قصصِ قرآنی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بعض مقامات پر انتہائی عجیب و غریب اوردور ازکار تاویلات سے کام لیا ہے۔ اس سلسلہ میں سرسید،بقول پروفیسر عزیز احمد،عہد نامہ قدیم و جدید اور قرآن کے عوامی قصص کو ناپائیدار تاریخی مفروضات کا نام دے کر اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔۶۹سورہ الکہف کی تفسیر میں اصحابِ کہف، یاجوج و ماجوج،ذولقرنین اور سدِّ ذولقرنین سے متعلق ان کی طول طویل بحثوں کا ماحصل یہ ہے کہ ایفسوس کے ’’سات سونے والے‘‘اصحابِ کہف تثلیث کے مخالف عیسائی طبقے سے تعلق رکھتے تھے ،جنہیں دقیانوس بادشاہ نے معتوب کیا تھا۔ وہ فی الواقع کئی سال تک سوتے نہیں رہے تھے بلکہ مر چکے تھے،لیکن جیسا کہ بعض مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ جب لاشیں ایسے مقام پر ہوتی ہیں جہاں ہوا کا گذر نہیں ہوتا،اور وہ اسی طرح رکھے رکھے راکھ ہو جاتی ہیں ،اور اگر کسی سوراخ کے ذریعے انہیں سورج کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پورے اجسام بلا کسی نقص کے رکھے ہوئے ہیں،ایسے ہی اصحاب ،کہف کی لاشیں بھی دیکھنے والوں کو مجسم معلوم ہوتی ہوں گی ،حالانکہ درحقیقت وہاں ہڈیوں اور راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔کیورس متمس کے مصنف نے لکھا ہے کہ اصحاب کہف کی ہڈیاں ایک بڑے پتھر کے بکس میں بند کرکے مارسلیس کو بھیجی گئیں جو اب بھی سائنٹ ویکٹر کے گرجا میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔۷۰ ذوالقرنین چینی شہنشاہ چی وانگ ٹی(۲۴۷ق م) ہے، سدِّ ذوالقرنین وہ گریٹ وال یا دیوارِ چین ہے، جو چی وانگ ٹی نے ۲۳۵ سے۲۴۰ قبل مسیح کے درمیان بنائی تھی اور یاجوج و ماجوج سے مراد چینی ترکستان کی قومیں ہیں ۔سکندرِ اعظم اور چی وانگ ٹی سے متعلق مسلم قصہ گوؤں نے جو قصے منسوب کر رکھے ہیں ،ان سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ قرونِ وسطی کے مسلمانوں کے دماغ میں دونوں کی گڈ مڈ تصویریں تھیں۔ سکندر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جو اس کا باپ مشہور تھا،اس کا وہ بیٹا نہ تھا ،اور یہی بات چی وانگ ٹی کے بارے میں کہی گئی ہے۔اسی طرح آبِ حیات کی تلاش بھی دونوں بادشاہوں سے منسوب کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رازی جیسے مفسرین نے ذوالقرنین سے سکند رِ اعظم مراد لیا،حالانکہ در اصل اس سے مراد چی وانگ ٹی ہے۔ ۷۱
جہاد
اسلامی جہاد سفلی مقاصد کے لیے لڑی جانے والی عام جنگوں سے یکسر مختلف ہے۔یہ اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کے تحفظ و بقا کے لیے برائی کی قوتوں سے لڑی جانے والی جنگ ہے ۔ اپنے اسی اعلیٰ آدرش کے سبب جہاد کو اسلام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ،اوراسے اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن بھی شمار کیا گیا ہے۔لیکن مستشرقین نے اسلامی جہاد کو ایسے خوفناک اور گھناؤنے تصور کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جس سے اسلام ظلم و تشدد اور جور و جبر کا مذہب نظر آنے لگے۔جارج سیل نے ترقی واشاعتِ اسلام کو تلوار پر منحصر بتایا۔