حدود آرڈیننس اور اس پر اعتراضات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’حدود آرڈنینس‘‘ ایک بار پھر ملک بھر میں موضوع بحث ہے اور وہ لابیاں از سر نو متحرک نظر آرہی ہیں جو اس کے نفاذ کے ساتھ ہی ا س کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئی تھیں اور قومی اور عالمی سطح پر حدود آرڈنینس کے خلاف فضا گرم کرنے میں مسلسل مصروف چلی آرہی ہیں۔ اس سے قبل ہم متعدد بار اس مسئلے کے بارے میں معروضات پیش کرچکے ہیں، لیکن موجودہ معروضی صورت حال میں ایک بار پھر اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہو گیاہے کہ ’’حدود آرڈنینس ‘‘کیاہے ؟ اس کے نفاذ کی مخالفت میں کون کون سے طبقے پیش پیش ہیں اور وہ اس کے خاتمہ کے لیے کیوں سرگرم عمل ہیں؟

’’حدود‘‘ اسلامی فقہ کی ایک اصطلاح ہے اور حدود کا لفظ ان سزاؤں پر بولا جاتاہے جو مختلف معاشرتی جرائم میں قرآن وسنت میں طے کی گئی ہیں۔ سزاؤں کا وہ حصہ جن کے تعین اور ان میں کمی بیشی میں اسلامی حکومت ،مقننہ او ر عدلیہ کو اختیار حاصل ہے، تعزیرات کہلاتاہے لیکن چند سزائیں طے شدہ ہیں جن میں کمی بیشی یا معافی کا حکومت ،مقننہ یا عدلیہ میں سے کسی کو شرعاً اختیار حاصل نہیں ہے، اور یہ ’’حدود ‘‘کہلاتی ہیں۔ مثلاً چوری کی سزا قرآن کریم نے ہاتھ کاٹنا بیان کی ہے اور جناب نبی کریم ﷺ نے بھی قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے چور کو ہاتھ کاٹنے کی سزا دی ہے۔ اس لیے شریعت اسلامیہ میں یہ بات طے شدہ ہے کہ جب کسی عدالت میں کسی شخص پر چوری کا الزام ثابت ہوجائے تو عدالت اس بات کی پابند ہے کہ اسے وہی سزا دے جو قرآن وسنت نے بیان کی ہے۔ اسے تبدیل کرنے، معاف کرنے یا اس میں لچک پیدا کرنے کا عدالت کو اختیار نہیں ہے ۔

معاشرتی جرائم کی یہ سزائیں قرآن کریم سے پہلے توراۃ اور بائبل کے احکام میں بھی شامل رہی ہیں اور اسلام نے ان سزاؤں کو باقی رکھ کر دراصل بائبل کے احکام کے تسلسل کو بحال رکھاہے، اس لیے اگر آج کے عالمی ماحول میں ہاتھ کے کاٹنے اور سنگسار کرنے کی سزاؤں کو سخت اور معاذاللہ وحشیانہ قراردیا جا رہا ہے تو یہ الزام صرف قرآن کریم پر یا شریعت اسلامیہ پر عائد نہیں ہوتا بلکہ بائبل بھی اس ’’جرم ‘‘ میں برابر کی شریک ہے اور اسے اس میں قرآن کریم پر سبقت حاصل ہے۔ 

جہاں تک پاکستان میں ان ’’حدوداللہ ‘‘کے نفاذ کا تعلق ہے، اس کا مطالبہ تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہورہا تھا کہ یہ نفاذ اسلام کا ایک اہم تقاضا تھا، لیکن اس کی عملی نوبت جنرل ضیاء الحق شہید ؒ کے دور صدارت میں آئی اور انہوں نے ایک آرڈیننس کی صورت میں اسے ملک میں نافذ کردیا جو ’’حدود آرڈیننس‘‘ کہلاتاہے اور مسلسل مخالفت اور اعتراضات کا ہدف ہے۔ اس کی متعدد دفعات کو نہ صرف وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے بلکہ اس کی منسوخی کے لیے قومی اسمبلی میں باقاعدہ بل لانے کی تیاریاں بھی ہورہی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق شہیدؒ کے نافذ کردہ اس حدود آرڈیننس پر پاکستان میں اور عالمی سطح پر دو طبقوں کو اعتراض ہے اور وہی ا س کے خاتمے کے لیے مسلسل تگ ودو کررہے ہیں۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے’’حدود اللہ ‘‘ کے نفاذ کے خلاف ہے۔ وہ چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو سنگسار کرنے، جھوٹی تہمت پر کوڑے لگانے یا قصاص میں عضو کے بدلے عضو کاٹنے کو بھی غلط سمجھتا ہے۔ وہ قرآن کریم کی بیان کردہ سزاؤں کو اس دور کے قبائلی معاشرہ کی ضرورت سمجھتے ہوئے آج کے دو ر میں ان کے نفاذ کو غیر ضروری بلکہ غلط قراردیتاہے اور یہ طبقہ اس معاملے میں مغرب کے فکرو فلسفہ سے مکمل طور پر متفق اور ہم آہنگ ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو ان حدود کے اسلامی ہونے کاقائل ہے، لیکن اسے شکایت ہے کہ ان حدود کی تعبیرو تشریح کے لیے ’’حدود آرڈیننس ‘‘ مرتب کرنے والوں نے ان حضرات کے موقف اور تعبیرات کو معیار تسلیم کرنے کی بجائے امت مسلمہ کے جمہور فقہاے کرام کی تعبیرات کو کیوں بنیاد بنایا ہے اور حدود شرعیہ بلکہ اسلامی احکام وقوانین کی جدید تعبیر وتشریح کرنے والے ان دانش وروں کے نقطہ نظر کو توجہ کے قابل کیوں نہیں سمجھا؟ اس پر یہ حضرات اس قدر سیخ پا ہیں کہ سرے سے حدود آرڈیننس کو منسوخ اور ختم کرانے کے لیے پہلے طبقہ کے شانہ بشانہ جاکھڑے ہوئے ہیں، حالانکہ ان حضرات کی یہ شکایت بجائے خود محل نظر ہے اور اپنی تعبیرات کو ہر حال میں امت سے قبول کرانے کے لیے ا ن کی ضد اور ہٹ دھرمی کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔

گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک دوست سے میرا اس مسئلہ پر مکالمہ ہوا۔ان صاحب کا کہنا تھا کہ کیا حدود کی تعبیر وتشریح میں فقہائے امت کی تعبیرات حرف آخر ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ کی تعبیرات حرف آخر ہیں؟ اس پر وہ چپ ہوگئے۔ میں نے گزارش کی کہ کسی بھی سلیم العقل اور صاحب انصاف کو یہ صورت حال پیش آجائے کہ ایک طرف امت کے جمہور فقہا کی تعبیرات ہوں اور دوسری طرف چند دانش ور حضرات اپنی تعبیرات کو اس کے مقابلے پر پیش کررہے ہوں تو ایک انصاف پسند شخص امت کے چودہ سو سالہ تعامل اور تمام دینی و علمی مکاتب فکر کے جمہور علما کی اجتماعی تعبیرا ت کو چند دانش وروں کی آرا پر قربان کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہوگا ۔ایسے اصحاب دانش کی حالت انتہائی قابل رحم ہے جو مولوی پر یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں تھکتے کہ وہ ضدی ہے، ہٹ دھرم ہے اور دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام نہیں کرتا، لیکن خود ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل اور آج کے جمہور علماے امت کے اتفاقی موقف کے سامنے چند افراد اس بات پر مصر ہیں کہ قرآن وسنت کے احکام ومسائل میں ان کی تعبیرات وتشریحات کو ہر حال میں قبول کیاجائے اور صرف انہی کو ’’معیار حق‘‘ قرار دے کر احادیث نبویہ ؑ اور فقہ اسلامی کے پورے ذخیرے کو ان کے سامنے ’’سرنڈر ‘‘ کرا دیاجائے، ورنہ وہ مغرب کے ساتھ ہیں اور سرے سے اسلامی احکام وقوانین کے نفاذ کو غیر ضروری قرار دینے والوں کی صف میں کھڑے ہیں ۔

یہ بات درست ہے کہ حدود آرڈیننس کا وہ حصہ جس کا تعلق تطبیق ونفاذ کی عملی صورتوں سے ہے، حرف آخر نہیں ہے اور موجودہ عدالتی نظام کے پس منظر میں ان میں سے بعض باتوں پر نظر ثانی ہوسکتی ہے لیکن یہ یکطرفہ بات ہے، اس لیے ’’حدود‘‘ کے نفاذ کو جس عدالتی نظام کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاگیاہے، وہ بجائے خود محل نظر ہے اور نیچے سے اوپر تک اس کی ہر سطح اور ماحول چیخ چیخ کر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہاہے۔ حدود آرڈیننس کے نفاذ سے جو مشکلات او ر شکایات عملی طور پر سامنے آئی ہیں، ان میں سے بعض کا تعلق آرڈیننس کی بعض شقوں سے ہوسکتاہے، لیکن ان میں سے بیشتر شکایات اور مشکلات کا تعلق موجودہ عدالتی سسٹم اور اس کے پیچ درپیچ نظام سے ہے اور یہ شکایات صرف حدود کے حوالے سے نہیں بلکہ ملک کا ہر قانون اس عدالتی سسٹم کی پیچیدگی اور تہہ درتہہ الجھنوں کا نوحہ کناں ہے، مگر ہمارے یہ دانش ور اس سارے ملبہ کو حدود آرڈیننس پر ڈال کر اس سے پیچھا چھڑانے کی فکر میں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل توہین رسالت ؑ کی سزا کے قانون کے حوالہ سے سوال اٹھا تھا کہ اس کاغلط استعمال ہورہاہے، اس لیے اسے ختم کردیاجائے۔ ہم نے گزارش کی تھی کہ کون سا قانون ملک میں ایسا ہے جس کا غلط استعمال نہیں ہورہا؟ اگر کسی قانون کو ختم کردینے کے لیے صرف یہی جواز کافی ہو کہ ا س کے غلط استعمال ہونے کا امکان موجود ہے تو ملک کے پورے قانونی نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دینا ہوگا، اس لیے کہ ملک میں کوئی قانون بھی ایسا نہیں ہے جس کا غلط استعمال نہ ہو رہاہو اور جس کے غلط استعمال کا امکان موجود نہ ہو مگرا س کاتعلق قانون سے نہیں بلکہ قانونی نظام اور معاشرتی ماحول سے ہوتاہے۔

اس پس منظر میں ہمیں ان حضرات سے کوئی شکوہ نہیں ہے جو ا س حوالہ سے مغرب کی نمائندگی کررہے ہیں اور سرے سے حدود کے نفاذ ہی کے مخالف ہیں، اس لیے کہ ان کا موقف واضح ہے لیکن جو لوگ اسلام کا نام لے کر مغرب کے موقف اور ایجنڈے کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں، ان سے شکوے کا حق ہم ضرور رکھتے ہیں کیونکہ جسٹس(ر) دراب پٹیل اور عاصمہ جہانگیر کے ساتھ جب ہم محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کو ایک ہی صف میں کھڑ ادیکھتے ہیں تو بہرحال ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(جولائی ۲۰۰۶ء)

تلاش

Flag Counter