قسم کا ہو، خاص طور پر چھپنے کا، بڑا خطرناک ہے۔ اگر ہم مصنف کا نفسیاتی جائزہ لیں تو ایک عام عارضے کا پتہ چلتا ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنے حقیقی میدان سے نکل کر کسی دوسرے شعبے میں ٹانگ اڑاتا ہے تو پھر اس طرح کی غیر معیاری حرکات سامنے آتی ہیں۔ آج کا دور تو مکمل تخصص کا قیدی ہو گیا ہے۔ قلم کار، ہر کوئی نہیں ہو سکتا ۔ پھر ہر شخص ہر موضوع پر نہیں لکھ سکتا۔ یہ گستاخی ہو گی کہ ہم چوہدری نیاز علی خان کا اس پہلو سے جائزہ لیں۔ ان کا اور سید مودودی کا تقابل کیا جائے تو دونوں میں مشنری ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ہو سکتا مگر فرق یہ رہا کہ مولانا آزاد منش تھے، جب کہ نیاز علی صاحب خاں، چوہدری ہونے کے ساتھ ریٹائرڈ افسر تھے۔ وہ افسری سے ریٹائر ہوئے۔ دونوں کے مزاج میں جو فرق ہوتا ہے، وہی چیز ان کے درمیان اختلاف کا باعث ہوئی۔ البتہ یہ ان کا خلوص تھا کہ دونوں نے اس فرق پر قابو پا لیا اور دوبارہ مفاہمت کے ساتھ ہم سفر ہو گئے۔

غیر متعلقہ مواد

حیات سدید میں جو غیر متعلقہ مواد شامل کیا گیا ہے، ان کی جانب کچھ مزید اشارے کر دینا ضروری خیال کرتا ہوں۔ کتاب میں مولانا امین احسن اصلاحی کا ایک مقالہ شامل کیا گیا ہے۔ کتاب میں یہ مقالہ مکمل طور پر بے جوڑ لگتا ہے۔ اصلاحی صاحب کے مقالے کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں ہو سکتا ہے، مگر اس کتاب میں اس کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ ان کے طویل مضمون میں سوانح نیاز کے حوالے سے ایک جملہ بھی نہیں۔ اسی طرح کتاب میں جماعت اسلامی کی حکمت عملی پر ڈاکٹر اسرار احمد، وحیدالدین خان، ارشاد حقانی اور حیدر فاروق مودودی کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ کتاب تو ’’حیات سدید‘‘ ہے، اس میں جماعت اسلامی کی حکمت عملی کیسے در آئی؟ مولانا مودودی کا علم کلام پر بھی بڑی تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ باقاعدہ دو باب باندھ کر مصنف نے اپنے رشحات فکر پیش کیے ہیں۔ اسی طرح جناب الطاف گوہر کے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس طرح ایک سوانحی کتاب کو شخصیاتی، جماعتی اور فکری مناقشوں سے بھر دیا گیا ہے۔ اس غلط مبحث سے کتاب کی سوانحی حیثیت شدید طور پر متاثر ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی کے بارے میں مصنف جو کچھ چاہیں کہہ اور لکھ سکتے ہیں، مگر یہ امر سمجھ سے بالا تر ہے کہ اپنے والد محترم کی سوانح لکھنے بیٹھیں تو جماعت اور مولانا مودودی کی شخصیت کو رگیدنے کا کیا منشا ہو سکتا ہے۔ ہم مشورہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، البتہ کتاب پر لکھتے ہوئے یہ ضرور کہیں گے کہ اس کتاب میں سے کم از کم اک سو بیس صفحات نکال کر، موجودہ کتاب کو کسی حد تک، سوانحی دائرے کے اندر لانا ممکن ہو گا۔ 

