حالیہ دنوں میں لاہور میں قادیانی معبد وں پر حملوں کا سب سے زیادہ فائدہ خود قادیانی عناصر نے ہی اٹھا یا ہے ، کیونکہ ان حملوں سے پہلے قادیانیوں کو پاکستان میں دھشت گردانہ کا رروائیوں کا مرتکب گردانا جاتا رہا ہے ۔اسرائیل میں قادیانی مشن کی مو جود گی کے پیش نظر پاکستان کے ایٹمی ہتھیا ر وں کو قادیانیوں سے لاحق شدید خطرات میڈیا میں زیر بحث رہے ہیں۔ اسی طرح قانون توہین رسالت کو ختم کرانے کے لیے بیرونی طاقتوں کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا نے جیسے قادیانی ہتھکنڈوں کا تذکرہ ابھی محفلوں میں جاری ہی تھا کہ اُن کے معبدوں پر حملوں سے ملکی منظر نامہ میں ایک بڑی تبدیلی نے کروٹ لی ۔وہ یہ کہ سیکولر ، لبرل اور لادین قلم کارکہ جن کے قادیانی لابی سے دیرینہ خفیہ تعلقات قائم ہیں، اب انہیں خوب کھُل کھلنے کا موقع ہاتھ میں آیا ہے ۔ رواداری اور مظلومیت کے پر دے میں وہ دھڑلے سے اپنے اخباری مضامین اور کالموں میں قادیانیوں کی حمایت میں الم غلم لکھے جا رہے ہیں اور اس طرح وہ آئینِ پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے مسلمانوں کو بلا کسی دلیل کے ظالم اور قادیانیوں کو( مجرم ہو تے ہوئے بھی) مظلوم قرار دیتے چلے جا رہے ہیں۔دوسری طرف ایسے لکھا ری حضرات بھی ہیں جو بے خبری میں مذکورہ ٹو لے سے متاثر ہو کر تحفظ ختمِ نبوت کی عظیم الشان ایک سو سالہ مقدس دینی جدوجہد ہی کو قابل اعتراض سمجھنے لگے ہیں ۔یہ صورتحال قادیانیوں کے حق میں نہایت سود مند اور ماضی سے بے خبر اور حال سے بر گشتہ ہماری نوجوان نسل کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے ۔
۲جون ۲۰۱۰ء کے روزنامہ ’’اوصاف ‘‘ ،اسلام آبادمیں جناب خورشید ندیم نے ’’ قادیانی مسئلہ ‘‘کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے مجلسِ احرارِ اسلام کی قادیانیت کے حوالے سے کی گئی جدو جہد پریہ اعتراض اٹھایا ہے کہ :’’ہمارے ہاں بد قسمتی سے قادیانیت اور قادیانیوں میں فرق ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔میرے نزدیک اس کی ایک وجہ مجلسِ احرارِ اسلام ہے ۔یہ[ مجلسِ احرار] قادیانیوں کے خلاف اٹھنے والی پہلی عوامی تحریک ہے ۔اس کی قیادت خطیبوں کے ہاتھوں میں تھی اور خطیب کا مخاطب لوگوں کے جذبات ہوتے ہیں، ذہن اور فکر نہیں۔ اس کی کامیابی یہ ہے کہ وہ عوام سے دادِ تحسین وصول کرے ۔‘‘ اگر فاضل مضمون نگارمجلس احرار اسلام کی تحریک ختم نبوت کی خدمات کے متعلق تاریخی حقائق پر نظر رکھتے تو یقیناًاُن کے قلم سے مند رجہ بالا الفاظ نہ نکلتے۔ مجلسِ احرارِ اسلام اَسّی سال سے قادیانیت کے خلاف سرگرمِ عمل ہے۔ اگر یہ جذباتی تحریک ہوتی تو یہ ابتدائی چند سالوں میں ہی دم توڑ دیتی اور گمنامی کے غاروں میں گم ہو جاتی ،مگر مجلسِ احرارِ اسلام کے اکابرکی دُوررس نگاہوں اور اُن کی خداد بصیر ت نے تحفظِ ختمِ نبوت کے مقدس کام کی بنیاد جن اصول و عقائد اور دستور و منشور کی روشنی میں رکھی تھی ،اُن کے اثرات ماضی کی نسبت آج دنیا کے ہر خطے میں زیادہ واضح انداز میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔اُن کی شبانہ روز محنت کے صلہ میں اس محاذ پر مسلمان ہر جگہ سر خرو اور منکرینِ ختمِ نبوت دنیا بھر میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں۔