(۱)
محترم جناب مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم محمد زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے تین قسطوں پر مشتمل مضمون (اسلامی معاشیات...) پر پیش کیے گئے جائزے کا جواب (شمارہ فروری ۲۰۰۹) دیا ہے۔ اس سلسلے میں دو تین باتیں پیش خدمت ہیں۔
عرض کیا گیا تھا کہ صدیق مغل صاحب کی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پر تنقید میں بہت زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ ان کے انداز تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے ایک بلندپایہ علمی مرتبہ ومقام پر فائز شخص کسی معمولی علم رکھنے والے شخص پر سخت تنقید کر رہا ہو۔ اس پر صدیق مغل صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس پر معذرت خواہ اور توجہ دلانے کے لیے ان کے شکرگزار ہیں، لیکن ایسی معذرت پر دوبارہ غور فرما لیا جائے جس پر ساتھ ہی فرماتے ہیں، اگر امر واقعہ ایسا ہی ہے، اور پھر ساتھ ہی اپنی بات کا جواز بھی بتا دیتے ہیں (جیسے غلط بات کو پوری شد ومد کے ساتھ فروغ دیا جا رہا ہو تو اس کا رد عمل بھی اتنے ہی زوردار انداز میں کرنا ضروری ہو جاتا ہے)۔ اسی پر بس نہیں، حضرت مولانا کی علم معاشیات پر مہارت کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور پھر ان کے اساتذہ کے نام لے کر ان کی اور ان کے شاگرد مولانا کی علمیت ہی کا انکار کرتے ہیں۔ اس طرح کی باتوں کو یہاں زیربحث لانا ہی شاید سنجیدگی کے خلاف ہو۔
اقتباسات نقل کر کے نشان دہی کی گئی تھی کہ زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے بیان کردہ معنی کہاں سے کس طرح سمجھ لیے ہیں اور کس طرح کیا معنی پہنا دیے ہیں۔ اس کا خود جواب دینے کے بجائے پھر نئی بات اور نئے سوالات پیدا کر کے ان کا جواب دوسروں سے مانگتے ہیں۔ جزوی نہیں، اصولی باتیں کی گئی تھیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے نکلے ہوئے ہر ہر ادارہ کے خاتمہ (انھیں شریعت کے مطابق بنانا ممکن نہیں ہے) کومقصد قرار دے کر اسلامی اقتصادیات کا نقشہ تیار کرنا ان کا ہدف ہے، اس کی خود وضاحت کرنے کے بجائے نئے سوالات اٹھا کر دوسروں سے وضاحت طلب کرتے ہیں۔
عرض کیا گیا تھا کہ تین قسطوں پر مشتمل مکمل مضمون میں امام غزالیؒ کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد اختیار کرنے سے متعلق تعلیمات کا ذکر کیا گیا۔ پھر دوبارہ اقتباس نقل کر کے تحریر فرمایا گیا تھا ’’ان تعلیمات کو بار بار پڑھیے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کہ اسلامی معاشیات اس میں کہاں فٹ ہوتی ہے‘‘۔ عرض کیا گیا تھا کہ صرف ان باتوں کو سامنے رکھا گیا تو بازار ہی بند ہو جائے گا۔ معیشت ہی نہیں رہے گی تو اسلامی بنانے کا مسئلہ ویسے ہی ختم ہو جائے گا۔ صدیق مغل صاحب یہاں بھی اصل بات کی وضاحت کے بجائے اب بازار میں جانے کی سنتیں اور صنعتیں لگانے کے طریقوں کی نئی سے نئی بات چھیڑتے ہیں۔ ایسی بحثوں کو شروع کرنے کی کوشش کی نہ کوئی حد ہے نہ مقصد۔
عرض کیا گیا تھا کہ اسلامی دستور کے بارے میں ان کا نظریہ سب اکابر سے بالکل مختلف ومنفرد ہے۔ ان کی فکری فلسفیانہ باتوں کو سمجھنا کافی مشکل ہے۔ وہ قرارداد مقاصد (۱۹۴۹ء) منظور کرانے اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی شقوں کے شامل کرنے کو علما کی غلطی قرار دیتے ہیں، دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش ہی کو سرے سے غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ (۱۹۵۱ء میں اپنے وقت کے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، شیعہ چوٹی کے ۳۱؍ اکابر علما نے دستور کو اسلامی بنانے کے لیے متفقہ ۲۲ نکات تیار کیے۔ پھر بعد کے تمام اکابر علما آج تک یہ کوشش فرماتے رہے ہیں)۔ دستور کو اسلامی بنانے کے سلسلے میں مزید بہتری اور اس کے نفاذ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی بات تو کی جاتی ہے، لیکن صدیق مغل صاحب کی طرح کی بات تو شاید ہی کسی نے کی ہو۔
گزارشات ختم کرتے ہوئے عرض ہے کہ محترم جناب محمدزاہد صدیق مغل صاحب کی کسی بات پر مزید کچھ تحریر نہیں کیا جائے گا۔ اب تک کی گستاخی پر ان سے بہت زیادہ معذرت۔
پروفیسر عبد الرؤف
بالمقابل عید گاہ۔ مظفر گڑھ
(۲)
محترم جناب مدیر’الشریعہ‘
السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں غامد ی صاحب کے تصور سنت کے دفاع میں ان کے شاگرد جناب منظور الحسن صاحب کا مضمون اور پھر اس پر اگلے شمارے میں جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا تبصرہ پڑھا۔مولانا راشدی صاحب کا یہ کہنا صد فی صد درست ہے کہ جب تک خود غامدی صاحب اپنے تصور سنت پر ہونے والے شدید اعتراضات کے دفاع میں قلم نہیں اٹھائیں گے ‘ اس وقت تک مولانا ان کے کسی شاگرد کو کوئی جواب نہ دیں گے۔
راقم الحروف کی غامدی صاحب کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں کہ جس میں آپ سمیت کئی اور افراد بھی شامل تھے‘ غامدی صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جناب منظور الحسن صاحب ان کے ترجمان نہیں ہیں اور نہ ہی وہ منظور صاحب کی تحریر کو أون (own) کرتے ہیں۔غامدی صاحب نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ منظور صاحب کی تحریر اس وقت پڑھتے ہیں جب کہ وہ کسی رسالے میں شائع ہو جاتی ہے۔
ہمارا اختلاف منظور الحسن صاحب سے نہیں ہے ۔ہم نے غامدی صاحب کے تصور سنت پر اعتراضات کیے ہیں۔ اگر تو اس کا دفاع غامدی صاحب کریں گے تو ہم جواب دیں گے ‘ ورنہ تو اس بات میں الجھنے اور وقت ضائع کرنے کا ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ جناب منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کا فکر سمجھا ہے یا نہیں۔جب ہم نے غامدی صاحب سے یہ بات کہی کہ جناب منظور الحسن صاحب نے آپ کے فکر کی وضاحت میں یہ لکھاہے تو وہ کہتے ہیں‘ میری تحریر دکھائیں‘ منظور صاحب میرے ترجمان نہیں ہیں۔ان کو میری تحریر سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے، لہٰذا میں منظور صاحب کی کسی تحریر کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ جب معاملہ یہ ہے تو ہمیں جناب منظور صاحب کا جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔معلوم نہیں ‘ پہلے کی طرح اب کی بار بھی انہوں نے غامدی صاحب کی فکر کو صحیح سمجھا ہے یا نہیں۔
غامدی صاحب ما شاء اللہ حیات ہیں۔ انہیں کسی ترجمان کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں اپنے اوپر ہونے والی نقد کی اپنی زندگی میں خود ہی وضاحت کرنی چاہیے۔شاید اس سے بحث کسی مفید نتیجے کی طرف بڑھ سکے۔منظور الحسن صاحب کے جواب کے طور پر غامدی صاحب کی اصول و مبادی کے مرکزی خیال پر ایک تحریر بعنوان ’ ’دین کے منتقل و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ: اجماع یا خبر واحد‘‘ بذریعہ ای میل ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں اشاعت کے لیے بھیج رہا ہوں۔ اسی کو میری طرف سے جواب الجواب کے طور پر شائع کر دیا جائے۔
حافظ محمدزبیر
ایسوسی ایٹ‘ قرآن اکیڈمی
۳۶۔کے‘ ماڈل ٹاؤن‘ لاہور
(۳)
جناب محمد عمار خان ناصر
السلام علیکم
میں الشریعہ کا دو سال سے قاری ہوں۔ میں نے سال پہلے ایک مضمون پر اپنی نقد ارسال کی تھی، مگر معلوم نہیں کیوں قابل اعتنا نہ ٹھہری۔ بہرحال اس وقت خط لکھنے کا سبب مفتی عبد الواحد صاحب کا آپ کی کتاب پر رد ہے اور آپ کی جانب سے اس کا جواب۔
آپ کے جوابی خط میں جو نقطے اٹھائے گئے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ مفتی صاحب کے مضمون پر وارد نہیں ہوتے بلکہ وہ نکات اور اشکالات کسی اور بات کی غمازی کرتے ہیں۔ میں آپ کے خط سے جو کچھ سمجھا ہوں، وہ درج ذیل ہے۔
۱۔ آپ مجتہد مطلق کے درجے پر فائز ہیں، کیونکہ آپ کا یہ کہنا کہ ’’میں نے قرآن مجید کی نصوص کی روشنی میں یہ اخذ کیا ہے‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ قرآن وحدیث سے استنباط مقلد کا وظیفہ نہیں ہے۔ (ارشاد القاری الیٰ صحیح البخاری)
۲۔ آپ دلائل کے بغیر مفتی صاحب کے اعتراضات سے دامن بچانا چاہتے ہیں، کیونکہ آپ کا کہنا کہ ’’میرے موقف پر آپ نے سنت کی تشریعی حیثیت کوبالکل نظر انداز کرنے ..... کی پھبتیاں کسی ہیں‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ حالانکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ آپ کا نکتہ نظر کچھ اور ہے (جو آپ کی کتاب پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا) لیکن جن عبارات کا یہ حوالہ مفتی صاحب نے دیا ہے، ان پر تو یہ ’’پھبتیاں‘‘ بالکل صادق آتی ہیں۔ کچھ ان کا جواب تو ہونا چاہیے تھا۔ یہ کہہ دینا کہ یہ پھبتیاں ہیں، علمی انداز نہیں ہے جس کے آپ اور الشریعہ مدعی ہیں۔
۳۔ آپ اجماع کو حجت نہیں مانتے، حالانکہ تمام ائمہ مجتہدین کے نزدیک اجماع حجت ہے۔ آپ کی عبارت ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے دیت کی مقدار اور عاقلہ وغیرہ کے معاملات میں اہل عرب کے جس معروف کو اختیار کیا، اس کے ابدی شرعی حکم ہونے کے الگ سے یہ اور یہ دلائل ہیں‘‘ اس بات پر دلالت کر رہی ہے۔ دیت کی مقدار پر تمام صحابہ کا اور تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے۔ اگر منطقیات کے ذریعے دلیل شرعی کا ابطال جائز ہے تو یہ خود محتاج دلیل ہے۔
۴۔ آپ سنت کے مفہوم میں خلفاے راشدین کی سنت کو داخل نہیں کرتے۔ ’’تو صحابہ کی آرا اور فتاویٰ کو بھی اہل عرب کے عرف پر مبنی سمجھنا چاہیے‘‘ اس بات کی طرف دلالت کرتے ہیں، حالانکہ حضرت عمر کے نزدیک بھی دیت سو اونٹ ہی ہے۔ (کتاب الخراج)
۵۔ سنت کی تشریعی اور غیر تشریعی (قضا اور سیاسہ) تقسیم آپ کا اجتہاد ہے، جیسا کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کی جو مقدار مقرر فرمائی، وہ تشریع کے دائرے کی چیز ہے یا قضا اور سیاسہ کے دائرے کی‘‘ اس بات پر شاہد ہے۔ میں نے اپنے محدود مطالعے میں اہل سنت والجماعت کی اصول کی کتابوں میں یہ تقسیم نہیں پائی۔
۶۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قضا اور سیاست کے بارے میں آپ کا یہ نظریہ کہ اس کا اتباع لازمی نہیں ہے، محتاج دلیل ہے، بلکہ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ’واجتہادہ صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلۃ الوحی لان اللہ تعالیٰ عصمہ من ان یتقرر رایہ علی الخطا‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
میں امیدکرتا ہوں کہ مذکورہ بالا عبارات کو صحت مند تنقید کے طور پر لیا جائے گا اور الدین النصیحۃ کے تناظر میں پرکھا جائے گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنی کتاب ’حدود وتعزیرات‘ بذریعہ وی پی پی دیے گئے پتے پر ارسال کر دیں۔ جزاکم اللہ
محمد عمران خان عفی عنہ
مکان نمبر ۸۱۲۔ گلی نمبر ۷۴
جی نائن ون ۔ اسلام آباد