ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام کانفرنس

ادارہ

ہندوستان کی آزادی کے ۶۳ ویں جشن کے موقع پر۸؍اگست۱۰۱۰ء بروزاتوارایسٹ لندن کے معروف تعلیمی ادارے دارالامہ کے وسیع ہال میں ورلڈاسلامک فورم کے زیرِاہتمام ایک عظیم الشّان کانفرنس زیرِصدارت مولاناعیسیٰ منصوری منعقدہوئی جس کاعنوان تھا: ’’برصغیرکی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاکردار اور آزادی کے ۶۳ برس میں کیا کھویا کیا پایا‘‘۔ کانفرنس میں لندن اوربرطانیہ کے مختلف شہروں سے ہرطبقہ کے لوگوں خصوصاً مختلف تنظیموں، اداروں، مساجد اوراسلامک سینٹرزکے ذمہ داروں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں بھارت سے میڈیاکے مشہورسہاراگروپ کے چیف ایڈیٹر جناب عزیزبرنی بطورِمہمان خصوصی شریک ہوئے۔ بھارت میں اردوتفتیشی صحافت کاسہراڈاکٹرعزیزبرنی کے سرہے جنہوں نے گذشتہ ایک دہائی میں کمیونل دہشت گرد صحافت کامردانہ وارمقابلہ کیا اورثابت کردیاکہ گذشتہ چندسالوں میں حیدرآباد کی مکّہ مسجد ،اجمیرشریف ،جے پور،مالیگاؤں اورسمجھوتہ ایکسپریس کے بم دھماکے کسی مسلمان نے نہیں بلکہ ہندوتواکے دہشت گردوں نے کیے جن میں مندرکے پروہت پچاری، بھارتی فوج کے حاضرسروس کرنل تک شامل ہیں۔ عزیز برنی کی ایک درجن سے زیادہ اردووانگریزی تحقیقی کتب دنیابھرمیں پڑھی جارہی ہیں۔

کانفرنس کے دوسرے مہمان خصوصی بھارت کے ممتازعالم دین اوردرجن بھرعلمی وتحقیقی کتب کے مصنف جناب مفتی محفوظ الرحمن عثمانی تھے۔ ان کے علاوہ بھارت کے عظیم علمی ودینی ادارے جامعہ سیداحمدشہیدؒ کھتولی(یوپی) کے استاذجناب مولاناانعام صاحب،جنگ کے سابق ایڈیٹر جناب ظہورنیازی صاحب،شیخ الحدیث مولانامحی الدین بڑودوی،جماعت اسلامی کے ممتاز عالم واسکالرمولانارضوان فلاحی اردو کمپیوٹرسینٹرکے ڈائریکٹروبراڈکامسٹرمفتی برکت اللہ، لندن شہرکے مولانا عبدالحلیم، مولانا رفیق،مفتی ابراہیم کاوی،حافظ عبدالرشید کاوی ،مولانا مسعودعالم ،معروف ادیب وشاعرکامران رعد، ورلڈ سینٹر اسلامک فورم کے سیکریٹری جناب جعفر،خزانچی غلام قادرصاحب،انڈین مسلم فیڈریشن کے نائب صدرعرفان مصطفی، فیڈریشن کے ٹرسٹی جناب شیخ یوسف، انورشریف اور ان کے علاوہ برطانیہ کے مختلف شہروں سے نمائندہ شخصیات نے شرکت کی۔

