جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پر ایک نظر!

مولانا عبد المالک طاہر

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۸ ء کے شمارے میں محترم جنا ب حافظ محمد زبیر کا مضمون پڑھنے کاموقع ملا۔ ’’ پاکستان کی جہادی تحریکیں، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں صاحب مضمون نے پاکستان کی جہادی تنظیمات کے حوالے سے اپنے افکار ونظریات (مع تجرباتی واقعات) حوالہ قلم کیے ہیں۔ وزیرستان، سوات، لال مسجد اور تکفیری ٹولے کی حد تک حافظ صاحب کی بات وزنی معلوم ہوتی ہے، اگرچہ لہجہ اور انداز ناصحانہ نہیں ہے۔ تحقیقی وتنقیدی مضامین میں اگر نصیحت کاپہلو غالب ہو تو مقابل فریق کے لیے بات سمجھنا اور اس پر غوروفکر کر کے نئی راہ متعین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں تک معاملہ جہاد کے فرض عین ہونے اور جہادی تحریکوں کے کردار کا ہے تو اس میں حافظ صاحب کے نظریات سے بحث واختلاف کی گنجایش نہ صرف موجود ہے بلکہ آئندہ بھی رہے گی۔ چونکہ حالات وواقعات، اسباب وذرائع (جس پر جہاد کی فرضیت موقوف ہے) کے متعلق تجزیہ وتبصرہ سے راے قائم کرناایک فکری واجتہادی معاملہ ہے، اس لیے عقلاً وشرعاً نہ صرف اختلاف قابل برداشت بلکہ شریعت کی نظر میں مستحسن ہے، البتہ یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ جناب حافظ صاحب نے جہادی طبقے کے متعلق جو لب ولہجہ اختیار کیا ہے، وہ کسی طرح بھی فکرودانش کے حلقہ میں قابل تحسین نہیں ہے۔ یہاں ہم محترم حافظ صاحب کے بعض جملوں سے متعلق کچھ معروضات حوالہ قلم کریں گے۔ 

حافظ صاحب رقم طراز ہیں کہ عام طورپر جہادی تحریکوں کے رہنماؤں اورعلما کی تحریروں میں عوام الناس کو ایک مظالطہ دیا جاتاہے ’’کہ ریاست کے بغیر ہونے والے جہاد سے امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے یا انڈیا فتح ہو جائے گا یا اسرائیل دنیا سے مٹ جائے گا۔ ‘‘ اس مقام پر مضمون نگار کے شعلہ بار قلم سے مغالطہ دیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ’’مغالطہ دیا جاتا ہے‘‘ کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عوام الناس کو دھوکا دیا جاتا ہے، حالانکہ دھوکہ دہی تو اس صورت میں ہو جب جہادی قیادت کی اپنی راے میں واقعتا ایسے جہاد سے دشمن کو شکست دینا ممکن نہ ہو۔ اگر جہادی طبقے کی راے غیر سرکاری جہاد سے کفر کی شکست کے امکان اوریقین کی ہے تو یہ جہادی طبقہ کا اخلاقی وشرعی حق ہے جس سے آپ اختلاف تو کر سکتے ہیں مگر ان کی نیت پر شک کرنا اور ان کی راے کو دھوکہ دہی کا نام دینا انصاف نہیں ہے۔ 

آگے چل کرسی این این اور بی بی سی وغیرہ (کفریہ نشریاتی اداروں) کی رپورٹنگ کو اطلاعات کہنا فاضل مضمون نگار کی جہادی طبقے پر ذاتی قسم کی مناقشت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ا ظہار کے لیے ’الشریعہ‘ جیسے عظیم فکری پلیٹ فارم کا استعمال کرنا اخلاقی حوالے سے اچھا نہیں ہے۔ اگر جہادی ذرائع ابلاغ (بالفرض) اپنی کاوشوں کی تشہیر میں مخصوص مقاصد کے لیے مبالغہ سے کام لیتے ہیں تو کیا بی بی سی جیسے ادارے غیر جانبدار رپورٹنگ کر رہے ہیں؟ 

حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ:

’’لاعلم اورسیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے ان تحریکوں کے معسکرات خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں جو ان کو جبراً فریضہ قتال کی ادائیگی پر مجبور کرتے ہیں اور ان کی انتہا ایک مجاہد کے لیے اپنے گھروالوں کے لیے یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ میں واپس جانا چاہتا ہوں، لیکن میرے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ شہادت میرا مقدر بن چکی ہے، اگرمیں میدان جہاد میں شہید نہ ہوا تو یہ (مجاہدین) مجھے (خود) شہید کر دیں گے۔‘‘