مجلسِ احرارِ اسلام ۱۹۲۹ء میں معرضِ وجود میں آئی جس کے قیام میں محدثِ کبیرعلامہ سیّد محمدانورشاہ کشمیریؒ جیسی نابغہ روزگارشخصیت کااصولی مشورہ شامل تھا۔قادیان کاقصبہ اُن دنوں قادیانیوں کی خودساختہ ریاست کادرجہ رکھتاتھا۔جہاں پرصرف قادیانی سربراہ مرزابشیرالدین محمود کاحکم چلتاتھا۔ایسے حالات میں علامہ انورشاہ کشمیریؒ اپنے شاگردوں مثلاً مولانامفتی شفیع مرحوم وغیرہ کو وقتاً فوقتاً قادیان بھیجا کرتے تھے ۔ تاکہ وہاں کے مسلمانوں کو قادیانیوں کے گمراہ کن عقائد سے محفوظ رکھا جا سکے ۔علامہ سید انور شاہ کاشمیری ؒ ہی نے قادیانیت کے خلاف مضبوط بنیادوں پر جدوجہد کو منظم کرنے کے لیے ۱۹۳۰ء میں انجمن خدامِ الدین لاہور کے اجتماع میں مولانا سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ کو پنجاب کا امیر شریعت نامزد فرمایا اور خود سب سے پہلے سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی بیعت کی ۔اُن کے بعد مولانا ظفر علی خانؒ اور مولانا احمد علی لاہوری ؒ سمیت پانچ سو علماءِ کرام نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ کی بیعت کر کے انہیں امیرشریعت تسلیم کر لیا۔سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ نے اس مقدس مشن کی تکمیل کے لیے علامہ انور شاہ کشمیری ؒ کے مشورہ پر ہی آل انڈیا مجلسِ احرارِ اسلام کے نام سے ایک مستقل دینی و سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی تھی ۔
مجلسِ احرارِ اسلام ہندو ستان کی پہلی جماعت تھی جس نے اپنے تاسیسی اجلاس میں ہی قادیانیت کی سرکوبی کے لیے قرار داد منظور کی ۔یہ درست ہے کہ مجلسِ احرارِ اسلام کے رہنماؤں نے اپنی جرأ ت و بے باکی اور غیرتِ دینی کے بل بوتے پر فرنگی سامراج کو جس واشگاف انداز میں للکارا ،وہ اپنی مثال آپ تھا۔ اُن کے اِ سی جرأت مندانہ اندازِ خطابت کی بدولت برِ صغیر فنِ خطابت کے ایک جدید اسلوب سے متعارف ہوا،لیکن مجلسِ احرار میں صرف خطابت کے ہی شہسوار نہیں تھے، بلکہ اِس میں علم و فضل کے اعلیٰ مقام پر فائز سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی،مولانا مفتی عبدالقیوم پوپل زئی ، مولانا لال حسین اختر ،مولانا محمد گل شیر خان شہید ، مولانا محمد علی جالندھری اور مولانا غلام غوث ہزاروی جیسی قد آور دینی و علمی شخصیات بھی تھیں ۔جنہوں نے اپنی منفرد خطابت اور قابلِ قدر دین فہمی کے جواہر کے ذریعے عوام کے بے سمت جذبات کو قادیانیت کے خلاف منظم کر کے اُن کے ذہن و فکر کو عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کی پاسداری کے لیے تیار کیا۔