کانفرنس کاآغازجناب حافظ عبدالرشید کی تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا ۔ اس کے بعدجناب مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے جنگِ آزادی میں مسلمانوں کے کردارپرتفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ برصغیرمیں مسلم سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں کی علمی ودینی بیداری اورنشأۃ ثانیہ کاسہراحضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اورآپ کے خانوادہ کے سر ہے۔ سب سے پہلے حضرت شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ نے انگریزحکومت کے خلاف برصغیر کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس کے بعدبرصغیرمیں حصول آزادی کے لیے تقریباً ۲۰۰؍سالہ مسلمانوں کی قربانیوں اورسرفروشی کی تاریخ کا زریں باب ہے۔ منہج خلافت راشدہ پر اسلامی حکومت کاقیام کے لیے شاہ ولی اللہؒ کے پوتے حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ اورحضرت سیداحمدشہیدؒ بریلوی کی قیادت میں سینکڑوں علما وصلحا نے ارض بالاکوٹ کواپنے مقدس خون سے لالہ زار بنایا۔ پھرعلماء صادق پور،علماء فرنگی محل، مولانااحمد اللہ مدراسی کے جہاد کاتسلسل قائم رہا۔۱۸۵۷ء کے موقع پر ۵۸ ہزار علماء کوشہیدکیاگیااورپھانسی کے تختہ پر لٹکایا گیا۔ دہلی سے سرحدتک سات سومیل تک درختوں پرعلماء حق کی لاشیں لٹک رہی تھیں۔ شاملی کے میدان میں علماء حق نے انگریزی فوج کامردانہ مقابلہ کیا جس کے سالاراعلیٰ حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکی، امام رباّنی مولانارشیداحمدگنگوہیؒ اوربانی دیوبند حجۃ الاسلام مولاناقاسم نانوتوی تھے۔ شاملی کے میدان میں حضرت پیرضامنؒ سمیت سینکڑوں علماء ومحدثین نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کے بعدتحریک آزادی میں مولانامحمودحسن دیوبندی، مولاناحسین احمد مدنی، مولاناعبیداللہ سندھی، مولاناابولکلام آزاد، مفتی کفایت اللہ، مولاناحفظ الرحمن سیوہاروی کی جدجہدکی طویل تاریخ ہے۔ مفتی صاحب نے نہایت موثراندازمیں برصغیرکی تحریک آزادی میں مسلمانوں اور خاص طورپرعلماء حق کی قربانیوں اورکردارپرتفصیل سے روشنی ڈالی۔

مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹرعزیزبرنی نے موجودہ حالات کے تناظرمیں عالمِ اسلام کاجائزہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آج عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ ومغرب نے مسلمانوں کوبدنام کرنے کے لیے میڈیا وپروپیگنڈہ کے ذریعہ دہشت گردی کا الزام مسلمانوں کے سرمنڈھ دیاہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکہ ویورپ نے مسلم ممالک میں ریاستی دہشت گردی شروع کر رکھی ہے۔ مغرب کی اسلام دشمنی طاقتوں نے۱۱؍۹ کاواقعہ انجام دے کر الزام مسلمانوں کے سر ڈال دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتنی اہلیت، اتنی سائنس وٹیکنالوجی ہے ہی نہیں کہ وہ ایساواقعہ انجام دے سکیں۔ بعدمیں امریکہ، جرمنی، فرانس، جاپان، برطانیہ کے متعدد تفتیشی اداروں اور اسکالرزنے دلائل سے ثابت کیاہے کہ ۱۱؍۹ کاواقعہ مسلمانوں پرالزام ڈال کرمسلم ممالک میں مداخلت کابہانہ بنانے کے لیے خودامریکہ کی اندرونی اسلام دشمن قوتوں نے انجام دیا۔ اس المناک واقعہ میں کوئی افغانی شریک نہیں تھا، پھربھی امریکہ ویورپین افواج نے افغانستان کوتباہ کرکے دوملین سے زیادہ بے قصورمسلمانوں کوقتل اورکئی ملین کو معذور وجلاوطن کردیا۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے اورامریکی یوروپی ممالک تسلیم کرچکے ہیں کہ اسرائیلی موساد کے کہنے پرامریکی سی آئی اے نے عراق میں تباہ کن اسلحہ کی جھوٹی دستاویز تیارکی تھی جسے بہانہ بناکرعراق کوتباہ کردیاگیا اور دوملین سے زیادہ بے قصور مسلمانوں کو قتل اورپانچ ملین سے زیادہ کو معذور وجلاوطن کر دیا گیا۔ 

