(۲۲ فروری ۲۰۰۹ء کو ہمدرد مرکز، لٹن روڈ، لاہور میں شیر ربانی اسلامک سنٹر، سمن آباد لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ ’’امامِ ربّانی مجدد الف ثانی کانفرنس‘‘ میں پڑھا گیا۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبو ت کا دروازہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے، تاہم قرآن نے دعوت و تبلیغ اور بنی نوعِ انسان کی ہدایت کی ذمہ داری پوری امتِ محمدیہ پر ڈال دی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ ذمہ داری امت کے علما پر عائد کی اور ان کے دعوتی کردار کو علمائے بنی اسرائیل کے مماثل قرار دیا ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا:
ان اللّٰہ عزوجل یبعث لہٰذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدّد لھا دینھا‘‘(۱)
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے اختتام پراس امت میں ایک ایسا فرد پیدا فرمائے گا جو اس دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
اسلام چونکہ ایک ایسا دین ہے جو قیامت تک کے لیے ہے اس لیے ایک مناسب وقفے کے بعد امت کے لیے ایسے افراد کا وجود ناگزیر ہو جا تاہے جو ایک طرف تو اسلامی احکام کی تشریح و تعبیر عصر حاضر کے احوال و ظروف میں کرنے کی خدا داد صلاحیتوں سے مالامال ہوں اور دوسری طرف دینِ اسلام میں در آنے والی بدعات پر تنقید کرکے اسلام کی ری سائیکلنگ کا فریضہ بھی انجام دیں ۔تاریخِ اسلام پر نظر رکھنے والے اہلِ علم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے مطابق تجدید و احیائے دین کا یہ کام بسااوقات ایک فرد سے لیا تو کبھی پوری جماعت سے ۔ کسی دور میں تجدید واحیائے دین کی تحریک محض کسی خا ص علاقے کی ضرورت تھی تو بسا اوقات یہ ضرورت پورے عالمِ اسلام کی تھی۔
شیخِ مجددؒ کی دعوتی کوششوں کا تاریخی پس منظر
شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ (۹۷۱۔۱۰۳۴ھ/ ۱۵۶۳۔۱۶۲۴ء)کے دور کا تنقیدی مطالعہ اس حقیقت کو مبرہن کرنے کے لیے کافی ہے کہ ا س وقت تجدیدِ دین کی ایک عالمگیر تحریک کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی، او ر بجا طور پر شیخِ مجدد ؒ کے تجدیدی کارناموں اور دعوتی کوششوں نے اس ضرورت کو بطریقِ احسن پورا کیا ۔ شیخِ مجدد کی تحریک اتنی ہمہ جہت اور بھر پور تھی کہ اپنے عالمگیر اثرات کی وجہ سے تاریخِ اسلام میں اس کی کوئی مثال کم ہی ملتی ہے۔ شیخِ مجددؒ کے اصل نام کے بجائے ’’ مجددِ ا لفِ ثانی ؒ ‘‘ کا زبان زدِ عام لقب در اصل آپؒ کی عالمگیر دعوتی کوششوں کا اعتراف اور اس حقیقت کا اقرار ہے کہ اسلام کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں تجدیدِ دین کا جو کارنامہ شیخِ مجدد ؒ نے انجام دیاہے، وہ سب سے بڑھ کر ہے۔شیخ احمد سرہندیؒ کی کامیاب اور مقبولِ عام کوششوں کے نتیجے میں پورے عالمِ اسلام اور خاص طور پر برّ صغیر میں اسلام کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔ شیخ مجددؒ نے تجدید واحیا ئے دین کا جو عظیم الشان کام انجام دیا اس کی صحیح قدروقیمت اسی وقت واضح ہو سکتی ہے جب اس پسِ منظر اور ماحول کو سمجھا جائے جس میںیہ کارنامہ انجام دیا گیاہے۔
ہندوستان کی داخلی صورتِ حال
اسلام کی پہلی ہزاری کے اختتام پر عالمِ اسلام اور خاص طور پر برّ صغیر کی جو صورتِ حال تھی اس کے تاریخی مطالعہ کے بعد جو منظر ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے، وہ بڑا زلزلہ انگیز تھا ۔ اسلا م داخلی اور خارجی فتنوں کی زد تھا اور اپنے اصل تشخص سے بڑی تیزی کے ساتھ محروم ہو رہا تھا ۔داخلی فتنوں میں نام نہاد صوفیا کی تعلیمات اسلامیانِ ہند کے لیے گمراہی کا سبب بن رہی تھیں۔ کچھ نام نہاد اہلِ تصوف ہندو فلسفہ کو اسلام کے پیراہن میں پیش کر رہے تھے ۔ عوام الناس اورکم علم لوگ شریعت و طریقت کو دو متوازی دھارے سمجھ کر شدید گمراہی میں مبتلاہو رہے تھے ۔ شیخِ مجددؒ سے پہلے کی پوری ایک صدی وحدۃ الوجودی صوفیا کے عروج کی صدی کہی جا سکتی ہے۔ جب ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کے نام پر ہر طرف بدعات ضلالہ کا سیلاب بہہ رہا تھا۔