۷۲ مینزز ۷۳، ولاسٹن ۷۴، ٹارانڈرائے۷۵ اور انسائیکلوپیڈیا امریکانا کے جہاد کا اسلامی تصور پیش کرنے والے مقالہ نگار ۷۶ نے بھی ،جارج سیل ہی کا راگ الاپتے ہوئے اسلام کو تلوار کا مذہب اور جہاد کو تلوار کے زور پر اسلام نافذ کرنے کاوسیلہ باور کرانے کی سعی کی ہے۔ سرسید احمد خاں نے مغربی اثرات کے زیرِ اثرجہاد سے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرلیا۔ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن کے مقالہ نگار کے بقول، سرسید نے روایتی تعبیرات سے انکار کرتے ہوئے جہاد کی ایسی تشریح کرنے کی کوشش کی جو ہندوستان پر قابض انگریزوں کے لیے ناگوارئ خاطر کا باعث نہ بنے اور تاجِ برطانیہ کو باور کرایا جائے کہ جہاد کا اسلامی تصور اہلِ اسلام کواپنے انگریزحاکموں کا وفاداررہنے سے نہیں روکتا۔ ۷۷ سرسید کے، سورہ البقرہ کی آیت۱۸۶کی تفسیرمیں سامنے آنے والے خیالات کے مطابق، اسلام بلاشبہ دو صورتوں میں تلوار اٹھانے کی اجازت دیتاہے؛ایک یہ کہ کافر اسلام کو مٹانے کی غرض سے، نہ کہ ملکی اغراض کے سبب، مسلمانوں پر حملہ آور ہوں اور دوسرے یہ کہ مسلمانوں کو کسی ملک میں جان و مال کی امان اورمذہبی فرائض کی بجا آوری کی اجازت نہ ہو۔ لیکن یہ اجازت صرف ان مسلمانوں کو ہے جو کسی دوسرے ملک کے باشندے ہوں اورکسی اور ملک کے مظلوم مسلمانوں کو بچانے کے لیے تلوار پکڑیں۔ رہے وہ مسلمان جو کسی ملک میں بطور رعیت کے رہتے ہوں تو ان پروہاں خواہ ان کے دین کے سبب ظلم ہو، انہیں تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں۔ ان کے پاس صرف دو ہی صورتیں ہیں؛یا ظلم سہیں یا ہجرت کر جائیں۔ ۷۸ سرسیدکے ہم عصرفکری متبعین نے ان کی معذرت خواہانہ تعبیر پر اضافہ کرتے ہوئے جہاد پر خوب مشقِ ستم کی۔ مولوی چراغ علی نے، جوبقول شیخ محمد اکرام، مذہبی بحشوں میں سرسید کے دستِ راست تھے۷۹، پیغمبرِ اسلامؐ کے مغازی کو تاریخی حوادث سے تعبیر کرتے ہوئے مخصوص حالات کا نتیجہ اور جہاد سے متعلق آیاتِ قرآنی کوخاص حالات سے متعلق قرار دیا جو بعدمیں کسی شرعی نظریہ کی بنیاد قرار نہیں پا سکتیں۔۸۰ اور مرزا غلام احمدقادیانی نے تو آگے بڑھ کر جہاد پر خطِ تنسیخ ہی پھیر ڈالااور اعلان کر دیا کہ آج سے لڑنا حرام قرار دے دیا گیا ہے، لہٰذا اب جو کوئی دین کا نام لے کرجہاد کرتا اور کافروں کو قتل کرتا ہے ،وہ خداو رسول کا نافرمان ہے ۔۸۱
تعددِ ازواج
تعددِازواج ایک مرد کے لیے ایک وقت میں مخصوص شرائط کے ساتھ چار تک شادیاں کرنے کی اجازت پر مبنی قانون ہے جو انسان کے خالق نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ،انسان کی تمدنی ضروریات کے پیشِ نظر قائم کیا ہے۔مستشرقین نے اس قانون کو بھی غلط رنگ میں پیش کر کے مسلمانوں کو اپنے دین سے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے کی کوشش کی۔ نامور محقق محمد خلیفہ کے مطابق تعددِ ازواج اسلام کے حوالے سے مستشرقین کے ان بڑے اہداف میں سے ایک ہے جن کے بارے میں مغرب میں خصوصیت کے ساتھ غلط فہمیاں پھیلائی گئیں۔۸۲ سرسیدپر تعددِ ازواج کے ضمن میں بھی مغربی اہلِ قلم کے اثرات نمایاں ہیں ۔’تفسیرالقرآن ‘میں ان اثرات کی عکاسی سورہ النساء کی آیت۳ کی تشریح میں ہوتی ہے ۔