جماعت پر تنقید لکھنا کوئی جرم نہیں۔ جماعت کے اندر اور باہر اسے کبھی جرم نہیں سمجھا گیا۔ میرا دعویٰ ہے کہ جماعت کے اندر اور باہر تنقید اور احتساب کی جتنی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، کسی اور جماعت میں اس کا شائبہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ جماعت کی پوری ایک تاریخ ہے۔ میں نے تو پہلے بھی لکھا ہے کہ جماعت کی تاریخ کا اسی طرح جائزہ لیا جانا ضروری ہے جس طرح مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے خلافت و ملوکیت میں مسلمانوں کی ہزار سال کی تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ یہ جماعت کی اپنی بھی ضرورت ہے۔ جماعت کو خود اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ کوئی دوسرا کرے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا، مگر چوہدری نیاز علی خان کی سوانح کی آڑ میں جماعت اور مولانا پر سنگ زنی کی گنجائش مجید نظامی پیدا کر لیں تو وہ اس کے مجاز ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔مجید نظامی خوش ہوں گے، مگر چوہدری نیاز علی خان کے حقیقی قدر دان بد مزگی کا شکار ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ چوہدری نیاز علی خان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھایا جائے۔ ان کی فکر کو پھیلایا جائے۔ ان کے عمل کو زندہ رکھا جائے۔ ان کے فکری، علمی اور طبعی اثاثوں کی حفاظت کی جائے۔ ان اثاثوں کو جماعت کے تنقیدی جائزہ کے لیے بھی استعمال کیا جائے تو یہ خدمت ہو گی۔ جماعت کا ایک وسیع حلقہ جماعت کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہے۔ وہ تنقیدی جائزے سے دلچسپی رکھتا ہے۔ جماعت کے ہاں ایسے کام کو علمی سطح پر انجام دینے کا کوئی موقع نظر نہیں آتا۔ نئے حالات میں اگر چوہدری نیاز علی اور مولانا مودودی کی اولاد اس پہلو ہی سے باقاعدہ کوئی علمی اور سنجیدہ کام کرنا چاہیں تو اس کی پوری گنجائش ہو گی۔ یہ کام مولانا اور چوہدری صاحب ہی کا کام متصور ہو گا۔

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر از بر ہو 
پھر پسر قابل میراث پدر کیوں کر ہو

اس پہلو سے جنابِ خرم مراد کا فکری کام بڑا ہی قابل قدر ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:

’’ہمارے ہاں دنیا بھر کی خرابیوں اور غلطیوں پر قرار دادیں مل جائیں گی، اپنی خرابیوں اور غلطیوں پر کوئی قرار داد نہیں ملے گی۔ 
ہمارا خیال ہے کہ پبلک میں اور پبلک کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو پبلک کے سامنے ہی اپنااحتساب کرنا چاہیے، اپنی غلطیوں کی تاویل یا پردہ پوشی کے بجائے ان کا اعتراف کرنا چاہیے، اپنی اصلاحی تدابیر کا اعلان بھی کرنا چاہیے۔ اس سے ان کی عزت، دلوں میں مقام اور ان کے دائرہ اثر و حمایت میں کمی نہیں آئے گی بلکہ اضافہ ہو گا۔ صحت مند اور مفید روایات قائم ہوں گی۔رگوں میں نیا خون دوڑے گا اور اصلاح کے دروازے کھلیں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ غلبہ دین کی جد و جہد کے مختلف پہلوؤں پر جائزے، غور و خوض، نظر ثانی، تجدید یا تغیر کا عمل شروع ہو جائے گا تو نصف صدی سے زائد کی محنت سے جو پھل ہم نے جمع کیے ہیں، وہ گلنے اور ضائع جانے کے بجائے برگ و بار لائیں گے۔ قوموں اور جماعتوں کے لیے انحطاط، زوال اور بگاڑ مقدر نہیں، نہ جمود اور تعطل۔ اجتہاد و جہاد سے قوت اور شباب کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ ماشا ء اللہ ولا قوۃ الا بااللہ۔‘‘ (تحریک اسلامی اہداف، مسائل، حل صفحہ نمبر ۳۱۳)

پاکستانی دارالاسلام .....زبوں حالی

کتاب میں دارالاسلام کے پاکستانی ایڈیشن میں تازہ صورت حال کا مصنف نے بڑی بے چارگی کے انداز سے ذکر کیا ہے۔ حیات سدید کے صفحہ نمبر ۳۴۱، ۳۴۲پر مولف نہایت حسرت سے تحریر فرماتے ہیں:

’’چوہدری نیاز علی خان کی قبر دارالاسلام کی مسجد کے ایک حجرے میں بنائی گئی تھی، مگر میرے برادرِ بزرگ نے جب مسجد کی توسیع کے لیے سعودی گرانٹ قبول کی تو چوہدری صاحب کی قبر مسجد کے صحن میں گم کردی گئی کیونکہ کسی قبر کا مسجد میں ہونا سعودیوں کے لیے شاید قابل قبول نہ تھا۔ مسجد کے داخلی دروازے پر پھولوں کی دو کیاریاں بنا دی گئی ہیں اور دائیں طرف کی کیاری کے نیچے چوہدری نیاز علی خان کی قبر کو چھپا دیا گیا ہے۔ دارالسلام ٹرسٹ جوہر آباد کی دو سو ایکڑ اراضی تو میرے بھتیجے، چوہدری محمد اسلم خان کے فرزند ارجمند چوہدری محمد افضل خاں کے قبضہ میں ہے جب کہ ٹرسٹ کی عمارات جماعت اسلامی کے تصرف میں ہیں جہاں پر وہ ایک ہائی سکول چلا رہے ہیں۔ حالانکہ چوہدری محمد اسلم خان جماعت اسلامی کو پسند نہ کرتے تھے، مگر انہوں نے دارالاسلام کا قبضہ اسی جماعت کے حوالے کر دیا۔ چوہدری نیاز علی خاں تو یہ کبھی نہ چاہتے تھے کہ دارالاسلام بس ایک مدرسے کا ہو کر رہ جائے۔‘‘
چوہدری نیاز علی خاں کے ساتھ جو ان کی اپنی ہی اولاد نے کیا ہے، اس پر آدمی خون کے آنسو نہ روئے تو کیا کرے؟ یہی احوال ’’قرآن سوسائٹی‘‘ کا بھی ہے جو چوہدری صاحب نے اپنا وسیع اثر و رسوخ استعمال کر کے بنائی تھی اور حکومت پنجاب نے اس کے لیے آٹھ مربع اراضی جوہر آباد میں وقف کی تھی۔ اس سوسائٹی کے کئی نامور جج صاحبان ٹرسٹیز تھے۔ چوہدری صاحب کی وفات کے بعد اس کا بھی کوئی پرسان حال نہیں اور زمین کی آمدن کو کوئی بڑی سہولت کے ساتھ خرد برد کر رہا ہے۔ میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو درخواست کروں گا کہ وہ اس واردات کا نوٹس suo moto لیں۔‘‘

چوہدری نیاز کی اولاد نے اپنے عظیم باپ اور ٹرسٹ کے اثاثوں کے ساتھ جو کچھ کیا، اس کے بارے میں ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ مولف کے تمام گلے شکوے اپنے تایا اور تایا زاد سے ہیں، لیکن وہ خود بھی اپنے طرز عمل پر ذرا غور تو کریں۔ وہ خود اگر اس ٹرسٹ میں ٹرسٹی نہ بھی ہوں تو بھی دس بیس روپے کے کنٹری بیوٹر تو ہوں گے۔ اس طرح وہ موجودہ کتاب تالیف کرنے سے پہلے حساب فہمید کا دعویٰ کر سکتے تھے۔ اس کے لیے ان کو صرف ایڈووکیٹ جنرل کی اجازت کی ضرورت تھی۔ یہ اجازت ان کو معمولی کوشش سے مل جاتی۔ اس کے لیے کسی لمبے چوڑے اثر رسوخ کے استعمال کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔ در اصل مصنف اپنی اس بے بسی کا غصہ دوسروں پر اتارنے کے درپئے معلوم ہوتے ہیں۔ اس غرض کے لیے اس کتاب کو اپنے عظیم والد کی شخصیت اور خدمات تک محدود رکھنے کے بجائے لا یعنی مباحث میں الجھ گئے ہیں۔ وہ اپنے والد کے نظریاتی اور دیگر اثاثوں کے تحفظ کی اپنے میں شاید صلاحیت محسوس نہیں کرتے۔ 