اس دور میں ہندوستان میں جوتحریکیں سخت انتشار انگیز اور اسلامیت کے لیے خطرناک اور باعثِ تخریب تھیں۔ ان میں سے ایک ذکری عقیدہ اور فرقہ ہے جس کی بنیاد نبوت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفِ اوّل پر اختتام اور الفِ ثانی کے لیے ایک نئی نبوت اور ہدایت کے آغاز پر ہے۔یہ تحریک بلوچستان میں پھلی پھولی اس فرقہ کابانی ملا محمد ۹۷۷ھ کو بمقام اٹک پیدا ہوا۔دوسری تحریک جس نے اسلامیانِ ہند کو اس وقت شدید اضطراب میں مبتلا کیاوہ ہندوستان میں ’’فرقہ روشنائیہ ‘‘ کا ظہور تھا اس فرقہ کا بانی بایزید المعروف ’’ پیر روشن ‘‘ تھا۔ یہ وحدہ الوجود کا قائل تھا اور نبوت کا دعوی دار تھا۔ اس دور کی ایک اور بڑی زلزلہ انگیز تحریک ’’ مہدویت‘‘ تھی۔ جس کے بانی سید محمد جونپوری تھے انہوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا، وہ اگرچہ ۹۱۰ھ میں فوت ہوگئے لیکن اس تحریک کے اثرات پوری ایک صدی تک باقی رہے۔ اس تحریک کے اثرات ہندوستان اور افغانستان تک جاپہنچے۔
دسویں صدی کے وسط میں احمد نگر کے والئ سلطنت برہان نظام شاہ نے شیخ طاہر بن رضی اسماعیلی قزوینی کے اثر سے، جوایران سے شاہ اسماعیل صفوی کے خوف سے بھاگ کر آئے تھے ، شیعہ مذہب قبول کر لیا اور خلفائے ثلاثہ پر علی الاعلان تبرّا کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف میر شمس الدین عراقی نے کشمیر میں بڑی سرگرمی سے شیعہ مذہب پھیلایا۔ خود ۹۵۰ھ میں مغل بادشاہ ہمایوں فوجی امداد کے لیے عازمِ ایران ہوا ۔ ایران میں شاہ طہماسپ نے ہمایوں کو تشیع قبول کرنے کی دعوت دی ، ہمایوں اگرچہ شیعہ نہ ہوا تاہم اس کے دل میں شیعہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ ہندوستان کے داخلی حالات کا یہ ایک مختصر سا منظر ہے جو ہم نے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔
روایتی مذاہب پر تنقید کا عالمی رجحان
دوسری طرف عالمی سطح پر بھی مذہب کے حوالے سے نئے رجحانات مذہبی حلقوں میں اضطراب پید ا کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی دوراوراس دور کا انسانی معاشرہ بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتا ہے جس کی ہر موج دوسری موج سے متصل اور مربوط ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی ملک خواہ وہ دنیا سے کتنا ہی کٹا ہوا کیوں نہ ہو گردوبیش میں آنے والے اہم واقعات ، علمی اور فکری تحریکوں سے یکسرغیر متاثر نہیں رہ سکتا۔ اس دور میں دنیا کے فکری محاذ پر دو بڑی اہم تحریکوں کا ظہورہوا،ان میں سے ایک اہلِ نقطہ یا’’نقطوی تحریک‘‘ ہے۔ اس مذہب کا ظہور ایران میں ہوا، محمود پسیخوانی گیلانی نے استرآباد میں ۸۰۰ھ میں اس نئے مذہب کا اعلان کیا۔ یہ ۸۳۲ھ میں فوت ہوا، دسویں اور گیارھویں صدی ہجری میں اس فرقے نے بڑا زور پکڑا۔ ان لوگو ں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف عربوں کے رسول ہیں اور ان کی نبوت صرف ایک ہزار سال کے لیے تھی اور اب دوسری ہزاری میں سیادت اور قیادت اہلِ عجم کے لیے مقدر ہو چکی ہے۔ نقطویوں کے نزدیک نبوتِ محمدی اپنی مدت پوری کرچکی تھی اور دینِ اسلام منسوخ ہو چکا تھا، لہٰذا دنیا کو ایک نئے دین کی ضرورت تھی۔
ایران میں شاہ عباس نے ۱۰۰۲ھ میں نقطویوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کروایا، یہ لوگ بھاگ کر ہندوستان آگئے ان میں مولانا حیاتی کاشی بھی تھے، جو ۹۹۳ھ میں احمد نگر میں موجود تھے۔ اسی طرح شریف آملی جو نقطوی فرقہ کا بڑا عالم تھا، بھی ہندوستان چلا آیا، اکبر اس کا بڑا معتقد تھا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ میر شریف آملی نے محمود پیسخوانی کی تحریروں سے ثبوت پیش کرکے اکبر کو ’’ دینِ الٰہی‘‘ کے اختراع کی ترغیب دی۔ اس نے محمود پیسخوانی کی پیش گوئی بیان کی کہ ۹۹۰ھ میں ایک شخص ظاہر ہو گا جو دین باطل مٹا کر دین حق قائم کرے گا۔ اکبر نے ہزاری منصب دے کر اسے اپنے مقربین کے زمرہ میں شامل کر لیا۔ بنگالہ میں اسے دینِ الٰہی کا داعی مقرر کیا۔ وہ اکبر کے چار مخلص ترین یاروں میں شامل تھا۔ ابوالفضل بھی نقطوی تحریک سے متاثر تھا۔ ابوالفضل کو گمراہ کرنے میں بنیادی کردار شریف آملی ہی کا تھا۔ اکبر کی خواہش پر ملاعبدالقادر بدایونی نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ کیا، جس کے دیباچے میں ابوالفضل نے اکبر کے لیے جو القابات استعمال کیے ہیں، وہ صرف انبیاہی کے لائق ہیں۔(۲) اکبر در حقیقت نبوت ہی کا دعوی دار تھا، تاہم شدید عوامی ردِ عمل کے خوف سے اس نے اس کا عام اعلان نہیں کیا۔ تاریخ کے تجزیاتی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نقطوی تحریک ہی ’’ دینِ الٰہی‘‘ کی بنیاد ہے اور ان میں باہم بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ (۳)
قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ ایک اور تحریک جس سے غالباً اکبر متاثر ہوا وہ مارٹن لوتھر (۱۴۴۳۔۱۵۴۶ء) کی تحریک ہے۔ مارٹن لوتھر پروٹسٹنٹ فرقہ کا بانی تھا جسے جدید عیسائیت میں ’’ مجتہدِ مطلق‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر نے عیسائی مذہب کے بنیادی تصورات کی چولیں ہلاکر رکھ دیں اور عقلی بنیادوں پر دین کی نئی تعبیر پیش کی،اگر ان تاریخی حوالوں کو پیش نظر رکھا جائے جن کے مطابق اکبر کے دربار میں عیسائی علما کا ایک مستقل گروہ اقامت پذیر تھا اور تورات وانجیل کے فارسی تراجم بھی خاص طور پر بادشاہ کے لیے حاصل کیے گئے تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ اکبر عیسائی مذہب میں برپا ہونے والی پروٹسٹنٹ تحریک سے پوری طرح آگاہ تھا اور وہ اسلام میں بھی اسی نوعیت کی تبدیلیوں کا خواہاں تھا ۔ اسی پس منظر میں ملامبارک نے بادشاہ کے لیے ۹۸۷ھ میں ’’ مجتہد مطلق‘‘ کا منصب تخلیق کیا،تاکہ بادشاہ اپنی مرضی سے مذہب کی ’’تشکیلِ نو‘‘ کر سکے۔ہندوستا ن اور عالمی سطح پر مذہب کے حوالے سے جنم لینے شکوک و شبہات کے تناظر میں حضرت مجدد ؒ کی تحریکِ دعوت کو درپیش چیلنجز کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
شیخ مجدد ؒ کی دعوتی کوششیں، دائرہ کار اور اثرات
ہندوستان میں شیخِ مجدد ؒ کے سامنے کئی محاذ فوری توجہ کے متقاضی تھے ۔ ایک تویہ کہ نام نہاد صوفیا کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کا قلع قمع کرکے اسلام کو اس کی اصل اور حقیقی شکل و صورت میں پیش کیا جائے ۔شیخ مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے مکتوبات میں ’’بدعت حسنہ‘‘ کے تصور کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا او ر اس طرزِ فکر کو دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی قرار دیا۔ (۴) بدعات کے رد میں حضرت مجددؒ کی کوششوں نے اسلامیانِ ہند اور متساہل صوفیا پر جو اثرات مرتب کیے اس کے لیے یہاں ہم صرف ایک مثال بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔ چشتی نظامی سلسلے کے مشہور شیخ شاہ کلیم اللہ جہاںآبادی (م ۱۱۴۳ھ) نے اپنے خلیفہ خاص حضرت شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں بعض خطوط میں ہدایت کی ہے کہ چونکہ اس وقت بادشاہ کے ساتھ اورنگ آباد میں مجددی خاندان کے صاحبزادے بھی ہیں اس لیے سماع و قوالی کی مجلس منعقد کرنے میں احتیاط برتی جائے مباداکہ ان حضرات کو گرانی اور تکدر ہو۔ (۵) جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت مجدد ؒ کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں صوفیا کے طر زِ عمل میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ۔
وحدۃ الوجود کا عقیدہ مسلمان صوفیا میں ہمیشہ موجود رہا ہے ،یہ عقیدہ اصلاً راہِ سلوک کی منازل میں سے ایک منزل ہے، راہِ سلوک کے مبتدی کے لیے اس کی حقیقت کو سمجھنا آسان نہیں ،جب بعض غیر محتاط صوفیانے عوامی سطح پر اس عقیدے کی تبلیغ شروع کی تو اس سے طرح طرح کی غلط فہمیوں کا پیدا ہونا فطری بات تھی اس لیے حضرت مجددؒ کے سامنے دوسرا محاذ یہ تھا کہ وحدۃالوجود ی صوفیاکے نقطہ نظرکو اس انداز میں علمی تنقید کا نشانہ بنایا جائے کہ اہلِ تصوف کی حرمت بھی قائم رہے اور شریعت کا دامن بھی تار تار نہ ہو نے پائے ،اور حق یہ ہے کہ شیخ مجددؒ نے اس نازک منصب کو جس طرح نبھایا ہے وہ بے مثال ہے ۔ شیخ مجددؒ نے جس اسلوب میں شریعت و طریقت کے باہم لازم وملزوم ہونے کے اصل اسلامی تصور کو پھر سے دریافت کیا ہے اس پر امت مسلمہ ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی ۔آپؒ نے شریعت کو طریقت کی لونڈی سمجھنے والے نام نہاد صوفیا پر شدید تنقید کی اور دلائل سے ثابت کیا کہ طریقت ،شریعت کے تابع اور اس کی خادم ہے۔حضرت مجددؒ کی دعوتی کوششوں سے اہلِ تصوف کے طرزِ عمل میں بھی نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔
تیسرا محا ذرافضی فتنہ کاتھا جس کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات کو روکنا ضروری تھا۔حضرت مجددؒ نے اپنے تبلیغی دوروں میں رافضی فتنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے اثرات کو روکنے کی کامیاب کوشش کی ۔آپ نے اہلِ سنّت کے عقائد کی حقانیت کو اپنے مکتوبات میں جابجا دلائلِ قطعیہ سے واضح کیا ۔جس کی مکمل تفصیل مکتوباتِ امام ربانی ؒ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