سرسید نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن درحقیقت یک زوجگی کا اصول رائج کرنا چاہتا ہے اوروہ تعددِ ازواج کی اجازت صرف اس وقت دیتاہے جب عقل اور اخلا ق وتمدن، بمقتضائے فطرتِ انسانی اور ضروریاتِ تمدنی اس کی اجازت دے،اور خوفِ عدمِ عدل باقی نہ رہے، لیکن یہ ایک ایسی شرط ہے جس کا پورا ہونا مشکل ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس کو کسی وقت اورحالت میں بھی خوفِ عدمِ عدل نہ ہو۔۸۳ قانونِ تعددِ ازواج سے متعلق سرسید کی مذکورہ تعبیر اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اس پر جو کڑی شرطیں لگا رہے ہیں، وہ دراصل اسے ناممکن العمل بنا دینے کی خواہش کا شاخسانہ ہیں۔ سرسید کی اس خوہش کی تکمیل ان کے معاصرہم خیالوں اور عقیدت مندوں میں سے،مولوی چراغ علی اور ممتاز علی نے نہایت واضح اور بے باکانہ انداز میں کی۔ انہوں نے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ قرآن نے تعددِ ازواج کو عدل سے مشروط کیا ہے اور عدل سے مراد محبت ہے اور مرد کے لیے ایک وقت میں ایک سے زیادہ عورتوں سے محبت میں عدل ممکن نہیں۔ لہٰذاقرآن کا مقصود یہ ہے کہ تعددِ ازواج کو نفسیاتی طور پر ناممکن العمل بنا کر بتدریج ختم کر دیا جائے ۔یوں گویا تعددِ ازواج کو قرآن نے عملاً منسوخ کر دیا ہے۔۸۴
نتیجہ بحث
اوپر کی بحث سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ سر سید احمد خاں نے اسلامی عقائد و احکام کی تعبیروتشریح میں استشراقی و مغربی فکر سے گہرا تاثر لیااور اپنی رائے اورقیاس کے زور پر اسلام کا ایسا تصور پیش کرنے کی کوشش کی جو جدید تعلیم یافتہ اور عقلیت پرست مغربی گروہ کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سرسید سے تمام تر حسنِ ظن رکھ لینے کے باوصف یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی تاویلات سے ایک فتنے کا دروازہ کھول دیااور بقول شیخ محمد اکرام،اپنی رائے اور قیاس کے زور پر قرآنی آیات کو نیا مفہوم دے کر ایک ایسی مثال قائم کر دی جس کی بعض لوگوں نے بری طرح پیروی کی اور ہر آیت یا حدیث کی تاویل کر کے حسبِ خواہش معنی مراد لیے جانے لگے۔ یورپ سے کوئی بھی آواز اٹھے، لوگ فوراًیہ کہنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی یہی ہے۔ اس طریقے سے نہ صرف ان لوگوں کی نگاہ میں اسلام کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی جن کے اعتراضات رفع کرنے کے لیے نئے علمِ کلام کی ضرورت بتائی جاتی ہے،بلکہ خود اپنے ہم قوموں میں بھی نیک و بد اور موزوں و غیر موزوں کی تمیز اٹھ جاتی ہے اورایمان و یقین سے عاری لوگوں کے ہاتھوں میں مذہب ایک کھلونا بن جاتا ہے۔۸۵ دینی عقائد و احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے سرسیدکی یہی وہ جسارت ہے، جس نے بعض حلقوں میں ان کے خلاف زبردست بیزاری و برہمی پیدا کر دی ۔ سید جمال الدین افغانی سرسید کے علمِ کلام کوکفر و بدعت اور ان کی جدید تعبیراتِ قرانی کوالفاظِ قرآنی کی تکذیب پر محمول کیا کرتے تھے۔پروفیسر عزیز احمد کے الفاظ میں :
''Al-Afghani did not agree with the extremist rationalism of at least some of Sayyid Ahmad Khan's views, and regarded his new Ilmal-klam as a heresy so for as it seemed to falsify the words of the Quran."