غور کیجئے !یہ الفاظ جہاں مضمون نگار کی جہادی احباب کے ساتھ دیرینہ عداوت ظاہر کرتے ہیں، وہیں جناب کے جنگ وجہاد کے میدان سے عملاً بہت دور ہونے پر بھی شاہد ہیں۔ کیاایک ایسے مجاہد کو جو عسکری تربیت مکمل کر چکا ہو، اس کے ہاتھ میں آتشیں اسلحہ ہو، گرنیڈ ہوں، اسے اس انداز سے جبر کر کے روکا جا سکتا ہے؟ یا ایسا مجبور مجاہد تحریک کو (سوائے ناکامی کے) کچھ دے سکتا ہے؟ جناب کے پاس کن ذرائع سے ان مجبور ین کے حالات وکوائف پہنچ رہے ہیں، وہ قوم وملت کے سامنے لائے جائیں تاکہ یہ خرکار کیمپ عوام کے سامنے بھی آئیں۔ 

ایک مقام پر یوں لکھتے ہیں: 

’’ہمارے ہاں عام طورپر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، حالانکہ حقائق اس کے بالکل خلاف ہیں۔ روس کے ٹکڑے اس لیے ہو ئے کہ اس قتال کے پیچھے دو ریاستوں، امریکہ اور پاکستان کا پورا عمل دخل تھا۔‘‘

فاضل مضمون نگار اس بات کو ثابت کرنے کے لیے دماغ وقلم سمیت جسم کے دیگر حصوں کا بھی زور لگا رہے ہیں کہ روس کو شکست مجاہدین نے نہیں بلکہ امریکہ اور پاکستان کی ریاستوں نے دی ہے، لیکن جناب نے اس بات کی وضاحت گوارا نہیں کی کہ (۱) امریکہ، پاکستان کایہ عمل دخل روسی جارحیت کے کتنے سال بعد ہوا تھا؟ (۲) اس عمل دخل سے قبل جنگ اورمقابلہ کی نوعیت کیا تھی؟ (۳) امریکہ، پاکستان کا عمل دخل کس حد تک یاکس نوعیت کا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مغرب زدہ میڈیا آج تک جس امریکی دخل کو مجاہدین کی سپورٹ اور امداد کا نام دیتا آیا ہے، وہ محض عربوں کے خطیر جہادی فنڈ سے اسلحہ کی خریداری تھی۔ چونکہ روسی شکست میں امریکی مفاد تھا، اس لیے اسلحہ کی ترسیل اور افرادی قوت کے حصول میں امریکہ وپاکستان کی طرف سے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی اور میڈیا میں بھی ایسی روسی جارحیت کے خلاف لڑنے والوں کو ہیرو کا درجہ دیا گیا ( جس سے لڑنے والوں کی اکثریت ویسے ہی بے نیاز تھی)۔ جہاں تک محترم حافظ صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اب امریکہ نے بمباری کے ذریعے مجاہدین کو پہاڑوں پر پناہ لینے پر مجبور کیا ہوا ہے، بخلاف روس کے تو اس ضمن میں گزارش ہے کہ شہری علاقوں پربمباری او روحشت ناک تشدد میں روس اور امریکہ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ جہادی میدان کے کسی پرانے آدمی سے ماضی کے واقعات کاعلم جناب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ 

صاحب مضمون فرضیت جہاد کو نماز پر قیاس کرکے آزادانہ تبصرے لکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے جہادی قیادت اور مفتیان کرام کو مطعون کر رہے ہیں کہ وہ سارے لڑائی میں بیک وقت کیوں شریک نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ نمازانفرادی عبادت ہے اورجہاد اجتماعی عبادت ہے۔ نماز میں ہر آدمی اپنی عبادت کا قیام، رکوع، سجود، قراء ت وقعدہ وغیرہ خود مکمل کرے گابخلاف جہاد کے کہ اس میں کچھ لو گ دشمن اسلام کے سامنے فرنٹ لائن پر، کچھ خط دوم پر، کچھ قرار گاہ اور کچھ سامان وطعام وغیرہ کی ترسیل پر ہوں گے تو تب ہی یہ عبادت جاری رہ سکے گی۔ اس ضمن میں خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل موجود ہے کہ حضرت عثمان کو بدر کے موقع پر مدینہ میں ٹھہرا کر انہیں نہ صرف اہل بدر میں شمار کیا، بلکہ مال غنیمت میں پورا حصہ دیا۔ شریعت اسلامیہ میں جس طرح تقسیم اوقات کا اصول ہے کہ فلاں وقت میں سب آدمی یہی عبادت کریں، اسی طرح بعض فرائض واحکام میں تقسیم کارکی صورت بھی موجود ہے، جیسے فریضہ جہاد کہ اس میں تقسیم کار ثابت اور عقلاً وشرعاً یہی اس فریضہ کا اصول ہے۔ اگر ہم فرض ہونے کی صورت میں سب لوگوں پرلڑنا ہی فرض قراردیتے ہیں تو وہ اسلحہ جس کے ساتھ مجاہدین قتال کریں گے، مسلسل کیسے آئے گا؟ طعام وغیرہ طبعی ضروریات کا نظام کیوں کر چلے گا؟ نئے افراد کی ذہن سازی وتربیت کے بغیر ایک مکمل نظام کتنا عرصہ چل سکے گا؟ ایسا قتال جس میں اسلحہ کی ترسیل کی صورت نہ ہو، اور طبعی ضروریات کا انتظام نہ ہو اور نئے افراد کی کھیپ نہ ملے تو وہ کب تک جاری رہ سکتاہے اورایسے قتال کے کیا نتائج نکلیں گے، اس سے کوئی بھی ذی شعور انسان لاعلم نہیں۔ اور اگر کچھ افراد ان کاموں کے لیے ضروری ہیں تو ظاہر ہے وہ بھی جہادی تنظیموں کا حصہ ہیں۔ 

مضمون نگا رکے مذکورہ خیالات سے بھی میدان کار زار کی اصل صورت حال اور بنیادی ضروریات سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے۔ صر ف دفتر میں بیٹھ کر غصہ نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک نماز کے قیام، رکوع کی طرح آج بھی لوگوں کے ہاتھوں تلواریں دے کر مقابلہ چاہتے ہیں کہ یہی صورت منقول ہے۔ یا پھر تمام مجاہدین کو قتال کی صرف ایک ہی صورت میں لگائیں تو فرض عین ادا ہوگا ورنہ نہیں، جبکہ صاحب بدائع الصنائع جہاد کی تعریف نقل کرتے ہیں:

الجہاد بذل الوسع والطاقۃ بالقتال فی سبیل اللہ عزوجل بالنفس والمال واللسان وغیر ذالک۔ 
’’اللہ کے راستے میں قتال کے اندر جان، مال، زبان او راس کے علاوہ معاونت کرنا ‘‘

گویا جہاد جس طرح نفس ( خود لڑکر) کے ساتھ ہے، اسی طرح زبان اور دیگر طریقوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس مضمون میں ایک مقام پر جہادی تحریکوں کے مفتیان کرام کا بخاری پڑھانا یا میجر جنرل کے اعزازی عہدے کی سہولیات، پروٹوکول سے فائدہ اٹھانا جناب کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکا ہے، لیکن انہی میں سے بہت سوں کی عظیم جہادی قربانیاں، گرفتاریاں، نظر بندیاں، وحشیانہ تشدد برداشت کرنا حافظ صاحب کی نظروں سے کیوں اوجھل رہا ہے کہ جن کو مستثنیٰ کرنے کی انہیں اخلاقی جرات نہ ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ محترم کی قتال کے میدان کی اصل صورت حال سے لاعلمی ان کے لکھے گئے نظریات کے باعث ہے کہ بندکمرے میں بیٹھ کر قلم کی تلوار چلا رہے ہیں، یا پھر یہ کسی جہادی کمانڈر سے ذاتی نوعیت کے اختلاف کا شاخسانہ ہے جو کسی طرح بھی حقائق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے کہ بعض جزوی واقعات کو بنیاد بناکر وہ تمام جہادی نظموں اور ان کے قائدین کو قلم کی نوک پر رکھ رہے ہیں۔ اس طرح کے جزوی واقعات کو بنیاد بنا کرا گر کوئی گروہ دیگر دینی اداروں اور نظموں کے متعلق بھی ایسی ہی انتہا پسندانہ رائے قائم کرتا ہے تو کیا یہ رائے درست ہو گی؟ 

مضمون نگار جس طریقہ کار یعنی ریاستی سطح پر قتال کو واحد حل قرار دیتے ہیں، وہ یقیناًایک پائیدار حل ضرورہے لیکن واحد نہیں ہے، دیگر طریقہ کار بھی ہیں، اگرچہ اصل اور مضبوط حل ریاست کا خود اس معاملہ کو لینا ہے۔ اس طرح جس بات کو ثابت کرنے کے لیے محترم حافظ صاحب نے خاصا زور صرف کیا ہے کہ ہم صرف غیر سرکاری سطح اور ریاستی طاقت کے بغیر فتح حاصل نہیں کر سکتے، اس کے جواب میں سب سے وزنی رائے مبتلی بہ کی ہو سکتی ہے اوروہ افغانستان اور عراق کے محاذ پر برسر پیکار افواج کے کمانڈروں کے حال ہی میں تسلسل کے ساتھ آنے والے بیانات ہیں جس میں مازک اسمتھ سمیت دیگر لوگوں نے اب تک کی صورت میں نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی ہے، بلکہ آئندہ بھی فتح کے امکان کومسترد کیاہے۔ 

فاضل مضمون نگار ایک مقام پر یوں لکھتے ہیں کہ ’’قتال کی علت ظلم ہی ہے‘‘۔ یہ درست ہے کہ قتال کی ایک علت ظلم ہی ہے لیکن صرف ظلم کو علت قرار دے کر وہ دیگر آیات قرآنیہ کا کیاجواب دیں گے جن میں کفارکی سلطنت وشوکت کے خاتمے تک قتال کا حکم ہے۔ ارشاد خداو ندی ہے: ’وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ‘،یعنی تم ان کفار سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ یہاں قتال کا حکم فتنے کو ختم کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے اور مفسرین کرام کے نزدیک یہاں فتنہ سے مراد کافروں کا زور (شوکت وسلطنت) ہے۔ (تفسیر عثمانی) 

مضمون نگار کے ہاں قتال کی علت توظلم ہے، جبکہ فتنہ کا خاتمہ جس کو مذکورہ آیت میں بیان کیا گیاہے، یہ قتال کا منتہاے مقصودہے۔ یعنی اصل علت صرف ظلم ہے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ بالفرض اگرکوئی کفریہ سٹیٹ (کافر حکومت) ظالم نہ ہو تو کیا ان کے خلاف جہاد نہیں ہوتا، جیساکہ مضمون نگارکے الفاظ سے مترشح ہے ؟ اگر ایسی کافر حکومت (غیر ظالم) کے خلاف جہاد نہیں ہو سکتا (جیسا کہ مضمون نگارکانظریہ ہے، کیونکہ ان کے خلاف قتال کے لیے ظلم والی علت نہیں پائی جاتی) تو پھر اس صورت میں ’قاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ‘ کا حکم کس کے لیے ہے؟ ا ور اگر کافر (غیر ظالم) حکومت کے خلااف جہاد ہو سکتاہے، (جیسا کہ قرآنی حکم ہے) تو پھر علت صرف ظلم کو قرار دینے پرکیوں مصر ہیں؟ اور اگر وہ یوں کہتے ہیں کہ انہوں نے ظلم اور کفر کو تقریباً لازم وملزوم قرار دے کر اس اشکال کو رفع کر دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر کفر وظلم لازم وملزوم ہیں توپھر ہرکافر کے خلاف جہادہونا چاہیے اوریہ بات بھی قرآن و حدیث کے خلاف اور خود ان کے اپنے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ 

موصوف یہاں احتجاج بلادلیل کے مرتکب ہوئے کہ اگر ایک علت نہیں پائی جاتی تو حکم ہی نہیں لگ سکتا، باوجود یکہ کوئی اورعلت پائی گئی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی یوں کہے کہ فلاں آدمی نہیں مرا کیوں کہ وہ چھت سے نہیں گرا توایسے آدمی کی بات در ست نہیں ہوسکتی، کیوں کہ مر نے کے اور بھی اسبا ب ہیں۔ ممکن ہے ان اسباب میں سے کوئی سبب پایا گیا ہو۔ توجہاد اگرا یک علت سے نہیں تو ممکن ہے کسی دوسری علت کی وجہ سے واجب ہو۔ موصوف بھی ظلم کی علت کے عدم کی صورت میں حکم جہادکو ختم کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن مجید نے تین اہداف جہاد بیان فرمائے ہیں: 

(۱) نصرۃ المستضعفین، ظالموں کے خلاف مظلوم لوگوں کی مدد ونصرت کرنا اور ان کو ظلم سے نجات دلانا جیسا کہ ’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا‘ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ 

(۲) ردا لعدوان، کافروں کی شوکت وسلطنت کو توڑنا، جیسا کہ ’قاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ‘ میں بیان فرمایا گیاہے جب کہ فتنہ سے مراد کفار کا زور ہے۔ (تفسیر عثمانی) 

(۳) حفظ الدعوۃ، اسلام کی دعوت کی حفاظت ہو۔ دعوت کے پیچھے جزیہ ( مغلوبیت کا ٹیکس ) او رقتال کی طاقت ہو، جیساکہ ’کنتم خیرامۃ اخرجت للناس‘ کی تفسیر میں امام المفسرین سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’تقاتلونھم علیہ‘، مطلب یہ ہے کہ تم بہترین امت ہو، اس لیے کہ تم دعوت سے انکار پر منکرین سے قتال کرتے ہو۔ (بحوالہ تفسیر کبیر) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قتال جس طرح ظلم کی وجہ سے مشروع ہے، اسی طرح کفرکی سلطنت اور غلبہ کی صورت میں نیز اسلام کی دعوت کی حفاظت کی غرض سے بھی مشروع ہے۔ 

آراء و افکار

(مارچ ۲۰۰۹ء)

تلاش

Flag Counter