چوتھا محاذ نبوتِ محمدی کی ابدیت پر چھائے ہوئے شکوک و شبہات کے گہرے بادل تھے جن کی تاریکیوں میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا تھا ، یہ فتنہ بھی آپؒ کی فوری توجہ کامتقاضی تھا ۔اگرچہ اسلامیانِ ہند کے لیے اسلام کو دوبارہ بازیاب کر نا ،نام نہاد صوفیا کے بر عکس روشن دلائل سے طریقت پر شریعت کی برتری ثابت کرنااور وحدۃ الوجود کے عقیدہ کا فیصلہ کن علمی تعاقب آپؒ کے عظیم تجدیدی کار نامے ہیں لیکن ان تمام کار ناموں میں سے آپ ؒ کاسب سے بڑا کار نامہ ،جس کے جلو میں باقی سب کارنامے چلتے ہوئے نظر آتے ہیں، نبوتِ محمدی کی ابدیت کو ثابت کرنا اور عامۃ الناس کو اس عقیدے پر مستحکم کرنا ہے ۔ شیخ مجددؒ کے رسالہ’’ اثبات النبوت‘‘ کو اسی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپؒ نے اس رسالے میں نبوتِ محمدی کی ابدیت پر وارد کیے جانے والے اعتراضات کا خالص علمی انداز میں جائزہ لیاہے ۔اکبر کے اسلام دشمنی پر مبنی رویے کی بنا پر ہندوستان ضلالت اور گمراہی کا مرکز بن چکا تھا اور حکومتی سرپرستی میں جس طرح اسلامی اقدار کا تمسخر اڑایا جارہاتھا اس نے اسلامیانِ ہندکو شدیدکرب میں مبتلاکر رکھا تھا ۔
اس وقت اگر حالات کی رفتار یہی رہتی اور اس کا راستہ روکنے والی کوئی طاقتور شخصیت یا کوئی انقلاب انگیز واقعہ پیش نہ آتا تو عالمِ اسلام اور بالخصوص ہندوستان کاانجام اندلس سے مختلف نہ ہوتا۔اس دور کا تاریخی جائزہ لینے کے بعدیہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ داعیان اسلام اور حق پرست علما کے لیے یہ دور بڑا ہی فتنہ پرور اور صبر آزماتھا ۔ سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کے بقول حضرت شیخِ مجددؒ کے سامنے اصلاحِ احوال کے ممکنہ طریقے تین ہی تھے:
- ایک ،شیخِ مجدد ملک وقوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر گوشہ نشین ہوجاتے۔ طالبینِ حق کی تربیت کرتے اور ذکر وفکر کے اندر مشغول رہ کر خلقِ خدا کو روحانی فوائد پہنچاتے۔ اور اس عہد کے ہزاروں علما ومشائخ اس طرز عمل پر کار فرما تھے، ملک میں ہزاروں خانقاہیں، یہ خدمت خاموشی اور یکسوئی سے انجام دے رہی تھیں۔ لیکن یہ چیز حضرت مجددؒ کی افتادِ طبع اور اس بلند منصب کے خلاف تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرفراز فرمایا تھا۔آپ ؒ روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے اورسچی بات تو یہ ہے کہ حضرت مجدد ؒ کو عوام الناس میں جو عزت و وقار اور احترام حاصل تھا اگر آپؒ روایتی پیری مریدی پر اتر آتے تو بلامبالغہ آپؒ کے ارد گرد مریدین کا جمِ غفیر جمع ہو جا تا ۔
- حضرت شیخِ مجددؒ کے پاس دوسرا آپشن (Option)یہ تھا کہ بادشاہِ وقت کی اسلام دشمنی،جس کے سینکڑوں دلائل موجود تھے، کے خلاف مسلح محاذ آرائی کرتے اور اپنے ہزاروں بااثر مریدوں کی قیادت فرماتے ہوئے سلطنت کے اندر انقلاب بر پا کر دیتے۔یہ ایک سیاسی ذہنیت رکھنے والے کوتاہ نظر داعی یا قائد کا طرزِ عمل تو ہو سکتا ہے جو دعوت اور نصیحت پر محاذ آرائی کو ترجیح دیتا ہے اور اپنی بد تدبیری سے حکومت اور اہلِ اقتدار کو اپنا حریف اور مدمقابل بنا لیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر غلبۂ دین کے امکانات کو محدود اورتنگ کر لیتاہے، لیکن حضرت مجدد صاحبؒ جیسے دور اندیش اور داعیانہ مزاج رکھنے والے شخص کے لیے اس راہ کو اختیار کرنا ممکن نہ تھا جس میں وقتی طور پر کامیابی کے امکان کے با وصف خلقِ خدا کے لیے جانی نقصان اور ملک میں شدید انتشار کا اندیشہ تھا ۔
- حضرت مجددؒ کے پاس تیسرا آپشن (Option)یہ تھا کہ آپؒ ار کانِ سلطنت اور امرا سے تعلقات استوار کرتے اور ان کی دینی حمیت کو ابھارتے اور انھیں بادشاہ کو نیک مشورہ دینے پر آمادہ کرتے اور اس ذریعے سے باد شاہ کی رگِ اسلامیت کوبیدار کرنے کی کوشش کرتے اور خود ہر طرح کے جاہ ومنصب سے کامل استغناکا ثبوت دیتے کہ آپؒ کا کوئی شدید ترین مخالف بھی آپؒ پر جاہ طلبی اور حصولِ اقتدار کی تہمت نہ لگا سکتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داعیانہ زندگی کو حرزِ جاں بنانے والا ایک سچا داعی وقتی کامرانیوں کے بجائے مستقبل پر نظر رکھتا ہے اور مدعو کی ہدایت سے مایوس نہیں ہوتا،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر ایسی شرائطِ صلح کو بھی قبول کر لیا جن سے بظاہر مسلمانوں کی کمزوری کاتاثر بڑا نمایاں ہوتا تھا، لیکن داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتی پسپائی کو مستقبل کے دعوتی امکانات کی بنا پر قبول فرمایااور بالآخر آپ کی داعیانہ بصیرت کا ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ صرف دو سال کے قلیل عرصہ میں ۸ ھ تک ہزاروں لوگ مسلمان ہوگئے ۔ حضرت مجددؒ نے بھی محاذ آرائی کے بجائے سنّتِ نبوی کی پیروی میں دعوت کے امکانات کوپیشِ نظر رکھا اور یہی تیسرا رستہ اختیار فرمایا۔ آپؒ نے کرسئ اقتدار کی بجائے صاحبانِ اقتدار کو اپنی دعوت کاہدف بنایا ۔ درباری امرا میں کئی ایک آپؒ کے مرید تھے اور کئی ایک آپؒ سے محبت وعقیدت رکھتے تھے اور دین کی گہری حمیت ان کے اندر موجود تھی۔ حضرت مجددؒ نے انہی درباری امرا سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا۔ آپؒ نے صفحۂ قرطاس پر اپناسینا چاک کر کے رکھ دیا۔ جس دلسوزی، للہیت اور درد واخلاص کے ساتھ یہ خطوط احاطہ تحریر میں لائے گئے ہیں، چار صدیوں کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ان کی قوتِ تاثیر میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بجا طور پر دعوت کے سنگلاخ میدان میں قدم رکھنے والے اولوالعزم داعیانِ اسلام کے لیے یہ خطوط نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ خطوط شیخِ مجددؒ کے زخمی دل کے صحیح ترجمان اور ان کے لخت ہائے جگر ہیں، جنہوں نے ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت میں عظیم الشان انقلاب بر پا کر دیا۔(۶)
آپ ؒ کی دعوتی کوششوں کا نقطہ عروج جہانگیر کا دور ہے جب ۱۰۲۷ھ میں آپ کے داعی پوری دنیامیں پھیل چکے تھے۔ آپ ؒ نے اپنے بہت سے خلفا کو تبلیغ و ہدایت کے لیے مختلف مقامات کی طرف روانہ فرمایا ۔ ان میں سے ستر (۷۰) مولانا محمد قاسمؒ کی قیادت میں ترکستان کی طرف روانہ کیے گئے ۔ چالیس(۴۰) حضرات مولانا فرح حسینؒ کی امارت میں عرب ،یمن ، شام اور روم کی طرف بھیجے گئے ، دس(۱۰) تربیت یافتہ حضرات مولانامحمد صادق کابلیؒ کے ماتحت کاشغر کی طرف اور تیس(۳۰) خلفا مولانا شیخ احمد برکیؒ کی سرداری میں توران ، بدخشاں اور خراسان کی طرف گئے ۔ اوران تمام حضرات کو اپنے اپنے مقامات پر زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ (۷) حضرت مجددکے خلیفہ اجل حضرت خواجہ محمد معصومؒ او ر سید آدم بنوریؒ اور ان کے مخلص اور با عظمت خلفا اور جانشینوں کی کوششیں بار آور ہوئیں اور رفتہ رفتہ ہندوستان بارھویں صدی ہجری میں پوری دنیائے اسلام کا روحانی اور علمی مرکز بن گیا ۔ مجددی خانقاہیں اوران کے قائم کردہ مدارس سے ایک عالم نے فیض اُٹھایا جس کاسلسلہ تاحال جاری ہے ۔
شیخ مجدد ؒ کے اسلوبِ دعوت کے نمایاں پہلو
- ایک مسلم ریاست میں دعوتِ دین کا محفوظ اور بہتر ین طریقہ کیا ہے؟ایک داعی کا ہدف اقتدار ہے یا صاحبِ اقتدار؟ شیخِ مجددؒ کی دعوتی زندگی کایہ پہلو آج کے وارثانِ محراب ومنبر، پیرانِ طریقت اور داعیانِ اسلام کے خصوصی توجہ کا متقاضی ہے ،جو اقدار اور جاہ و منصب کے لیے ماہئ بے آب کی طرح تڑپتے ہیں ۔ شیخِ مجددؒ نے انقلاب کی بجائے اصلاح کا اسلوب اختیار فرمایا ۔ ایک ایسے دور میں جب آپؒ ہر اعتبار سے درجۂ کمال پر تھے،اور جہانگیرنے آپ کو قیدکر لیا۔اگر آپؒ چاہتے تو جہانگیر کا تختہ الٹ سکتے تھے، لیکن آپ نے اپنے صاحبزاگان اور مریدین کو صبر کی تلقین کی۔ اگرچہ اقتدار کے مصاحبین داعی کو اقتدار کے لیے خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سازش داعی کی بے لوثی سے بے نقاب ہوجاتی ہے اور اگرصاحبِ اقتدار میں فطری سلامتی کی معمولی رمق بھی ہو تو وہ بہت جلد ایک سچے داعی کے سامنے اپنی گردن کو جھکادیتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمتِ عملی میں یہ بات بڑی واضح تھی کہ آپ نے شاہانِ عالم کے نام دعوتی خطوط میں ان کو قبولِ اسلام کی صورت میں اقتدار کی سلامتی کی ضمانت مرحمت فرمائی ۔حضرت مجددؒ کی دعوتی زندگی میں بھی یہ پہلو نکھر کر سامنے آتاہے ۔ آپؒ نے کرسئ اقتدار کو اپنا ہدف بنانے کی بجائے صاحبِ اقتدار کی اصلاح کو اپنا مطمعِ نظر بنایا۔ آخرکار جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا اور اس نے آپؒ کو پورے وقار کے ساتھ رہا کرنے کا حکم دیا اور بادشاہ جس شخص کو وہ اپنے سامنے جھکانا چاہتاتھا خود اس کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا۔
عدمِ تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانا دورِ حاضر کا ایک معروف فلسفہ ہے ،اور امریکہ میں بارک حسین اوباما کی کامیابی کے پیچھے کالی نسل کے امریکیوں کی پچاس سالہ عدمِ تشدد پر مبنی تحریک ہی کا رفرما ہے ۔عام طور پر مہاتما گاندھی کو ’’تحریکِ عدمِ تشدد‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے،لیکن شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ جس طرح حضرت مجدد کو ’’ دو قومی نظریہ ‘‘کا بانی کہا جاتا اسی طرح آپؒ بجا طور پر ’’تحریکِ عدمِ تشدد‘‘ کے بھی بانی ہیں ۔آپؒ نے ریاست سے ٹکر لیے بغیر جس طرح اپنے مشن کی تکمیل فرمائی۔ یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ گاندھی جیسا قوم پرست لیڈر جس کی برّ صغیر کی تاریخ پر گہری نظر ہواور جو اکبر کا قدردان بھی ہو ،وہ حضرت مجدد ؒ کی تحریکِ دعوت اور اس کے اثرات سے آگاہ نہ ہو؟ معلوم یہ ہو تا ہے کہ گاندھی نے عدمِ تشدد کا سبق حضرت مجددؒ کی دعوتی تحریک ہی سے اخذ کیا ہے۔ - داعی اپنی دعوتی کوششوں کا ہدف ہر طبقے کو بناتا ہے ،تاہم عام لوگ سوسائٹی کے سرکردہ افراد کو ہمیشہ رول ماڈل(Role Model) کے طور پر دیکھتے ہیں،اس لیے داعی کو سوسائٹی کے مؤ ثر افراد پر خصوصی محنت کرنی چاہیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کے اسلام کی جو خصوصی دعافرمائی تو اس کا اصل منشا بھی یہی تھا ۔حضرت مجدد ؒ کے اسلوبِ دعوت میں یہ چیز بڑی نمایاں ہے کہ آپؒ کے لکھے گئے دعوتی خطوط کی بڑی تعداد وہ ہے جن میں آپؒ نے امرا اور معاشرے کے سرکردہ افراد کو اپنا مخاطَب بنایا ہے۔اور ان کے سماجی اثرو رسوخ کی آڑ میں اصلاحِ احوال کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ حضرت مجدد ؒ نے جن امرائے دربار اور اراکینِ سلطنت کے نام دعوتی خطوط لکھے ان میں خان اعظم ،مرزا عزیز الدین، خان جہان خاں لودھی، خان خاناں مرزا عبدالرحیم ، مرزا دراب ، قلیج خاں، اور سید فرید بخاری وغیرہ تھے۔ حضرت مجد د ؒ کے خطوط کی بڑی تعداد سید فرید بخاریؒ کے نام ہے، جو اکبری دور اور بعد ازاں جہانگیر کے دور میں دربار میں خاص اثرو رسوخ کے مالک تھے۔
- مجدد ؒ صاحب کے اسلوبِ دعوت کا ایک اور پہلو جو دعوتی تحریکوں اور ان کے کار کنان کے لیے قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ صرف وہی داعی اپنے مشن میں کامیاب ہوتا ہے جو اپنے دور کے وسائلِ دعوت کو اپنے مشن کی کامیابی کے لیے احسن انداز میں استعمال کرتا ہے۔حضرت مجدد ؒ نے ایک طرف اگراپنے ذاتی کردار سے خلقِ خدا کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کیا ہے تو دوسری طرف آپؒ نے دعوتی خطوط کو اپنی تبلیغ کے لیے ایک مؤثر ترین ذریعے کے طور پر اختیار فرمایا ، گویا آپؒ نے اپنے دور کی ’’میڈیا وار ‘‘ میں دعوتی خطوط کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔
حضرت مجددؒ کی دعوتی تحریک کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف وہی داعی اپنے مشن میں کامیاب ہوتا جو اپنے دور کے مزاج ،زبان اور محاورے سے اچھی طرح واقف ہو اور لوگوں کو اس اسلوب میں مخاطب کرے جو ان کے لیے اجنبی نہ ہو۔ حضرت مجدد ؒ نے اس اسلوب کا خوب لحاظ کیا ہے ،آپؒ کے دعوتی مکتوب فارسی اور عربی زبان کے خوبصورت نثر پارے ہیں ،جو اس دور کی زندہ زبانیں تھیں ،اور آپؒ نے لوگوں کو جس محاورے میں مخاطب کیا ہے، اس دور کی سکہ رائج الوقت یہی تھا۔ دورِ حاضر میں داعیانِ اسلام کے لیے یہ اسلوب خاص طور پر قابلِ توجہ ہے جو نہ صرف اپنے مخاطَبین کی زبان اور محاورے سے ناواقف ہیں بلکہ اس فکری پسِ منظر سے بھی نابلد ہیں جس میں آج کی نئی نسل کی ذہنی تشکیل ہو رہی ہے، اوریہی چیز ان کی دعوت کے غیر موثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔دورِ حاضر میں وارثانِ محراب ومنبر پر اصحابِ کہف کی مثال صادق آتی ہے،جن کی زبان اور سکہ دونوں لوگوں کے لیے اجنبی تھے۔ - ایک داعی کو عام آدمی کی نسبت زیادہ برد بار اور متحمل مزاج ہونا چاہیے۔ جس طرح فصلوں کے موسم ہوتے ہیں اسی طرح دلوں کے بھی موسم ہوتے ہیں جو بات ایک وقت میں کسی انسان یا سوسائٹی کے لیے اجنبی اور غیر مانوس ہوتی ہے کسی دوسرے وقت میں وہی چیز ان کی نظر میں تریاق سے بڑھ کر ہوتی ہے اس لیے داعی کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنا بڑا ضروری ہے ۔اس پہلو سے شیخِ مجدد کی دعوتی زندگی ہماری خصوصی توجہ کی مستحق ہے ، آپؒ نے دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے بڑے تحمل کے ساتھ مناسب اور موزوں وقت کا انتظار کیا،اگرچہ شیخِ مجدد ؒ اپنی تجدیدی اور دعوتی کوششوں کا آغاز ۹۹۸ھ میں اس وقت کرچکے تھے جب آپ ؒ عہدِ اکبری میں آگرہ تشریف لائے، اس دور میں ملّا مبارک اور اس کے بیٹوں (ابوالفضل اور فیضی) کا طوطی بولتا تھا ،تاہم و ہ حضرت مجدد ؒ کے مقام و مرتبے سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ (۸) بادشاہ اکبر کا انتقال ۱۰۱۴ھ میں ہوا ،اس وقت حضرت مجددؒ کی عمر ۴۳ سال تھی اوردرباری امرا سید صدر جہاں ،خان خاناں اور مرتضیٰ خان وغیرہ کے ذریعے بادشاہ تک آپؒ کے نصیحت آمیز پیغامات پہنچ چکے تھے،تاہم آپؒ نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں فرمایااور دعوت و تبلیغ میں بڑی حکمت کے ساتھ تدریج کے اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قدم بقدم آگے بڑھتے رہے، بالآ خرحضرت مجددؒ کے زیر اثر امراکا ایک ایسا مضبوط حلقہ قائم ہوگیا، جنہوں نے یہ عہد کیا کہ مستقبل میں اسی شہزادے کی حمایت کریں گے جو ملک میں اسلامی شریعت کی بحالی کا وعدہ کرے گا،چنانچہ جہانگیر نے یہ عہد کیا اور ان کی کوششوں سے وہ اکبر کا جانشین ہوا۔ حضرت مجدد ؒ کے زیر اثر امرا کی وجہ سے ہی شہزادہ خسرو بادشاہ نہ بن سکا ۔بعد کے دور میں دارا شکوہ اور اورنگ زیب عالمگیرؒ کی بظاہر سیاسی کشمکش کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ، یہ در اصل حضرت مجددؒ کی فکر سے اکبر کی فکر کا فیصلہ کن ٹکڑاؤ تھا جس میں شیخ مجددؒ کی فکر کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اکبری دور میں شیخِ مجددؒ کی دعوتی حکمتِ عملی کو مکی عہدِ نبوت کے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبرو تحمل کے ساتھ دارِ ارقمؓ اور بعدازاں شعب ابی طالب میں داعیانِ اسلام کی تربیت میں ہمہ تن مصروف تھے اور ان کو مختلف قبائلِ عرب کی طرف داعی اور مبلغ بناکر بھیج رہے تھے ،جن کی دعوتی کوششوں کے نتیجہ میں عرب کاکوئی گھرانہ اسلام کی برکات سے محروم نہ رہا۔ شیخِ مجدد ؒ کی اس حکمتِ عملی کے حقیقی اثرات اور ثمرات بھی بعد کے دور میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
- حضرت شیخِ مجدد کی دعوتی زندگی سے ایک اور اسلوب جوہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح ایک داعی بدترین حالات میں بھی دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دلوں کی زمین کو دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ہموار کر لیتا ہے۔بعض غلط فہمیوں کی بنا پر جب جہانگیر نے حضرت مجددؒ کو قید خانے میں ڈال دیا تو ایامِ اسیری میں حضرت مجدد ؒ نے حضرت یوسف ؑ کی سنّت کو اس طرح زندہ کیا کہ سینکڑوں قیدی آپؒ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور ان میں سے بہتوں نے آپؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ڈاکٹرٹی ۔ڈبلیو۔ آرنلڈ اپنی کتاب (The preaching of Islam) میں لکھتے ہیں:
’’شہنشاہ جہانگیر (۱۶۰۵۔۱۶۲۸ء) کے عہد میں ایک سنی عالم شیخ احمد مجدد نامی تھے، جو شیعہ عقائد کی تردید میں خاص طور پر مشہور تھے، شیعوں کو اس وقت دربار میں جو رسوخ حاصل تھا ، ان لوگوں نے کسی بہانہ سے انہیں قید کرادیا ، دو برس وہ قید میں رہے، اور اس مدت میں انہوں نے اپنے رفقائے زنداں میں سے سینکڑوں بت پرستوں کو حلقہ بگوش بنالیا۔‘‘ (۹)
انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس (Encyclopedia of religion and Ethics) میں ہے:
’’ہندوستان میں سترھویں صدی عیسوی میں ایک عالم جن کا نام شیخ احمد مجددؒ ہے ، جو ناحق قید کر دیے گئے تھے، ا ن کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے قید خانہ کے ساتھیوں میں سے کئی بت پرستوں کو مسلمان بنا لیا۔ ‘‘(۱۰)
قید سے رہائی کے بعد بھی آپؒ نے بڑی دانائی سے دعوت و تبلیغ کے مواقع پیدا فرمائے ۔ جہانگیر نے توزک میں لکھا ہے کہ میں نے حضرت کو خلعت اور ہزار روپیہ خرچ عنایت کیا، اور ان کوجانے اور ساتھ رہنے کا اختیار دیا لیکن انہوں نے ہمرکابی کو ترجیح دی۔حضرت مجددؒ نے دعوت و اصلاح کے لیے اس موقع کو غنیمت جاناآپؒ اپنے صاحبزادگان کے نام مکتوب میں لکھتے ہیں: اس عرصہ کی ایک ساعت کو دوسری جگہوں کی بہت سی ساعتوں سے بہتر تصور کرتا ہوں۔ (۱۱) آپ شاہی لشکری کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین سال تک رہے۔ آپؒ نے اپنی بے لوث دعوت سے شاہی دربار اور پوری لشکرگاہ کو خانقاہ میں تبدیل کر دیا۔ جہانگیر پر تو اس کا اثر یہ ہو اکہ نورجہاں، جو نہ صرف سلطنت کی ملکہ تھی بلکہ جہانگیر کے دل کی بھی ملکہ تھی، اپنی تمام تر کفر سامانیوں کے باوجود اسے شیعیت کی طرف مائل نہ کر سکی۔جہانگیر کے اندر نئے دینی رجحان پیدا ہوئے، اس نے منہدم مساجد کی دوبارہ تعمیر ، اور مفتوحہ علاقوں میں دینی مدارس کے قیام میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی۔ ۱۰۳۱ء میں قلعہ کانگڑا کی فتح کے موقع پر اس نے جس طرح اپنی اسلامیت کا اظہار کیااور وہاں شعائر اسلام کا اجرا کرایا۔ اس سے بھی جہانگیر کے اندر آنے والی مذہبی تبدیلی کاا ندازہ کیاجا سکتا ہے ۔(۱۲) مکتوبات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خود جہانگیر نے یہ چاہا کہ دربار میں ہر وقت چار ایسے علما حاضر رہیں جو مسائلِ شرعیہ کی وضاحت کریں، اور ان سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے۔(۱۳) شاہی خاندان اور درباری امرا کے ساتھ حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور ان کے خاندان کے تعلقات اس قدر خوش گوار ہوئے کہ اس کے اثرات عالمگیرؒ کی وفات تک واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔اورنگ عالمگیرؒ حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمد معصومؒ بیعت وارادت کا تعلق رکھتا تھا، (۱۴) بادشاہ نے متعدد بار حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمد معصومؒ سے درخواست کی کہ وہ سفر وحضر میں ان کے ساتھ رہا کریں، لیکن انہوں نے منظور نہ کیا، اور اس کے بجائے اپنے فرزند گرامی خواجہ سیف الدین ؒ کو دہلی بھیج دیا۔ مکتوبات معصومیہ میں مکتوب نمبر ۲۲۱ اور مکتوب نمبر ۲۴۷ بادشاہ کے نام ہیں جبکہ مکتوبا ت سیفیہ میں اٹھارہ مکتوب بادشاہ کے نام ہیں، جن سے بادشاہ کے مجددی خاندان سے قریبی تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔ - اگر داعی مدعو کی زبان ،ان کی ثقافت اور کلچر سے واقف ہو تو اس کے لیے دعوت کا کام آسان ہو جاتا ہے اور اگر داعی انہی میں سے ایک فرد ہو تو مدعو کے لیے اجنبیت بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔حضرت مجدد ؒ کی دعوتی کوششوں میں بھی یہ حکمتِ عملی بھی بڑی نمایاں ہے کہ آپؒ نے مختلف علاقوں کی طرف جو مبلغ اور دعاۃ روانہ فرمائے ان میں سے اکثر لوگ یا تو انہیں علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا پھر وہ ان علاقوں کی زبان اور لوگوں کے پسِ منظر سے پوری طرح واقف تھے جس کی وجہ سے ان کی کوششیں باآور ثابت ہوئیں ۔ بہت سے علما ومشائخ جو اپنے اپنے علاقوں میں احترام کے حامل تھے آپؒ نے انہیں بیعت وخلافت کے بعد ان کے اپنے علاقوں کی طرف روانہ فرمایا ، ان میں شاہِ بدخشاں کے معتمد علیہ شیخ طاہر بدخشی ؒ ، طالقان کے جید شیخ عبدالحق شادمانی ؒ ،مولانا صالح کولابی ؒ ، شیخ احمد برسیؒ ، مولانا یار محمدؒ ، اور مولانا یوسفؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ ؒ نے ان میں سے اکثر حضرات کو خلافت واجازت عطافر ماکر اپنے اپنے علاقوں اور مقامات کو واپس بھیج دیا، اسی طرح آپ نے پورے ہندوستان کے کونے کونے میں اپنے داعی روانہ فرمائے ۔(۱۵)
المختصر حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی دعوتی تحریک تاریخِ اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک تھی جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کو متاثر کیا ۔حضرت مجددؒ کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں اکبر کے انتقال کے ساتھ ہی ’’دینِ الہٰی ‘‘ بھی موت کی وادی میں داخل ہو گیا ،بدعات کا سیلاب رک گیا ، اورلوگوں کا رسالتِ محمدی کی ابدیت پر ایمان مستحکم ہوا ۔حضرت مجددؒ نے اسلام کی سر بلندی کے لیے ہر طرح کے مصائب و آلام کو برداشت کیا اور نبوی اسلوبِ دعوت کو اپنے عمل سے زندہ کیا ۔
حواشی و تعلیقات
(۱) ’’سنن ابی داود‘‘،کتاب الملاحم ،باب ما یذکرفی قرن المائۃ ،ح:۴۲۹۱
(۲) اسی دیباچے میں ابوالفضل نے اکبر کے لیے اس طرح کے القاب وضع کیے ہیں، مثلاً :’’ سلطان عادل وبرہان کامل‘‘ ، ’’دلیل قاطع خدادانی و حجت ورحمت روحانی‘‘ ، قافلہ سالار حقیقی و مجازی‘‘ پیشوائے خدا شناساں ومقتدائے بدی اساساں ‘‘ ، ’’ قبلہ خدا آگاہان‘‘ ، ’’ پردہ بر انداز اسرار غیبی وچہرہ گشائے صورت لا ریبی‘‘ ، ’’ قاسم ا رزاق بندگان الٰہی‘‘، ’’ ہادی علی الاطلاق ومہدی استحقاق‘‘ ۔ ( دیباچہ’’ مہا بھارت‘‘بحوالہ:’’تحریک نقطوی اور’’ دینِ الہٰی‘‘ پر اس کے اثرات ‘‘ماہنامہ ’’معارف ‘‘ اعظم گڑھ انڈیا،جلد:۱۷۰،شمارہ:۱ ،جولائی ۲۰۰۲ء)
(۳) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
’’تحریک نقطوی اور’’ دینِ الہٰی‘‘ پر اس کے اثرات ‘‘ماہنامہ ’’معارف ‘‘ اعظم گڑھ انڈیا،جلد:۱۷۰،شمارہ:۱ ،جولائی ۲۰۰۲ء
(۴) ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ ،جلد اوّل، دفتر سوم مکتوب نمبر :۱۸۶ ،بنام خواجہ عبدالرحمن کابلی
(۵) پروفیسر خلیق احمد نظامی’’تاریخ مشائخ چشت ‘‘، صفحہ ۴۱۸۔۴۱۹
(۶) ماخوذ از ’’تاریخِ دعوت و عزیمت ‘‘(سید ابو الحسن علی ندوی ؒ ) مجلس نشریاتِ اسلام ، کراچی ،جلد چہارم
(۷) خواجہ محمد احسان مجددی سرہندی، ’’روضیۃ القیومیۃ‘‘، ص: ۱۴۴۔ ۱۶۷ ،(مکتبہ نبویہ ،لاہور،۲۰۰۲ء) مجلدات :۴
(۸) علامہ محمد ہاشم کشمی ، ’’زبدۃ المقامات‘‘،ص:۱۳۲ ،(مکتبہ انوارِ مدینہ ،نور آباد ، سیالکوٹ ،۱۴۰۷ھ)
(۹) ڈبلیو آرنلڈ The preaching of Islam ص،۴۱۲
(۱۰) Encyclopedia of religion and Ethics (جلد ۸، ص، ۷۴۸)
(۱۱) ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘، مکتوب نمبر ۴۳ دفتر سوم
(۱۲) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:توزک جہانگیری ،ص، ۳۴۰
(۱۳) ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘،مکتوب نمبر ۵۳بنام شیخ فرید بخاری ، دفتر اول ، مکتوب نمبر ۱۹۴ بنام صدر جہاں دفتر اول
(۱۴) مکتوب سیفیہ ، مکتوب نمبر ۸۳ بنام صوفی سعداللہ افغانی
(۱۵) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:’’ روضیۃ القیومیہ‘‘،ص، ۱۲۸۔۱۲۹ ، ایضاً ’’حضرات القدس‘‘،ص ، ۲۹۹۔۳۶۸