یہی نہیں بلکہ بلجن کے مطابق تو افغانی سرسید کو انگریزوں کا آلۂ کار قرار دیتے تھے۔اور کہا کرتے تھے کہ انگریزوں کوسر سید کی صورت میں، اہلِ اسلام کے اخلاق اور نظم کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ایک مفید ہتھیار دستیاب ہو گیاتھا۔انگریزوں کی طرف سے سر سید کی تعریف توصیف اور علیگڑھ کالج قائم کرنے میں ان کی مددسے مقصود یہ تھا کہ اہلِ ایمان کو اپنے جال میں پھنسا کر بے ایمان بنایا جاسکے۔ افغانی کے نزدیک سرسیدیورپ کے مادہ پرستوں سے شدیدترمادہ پرست تھے،کیونکہ مغربی مادہ پرست اپنے دین سے انحراف کے باوجواپنی حب الوطنی پرسمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے،جبکہ سرسید نے مادرِ وطن میں غیر ملکی جابرانہ حکومت کو سندِ قبولیت عطا کرنے کی کوشش کی۔۸۷افغانی کے ان خیالات کو بلا شبہ ان کے رسالے ’’العروۃالوثقی‘‘ میں سرسید سے متعلق مضامین،جن میں بقولِ مولانا ابوالحسن علی ندوی ،کسی قدر غلط فہمی اور غلو شامل ہے۸۸ ، سے ماخوذ کہا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ کہنا بے جا نہیں کہ سر سید کم از کم دینی نقطہ نظر سے اہلِ مغرب اور مستشرقین کے آلۂ کار نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی حق میں زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ انہوں نے یہ کام دین کی حمایت کی خوش فہمی میں نا دانستہ کیا۔
حوالہ جات و حواشی
۶۹۔عزیز احمد، پروفیسر،برِ صغیر میں اسلامی جدیدیت،ص۷۹۔
۷۰۔سرسیداحمد خاں،تفسیر القرآن ،حصہ ہفتم،ص۷۔۳۷۔
۷۱۔ایضاً،ص۷۸۔۱۰۶۔
۷۲۔
Sale, George, The Quran, p.38.
۷۳۔
Menezez, F.J.L, The life and Religion of Muhammad, the Prophet of Arabian Sands, London, 1911, pp.63,165.
۷۴۔
Wollaston, A.N, The Religion of Islam, Lahore, Sh.Muhammad Ashraf, 1905, p.27
۷۵۔
Tor Andrae, Muhammad, the man and his faith, translated from German by Theophil Menzel, London, George Allen $ Unwin, 1965, p.147
۷۶۔
The Encyclopedia Americana, Op.Cit.Vol.16,pp.91-92
۷۷۔
The Encyclopedia of Religion, Op.Cit.Vol.8,pp.90-91.
۷۸۔سر سید احمد خاں، تفسیر القرآن مع اصول تفسیر،ص۳۱۳۔۳۱۵۔
۷۹۔محمد اکرام شیخ، موجِ کوثر،ص۱۶۶۔
۸۰۔چراغ علی، تحقیق الجہاد،حیدرآباد،س۔ن،ص۱۔۱۲۔
۸۱۔قادیانی،غلام احمد،مرزا،اشتہار، ۲۸ مئی ۱۹۰۰ء۔
۸۲۔