قادیانیت کے فرزندوں نے ظلم و دہشت کی فضا طاری کرنے کے علاوہ مناظرہ بازی ،لالچ اور دھونس کابازار گرم کر رکھا تھا ۔ مجلسِ احرارِ اسلام کے رہنماؤں نے قادیانیوں کے اِن ہتھکنڈوں کا تفصیلاً جائزہ لیا اور وہ بالآخر اس فیصلے پر پہنچے کہ چونکہ قادیانیت کا خمیر انگریز کے ایماء پر اُٹھایا گیا ہے اور سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اس فتنے کو مذہب کا لباس پہنا دیا گیا ہے ۔لہذامناظروں اور مناقشوں سے حتی المقدور بچتے ہوئے قادیانیت کے دجل و فریب کو عوامی سطح پر بیان کیا جائے تاکہ وہ اَن پڑھ مسلمان جو مناظرانہ موشگافیوں اور مخصوص مذہبی اصطلاحات سے کچھ بھی واقفیت نہیں رکھتے، اُنہیں بھی قادیانیت کے ارتدادسے آشنا کیا جاسکے ۔ جب احرار رہنماؤ ں نے قادیانیت کے مکرو عقائد کو آسان زبان میں عوام کے سامنے لاکررکھا توعا م مسلمان بھی قادیانی مکرو فریب سے واقف ہوتا چلا گیا۔
احرار رہنما بخو بی جانتے تھے کہ قادیانیت جیسے فتنے کا صرف علمی انداز سے تعاقب کرنا اور محض کتب و رسائل کے ذریعے اس کے نظریات و افکار کی تردید کر دینے سے ہی کماحقہ دینی فرض ادا نہیں ہو جا تا کیونکہ اس کا فائدہ چند فی صد تعلیم یافتہ مسلمانوں تک ہی محدود رہتا ہے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد جو تعلیم کی کمی کی وجہ سے کتابی علم سے استفادہ کرنے سے یکسر محروم رہ جاتی ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنی بے مثل خطابت سے کام لیتے ہوئے عقیدۂ ختمِ نبوت کی اہمیت اور قادیانیت کی اصل غرض و غایت لوگوں کے دل و دماغ میں بیٹھا دی۔احرار نے قادیانیت کے متعلق پڑھے لکھے مسلمانوں کو کتب و رسائل کے ذریعے شعور بخشنے میں بھی ہر گز کوئی کوتاہی نہیں کی، بلکہ وہ اپنے شعبہ ء نشرواشاعت کے ذریعے ۱۹۳۰ء سے اب تک بے شمارلٹریچرشائع کرتی چلی آرہی ہے۔
خورشید ندیم صاحب نے ایک اور عجیب و غریب نکتہ اعتراض اُٹھایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ :’’احرار کا ہدف بد قسمتی سے قادیانیت کی بجائے قادیانی بن گئے،کیونکہ فنِ خطابت کی ضرورت یہی تھی ۔اب بجائے یہ بتانے کے کہ قادیانیت کیسے اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہے ،سارا زور اس پر صر ف ہونے لگا کہ قادیانی کیسے اسلام،مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ اس اسلوب کے غلبے سے قادیانیوں میں ایک ردِ عمل پیدا ہوا ،اور اُن میں اصلاح کی بجائے دفاع کا جذبہ ابھرا۔دوسری طرف ایک عام مسلمان پر یہ اثر ہوا کہ اس میں قادیانیوں سے نفرت اور ناپسندیدگی پیدا ہوئی ۔‘‘ اگر محترم مضمون نگار قادیانیت کی پیدائش ، قادیانیت کے تخلیق کاروں کے حقیقی عزائم و مقاصد اور قادیانیت کے اسلام دشمن اور ملت کش منصوبوں کا بغور مطالعہ فرماتے تو انہیں احرار کو مطعون کرنے کی ہرگز ضرور ت پیش نہ آتی، کیونکہ اس ناقابلِ تردید حقیقت کو تمام دینی و سیاسی حلقے اور تاریخ دان طبقے بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ قادیانیت کی تخم ریزی کے پیچھے انگریز سامراج کے دو بڑے عزائم کار فرما تھے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کی مرکزیت کو منہدم کرنے کے لیے جناب ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ ختمِ نبوت کے برعکس سامراجی نبوت کے برگ و بار اُٹھائے جائیں اور دوسرا یہ کہ اس خانہ ساز نبوت کے ذریعے مسلمانوں کو سامراج کا مطیع و فرمانبردار غلام بنایا جائے۔پس آنجہانی مرزاغلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت اِنہی دومقاصد یعنی مسلمانوں میں انتشارپھیلانے اورانگریزپرستی کو رواج دینے کاابتدائیہ ثابت ہوا۔جس نے آگے چل کر نوے سال تک برصغیر کے مسلمانوں کو مضطرب کیے رکھا۔
چونکہ قادیانیت کے آغازسے ہی علماء کرام قادیانیت کے عقائدونظریات اوراُس کے اسلام اورمسلمانوں سے متصادم فکرونظر کی بابت تفصیل سے بتاتے چلے آئے تھے۔اِس لیے مجلسِ احرارِ اسلام نے اس ضرورت کا احساس کیا کہ اب قادیانیت کے عقائد کے بیان کے ساتھ ساتھ اُ س کے قوم و ملک کے خلاف دہشت گردانہ منصوبوں کو بھی طشت ازبام کرنا ضروری ہے۔تاکہ مسلمان اُس کی تخریبی کارروائیوں سے بھی واقف ہوسکیں۔ اس لیے احرارنے قادیانیت کے پیرو کاروں کی اسلام ،مسلمانوں اور ملک کے خلاف سازشوں سے عوام کی آگاہی کو ناگزیر امر قرار دیا ۔حیرت ہے کہ فاضل مضمون نگار مجلسِ احرارِ اسلام کے اس عمل کو مسلمانوں میں قادیانیوں سے نفرت اور ناپسند یدگی پیدا ہونے کی وجہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مسلمان عوام میں قادیانیوں کے خلاف نفرت خود قادیانیوں کے مذموم عقائد اور مسموم اعمال نے ہی پیدا کی ہے۔مثلاً مرزاغلام احمدقادیانی نے مسلمانوں کو ذُریۃ البغایۃ یعنی کنجریوں کی اولاد ہونے کی گالی دی۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی کے پوتے مرزا ناصر احمد نے ۱۹۷۴ میں قومی اسمبلی میں یہ اعتراف کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہ ماننے والوں یعنی مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔کیا قادیانی وڈیروں کے ایسے سینکڑوں غلیظ بیانات ہی مسلمانوں میں قادیانیوں کے خلاف جذبات کو ہوا دینے کا باعث نہیں بنے تھے؟
اکتوبر ۱۹۳۴ ء میں جب مجلس احرارِ اسلام نے قادیان کے مسلمانوں کی دعوت پر وہاں آل انڈیا احرار تبلیغ کانفرنس منعقد کی تو اس کا نفرنس کے اثرات سے گھبرا کر قادیانیوں نے امیرِشریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ پر مقدمہ کر ا دیا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ۲۰دسمبر ۱۹۳۴ء کو عدالت میں بیان دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ مرزائی دنیا کے اُن تمام چالیس کروڑ مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی نہیں مانتے ،کافر کہتے ہیں ۔اس واسطے انہوں نے اپنے تمام تعلقات مسلمانوں سے منقطع کر لیے ہیں ۔اُن کی رشتہ داریاں منقطع ہو گئی ہیں ۔وہ مسلمانوں کو اپنی لڑکیا ں نہیں دیتے ۔مسلمانوں کا جنازہ نہیں پڑھتے ۔ہم کو خنزیر کہتے ہیں ہماری ماؤں ،بہنوں اور بیٹیوں کو کتیوں سے بد تر کہتے ہیں ۔اس لیے انہوں نے ہمارے سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں ۔‘‘ ) ہفت روزہ ’’ آفتاب ‘‘،ملتان ۳۱ دسمبر ۱۹۳۴ ء ( سید عطا ء اللہ شاہ بخاری ؒ کے اس بیان سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور دُوری کی ابتدا،اور انتہاء قادیانی عناصر نے خود کی تھی ۔سید عطا ء اللہ شاہ بخاری کے مذکورہ بالا مقدمہ کا فیصلہ ممتاز جج جسٹس جی ،ڈی کھوسلہ نے کیا تھا۔اس فیصلہ میں بھی فاضل جج نے قادیانیوں کو ہی مسلمانوں پر مظالم کا مرتکب اور اُنھیں مشتعل کرنے کا باعث قرار دیا تھا ۔
محترم خورشید احمد ندیم نے قادیانی اور قادیانیت کی تفریق کر کے لفظی بازیگری سے کام لیا ہے ۔قادیانیت اگر مخصوص عقیدہ و نظر یہ کا نام ہے تو قادیانی ہی اُس کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ ہیں۔اگر آج فلسطینی مسلمانوں پر یہودیوں کے مظالم کی مذمت کی جاتی ہے یا یہودیوں کی سازشوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو دراصل یہودیوں سے مراد یہودیت ہی ہوتی ہے۔ اس طرح اگر قادیانیوں کی مذموم سرگرمیوں کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے تو یہ در حقیقت قادیانیت ہی کا تذکرہ ہوتا ہے ۔اگر مجلسِ احرارِ اسلام کے رہنما قیام پاکستان سے قبل پنجاب کی تقسیم کے دوران سر ظفر اللہ خان قادیانی کے باؤنڈری کمیشن میں پاکستان کا کیس خراب کرنے کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعدظفر اللہ خان کے قائدِ اعظم کا جنازہ نہ پڑھنے کا حوالہ پیش کرتے ہیں اور ظفر اللہ خان قادیانی کے ہی بحیثیت وزیرِ خارجہ ،پاکستان کو سیٹو اَور سینٹو جیسے بدنامِ زمانہ معاہدوں میں جکڑ کر پاکستان کی خود مختاری کو داؤ پر لگا دینے کے متعلق حقائق و اشگاف کرتے ہیں،یا اسرائیل میں قادیانیوں کے مشن کے موجودہونے کے متعلق قادیانی رسائل کے حوالے سے عوام کوآگاہ کرتے ہیں تو یہ اُن کا دینی ہی نہیں، قومی فریضہ بھی ٹھہرتا ہے، کیونکہ دین و ایمان اور قوم و ملک کے دشمن کے تخریبی ارادوں سے قوم کو بروقت خبردار کرنا قوم کے سچے خیر خواہ ہوں کا شیوہ ہو ا کرتاہے ۔
اگر اِن حقائق کو جان لینے سے قوم میں دوست ،دشمن کی پہچان پیدا ہوجا تی ہے اور اِس میں اپنے دین و طن کے غداروں کے کردار و عمل سے نفرت جنم لیتی ہے تو یہ ہماری دینی ،قومی اور ملی غیرت کا تقاضا بھی ہے ۔ دشمن کے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر بھی اُسے دوست سمجھتے ہوئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینا سراسر حماقت و نادانی ہے ۔یادرہے !کہ نادان دوست ،دشمن سے کہیں زیادہ خطر ناک ہو ا کرتا ہے۔ اگر خورشید احمد ندیم کے فلسفہ کے مطابق قادیانیوں کی اسلام ،مسلمان اور پاکستان کے خلاف سازشوں کی نقاب کشائی سے قادیانیوں کے خلاف نفرت کو فروغ ملتا ہے، تو علامہ محمد اقبالؒ کے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام خط میں شامل اِس جملے کے متعلق کیا کہا جائے گا کہ :
’’میں اِ س باب میں کوئی شک و شبہ اپنے دل میں نہیں رکھتا کہ یہ احمد ی ،اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں‘‘۔