ڈاکٹربرنی نے کہا کہ اسرائیل آئے دن معصوم فلسطینیوں کی بستیوں کوبلڈوزرکے ذریعے مسمارکرکے وہاں اسرائیلی بستیاں بسارہاہے۔ بے قصور فلسطینیوں کواسرائیل فوج وپولیس قتل کررہی ہے۔ اسرائیل نے پوری فلسطینی آبادی کو امریکہ کی بدنام زمانہ ’گونٹاناموبے‘ کی طرح اذیت ناک جیل وقیدخانہ میں تبدیل کر رکھا ہے۔ انہیں بجلی ،پانی،خوراک حتی کہ دواؤں تک سے محروم کررکھاہے۔ یہ سب عالمی برادری بالخصوص امریکہ ویوروپ کی مجرمانہ خاموشی،درپردہ اسرائیل کی حمایت کے سبب ہو رہا ہے۔ ڈاکٹربرنی نے کہاکہ کشمیرکامسئلہ بھی اس لیے سلگ رہاہے اورحل نہیں ہوپارہاہے کہ کانگریس سمیت بھارت کی تمام سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے ہرمعاملہ کو کمیونل اورفرقہ وارانہ رنگ دیتی ہے،جب کہ کشمیر اٹوٹ انگ ہے اورکشمیری خوشی سے آپ کے ساتھ آئے ہیں۔ پھرجب وہ فریاد اور شکایت کرتے ہیں توان کی دادرسی کرنے کے بجائے کانگریس مٹھی بھر کمیونل برہمن وادی طاقتوں سے ڈرکرکشمیریوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ جب تک کانگریس اورسیکولر پارٹیاں اپنی ذہنیت نہیں بدلیں گی اورآرایس ایس کی خوشنودی کے لیے کشمیریوں پر جبروظلم کے فیصلے تھوپتی رہیں گی، کشمیرکامسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ آپ کویہ کہناہوگاکہ صرف کشمیرکی سرزمین نہیں بلکہ کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔ 

ڈاکٹربرنی نے کہاکہ میں نے پہلے ہی دن کہاتھاکہ ممبئی دہشت گردی کے واقعہ میں صرف دس آدمی نہیں ،امریکہ اوربھارت کی کمیونل طاقتیں بھی شریک ہیں۔ بعد میں امریکی ایجنٹ ہیڈلی اوربھارتی آئی بی کے مشکوک کردارنے میری بات کو ثابت کیا۔ ہمیں پوری انسانیت کو ایک کنبہ تصورکر کے ہمدردی اورحقیقت پسندی کے ساتھ مسائل سے نمٹناہوگا۔ جب تک بھارت میں گانگریس مہاتماگاندھی اورنہروکے سیکولرراستے کے بجائے آر ایس ایس اورہندو کمیونل طاقتوں کی خوشنودی کے لیے کام کرے گی،ہندومسلم کشیدگی ونفرت کاالاؤبھڑکتارہے گا۔ہرفرقہ وارانہ فسادمیں۹۰،۹۵ فیصد مسلمانوں کانقصان کیوں ہوتا ہے؟ ہر فسادنے ثابت کیا ہے کہ انتظامیہ اورپولیس میں خاصی تعدادمیں آرایس ایس کے کمیونل ذہن کے لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے قتل وتباہی میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ جب تک یہ ذہنیت نہیں بدلے گی، وطن عزیزمیں ہندومسلم یکجہتی وبھائی چارہ رواداری اورمحبت وپیارسے مل جل کررہنے کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکے گا۔

صدرجلسہ مولاناعیسیٰ منصوری نے کہا کہ برصغیرکی تعریف ساری دنیامیں نرالی وعجیب وغریب ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِ حکومت میں مسلمانوں کی تعدادپانچ فیصد بھی نہیں رہی مگر پوری مدت میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتا کہ ہندوعوام نے کبھی مسلم اقتدار کے خلاف بغاوت کی ہو۔ بھارت کی ہزارسالہ تاریخ میں جنگیں سیاسی اوراقتدارکی جنگیں کی تھیں نہ کہ مذہب کی۔ بھارت کی ہزارسالہ تاریخ میں کئی بارمسلمانوں نے سیاسی شکست کھائی مگرپوری تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں ملتاکہ کسی ہندونے اسلام یاپیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلافہ ہرزہ سرائی کی ہویارنگیلا رسول جیسی بدبختانہ کتاب لکھی ہو۔ یہ نفرت کا بیج انگریز وں نے اپنے اقتدار کوطول دینے کے لیے بویا۔ آج بھارت کی آر ایس ایس اور شیو سینا، بجرنگ دل، سب انگریز کی پیداوار ہیں، ان کا جنگ آزادی میں ذرہ برابر کردار نہیں، جبکہ بھارت میں مسلمانوں کی ملک کی آزادی کے لیے ۲۰۰ سو سالہ شاندار تاریخ ہے۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ کی شہادت ۱۷۹۹ ء میں اور بالا کوٹ میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل کے ساتھ سیکڑوں علما کی شہادت، ۱۷۳۱ کا واقعہ ہے۔ ۱۷۹۹ میں سلطان ٹیپو شہید کی شہادت کے بعد انگریز فوج کا سالار خوشی سے چلا اٹھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ جنگ آزادی میں سب سے عظیم اورتابناک کردار علماء حق کاہے جس کاتسلسل حاجی امداداللہ مکیؒ سے ہوتاہوا شیخ الہندمحمودحسنؒ دیوبندی ،مولاناآزاداورحضرت مدنیؒ تک ہے۔

مولانامنصوری نے کہاکہ آپ کے مسائل کا واحدحل یہی ہے کہ آپ اللہ سے اپنارشتہ مضبوط کریں اوراللہ کاسچّے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جوامانت اورذمہ داری آپ کوسونپی ہے، دنیاکے ہرانسان تک قرآن کاپیغام اورایمان ،اسلام اور توحیدکی دعوت پہنچائیں۔ جب تک ہم اپنااصل کام نہیں کریں گے یعنی اللہ رسول کاپیغام ہرانسان تک نہیں پہنچائیں گے، اسی طرح تباہ وبرباد رہیں گے۔ بلاشبہ بھارت میں ہمارے بے شمارمسائل ہیں، ناانصافیوں اورظلم کی ۶۳ سالہ تاریخ ہے۔ تعلیمی پسماندگی، بے انتہا غربت، ہر معاملہ میں ناانصافی وظلم مثلاً پارلیمنٹ میں سوکے بجائے ۲۵سیٹیں، ملازمتوں فوج، پولیس میں ۱۵فیصد کے بجائے بمشکل دوفیصد ،فسادات کے عنوان سے نسل کشی وتباہی، مگر میں کہتا ہوں کہ اگرآپ فلسطینیوں کی طرح سو فیصد تعلیم یافتہ ہوجائیں، تیل کی دولت سے مالامال عرب ممالک کی طرح مالداربن جائیں، ملازمتوں میں ۲۰ فی صد ریزرویشن مل جائے، بھارتی پارلیمنٹ میں آپ کی سو سیٹیں ہوجائیں، تب بھی اسی طرح برباد رہیں گے جب تک اپنی اصل ذمہ داری کااحساس نہ کریں، یعنی ایمان واسلام کی دعوت کے لیے کھڑے نہ ہوں۔ 

مولانامنصوری نے کہا کہ آپ کی اصل پہچان اورحیثیت داعی کی ہے اورداعی تاجرکی طرح ہوتاہے۔ تاجراپنامال بیچنے کی خاطر گاہک کی ہزار بدتمیزی وبے ہودگی برداشت کرتاہے۔ اسی طرح اللہ کا دین پہنچانے کے لیے آپ کوبھی برداشت کرنا ہوگا۔ اگرآپ کی دوکان نہیں چلتی توآپ یہ کہہ کربندنہیں کردیتے کہ گاہک نہیںآرہے، بلکہ ناکامی کے اسباب پرغورکرکے امکان بھر جدوجہدمیں لگ جاتے ہیں۔ اگراسٹاف نااہل ہے تواسے تبدیل کرتے ہیں، دکان کا ڈیکو ریشن، فر نیچر تر غیب دلانے والانہیں تو اسے بدلتے ہیں، دوکان کا سامان بدلتے ہیں، دوکان کی جگہ تبدیل کرتے ہیں، پھر بھی نہ چلے تو ایڈورٹائزنگ کے جدید ترین ذرائع اختیار کرتے ہیں حتی کہ دکان چل پڑتی ہے، مگر جب اللہ کے بندوں کو اس کا پیغام پہچانے کا مسئلہ در پیش ہو تو صدیوں پرانے فرسودہ طریقوں اور اسلوب پر اکتفا کر کے بیٹھ جاتے ہو کہ کیا کریں، لوگ دینی کتابیں پڑھتے ہی نہیں! دین کی بات کی بات سنتے ہی نہیں! آپ تجارت میں بہت ہوشیار اور دعوت میں نااہل بن جاتے ہیں۔

آج ہم ہر جگہ اپنی مظلومیت کا رونا رو رہے ہیں کہ فلسطین میں ہمارے ساتھ یہ ظلم ہو گیا، چیچنیا میں یہ ظلم ہو گیا، کشمیر میں یہ ظلم ہو گیا، آپ انسانوں کی نظروں میں مظلوم مگر اللہ کے نزدیک ظالم ہیں کہ اللہ نے آپ کو دنیاکے ہر انسان کے لیے ہمیشہ کی فلاح و کامیابی اور ہمیشہ ہمیشہ کی ناکامی وبربادی سے بچنے کا نسخہ شفا قرآن اور اسلام کی شکل میں دیا تھا۔ آج لاکھوں مسلمان مرمر کر ہمیشہ ہمیشہ کی ہلاکت وبربادی یعنی جہنم میں جارہے ہیں، آپ نے ان کی فکر نہیں کی، ان پر رحم نہیں کیا، اپنی دنیا بنانے میں لگے رہے تو اللہ نے سزاکے طور پر ان لوگوں کو استعمال کرکے آپ کی دنیا کو جہنم بنادیا۔ آج دنیا میں پوری انسانیت ظلم و بر بریت کی چکی میں پس رہی ہے، اس کے ذمہ دار ہم اور آپ ہیں ۔اب ان کی نجات کے لیے کوئی بھی نہیں آئے گا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح فرمان کے مطابق دنیا کے ہر انسان سے آپ کا خونی رشتہ ہے کہ وہ بنی آدم ہے۔ وہ آپ کے حریف نہیں، رحم کے مستحق ہیں ،آپ کو ایمان اور اسلام کی دعوت لر کر اٹھنا ہوگا، ورنہ اسپین کی طرح برطانیہ، یورپ، امریکہ ہی میں نہیں، پوری دنیا میں آپ بربادی اورہلاکت سے نہیں بچ سکتے۔ 

اجلاس میں مفتی محفوظ الرحمن صاحب عثمانی کی تازہ تصنیف ’’ذکراقائما‘‘ جو علماء گجرات کی علمی و دینی خدمات پر مشتمل ہے کی رونمائی ڈاکٹر عزیز برنی ،مولانا منصوری ، مولانا عثمانی اور سابق ایڈیٹر روزنامہ جنگ لندن جناب ظہور نیازی کے ہاتھوں ہوئی ۔ آخر میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ڈاکٹر عزیز برنی کو ان کی جرأت وبے باکی اور خدمات پر مولانا محمد علی جوہر ایواڈ، مولانا منصوری ، مولانا عثمانی اور ظہور نیازی صاحب کے ہاتھوں دیا گیا۔ اجلاس اسی ایواڈ کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ 

اخبار و آثار

(ستمبر ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter