سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہماری دینی و قومی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سیلاب کی شدت اور تباہ کاریوں کے بارے میں اس کے بعد مزید کچھ جاننے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ اسے گزشتہ ایک صدی کے دوران آنے والا سب سے بڑا اور تباہ کن سیلاب بتایا جاتا ہے اور اقوام متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سونامی سے ہونے والی تباہ کاری سے اس سیلاب کی تباہ کاریوں کا دائرۂ زیادہ وسیع ہے۔ سیلاب کے اسباب میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان قدرتی آفات میں سے ہے جنھیں روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، البتہ اس کے نقصانات کو کم سے کم تک محدود کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں اور بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ پاکستان میں ان نقصانات کو کم کرنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی جانی چاہییں تھیں یا اختیار کی جا سکتی تھیں، وہ بروقت اختیار نہیں کی گئیں۔ لیکن اسباب سے آگے مسبب الاسباب کی طرف کم لوگوں کی توجہ جا رہی ہے جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ چند سال قبل آزاد کشمیر میں خوفناک زلزلہ کے موقع پر میں نے بعض زلزلہ زدہ علاقوں میں حاضری دی تو آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد عبد القیوم خان کے پاس بھی تعزیت کے لیے گیا۔ انھوں نے پرنم آنکھوں کے ساتھ زلزلہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بات کا زیادہ دکھ اور غم ہے کہ خوف ناک زلزلے اور اس کے نتیجے میں اتنی بڑی تباہی کے باوجود عمومی سطح پر اپنے گناہوں سے استغفار اور رجوع الی اللہ کی کوئی فضا دیکھنے میں نہیں آ رہی اور اس ماحول میں بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے بے پروائی، تعیش اور چھینا جھپٹی کا دور دورہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب بھی صورت حال اسی طرح کی ہے جو اہل نظر اور ارباب بصیرت کی خصوصی توجہ کی طلب گار ہے۔

بہرحال سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرنا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔ ان کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری کے منصوبوں میں تعاون کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور مجھے مولانا مفتی منیب الرحمن، مولانا مفتی ولی خان المظفر اور دیگر علماے کرام کی اس رائے سے اتفاق ہے کہ نفلی حج اور عمرہ سے سیلاب زدگان کی امداد مقدم ہے اور اس کا اجر وثواب زیادہ ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں ایک عرصہ تک سیلاب زدہ بھائیوں کی آباد کاری اور بحالی کے کاموں کو اولیت دینا ہوگی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی کوتاہیوں، اجتماعی گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب کے حوالے سے اپنے انفرادی او راجتماعی معاملات پر نظر ثانی کریں، توبہ واستغفار کا اہتمام کریں، قرآن وسنت کی طرف واپسی کا راستہ اختیار کریں اور انابت الی اللہ کا عمومی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ 

سیلاب زدگان کی امداد کے لیے مختلف محکموں، اداروں اور این جی اوز کی سرگرمیوں کے حوالے سے ایک اور سوال بھی زیر بحث ہے کہ متاثرہ علاقوں میں عملاً امدادی کام کرنے والے گروپوں میں وہ گروپ زیادہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں جنھیں انتہا پسند کہا جاتا ہے اور کسی بھی حوالے سے ان کی معاشرتی سرگرمیوں کو عالمی سطح پر پسند نہیں کیا جاتا۔ ہزارہ اور کشمیر کے زلزلے کے موقع پر بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ مذہبی جذبے سے کام کریں گے اور دنیا سے کسی ستائش کی طلب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقصد قرار دیں گے، ان کا کام بے لوث بھی ہوگا اور عملی طور پر زیادہ اور موثر بھی ہوگا۔ پاکستان میں امریکہ کی سفیر محترم نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور کہا ہے کہ انتہا پسند گروپوں کی امدادی سرگرمیوں پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے، البتہ اس بات پر تشویش ہے کہ انھیں نمایاں زیادہ کیا جا رہا ہے۔ گویا صاحب بہادر کی خواہش یہ ہے کہ انتہا پسند گروپ کام تو کریں، خرچ بھی کریں، وقت بھی صرف کریں اور شب وروز محنت بھی کریں مگر ان کا میڈیا پر تذکرہ نہ ہو اور انھیں نمایاں نہ کیا جائے۔ خدا جانے اعتراض اور کسے کہتے ہیں؟

حالات و واقعات

(ستمبر ۲۰۱۰ء)

تلاش

Flag Counter