کتاب کو مرتب کرتے ہوئے اسے بڑی ضخامت دینے کے لیے اپنے پر کار قلم سے خوب کام لیا ہے۔ آئیے ہم اب ان مباحث کی طرف بھی کچھ توجہ دیں۔ 

کتاب کے مولف جناب کے ایم اعظم لکھتے ہیں کہ ان کے والد (جناب چوہدری نیاز علی خان) مولانا مودودی کو دارالاسلام لے کر آئے۔ مولانا مودودی ان کے والد کے پر خلوص دعوت پر حیدرآباد دکن اور دہلی میں اپنے جملہ اثاثہ جات اور کاروبار ترک کر کے آئے۔ ماہنامہ ترجمان القرآن کی اشاعت بھی حیدرآباد سے دارالاسلام منتقل ہوگئی (تو گویا مولانا اپنی ساری کشتیاں جلا کر آئے تھے)۔ ابتدا ہی میں دونوں پر واضح ہو گیا کہ ان کے ایجنڈے مختلف ہیں، لہٰذا مولانا لاہور چلے گئے۔ اس کے باوجود چوہدری نیاز نے مولانا کا پیچھا نہ چھوڑا اور ان کو جلد ہی واپس لے آئے جہاں تقسیم ہند تک دونوں اکٹھے رہے۔ مولف نے خود بھی لکھا کہ ان کے والد نے اس پر کچھ کہنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ مولانا مودودی نے بھی اپنی عادت کے مطابق انتہائی شائستہ خاموشی اختیار کی۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں بزرگوں کے اس پر وقار طرزعمل کے اعتراف اور اظہار کے بعد مولف نے کیا کیا؟ یہ کتاب کا چونکا دینے والا پہلو ہے۔ جماعت اور مولانا مودودی پر تنقید جرم ہے اور نہ ہی میں نے کبھی اس سے پرہیز کی ہے۔ البتہ جناب کے ایم اعظم صاحب نے جناب مجید نظامی کی تھپکی کے ساتھ، اپنے والد محترم کی شخصیت و خدمات اور سوانح پیش کرتے ہوئے، زیر ترتیب کتاب سے تجاوز کی روش اختیار کی ہے، اسے چیک کرنا ہمارے پیش نظر ہے۔ 

بنیادی سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ مولانا مودودی کو دارالاسلام پٹھانکوٹ منتقلی کی دعوت علامہ اقبال کی تجویز تھی یا چوہدری نیاز علی کی۔ مولانا مودودی اور اقبال کے ما بین قرب کس سطح کا تھا۔ کیا ان کی باہم ملاقات اور مراسلت کا کوئی وجود ہے یا یہ محض پروپیگنڈا ہے۔ ہمارے نزدیک اس بارے میں معتبر ترین شہادت جناب نیاز علی خان اور اقبال کی ہو سکتی ہے۔ ہم سب سے زیادہ اہم اسی کو سمجھیں گے۔ اس قصے میں جناب غلام احمد پرویز نے جو نئی کہانی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اسے نظر انداز کرنے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر شروع میں دے چکے ہیں۔ 

جناب نیاز علی خان، مولا نا مودودی اور سید نذیر نیازی کے خطوط سے یہ امر ثابت ہے کہ مولا نا مودودی کی علامہ اقبال سے ملاقات بہر حال موعودہ تھی۔ حیات سدید کے صفحہ نمبر ۵۲۱ پر نیاز علی خان کے مولانا مودودی کے نام خط نمبر ۲۱ مورخہ ۱۸۔ جولائی ۱۹۳۷ء میں یہ لکھا ہے کہ 

’’پھر علامہ اقبال سے مل کر آپ کی پوری اسکیم ان سے بیان کی جائے گی۔ وہ اس کی سرپرستی کے لئے بالکل آمادہ ہیں۔‘ ‘

اسی طرح صفحہ نمبر ۵۲۷ پر درج نیاز علی خان کے خط نمبر ۲۶ میں یہ الفاظ موجود ہیں :

’’ہم دونوں ۱۰۔اکتوبر کو صبح کی گاڑی سے دہلی پہنچ جائیں گے۔ مجلس سے فارغ ہوتے ہی آپ کو ہمارے ساتھ جمال پور تشریف لانا ہو گا۔ اس جگہ اسد صاحب اور مولانا قرشی صاحب کو بلا لیا جائے گا۔ یہاں سے فارغ ہو کر سب لاہور سر محمد اقبال صاحب کی خدمت میں چلیں گے۔ ‘‘ 

مولانا مودودی کے نام سید نذیر نیازی کا مشہور و معروف مکتوب مورخہ ۱۸۔ اپریل ۱۹۳۸ء درج ذیل ہے:

’’مکرمی۔ السلام علیکم۔
امید ہے آپ بفضلہ تعالی خیر و عافیت سے ہوں گے۔ کچھ دن ہوئے سید محمد شاہ صاحب سے معلوم ہوا تھا کہ آپ جمال پور تشریف لے آئے ہیں اور عنقریب لاہور بھی آئیں گے۔ اس وقت سے برابر آپ کا انتظار ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا ارادہ فی الواقعہ لاہور آنے کا ہے تو جلدی تشریف لائیے تاکہ ملاقات ہو جائے۔ اپنی طرف سے یہ گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب قبلہ کی حالت نہایت اندیش ناک ہے۔ ایک لمحے کا بھی بھروسہ نہیں مگر اس بات کو صرف اپنی ذات تک محدود رکھئیے گا۔ کسی سے ذکر نہ کیجئیے گا۔ لہذابہتر یہی ہو گا کہ آپ جس قدر ہو سکے جلدی تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی صحت کے لئے دعا فرمائیے ۔ ‘‘

اس کے علاوہ سید نذیر نیازی اپنی کتاب مجلس اقبال اوراق گم شدہ کے صفحہ نمبر ۸۵۔۸۶ پر روایت کرتے ہیں:

’’چوہدری نیاز علی خان جاوید منزل میو روڈ لاہور تشریف لائے اور ان کے ہمراہ علامہ محمد اسد بھی تھے۔ چوہدری صاحب نے حضرت علامہ کی مزاج پرسی کے بعد عرض کیا کہ انہوں نے جمال پور میں ایک وقف ’’دارالاسلام ‘‘کے نام سے قائم کیا ہے تاکہ وہاں مسلمانوں کی اصلاح و تربیت اور دینی تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ ان کی خواہش تھی کہ حضرت علامہ اس کام میں ان کی رہنمائی فرمائیں اور جیسا ان کا مشورہ ہو، اس کے مطابق بعض علمائے دین کو دارالاسلام آنے کی دعوت دی جائے۔ حضرت علامہ نے کہا، سر دست ایک نام میرے ذہن میں آتا ہے۔ حیدرآباد دکن سے ’’ترجمان القرآن ‘‘ نام سے ایک بڑا اچھا رسالہ نکل رہا ہے۔ مودودی صاحب اس کے ایڈیٹر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔ دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ مجھے بہت پسند آئی ہے۔ آپ کیوں نہ انہیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں، میرا خیال ہے کہ وہ دعوت قبول کر لیں گے۔‘‘

یہاں ہم حیات سدید کے مصنف کے والد محترم جناب چوہدری نیاز علی خان کے ایک مضمون کا حوالہ بھی دینا چاہیں گے۔ یہ مضمون دارالاسلام سے شائع ہونے والے جریدہ جس کانام بھی دارالاسلام ہی تھا اس کے ستمبر ۱۹۳۹ء کے شمارے میں چوہدری صاحب کے حوالے سے تحریر ہے:

’’اس دوران میں مجھے مولانا سید ابوالاعلی مودودی کے ساتھ اس ادارے کے متعلق خط و کتابت کا موقع ملا اور حضرت علامہ کی نظر جوہر شناس بھی سید صاحب پر جا پڑی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حیدرآباد سے یہاں کا موقع و محل دیکھنے آئے اور حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہو کر تین صحبتوں میں ان سے مفصل گفتگو کرنے کے بعد اس ادارے میں جس کا نام خود انہوں نے دارالاسلام تجویز کیا‘ نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘

ان حوالوں کے علاوہ جناب غلام احمد پرویز کے ہمدم دیرینہ جناب شیخ سراج الحق کا ایک خط حیات سدید کے صفحہ ۱۹۱ پر درج دیا گیا ہے۔ صفحہ نمبر ۱۹۲۔۱۹۳ پر خط مورخہ ۴؍جولائی ۱۹۷۶ء میں یہ درج ذیل تفصیل موجود ہے:

’’علامہ اقبال نے دارالاسلام کا ایک تصور پیش کیا تھا اور خان صاحب چوہدری نیاز علی خان مرحوم نے اس تصور کوعملی شکل دینے کے لیے اپنی جائداد کا ایک معتد بہ حصہ وقف کر دیا تھا۔علامہ اقبال کا ارادہ خود وہاں منتقل ہوجانے کا تھا، لیکن بد قسمتی سے وہ شدید بیمار ہو گئے۔ اس پر یہ طے پایا کہ سر دست وہاں کسی مناسب شخص کو بلا لیا جائے جو دارالاسلام کے ابتدائی مراحل طے کرنے میں مدد دے۔ دیگر ممالک سے سکالرز بلانے کے لیے بھی علامہ اقبال کی طرف سے خط و کتابت ہو رہی تھی۔ پہلے تجویز ہوا کہ خود پریز صاحب ملازمت چھوڑ کر دارالاسلام منتقل ہو جائیں، لیکن قائد اعظم اس سے متفق نہ ہوئے کہ چوہدری صاحب ملازمت چھوڑ دیں۔ وہ چاہتے تھے کہ چوہدری صاحب دہلی میں ان کے قریب رہیں۔ چنانچہ اس پر طے پایا کہ دارالاسلام کے لیے مودودی صاحب کو بلا لیا جائے۔ چوہدری نیاز علی صاحب نے اس تجویزسے اتفاق کیا اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، نیاز علی خان صاحب مرحوم نے علامہ اقبال کی اجازت سے مودودی صاحب کو دعوت نامہ بھیجا تھا۔ ‘‘

مولانا مودودی سے علامہ کی ایک ملاقات کی گفتگو کا کچھ حصہ، ہارون رشید نے اس طور پر نقل کیا ہے:

’’لاہور میں وہ اقبال سے ملے اور دارالاسلام کے منصوبے پر اتفاق رائے ہو چکا تو ان سے (مولانا مودودی نے) عرض کیا: ’’میری ایک بات مان لیجیے، سر کا خطاب واپس کر دیجیے کہ یہ آپ کو جچتا نہیں۔ ‘‘بعد میں ایک ذاتی دوست کو ابوالاعلیٰ نے بتایا کہ یہ بات سن کر اقبال کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ سید کو ملال ہو اکہ انہوں نے اقبال کو رنجیدہ کر دیا ہے۔‘‘ (ترجمان القرآن اشاعت خاص، مئی ۲۰۰۴ء صفحہ نمبر ۱۲۸)

ان کثیر، معتبر اور ٹھوس شواہد کی بنا پر یہ تو آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ واضح ہے کہ ہر جانب سے مایوسی کے بعد، مولانا مودودی کو آخر کار دارالاسلام آنے کی تجویز علامہ اقبال کی تھی۔ چوہدری نیاز علی خان نے اس تجویز سے اتفاق کے بعد اسے بروئے کار لانے کے لیے موثر طور پر pursue کیا۔ علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے مابین مراسلت اور ملاقات بھی ثابت شدہ معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کے مولانا کے نام خطوط تو ہجرت کے دوران محفوظ نہ رہ سکے مگر مولانا کے علامہ کے نام چار خطوط سید نذیر نیازی سے مہیا ہوئے اور ان کو وثائق مودودی میں محفوظ کیا گیا ہے۔ بطور ثبوت ان خطوط کو آخر پر شامل کیا جاتا ہے۔ یہ امر بھی انتہائی اہم ہے کہ مولانا مودودی کے سوا کوئی اس کارِ خیر کے لیے نقل مکانی کے لیے آمادہ نہ ہوا۔ حیات سدید کا سب سے اہم پہلو یہی تھا، مگر مصنف نے اسے کوئی اہمیت ہی نہیں دی بلکہ اس کی پوری بے قدری فرمائی۔ 

(جاری)

تعارف و تبصرہ

(دسمبر ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter